آتشزدگی سانحہ فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے خلاف کارروائی کی سفارش

سائٹ لمیٹڈاورمحکمہ شہری دفاع ذمے دارہیں، منظورشدہ بلڈنگ پلان کی سنگین خلاف ورزیاں اورقوانین کو یکسر نظراندازکیاگیا

ایف آئی اے نے واقعے میںتخریب کاری کے امکان کومسترد کردیا،کنکرنٹ اسٹرکچر پرمیزنائن فلورلکڑی سے بنایاگیا تھا،رپورٹ۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کی بنیادی وجہ منظورشدہ بلڈنگ پلان کی سنگین خلاف ورزیاں،شہری دفاع کے قوانین کو یکسر نظر اندازکردینااور گنجائش سے کہیں زیادہ ورکرز کو قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہونیوالی259 انسانی جانوں کے نقصان کی ذمے داری فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں پر عائد کی ہے اوران کیخلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ بلدیہ پرایف آئی اے کی جانب سے تیارکردہ تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ میں آتشزدگی کی وجہ جاننے کیلیے ہر پہلو کا تجزیہ کیاگیاہے اور حتمی رپورٹ میں دہشت گردی یا تخریب کاری کے امکان کو مکمل مسترد کرتے ہوئے، آتشزدگی کو حادثہ ہی قرار دیاہے تاہم ، سائٹ کی جانب سے فراہم کردہ فیکٹری کے منظورشدہ بلڈنگ پلان کے مطابق علی انٹرپرائززکو گرائونڈ، میزنائن اور فرسٹ فلور بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔

جبکہ فیکٹری مالکان نے منظورشدہ نقشے کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف سیکنڈفلور بغیرکسی اجازت کے تعمیر کیا بلکہ نقشے کے مطابق کنکریٹ اسٹرکچر کاحامل میزنائن فلور مکمل طور پر لکڑی سے تعمیر کیا گیا،رپورٹ کے مطابق یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس سے آگ انتہائی تیزی سے پوری فیکٹری میں پھیل گئی اورسیکنڈ فلورپرموجود سیکڑوں افراد ہنگامی راستہ مستقل بند ہونے اور کھڑکیوں پر لوہے کی گرل کی وجہ سے بھاگنے میں ناکام رہے،آگ کی ابتدا گرائونڈ فلور پر واقع گودام سے ہوئی جہاں عمومی طور پر کوئی شخص موجود نہیں ہوتا تھا،آگ لگنے پرفیکٹری مالکان نے حفاظتی نقطہ نظرسے فیکٹری کامین سوئچ بند کردیا تاکہ بجلی کی وائرنگ سے مزید آگ نہ پھیلے۔


تاہم یہ فیصلہ بھی سیکنڈفلور پر اپنی جان بچانے کی کوشش کرنیو الے محنت کشوں کیلیے کی مشکلات میں مزیداضافے کاسبب بن گیا اور اندھیرا چھاجانے کی وجہ سے وہ جان بچانے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے قابل بھی نہیں رہے،رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا کہ اگر میزنائن فلور کااسٹرکچرلکڑی کانہ ہوتا تو آگ اتنی تیزی سے نہیں پھیل سکتی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیاکہ فیکٹری میں آگ بجھانے کیلیے واٹرہائیڈرنٹ تو موجود تھا لیکن وہ فعال نہیں تھا اورسول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ ریکارڈ کے مطابق فیکٹری میں کبھی آگ بجھانے یاہنگامی حالات سے نمٹنے کی کوئی ایکسرسائز سرے سے کی ہی نہیں گئی۔

فیکٹری مالکان نے فائر بریگیڈ ڈپارٹمنٹ کو کال کرنے میں بھی تاخیر کی کیونکہ فیکٹری میں چھوٹی موٹی آگ لگنامعمول کا معاملہ تھا اورجب تک مالکان اور جنرل منیجر آگ کی سنگینی کا اندازہ لگاتے بہت دیر ہوچکی تھی۔سرکاری ادارے ای اوبی آئی اور سیسی کے ریکارڈمیں علی انٹرپرائزز کے رجسٹرڈمحنت کشوں کی تعداد2 سو سے تین سوکے درمیان ہے جبکہ فیکٹری میں ایک اندازے کے مطابق 15 سو سے زائد مزدور کام کرتے تھے اگرسرکاری ادارے درست محنت کشوں کورجسٹرڈ کرتے تو ان کی حفاظت کیلیے موجود حفاظتی قوانین لاگو کیے جاسکتے تھے،کئی دہائیوں سے قائم فیکٹری صوبائی محکمہ محنت کے ریکارڈ میں ہی موجود نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ عمارتی قوانین پر عمل درآمد کرنے کے ذمے دارسائٹ لمیٹڈکے متعلقہ افسران اورہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت فراہم کرنے والاادارہ سول ڈیفنس آتشزدگی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنا کہ فیکٹری کے مالکان اور دیگر انتظامی افسران پرذمے داری عائدکی گئی ہے جبکہ صوبائی محکمہ محنت، ای او بی آئی اور سیسی بھی اپنی ذمے داریاں درست طور پر ادا نہیں کررہی تھیں،رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ فرائض میں سنگین غفلت کے مرتکب ہونے والے اداروں اور متعلقہ افسران کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے۔
Load Next Story