آسمان کی چھت والے اسکول

دس سال گزر گئے، وقت کی رفتار دیکھیے کیسے تیزی سے گزرتا ہے

لاہور:
دس سال گزر گئے، وقت کی رفتار دیکھیے کیسے تیزی سے گزرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں قیامت گزری تھی۔ یہ قدرتی آفت تھی، زلزلہ آیا تھا۔ شدت 7.6 تھی، 5 اکتوبر 2010 صبح 10 بجے کا وقت تھا، مائیں بچوں کو تیار کرکے اسکول روانہ کرچکی تھیں، باپ کی انگلی پکڑے بچے خوشی خوشی جا رہے تھے، سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ اچانک زمین پھٹ گئی اور لمحوں میں عمارتیں، گھر، اسکول، دفاتر، بازار، دکانیں سب کچھ زمین نے نگل لیا۔ مرنے والے ہزاروں میں تھے اور لاکھوں زخمی تھے۔ اس نازک گھڑی میں پوری دنیا سے لوگ مدد کو آئے۔ وہ جن کا ہم سے صرف اور صرف انسانی رشتہ تھا۔ وہ ڈاکٹر، نرسیں، انجینئر اور رضاکار آئے۔

مجھے اس وقت شاعر روشن علی عشرت مرحوم یاد آگئے۔ مرحوم شاعر مشرقی پاکستان کے معروف فلمی گلوکار خوبصورت آواز کے مالک بشیر احمد مرحوم کے بہنوئی تھے۔ گلوکار بشیر احمد بی ،اے دیپ کے نام سے فلمی نغمے بھی لکھتے تھے۔ اداکار رحمان مرحوم کی فلم درشن کے گیت انھی کے لکھے ہوئے تھے اور گائے بھی انھی نے تھے۔ یہ گیت اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ روشن علی عشرت سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد کسی طرح بچتے بچاتے کراچی پہنچے اور کراچی کے علاقہ محمود آباد میں رہائش اختیار کی۔ محمود آباد سے متصل آبادی میں میری رہائش ہے۔ یوں روشن علی عشرت سے میری ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ مجھے روشن علی عشرت کا ایک شعر لکھنا ہے۔ شعر یاد آیا تو یادوں کے چراغ جل اٹھے۔ تخلیق کار بھی یاد آگیا۔ میں نے اوپر لکھا تھا اسی فضا میں جانے کے لیے وہ فقرہ پھر لکھ رہا ہوں۔ ''اس نازک گھڑی میں پوری دنیا سے لوگ آئے، وہ جن کا ہم سے صرف اور صرف انسانی رشتہ تھا۔ وہ ڈاکٹرز، نرسیں، انجینئرز، رضاکار سبھی مدد کو آئے۔'' روشن علی کا شعر سنیے:

زبان و نسل کے جب فاصلے سمٹتے ہیں
بہت قریب کا رشتہ دکھائی دیتا ہے

ادھر اپنے پاکستان میں بھی پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، مہاجر، سرائیکی سب پتا نہیں کہاں غائب ہوگئے تھے، کدھر چھپ گئے تھے، ڈاکو، چور، لٹیرے سب کا نام و نشان مٹ گیا تھا اور پورا پاکستان زلزلہ زدگان کی مدد کے کاموں میں لگ گیا تھا، ضروری سامان، کپڑے، دوائیں، غذا کے پیکٹ، صاف پانی کے کریٹ، ٹرکوں، کنٹینروں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں اور سب کا رخ خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر کی طرف تھا۔دنیا بھر سے صرف ڈاکٹرز، نرسیں، رضاکار ہی نہیں آئے، اربوں، کھربوں روپے بھی آئے۔

چھوٹے بڑے چور ڈاکو، لٹیرے آخر کب تک غائب رہتے، آخر کار وہ سب باہر نکل آئے۔ وہ جو سرکاری اعلان ہوئے تھے۔ شہر دوبارہ بنادیں گے، اسپتال پھر سے تعمیر کردیں گے، بچوں کے اسکول جو صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے ترجیحی بنیاد پر دوبارہ تعمیر کردیے جائیں گے بلکہ پہلے سے زیادہ اچھی عمارتوں والے اسکول بنائے جائیں گے۔

مگر دس سال گزرنے کے بعد بھی ''کچھ نہ رہا کچھ نہ بچا'' والی صورت جوں کی توں موجود ہے۔ صوبہ پختونخوا اور آزاد کشمیر کے بچے اسکولوں سے محروم، آسمان کی چھت والے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور اللہ کے آسمان تلے اللہ کی زمین ہے، جس پر بیٹھے بچے پڑھ رہے ہیں۔

پھول جیسے پیارے بچے کہہ رہے تھے، ہمیں سردی لگتی ہے، بارش ہوجائے تو گھروں کو چلے جاتے ہیں، گرمیوں میں گرمی لگتی ہے، پھول سے بچوں کی باتیں سن کر کلیجہ پھٹ رہا تھا دماغ گھوم رہا تھا، ایک طرف بھری تجوریاں دوسری طرف یہ حال۔دنیا بھر سے آئی ہوئی امدادی رقوم'' ظالم'' کھا گئے، اپنے محل بنالیے، اپنے کاروبار بڑھا لیے اور ملیں بنالیں۔ امدادی قیمتی سامان سے لدے کنٹینروں والے بڑے بڑے ٹرالے وزرا نے اپنے وسیع و عریض محلوں اور فارم ہاؤسز میں چھپا لیے پھر بازاروں میں امدادی سامان فروخت ہونے لگا۔ کسی نے ظالموں، لٹیروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کارروائی کرتا بھی کون؟ نیچے سے لے کر اوپر تک ساری صوبائی اور مرکزی حکومتیں اور ان کے حاشیہ بردار زلزلہ زدگان کے لیے دنیا بھر سے آنیوالے امدادی سامان کی لوٹ مار میں شریک تھے۔ ان ظالموں کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ اللہ کے آسمان پر بھی قبضہ کر لیں، ہوا کو بھی اپنے اختیار میں لے لیں۔ اللہ کی زمین تو ان ظالموں نے ہتھیا رکھی ہے۔


قیامت خیز زلزلہ آئے 10 سال ہوگئے، بحالی کے سارے منصوبے ادھورے پڑے ہیں اور ہمارے ''مہربان'' ہمارے ''مستقبل کے مہربان'' آسمان کی چھت والے اسکولوں سے بے خبر تقریریں جھاڑے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف منہ سے جھاگ اڑا رہے ہیں۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپے الیکشن جیتنے پر خرچ کر رہے ہیں، محض اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے۔ یہ آسمان والی چھت کے اسکولوں کو چند لاکھ روپے لگا کر چھت نہیں دے سکتے دراصل یہ علم کے راستے روکنے والے ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ علم کی روشنی پھیلے۔ علم کی روشنی ان کے خاتمے کا اعلان ہے۔

لاہور کے حلقہ NA-122 میں قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں اور کوئی نہیں بول رہا۔ قانون بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ کون ہیں، کہاں کے ہیں، کدھر سے آئے ہیں اور انھوں نے کدھر جانا ہے؟ مگر یہ سب کچھ جانتے ہیں کہ پاکستان کے دو کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے۔ اور یہ ''انتخابی مخلوق'' عوام سے چھیڑ چھاڑ کرنے، مذاق کرنے جب جی چاہتا ہے آجاتے ہیں۔ حبیب جالب کا ایک شعر سن لیجیے:

سر منبر و خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے' فقط تقریر کرتے ہیں

یہ عوام کو سنہرے مستقبل کے خواب دکھاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے، نہ ہی ان کے باپ داداؤں نے کچھ کیا۔ اور نہ ہی یہ کچھ اچھا کریں گے۔ یہ لوگ ''اپنی ہی ترقی پسند ہیں۔''

درد مند دل رکھنے والے اٹھیں اور کھنڈر بنتے ہوئے اسکولوں کو ''گود'' لیں اور جہاں آسمان کی چھت والے اسکول ہیں وہاں اسکول بنائیں۔ پورے ملک میں اپنے اپنے علاقوں کے انسانی ہمدردی رکھنے والے اپنی مدد آپ کے تحت اسکولوں کی خبر لیں۔ ''علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب!'' حضرت علامہ اقبال شاعر مشرق کے اس مصرعے کو علم بنا کر اٹھیں اور دو کروڑ بچوں کو اسکول دیں۔

آج کالم میں شاعر روشن علی عشرت کا ذکر ہوا تو انھی کے ایک اور فکر انگیز شعر پر بات ختم کرتا ہوں:

رستے میں قافلے پہ نہ شب خوں کہیں پڑے
یہ سوچ کے صلیب پہ میں جاگتا رہا
Load Next Story