ماحولیاتی آلودگی اور پاکستان
طوفان، سیلاب اور زلزلے بھی بسا اوقات ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ماحول کے تحفظ کے لیے قائم ادارے صرف تنخواہیں لینے کے لیے بنے ہیں یا کام بھی کرنا ہے؟'' اگرچہ ملک کے تمام اداروں کی اپنی اہمیت ہے مگر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے پر نظر رکھنے والے اداروں کی ایک لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے ہماری زمین یعنی پورا کرہ ارض متاثر ہوتا ہے۔
طوفان، سیلاب اور زلزلے بھی بسا اوقات ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ گویا اگر ماحول کو آلودگی سے پاک رکھا جائے تو ہم بہت سے مہلک حالات سے بچ سکتے ہیں۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے آبزرویشن دی کہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسیوں کا 95 سے 98 فیصد بجٹ تنخواہوں میں خرچ ہو جاتا ہے باقی رہ جانے والی (تین سے پانچ فیصد) رقم میں وہ کس طرح ماحول کے تحفظ کے لیے کام کر سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ماحول کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کی جب کہ سندھ حکومت کی رپورٹ پر عدم اطمینا ن کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو فوری طور پر آلودگی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ واضح رہے ملک میں بعض فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا مواد زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے مگر تمام فیکٹریاں اس معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیتیں بلکہ نگرانی کے ذمے دار سرکاری اہلکاروں کو لالچ دے کر ساتھ ملا لیتی ہیں جس کا نتیجہ ماحولیات کی آلودگی میں ظاہر ہوتا ہے۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی ماحولیات کی آلودگی کا موجب بنتی ہے اور پہاڑی تودے گرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حدوں تک پہنچی ہوئی ہے، پنجاب ہو یا سندھ حکومت یا پھر خیبرپختونخوا یا بلوچستان کہیں بھی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے محکمے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے حالانکہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہی ماحولیاتی آلودگی ہے۔
پاکستان کی وفاقی اور چاروں صوبوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے متحد ہو کر کام کریں تا کہ وطن عزیز ماحولیاتی آلودگی سے نجات پا سکے۔ ماحولیاتی آلودگی کا تدراک ہمہ جہت اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ درخت ضروری ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے' اسی طرح اسپتالوں کے ضایع شدہ مواد کو بھی کسی محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا چاہیے۔
طوفان، سیلاب اور زلزلے بھی بسا اوقات ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ گویا اگر ماحول کو آلودگی سے پاک رکھا جائے تو ہم بہت سے مہلک حالات سے بچ سکتے ہیں۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے آبزرویشن دی کہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسیوں کا 95 سے 98 فیصد بجٹ تنخواہوں میں خرچ ہو جاتا ہے باقی رہ جانے والی (تین سے پانچ فیصد) رقم میں وہ کس طرح ماحول کے تحفظ کے لیے کام کر سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ماحول کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کی جب کہ سندھ حکومت کی رپورٹ پر عدم اطمینا ن کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو فوری طور پر آلودگی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ واضح رہے ملک میں بعض فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا مواد زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے مگر تمام فیکٹریاں اس معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیتیں بلکہ نگرانی کے ذمے دار سرکاری اہلکاروں کو لالچ دے کر ساتھ ملا لیتی ہیں جس کا نتیجہ ماحولیات کی آلودگی میں ظاہر ہوتا ہے۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی ماحولیات کی آلودگی کا موجب بنتی ہے اور پہاڑی تودے گرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حدوں تک پہنچی ہوئی ہے، پنجاب ہو یا سندھ حکومت یا پھر خیبرپختونخوا یا بلوچستان کہیں بھی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے محکمے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے حالانکہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہی ماحولیاتی آلودگی ہے۔
پاکستان کی وفاقی اور چاروں صوبوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے متحد ہو کر کام کریں تا کہ وطن عزیز ماحولیاتی آلودگی سے نجات پا سکے۔ ماحولیاتی آلودگی کا تدراک ہمہ جہت اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ درخت ضروری ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے' اسی طرح اسپتالوں کے ضایع شدہ مواد کو بھی کسی محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا چاہیے۔