شوکت جمال کی مزاحیہ شاعری

شوکت جمال کا تعلق علمی و ادبی خانوادے سے ہے، ان کے والد سید ابو ظفر زین، مضامین قرآن حکیم جیسی کتاب کے مصنف تھے۔

nasim.anjum27@gmail.com

شوکت جمال کا تعلق علمی و ادبی خانوادے سے ہے، ان کے والد سید ابو ظفر زین، مضامین قرآن حکیم جیسی کتاب کے مصنف تھے۔ وہ مزاحیہ شاعری کے حوالے سے بھی اپنی علیحدہ شناخت رکھتے تھے۔

والد صاحب کا رنگ و آہنگ شوکت جمال کی شاعری میں نمایاں ہے، ابوالفرح ہمایوں بھی نثری تخلیقات کے اعتبار سے بہت اچھے مزاح نگار ہیں، گویا دونوں بھائیوں کو علم و ادب کے خزانے وراثت میں ملے ہیں۔ یقیناً یہ ان کی خوش قسمتی ہے۔ہمارے معاشرے میں درد و الم کی فضا پروان چڑھ چکی ہے، بے شمار مسائل ہیں، غیر منصفانہ رویہ ہے، جس نے ہر عام و خاص کے مزاج میں تلخی پیدا کردی ہے، ان حالات میں اگر مسکرانے کے ساتھ ہنسنے کا موقع بھی مل جائے تو غنیمت سمجھنا چاہیے۔

بے شک ہنسی ایک ایسی طاقت ہے جو سنجیدگی اور رنجیدگی کے خاتمے کے لیے نسخہ شفا ہے اور عارضی طور پر ہی سہی خوشی و مسرت بہم پہنچاتی ہے۔ مزاح کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ ''مزاح کے اندر تدریجی ارتقا کو اس طوفانی ندی سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے جو پتھروں اور چٹانوں سے سر پٹکتی شور مچاتی اور جھاگ اڑاتی آخرش ایک وسیع، کشادہ اور پرسکون دریا کی صورت اختیار کرے اور پھر سمندر میں مل کر ابدیت سے ہمکنار ہوجائے''۔

شوکت جمال کی کئی کتابیں بعنوانات ''دیوانچہ''، ''شوخ بیانی''، ''یہ وسائل تبسم'' اور اردو کی شگفتہ شاعری اشاعت کے مرحلے سے گزرچکی ہیں، اپنی تخلیقات اور نت نئے موضوعات کے حوالے سے شوکت جمال داد و تحسین کے مستحق قرار پائے ہیں، نقادوں اور قارئین نے شوکت جمال کی شاعری اور ان کے نام کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں ہم اسمِ بامعنی بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے قطعات اور غزلیات حسن و جمال اور شان و شوکت سے مزین ہیں۔

لفظوں کو برتنے کے سلیقے اور ہنر مندی ان کی شاعری کو آن بان بخش دی ہے، وہ سالہا سال سے خلیج عرب میں سکونت پذیر ہیں، لیکن وہاں رہتے ہوئے بھی اپنے ملکی حالات کا اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں اور سماجی و سیاسی واقعات کو شاعری کے پیراہن میں خوبصورتی کے ساتھ ڈھالنے میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ مزاحیہ ادب میں شاید کہ کوئی ایسا شاعر بچا ہوگا جس نے بڑے پیار سے بیوی کو نشانہ نہ بنایا ہو، ورنہ تو شاعر حضرات کی شاعری میں ان کی اہلیہ ہر روپ میں جلوہ فگن نظر آتی ہے۔ دیکھیے ''تابعداری اور محبت کا یہ انوکھا انداز، عنوان ہے: ''ہم بھی منہ میں زباں رکھتے ہیں''

چپ ہوں، بیگم کے سامنے لیکن
یہ علامت نہیں، غلامی کی
بول سکتا ہوں میں، اگر مجھ کو
دیں اجازت وہ خود کلامی کی
بیگم کے رعب و دبدبے کا یہ عالم ہے، فرماتے ہیں:
نظر تجھ سے ملاکر گفتگو، میں کر نہیں سکتا
کروں کیا یار جاں، مجبور ہوں میں اپنی فطرت سے
ترا برتاؤ بھی، ویسا ہی مجھ سے آمرانہ ہے
تری صورت بھی ملتی ہے، مری بیوی کی صورت سے

مزاحیہ ادب میں شاعر کو بیوی ہر موقع پر یاد آتی ہے، عید ہو یا بقر عید وہ نشانہ مارنے سے ہرگز نہیں چوکتے ہیں، بقر عید ابھی چند روز پہلے ہی گزری ہے، کھالوں اور کلیجی کا ہر جگہ شور تھا۔ ایسے مواقعوں پر بیگم اور کلیجی کا گویا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ حضرت کیا فرماتے ہیں، انھیں اپنی بیوی یاد ہے یا بھلا بیٹھے ہیں؟ اور بیگم کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟

آئی جو صبح عید، تو آئے ہیں اہل خیر
ہر شخص کہہ رہا ہے، مجھے اپنی کھال دیں
بیگم مگر بضد ہیں، چھوڑیں یہ کھال وال
ایسا کریں کہ پہلے کلیجی نکال دیں

شوکت جمال نے ''تشبیہ و استعارات'' اور دو معنی الفاظ کا استعمال بے حد نفاست کے ساتھ کیا ہے۔

عشق وہ جذبہ ہے جو ہر شخص کے دل میں پوشیدہ ہوتا ہے، اب عاشق کے اعمال پر منحصر ہے کہ وہ نہاں رہنے دے یا عیاں کردے، عشق اپنے والدین اپنی سرزمین اور اپنے وطن سے ہوتا ہے، اکثر اوقات اپنی محبوبہ یا منکوحہ سے بھی ہوجاتا ہے، لیکن ذرا کم کم، شوکت جمال کی رگِ عشق جب بچھڑ گئی تو یہ اشعار تخلیق کے مرحلے سے گزرے۔


لگاکر مرِا دل وہ پہلو سے اپنے
ذرا دیر اس کو دھڑکنے تو دیتے
جڑیں کاٹ لیتے رگِ جاں کی لیکن
رگِ عشق میری پھڑکنے تو دیتے

درج بالا اشعار میں محبوبہ کا بسیرا معلوم ہوتا ہے، اسی ہی قبیل کا ایک قطعہ اور حاضر خدمت ہے۔

مجھ کو لگتا ہے مرے دلبر، ہمارے وصل کی
یہ پتنگ اب چند ہو لمحوں میں ''بو'' ہوجائے گی
کہہ رہا ہے مائیک پر، مجھ سے ٹریفک سارجنٹ
اپنی گاڑی کو ہٹالو ورنہ ''ٹو'' ہوجائے گی

شوکت جمال صاحب نے جہاں قطعات میں ظرافت و لطافت کے دھنک رنگ سمودیے ہیں وہاں ان کی غزلیات بھی مسکرانے کی ترغیب دیتی ہیں، لیکن یہاں بھی بیگم ساتھ اور خوف غالب ہے اور ان حالات میں بھی محبوبہ یاد رہتی ہے اور عقدِ ثانی کی خواہش جنم لیتی ہے۔

ہے درِ یار پہ، اس عمر میں جانا مشکل
واں چلا جاؤں، تو پھر لوٹ کے آنا مشکل
کتنی تنخواہ ہے بیگم کو بتانا مشکل
اس سے بڑھ کر ہے مگر ان سے چھپانا مشکل
عقدِ ثانی پہ بزرگوں نے کہا ہے شوکت
کرنا آسان ہے بیٹا! پر سنبھالنا مشکل

ایک اور شعر، شاعر محترم دوسری شادی کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں:
سوچوں میں عقدِ ثانی کے کھویا ہوا ہوں، میں
بیگم سمجھ رہی ہیں کہ سویا ہوا ہوں میں

ایک قطعہ اور سن لیں، اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ کرے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، خالد عرفان، شوکت جمال، انور احمد علوی اور دوسرے مزاح نگار یونہی مزاحیہ تحریریں لکھیں تاکہ ہنسنے ہنسانے کے مواقع میسر آسکیں۔

قطعہ یہ ہے:
کہا دلہا نے پہلی شب دلہن سے
حقیقت سے تو تم غافل نہیں ہو؟
سفر کا، تم سے ہے آغاز لیکن؟
ہو تم پہلا قدم! منزل نہیں ہو
(تقریب تعارف کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)
Load Next Story