ایم کیو ایم کی واپسی خوش آئند
ایم ایم کیو ایم کو حکمراں مسلم لیگ سے معاہدے کے بعد اپنے سیاسی رابطوں میں تیزی لانے کی حکمت عملی طے کرنا ہے،
حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان شکایات ازالہ کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق ہو گیا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں سے استعفے واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ اطلاع بلاشبہ جمہوری عمل کے لیے ایک بریک تھرو ہے جس سے ثابت ہوا کہ ایم کیو ایک نے زمینی حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہوئے سیاسی بلوغت پر مبنی ایک سنجیدہ اور بروقت فیصلہ کیا ہے۔ شکایات ازالہ کمیٹی کی تشکیل کے لیے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں میڈیا کے سامنے حکومتی ٹیم کی طرف سے سینیٹر اسحٰق ڈار اور ایم کیوایم کی طرف سے فاروق ستار نے باقاعدہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ سینیٹر اسحٰق ڈار نے بتایا کہ شکایت ازالہ کمیٹی5 ارکان پر مشتمل ہو گی۔
اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہم تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، ایم کیو ایم ملک کی ایک سیاسی پارٹی ہے اور سندھ میں اس کا اپنا ایک حلقہ ہے، اس لیے اسے ملک کے اندر سیاسی و جمہوری کردار ادا کرنا چاہیے، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہماری شکایات کے حوالے سے سنجیدگی دکھائی ہے۔
انھوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور حکومتی ٹیم کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جمہوری نظام کو آمریت پر بالادستی اسی لیے حاصل ہے کہ سیاسی اختلافات کے حل کی راہیں ہمیشہ مذاکرات کے لیے کھلی رہتی ہیں جب کہ متحارب سیاسی جماعتیں حکومت سے لاکھ اختلافات کے باوجود اتفاق رائے تک پہنچ جاتی ہیں، یہی جمہوریت کی سبقت اور اس کی فعالیت ہے جو سیاسی معاشرے کو زندہ رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم کا استعفے واپس لینا اچھا فیصلہ ہے، اس کا کراچی سمیت ملک بھر کے عوام خیر مقدم کرینگے۔
ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات کے لیے فری ہینڈ ملنا چاہیے، اور ایم کیو ایم کو بھی اپنے طرز عمل میں ملائمیت لا کر ڈائیلاگ اور پارلیمنٹ کے فورم کو اہمیت دینا ہو گی کیونکہ دہشت گردی اور مختلف النوع جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے لیے کراچی کو جس ہمہ گیر امن کی ضرورت ہے اس منزل تک پہنچنے کے لیے رینجرز، پولیس سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
بلاشبہ ایم ایم کیو ایم کو حکمراں مسلم لیگ سے معاہدے کے بعد اپنے سیاسی رابطوں میں تیزی لانے کی حکمت عملی طے کرنا ہے، اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، بعض مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت اور متحدہ کا معاہدہ کراچی میں پی ٹی آئی کے لیے سیاسی و بلدیاتی دھچکا ہے جب کہ ایسا کچھ نہیں، یہ سب جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ اس لیے جمہوری اداروں کے استحکام اور پارلیمانی روایات کا احیا ابھی بھی سیاست دانوں سے وسعت نظری، میانہ روی، رواداری، جمہوری اسپرٹ اور دور اندیشی کا تقاضا کرتا ہے۔
اب گیند ایم کیو ایم کی کورٹ میں ہے، اسے خود کو جذباتی، حسیاتی اور سیاسی طور پر تازہ دم کر کے 'گیو اینڈ ٹیک' کی گنجائش پیدا کرنا ہو گی، جمہوریت اور فسطائیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس شہر قائد کو کشیدگی، جرائم، کرپشن، دہشت گردی اور سیاسی تقسیم در تقسیم نے بہت صدمات دیے ہیں۔
کراچی کو دنیا کا خطرناک ترین شہر ہونے کا اعزاز بھی دیا گیا ہے، جسے لوٹانے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولدرز کو مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی۔ یہ قابل رحم مائی باپ شہر اقتصادی اور معاشی شہ رگ ہے، اسے امن، استحکام، ترقی، آسودگی اور اسلحہ و نفرتوں سے پاک شہر بنانا عظیم تر چیلنج ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
یہ اطلاع بلاشبہ جمہوری عمل کے لیے ایک بریک تھرو ہے جس سے ثابت ہوا کہ ایم کیو ایک نے زمینی حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہوئے سیاسی بلوغت پر مبنی ایک سنجیدہ اور بروقت فیصلہ کیا ہے۔ شکایات ازالہ کمیٹی کی تشکیل کے لیے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں میڈیا کے سامنے حکومتی ٹیم کی طرف سے سینیٹر اسحٰق ڈار اور ایم کیوایم کی طرف سے فاروق ستار نے باقاعدہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ سینیٹر اسحٰق ڈار نے بتایا کہ شکایت ازالہ کمیٹی5 ارکان پر مشتمل ہو گی۔
اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہم تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، ایم کیو ایم ملک کی ایک سیاسی پارٹی ہے اور سندھ میں اس کا اپنا ایک حلقہ ہے، اس لیے اسے ملک کے اندر سیاسی و جمہوری کردار ادا کرنا چاہیے، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہماری شکایات کے حوالے سے سنجیدگی دکھائی ہے۔
انھوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور حکومتی ٹیم کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جمہوری نظام کو آمریت پر بالادستی اسی لیے حاصل ہے کہ سیاسی اختلافات کے حل کی راہیں ہمیشہ مذاکرات کے لیے کھلی رہتی ہیں جب کہ متحارب سیاسی جماعتیں حکومت سے لاکھ اختلافات کے باوجود اتفاق رائے تک پہنچ جاتی ہیں، یہی جمہوریت کی سبقت اور اس کی فعالیت ہے جو سیاسی معاشرے کو زندہ رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم کا استعفے واپس لینا اچھا فیصلہ ہے، اس کا کراچی سمیت ملک بھر کے عوام خیر مقدم کرینگے۔
ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات کے لیے فری ہینڈ ملنا چاہیے، اور ایم کیو ایم کو بھی اپنے طرز عمل میں ملائمیت لا کر ڈائیلاگ اور پارلیمنٹ کے فورم کو اہمیت دینا ہو گی کیونکہ دہشت گردی اور مختلف النوع جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے لیے کراچی کو جس ہمہ گیر امن کی ضرورت ہے اس منزل تک پہنچنے کے لیے رینجرز، پولیس سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
بلاشبہ ایم ایم کیو ایم کو حکمراں مسلم لیگ سے معاہدے کے بعد اپنے سیاسی رابطوں میں تیزی لانے کی حکمت عملی طے کرنا ہے، اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، بعض مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت اور متحدہ کا معاہدہ کراچی میں پی ٹی آئی کے لیے سیاسی و بلدیاتی دھچکا ہے جب کہ ایسا کچھ نہیں، یہ سب جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ اس لیے جمہوری اداروں کے استحکام اور پارلیمانی روایات کا احیا ابھی بھی سیاست دانوں سے وسعت نظری، میانہ روی، رواداری، جمہوری اسپرٹ اور دور اندیشی کا تقاضا کرتا ہے۔
اب گیند ایم کیو ایم کی کورٹ میں ہے، اسے خود کو جذباتی، حسیاتی اور سیاسی طور پر تازہ دم کر کے 'گیو اینڈ ٹیک' کی گنجائش پیدا کرنا ہو گی، جمہوریت اور فسطائیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس شہر قائد کو کشیدگی، جرائم، کرپشن، دہشت گردی اور سیاسی تقسیم در تقسیم نے بہت صدمات دیے ہیں۔
کراچی کو دنیا کا خطرناک ترین شہر ہونے کا اعزاز بھی دیا گیا ہے، جسے لوٹانے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولدرز کو مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی۔ یہ قابل رحم مائی باپ شہر اقتصادی اور معاشی شہ رگ ہے، اسے امن، استحکام، ترقی، آسودگی اور اسلحہ و نفرتوں سے پاک شہر بنانا عظیم تر چیلنج ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!