اقوام متحدہ کل اور آج

گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا

S_afarooqi@yahoo.com

گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ اس عالمی ادارے کی 70 ویں سالگرہ کے موقعے پر منعقد ہوا۔

اس اجلاس سے امریکی صدر باراک اوباما، روسی صدر ولادی میر پیوٹن، چینی صدر ژی جن پنگ، فرانسیسی صدر فرانکوئس ہو لاندے، ایران کے صدر حسن روحانی اور پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے علاوہ ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکا اور یورپ کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے خطاب کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہولناک تباہی و بربادی کے ملبے سے ہی اقوام متحدہ نے جنم لیا تھا۔

اقوام متحدہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے اور تمام مسائل کے پر امن حل کے لیے اقوام متحدہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اقوام متحدہ کے تیسرے نامی گرامی سیکریٹری جنرل اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ''اقوام متحدہ کی تخلیق انسانیت کو جنت کی جانب لے جانے کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کو جہنم کی تباہی سے بچانے کے لیے کی گئی تھی'' ان کا یہ فرمان بالکل بجا اور درست تھا کیوں کہ کوریا اور ویت نا م کی جنگوں نے واقعی جہنم جیسی تباہی مچائی تھی۔

دنیا کو یہ توقع تھی کہ اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم سے جو تلخ تجربہ حاصل کیا تھا، اس کی روشنی میں وہ تنازعات سے گریزکرے گی اور اس کے نتیجے میں اکیسویں صدی تسخیرکائنات کی صدی ثابت ہوگی اور اس کی یہ توقع پوری نہ ہوسکی اور مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، مشرقی یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے بعض خطے بے امنی اور عدم استحکام کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شام، یمن، یوکرین اور مقبوضہ جموں وکشمیر سمیت دنیا کے کئی فلیش پوائنٹس عالمی امن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکا اور روس کے صدورکے خطابات سے یہ حقیقت کھل کرسامنے آگئی ہے کہ دونوں ممالک یوکرین اورشام کے تنازعات کے حوالے سے سرد جنگ والی پالیسی پرعمل پیرا ہوچکے ہیں، امریکی صدرباراک اوباما نے واضح کردیا کہ یوکرین میں روسی مداخلت امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے، جب کہ روس کے صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین میں فوجی بغاوت بیرونی طاقتوں نے کرائی ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر کا کہناتھا کہ شام کا مسئلہ صدر بشارالاسد کو ہٹانے سے ہی حل ہوگا، جب کہ روس کے صدر نے نہ صرف کھل کر بشارالاسد کی بھرپور حمایت کی بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ جس طرح بشارالاسد اور ان کی فوجیں داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں اس طرح کوئی بھی نہیں لڑ رہا۔ ادھر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر پر جس شدت سے پاکستان کے اصولی اور منصفانہ موقف کی منہ زور اور بے جواز مخالفت کی اس سے بھی دنیا کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ دو جوہری طاقتوں کو تصادم کی راہ پر ڈال کر امن عالم کے لیے خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔

چین کے صدر ژی جن پنگ نے اپنے خطاب میں دنیا کو فسطائیت کے خطرات سے آگاہ کیا اور کہاکہ چین دنیا کے امن کی خاطر اپنا بھرپورکردار ادا کرے گا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے کردار کو موثر بنانے کے لیے چین اور اقوام متحدہ کے ایک ارب ڈالر کے امن فنڈ کے قیام کا بھی اہم اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے چین کی امن فوج بنانے کا اعلان بھی کیا۔آسمان سے گرا کھجور کے درخت میں اٹکا والی کہاوت کے مصداق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دو بلاکوں میں منقسم دنیا یک قطبی (Unipolar) ہوگئی ۔


جس کے نتیجے میں انکل سام دادا گیری پر اتر آئے اور یک قطبی دنیا کے معرض وجود میں آنے کے بعد صورتحال سرد جنگ سے بھی زیادہ بد تر اور انتہائی خوفناک ہوگئی اور امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے اپنا نیا ورلڈ آرڈر قائم کرنے کی آڑ میں نیا ورلڈ ڈیس آرڈر لاگوکردیا اور دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے بجائے انتشار، خلفشار، خوں ریزی، خانہ جنگی اورمصنوعی جنگوں کی آگ میں دھکیل دیا، یہ پہلا موقع ہے جب ڈھائی عشروں کی طویل مدت تک برداشت کرتے رہنے کے بعد نئے ورلڈ آرڈرکوکھل کر چیلنج کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی تقریروں سے یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ سے قبل دنیا کو جو گمبھیر تنازعات درپیش تھے اس سے کہیں زیادہ تنازعات آج امن عالم کے لیے شدید خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اقوام متحدہ سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں انھیں پورا کرنے میں یہ ادارہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ امریکا کا غلبہ یا بالادستی فساد کی اصل جڑ ہے جس کی جانب نامور شاعر سید محمد جعفری (مرحوم) نے نہایت خوبصورتی سے یوں اشارہ فرمایا ہے۔

یہ یو این او میں یو ایس اے کا ''یو''
ہے اور باقی تو ہے بس نو ہی نو

ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف امریکا نے اسرائیل کی حمایت میں جتنی مرتبہ ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے اس کی کوئی اور مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ویٹوکے اختیار نے سلامتی کونسل کے ادارے کو مخنث بناکر رکھ دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کا اس تناظر میں یہ کہنا بالکل جائز اور بجا ہے کہ جب تک سلامتی کونسل میں نئے مستقل ممبران کا داخلہ نہیں ہوگا اس وقت تک اس ادارے کا بے تکا پن ختم نہیں ہوگا۔ مائیکرو نیشیا اور ناؤ دو جیسے انتہائی چھوٹے ممالک کی آواز اس ادارے میں بالکل سنی ہی نہیں جاتی۔ یہ صورتحال اصلاح احوال کی شدت کے ساتھ متقاضی ہے کیوں کہ اگر مستقبل قریب میں راست اقدامات نہ کیے گئے تو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اس ادارے کا حشر بھی وہی ہوسکتا جو لیگ آف نیشنز (League of Nations) کا ہوا تھا۔

تاہم اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ اس ادارے کی سرے سے کوئی اہمیت اور افادیت ہی نہیں ہے یا اس نے دنیا کی بھلائی کے لیے کوئی کردار ہی ادا نہیں کیا۔ جس میں یونیسکو، یونیسیف اور WHO (عالمی ادارہ صحت) خاص طور پور قابل ذکر ہیں یہ تینوں ادارے بلا امتیاز مذہب و ملت دنیا کے مختلف ممالک میں جس میں غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں بنی نوع انسانی کی بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تعلیم کے فروغ اور صحت وتندرستی کے میدان میں اقوام متحدہ کے فعال اداروں کا کردار مجموعی طور پر قابل تعریف اور لائق تحسین رہا ہے، دنیا کے کسی بھی گوشے میں قدرتی آفات سے متاثرہ انسانوں کی بروقت امداد میں بھی اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کی امداد اور نگہداشت کے حوالے سے بھی اقوام متحدہ نے انتہائی اہم اور نازک کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے جنگ سے متاثرہ یا فساد زدہ علاقوں میں اقوام متحدہ کی امن فوج کا کردار بھی مثالی ہے جس کی افادیت اور اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔اقوام متحدہ کے تمام ادارے مالی اعانت کے سلسلے میں زیادہ تر انحصار ممبر ممالک کی جانب سے فراہم کیے جانے والے عطیات اور فنڈز پر ہی کرتے ہیں، جو طلب کے لحاظ سے کم ہیں اس سلسلے میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنی نوکر شاہی پر بہت زیادہ اخراجات کرتا ہے کسی حد تک یہ اعتراض درست اور قابل تسلیم بھی ہے کیوں کہ جب ہم اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے تنخواہ دار اہلکاروں کے مشاہروں اور معاوضوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کے اداروں میں خدمات انجام دینے والے عملے کے مشاہروں کی شرح کا اس ادارے کے شایان شان ہونا بھی ایک فطری تقاضا ہے کیوں کہ اس عملے کے ارکان بھی غیر معمولی اہلیت، قابلیت اور قد و قامت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دیگر اداروں کی طرح اقوام متحدہ کے ماتحت اداروں میں بھی شاہ خرچیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے ممبران کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عالمی تعاون میں اپنا اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالیں تاکہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل یہ منفرد عظیم ادارہ اپنا کردار زیادہ سے زیادہ فعال اور موثر اندازمیں ادا کرسکے۔
Load Next Story