یادیں

1942ء میں کانگریس کی تحریک میں اس لیے گرفتار ہوئے کہ کھدر کے کپڑے پہنتے تھے۔

لاہور:
افتخار احمد عدنی کی ''یادیں'' اس وقت کی ہیں جو انھوں نے ذہین شاہ تاجی، جوش، جگر اور ظ۔انصاری کے ساتھ گزارا۔ ان میں زیادہ ذکر ذہین شاہ تاجی کا ہے۔ لکھتے ہیں ''3 جولائی 1977ء کو رات ڈیڑھ بجے کے قریب بابا صاحب نے مدن قوال کو جو ہمیشہ ان کے گھر پر رہتا تھا اور ایک خاتون کو جو ان کی خدمت پر مامور تھی، طلب کیا اور اپنا پستول نکال کر اس میں گولیاں بھریں اور پھر پستول کا رخ ان دونوں کی طرف کر کے کہا ''مار دو دونوں کو۔'' قوال بیچارے کی تو جان نکل گئی۔ خدمتگار خاتون نے نسبتاً زیادہ ہمت سے کام لیا اور اس خطرے کا مقابلہ کیا۔ آدھے گھنٹے تک دونوں کو آزمائش میں مبتلا رکھنے کے بعد بابا صاحب نے پستول نیچے رکھا اور دونوں کو جانے کی اجازت دے دی۔ دوسرے دن بابا انور شاہ جب بابا صاحب کی قیام گاہ پر پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ رات کیا ہوا تھا۔ انھوں نے سنتے ہی کہا اس کے معنی ہیں ملک میں مارشل لا لگنے والا ہے اور دوسرے دن ہی مارشل لا لگ گیا۔''

عدنی لکھتے ہیں ''جنرل ضیا الحق نے اعلان کیا تھا کہ وہ 90دن میں انتخابات کرا کے اقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کر دینگے، جب نوے دنوں کی مدت پوری ہونے کو آئی تو میں نے بابا صاحب سے سوال کیا کہ یہ صورتحال کب تک رہے گی تو بابا صاحب نے مسکرا کے کہا ''ابھی چلنے دو۔'' مزید تین مہینے گزرنے کے بعد میں نے وہی سوال دہرایا تو بابا صاحب نے پھر کہا ''ابھی چلنے دو۔'' بابا صاحب کے وصال سے پہلے ایک بار اور میں نے ان سے یہ سوال کیا تھا اور اس کا بھی وہی جواب ملا تھا۔ اس وقت کسے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ یہ چھوٹا سا جواب ''ابھی چلنے دو'' پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین مارشل لا کی طرف اشارہ ہے''

بابا ذہین شاہ تاجی سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے، افتخار احمد عدنی بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ شاہ صاحب کے ایک خاص مرید کام کرتے تھے۔ جب عدنی کا 1967ء میں کراچی تبادلہ ہوا تو انھوں نے یہ دیکھ کر انھیں تصوف سے ذوق ہے ان سے بابا صاحب کی خدمت میں چلنے پر اصرار کیا۔ عدنی کی کسی اور بزرگ سے عقیدت تھی، یہ ٹالتے رہے بالآخر ایک مجبوری کے تحت جو کسی اور کی تھی ان کو ذہین شاہ تاجی کے پاس جانا پڑا۔ انھیں جس مجبوری کا سامنا تھا، وہ بابا صاحب نے حل کر دی۔ پھر اس کے بعد نہایت پرتکلف چائے سے میزبانی ہوئی۔ چائے کے بعد عدنی نے بابا صاحب سے کہا کہ ان کا بھی ایک مسئلہ ہے اسے بھی حل فرما دیں۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ وہ کون سی صورتحال ہے جس میں کوئی عمل جو شریعت کے خلاف ہو طریقت کے فتوے سے جائز ہو جاتا ہے۔ بابا صاحب نے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے حوالے سے ان کا بھی یہ مسئلہ حل کر دیا پھر فرمایا کہ بعض امور تکوینی ہوتے ہیں یعنی ان کا تعلق اللہ کے حکم کُن سے ہوتا ہے ان پر عمل کرنے پر سالک مجبور ہے کیونکہ حکم الٰہی کے سامنے احکام شریعت کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔

عدنی لکھتے ہیں ''یہ تھی بابا صاحب کی خدمت میں میری پہلی حاضری اور یہی حاضری میری بیعت اور ایک نہ مٹنے والی ارادت پر منتج ہوئی۔''وہ لکھتے ہیں ''لوگ طرح طرح کے مسائل لے کر بابا صاحب کے پاس آتے تھے۔ بعض خاندانی جھگڑوں میں مبتلا ہوتے تھے، بعض مالی مشکلات میں گرفتار، بعض اپنے افسران بالا کے ہاتھوں تنگ ہوتے تھے اور بعض محبت کے ہاتھوں زندگی سے عاجز۔ ویسے تو وہ سب پر ہی بڑی شفقت فرماتے تھے لیکن دل کے ماروں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ یہ دل کے مارے بڑی رازداری سے باتیں کرتے تھے لیکن کبھی کبھی ان کے راز افشا ہو جاتے تھے۔ ان میں مرد بھی ہوتے تھے، عورتیں بھی۔ شاید عشق کے ماروں کے اس گزرتے ہوئے کارواں کو دیکھ کر ہی بابا صاحب نے یہ شعر کہا:

عالم عشق میں ہم نے تو یہ دیکھا ہے ذہینؔ
کوئی کتنا ہی بگڑ جائے سنور جاتا ہے


عدنی صاحب نے اپنی کتاب میں جوش صاحب پر لکھے گئے کئی مضامین شامل کیے ہیں لیکن جیساکہ جمیل الدین عالی نے ان سے شکایت کی تھی کہ ان میں جوش کم اور بابا صاحب زیادہ ہیں۔ عدنی نے ان کو جواب دیا تھا کہ ''میں نے تو جوش صاحب کو جانا ہی بابا صاحب کے حوالے سے ہے'' عدنی کی جوش صاحب سے پہلی ملاقات 1941ء میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ میرٹھ کالج میں پڑھ رہے تھے۔ یہ اپنے دوستوں کے ساتھ ان کی خدمت میں نہایت نیازمندانہ انداز میں حاضر ہوتے تھے لیکن دوسری ملاقات قطعاً غیر متوقع مڈبھیڑ کے طور پر ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ شاید 1972ء کی بات ہے۔ میں بابا ذہین شاہ تاجی کی قیامگاہ پر حاضر تھا اور تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے گزارنے کے بعد اٹھنے ہی والا تھا کہ جوش صاحب صاعقہ و شعلہ و سیماب کے عالم میں وارد ہوئے اور آتے ہی متشددانہ انداز میں گرجنے لگے، وہ کسی کے انتقال پر تعزیت کر کے آئے تھے، کہنے لگے ''بابا صاحب، موت بہت بھیانک چیز ہے میں حیران ہوں کہ وہ ذات جس نے موت جیسی خوفناک اور مہیب چیز کو ہر زندگی کا انجام بنا دیا ہے کس طرح اپنے آپ کو رحمن اور رحیم کہتی ہے۔ موت بڑی بھیانک چیز ہے۔'' اسی انداز میں جوش صاحب دیر تک باتیں کرتے رہے۔

عدنی بتاتے ہیں کہ انھوں نے جوش صاحب کی بات کاٹتے ہوئے یاد دلایا کہ قرآن میں جب یہ فرمایا گیا ہے کہ انسان کو پیدا ہی تکلیف اور آزمائش میں کیا گیا ہے تو پھر انجام کا کیا گلا، تو جوش نے اس مداخلت بیجا پر انھیں گھور کر دیکھا پھر انھیں نظر انداز کر کے دوبارہ بابا صاحب سے مخاطب ہوئے اور پہلے سے زیادہ تلخ لہجے میں خدا کی بے رحمی کا شکوہ کرنے لگے پھر بابا صاحب نے جو ابھی تک خاموش بیٹھے تھے جوش صاحب کی باتیں سن رہے تھے مداخلت کی اور جوش صاحب سے گفتگو کا آغاز کیا۔ وہ بہت دھیمے لہجے میں کچھ کہنے لگے۔ جوش صاحب خاموشی سے سنتے رہے اور پھر ایک عجیب منظر نظر آیا جوش صاحب پر رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ عدنی لکھتے ہیں ''جب جوش صاحب پر سے غیظ و غضب کا طوفان اور رقت کی برسات دونوں گزر گئے تو ان کی طبیعت اعتدال پر آ گئی اور وہ اس طرح باتیں کرنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔'' ظ۔انصاری سے بھی افتخار احمد عدنی کی ملاقات میرٹھ کالج کے زمانے میں ہوئی۔ انھوں نے بی اے میں فارسی اختیاری مضمون کے طور پر لی تو ظ۔انصاری نے جو ان ہی کی عمر کے تھے، ان کو فارسی پڑھانے کی ذمے داری لے لی۔ یوں ان میں گہری دوستی کی ابتدا ہوئی۔ عدنی لکھتے ہیں ''گہری دوستی کے باوجود انصاری سے میری ملاقات بہت کم رہی۔

1947ء کے بعد میں ان سے 1983ء میں ملا 36سال کی طویل مدت کے بعد اور اس 36سال میں انھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ روس میں کافی لمبے عرصے قیام کیا، روسی زبان سیکھی اور شاید فارسی سے بھی زیادہ عبور حاصل کر لیا۔ وہاں کے بڑے بڑے مصنفوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور پھر خیر سے ہندوستان واپس آ کر غالب اور خسرو کی شاعری اور موسیقی میں گم ہو گئے۔'' ظ۔انصاری جب کراچی آئے تو لطف اللہ خاں نے جو صدابندی کے حوالے سے کبھی بھلائے نہ جا سکیں گے، ان کی داستان زندگی ریکارڈ کی۔ عدنی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''اس ریکارڈنگ میں انھوں نے کیسی دیانتداری سے اپنے بارے میں ہر بات بلا کم و کاست بیان کر دی تھی۔ کن مشکلوں میں انھوں نے زندگی گزاری۔ جب 12 سال کی عمر میں ان کے والد دیوالیہ ہو گئے تو گھر کا خرچ چلانے کے لیے پیسے دو پیسے کی اجرت پر کام کیا۔ تعلیم کے دوران ایک مذہبی مدرسے سے تین روپے کا ماہانہ وظیفہ حاصل کیا۔

1942ء میں کانگریس کی تحریک میں اس لیے گرفتار ہوئے کہ کھدر کے کپڑے پہنتے تھے۔ جیل سے رہا ہوئے تو میرٹھ سے دلی چلے گئے، مختلف اخباروں سے وابستہ ہوئے اور صحافت کی دنیا میں ممتاز ہو گئے۔ کانگریس کی سیاست میں تھے، جلد بیزار ہو گئے۔ کانگریس کو چھوڑا کمیونسٹ ہو گئے، دلی سے بمبئی چلے گئے۔ یہاں کمیونسٹ پارٹی کا پرچہ ''نیا زمانہ'' ان کی ادارت میں شایع ہونے لگا پھر پارٹی لائن سے اختلاف کیا تو پارٹی سے نکال دیے گئے۔ ظ۔انصاری نے اپنی وابستگیوں اور ان کے انقطاع کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا۔ جس عمر میں لوگ کالج کی تعلیم مکمل کر کے کسی پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں، اس عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ ہر بندھن سے آزاد ہو چکے تھے۔ لطف اللہ خاں کے ٹیپ میں ظ۔انصاری نے اپنی روئیداد کو چند جملوں میں اس طرح بیان کیا ہے۔ ''شیعوں سے نکلے، وہابیوں سے نکلے، آریہ سماجیوں سے نکلے، کانگریس سے نکلے، کمیونسٹ پارٹی آخری پناہ گاہ تھی، وہاں سے نکالے گئے۔'' میر کے دو مصرعوں میں یہ کہانی کس خوبی سے بیان ہوئی ہے:

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
Load Next Story