مکتب اور منڈی
جوانی کا دور اور کالج کا زمانہ بڑا سہانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ویسے بھی انگریزی سیکھنے کا رجحان کچھ زیادہ ہے
جوانی کا دور اور کالج کا زمانہ بڑا سہانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ویسے بھی انگریزی سیکھنے کا رجحان کچھ زیادہ ہے۔ ایسے میں ایک کلچرل سینٹر میں داخلہ لیا۔ لیول فور میں مسز عثمان تھیں تو لیول فائیو میں مسز ولیمز۔ ایک جملے میں کرنسی کا ذکر آیا تو سوال پیدا ہوا کہ روپے یا ڈالر کی تعریف کیا ہے؟ بتایا ''قوتِ خرید'' تو ٹیچر نے سمجھ لیا کہ یہ کامرس کا طالب علم ہے۔ اب سوال اٹھا کہ کیا پیسہ سب کچھ ہے؟ کلاس میں مباحثہ شروع ہوگیا۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ پھر سوال اٹھا کہ کیا پیسہ کچھ بھی نہیں؟ نوجوان طلبا و طالبات یہ ماننے کو بھی تیار نہ تھے۔ پیسہ نہ ہو تو نہ کھانے پینے اور پہننے کی کوئی چیز خریدی جاسکتی ہے اور نہ بغیر سواری کے کلچرل سینٹرل پہنچا جاسکتا ہے۔ ٹین ایجرز یہ بھی جانتے تھے کہ فیس کے پیسے نہ ہوں تو اس ادارے میں داخلہ کون دے گا؟ جب پیسہ سب کچھ نہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے یہ کچھ بھی نہیں تو آخر پیسہ ہے کیا؟ کچھ دیر بعد طے ہوا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ Money is Something۔
دنیا کے امیر ترین آدمیوں کی فہرست کو لوگ بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ سب سے امیر کی دوڑ میں آگے نکل جانے والوں اور تھوڑے سے فرق سے پیچھے رہ جانے والوں کو بڑے غور سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات پانچ سو امیر ترین لوگوں کی فہرست میں بتایا جاتا ہے کہ کس ملک میں کتنے لوگ ارب پتی ہیں۔ امریکا و برطانیہ کے بعد عرب ممالک کے کچھ شہری پٹرو (Petro) ڈالر کی بدولت امیروں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ بھارت کی بڑی معیشت نے ٹاٹا اور برلا کے بعد امبانی فیملی کو اس فہرست میں شامل کیا ہے۔ چین جب کمیونزم کا کمبل اتار کر مکس اکنامی والے ممالک میں آگیا تو چند ارب پتی لوگوں کا نام وہاں سے آنے لگا۔ یہ بھی بتایا جانے لگا کہ کتنے لوگ خاندانی ہیں جو نسل در نسل سے امیر چلے آرہے ہیں اور کتنے لوگ نئے نئے امیر ہوئے ہیں۔ پھر یہ بھی سمجھ آیا کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والوں نے کس طرح غربت کی دنیا سے نکل کر کس طرح امیری کے جزیرے پر قدم رکھا۔ یہاں تک تو سب کچھ گوارا تھا اور کسی اعتراض یا کالم لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے جس نے مجبور کیا کہ نوجوانوں کی غلط فہمی دور کی جائے کہ دانشوروں تک پہنچنے کو اس قلم کے پَر جلتے ہیں۔
اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ امیر ترین لوگوں کی فہرست میں کوئی پروفیسر، ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نہیں۔ ڈالرز میں ارب پتی والی سطح تک پہنچنے میں انھوں نے کامیابی حاصل کی جو پڑھائی سے دور تھے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے اسکول سے بھاگ گئے۔ رپورٹر کی خبر کے بعد کالم نگار حضرات بتانے لگے کہ اگر یہ ارب پتی تعلیم میں سر کھپاتے تو آج چند ہزار روپوں یا ڈالرز کی نوکری کر رہے ہوتے۔ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ اتنے ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اسی ارب پتی آدمی کے ملازم ہیں۔ آخر میں کہا گیا کہ علم حاصل کرنے والوں میں بہادری نہیں تھی کہ وہ ملازمت چھوڑ کر کاروبار کی دنیا میں آتے۔ کروڑوں کاروباری لوگوں کی ناکامیوں کو بھلا کر انگلیوں پر گنے جانے والے چند ارب پتیوں کی کامیابی کو لے کر ایک نیا نظریہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مکتب اور منڈی کے رجحان کو سمجھے بغیر ایسی باتیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔اب آپ نظر دوڑائیں لیکن کہاں؟ اس کا انحصار آپ کی عمر پر ہے۔
اگر آپ نوجوان ہیں تو اپنے بھائی بہنوں کو قریب سے دیکھیں۔ اگر آپ ادھیڑ عمر ہیں تو اپنے بچوں اور بزرگ ہیں تو بچوں کے بچوں کو غور سے دیکھیں۔ ان میں آپ کو کوئی فضول خرچ نظر آئے گا تو کوئی کنجوسی کی حد تک کفایت شعار۔ کوئی جارحانہ انداز والا لڑاکو ہوگا تو کوئی صلح جُو اور امن پسند۔ کسی کا رجحان تعلیم کی طرف ہوگا تو کوئی کتابوں سے بھاگ کر کھیلوں کے سامان کا رسیا ہوگا۔ اب جس بچے کا رجحان تعلیم کی طرف ہوگا تو سمجھ لیں کہ اس طالب علم کی اسکول لائف پکنک کی مانند ہوگی۔ والدین خوش تو اساتذہ نہال۔ فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آنے والے طالب علم پوری کلاس نہیں بلکہ اسکول بھر میں مشہور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کم ذہین اور پڑھائی کی طرف رجحان نہ رکھنے والے کھیلوں اور تجارت کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اب جو طالب علم پڑھائی میں تیز ہے وہ کیوں منڈی کی جانب لپکے گا۔ اسے تو ہر حال میں مکتب یعنی کالج اور یونیورسٹی کی طرف بڑھنا ہے۔
ذہین طالب علم کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے ایک فیتے کو لے کر۔ ایسا غیر مناسب پیمانہ جو تمام انسانوں کی کامیابی کو پیسے کی انچ ٹیپ سے ناپے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو ہم حنیف محمد، مہدی حسن، حبیب جالب اور احمد ندیم قاسمی کو کہاں رکھیں؟معاشرے کا ہر مرد نہ کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ امیر۔ ہر کوئی فنکار و کھلاڑی نہیں بن سکتا۔ ہر ایک کا ایک شعبے میں جانے کا رجحان ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا خاندان تجارت کرتا تھا۔ سوچیے کہ اگر ان کا رجحان پڑھائی کی جانب نہ ہوتا اور وہ بیرسٹر بن کر سیاست میں نہ آتے تو کیا پاکستان قائم ہوتا؟ سوچیے مارکونی، گراہم بیل اور گلیلیو اگر لیبارٹری کے بجائے منڈی کا رخ کرکے ارب پتی بن جاتے تو ریڈیو، ٹیلی فون، پرنٹنگ پریس اور دور بین کون اور کب ایجاد کرتے؟ بتائیے کہ دنیا کا کون سا ارب پتی ان سے زیادہ مشہور اور قابل عزت ہے؟ بچے بچے کی زبان پر ان سائنسدانوں کا نام ہے یا ارب پتیوں کا۔
مسئلہ کیا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ایک بات چھوڑ دی ہے۔ غریب گھرانوں کے بچوں میں ایک عجیب و غریب کیفیت جنم لیتی ہے۔ بچپن میں عمدہ کھانے اور اچھے لباس کے لیے انھیں ترسنا پڑتا ہے۔ دوسروں کو دیکھ کر یقیناً کچھ احساس کمتری بھی جنم لیتا ہے۔ یہاں سے کچھ لوگ منڈی اور کچھ لوگ مکتب کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ فطری ذہانت اور تیز طبیعت کے ساتھ بچپن کی غربت انھیں مائل کرتی ہے کہ وہ امیر بن جائیں۔ اگر سو لوگ منڈی جاکر غربت مٹانے کی کوشش کریں تو پانچ دس کا کسی حد تک داؤ لگ جاتا ہے۔ قسمت یاوری کرتی ہے اور ان کا شمار اپنی نسل کے پہلے امیر آدمی میں ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح غریب گھرانے کے کسی شخص کا رجحان تعلیم کی طرف ہو تو اس کی بھی تیز نظر اور کامیاب انسان کو پرکھنے یا خوشامد کرنے کی صلاحیت اسے خوشحال بنا جاتی ہے۔ یہاں بھی خوش قسمتی کا تناسب پانچ یا دس فیصد کا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ نو دولتیے کا الزام سہتے سہتے کہنے لگتے ہیں کہ اپنی دنیا آپ بنانا ان کا اعزاز ہے۔ یہ دو حقیقتیں انھیں ہر اس شخص کو اپنا ہیرو ماننے پر مجبور کرتی ہیں جو جھونپڑی سے نکل کر محل میں آ جاتا ہے۔ پھر اس کی کامیابی و کامرانی کے وہ قلابے ملائے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ کامیابی کا معیار صرف اور صرف پیسے کو بنایا جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ناکام کاروباری لوگوں کو چھوڑ کر درجن بھر کا ذکر کیا جاتا ہے۔
منڈی کی اپنی ایک ضرورت ہے تو مکتب کی اپنی ایک اہمیت۔ ہمیں کھیل کے میدانوں اور سیاست کے ایوانوں کے لیے جوہر قابل درکار ہوتے ہیں۔ سائنسدان کا لیبارٹری میں ہونا اسی قدر لازمی ہے جتنا مزدور کا کارخانے میں ہونا۔ اگر کسان کھیتوں میں نہ ہو اور خاتون خانہ باورچی خانے میں نہ ہو تو ہم بھوکے مر جائیں۔ خدارا! تاجر کو منڈی اور استاد کو مکتب میں رہنے دیں۔ ہمارے دانشوروں کے لیے پیسے کو انچ ٹیپ بنا کر کسی طرح بھی مناسب نہیں موازنہ مکتب و منڈی۔
دنیا کے امیر ترین آدمیوں کی فہرست کو لوگ بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ سب سے امیر کی دوڑ میں آگے نکل جانے والوں اور تھوڑے سے فرق سے پیچھے رہ جانے والوں کو بڑے غور سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات پانچ سو امیر ترین لوگوں کی فہرست میں بتایا جاتا ہے کہ کس ملک میں کتنے لوگ ارب پتی ہیں۔ امریکا و برطانیہ کے بعد عرب ممالک کے کچھ شہری پٹرو (Petro) ڈالر کی بدولت امیروں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ بھارت کی بڑی معیشت نے ٹاٹا اور برلا کے بعد امبانی فیملی کو اس فہرست میں شامل کیا ہے۔ چین جب کمیونزم کا کمبل اتار کر مکس اکنامی والے ممالک میں آگیا تو چند ارب پتی لوگوں کا نام وہاں سے آنے لگا۔ یہ بھی بتایا جانے لگا کہ کتنے لوگ خاندانی ہیں جو نسل در نسل سے امیر چلے آرہے ہیں اور کتنے لوگ نئے نئے امیر ہوئے ہیں۔ پھر یہ بھی سمجھ آیا کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والوں نے کس طرح غربت کی دنیا سے نکل کر کس طرح امیری کے جزیرے پر قدم رکھا۔ یہاں تک تو سب کچھ گوارا تھا اور کسی اعتراض یا کالم لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے جس نے مجبور کیا کہ نوجوانوں کی غلط فہمی دور کی جائے کہ دانشوروں تک پہنچنے کو اس قلم کے پَر جلتے ہیں۔
اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ امیر ترین لوگوں کی فہرست میں کوئی پروفیسر، ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نہیں۔ ڈالرز میں ارب پتی والی سطح تک پہنچنے میں انھوں نے کامیابی حاصل کی جو پڑھائی سے دور تھے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے اسکول سے بھاگ گئے۔ رپورٹر کی خبر کے بعد کالم نگار حضرات بتانے لگے کہ اگر یہ ارب پتی تعلیم میں سر کھپاتے تو آج چند ہزار روپوں یا ڈالرز کی نوکری کر رہے ہوتے۔ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ اتنے ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اسی ارب پتی آدمی کے ملازم ہیں۔ آخر میں کہا گیا کہ علم حاصل کرنے والوں میں بہادری نہیں تھی کہ وہ ملازمت چھوڑ کر کاروبار کی دنیا میں آتے۔ کروڑوں کاروباری لوگوں کی ناکامیوں کو بھلا کر انگلیوں پر گنے جانے والے چند ارب پتیوں کی کامیابی کو لے کر ایک نیا نظریہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مکتب اور منڈی کے رجحان کو سمجھے بغیر ایسی باتیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔اب آپ نظر دوڑائیں لیکن کہاں؟ اس کا انحصار آپ کی عمر پر ہے۔
اگر آپ نوجوان ہیں تو اپنے بھائی بہنوں کو قریب سے دیکھیں۔ اگر آپ ادھیڑ عمر ہیں تو اپنے بچوں اور بزرگ ہیں تو بچوں کے بچوں کو غور سے دیکھیں۔ ان میں آپ کو کوئی فضول خرچ نظر آئے گا تو کوئی کنجوسی کی حد تک کفایت شعار۔ کوئی جارحانہ انداز والا لڑاکو ہوگا تو کوئی صلح جُو اور امن پسند۔ کسی کا رجحان تعلیم کی طرف ہوگا تو کوئی کتابوں سے بھاگ کر کھیلوں کے سامان کا رسیا ہوگا۔ اب جس بچے کا رجحان تعلیم کی طرف ہوگا تو سمجھ لیں کہ اس طالب علم کی اسکول لائف پکنک کی مانند ہوگی۔ والدین خوش تو اساتذہ نہال۔ فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آنے والے طالب علم پوری کلاس نہیں بلکہ اسکول بھر میں مشہور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کم ذہین اور پڑھائی کی طرف رجحان نہ رکھنے والے کھیلوں اور تجارت کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اب جو طالب علم پڑھائی میں تیز ہے وہ کیوں منڈی کی جانب لپکے گا۔ اسے تو ہر حال میں مکتب یعنی کالج اور یونیورسٹی کی طرف بڑھنا ہے۔
ذہین طالب علم کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے ایک فیتے کو لے کر۔ ایسا غیر مناسب پیمانہ جو تمام انسانوں کی کامیابی کو پیسے کی انچ ٹیپ سے ناپے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو ہم حنیف محمد، مہدی حسن، حبیب جالب اور احمد ندیم قاسمی کو کہاں رکھیں؟معاشرے کا ہر مرد نہ کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ امیر۔ ہر کوئی فنکار و کھلاڑی نہیں بن سکتا۔ ہر ایک کا ایک شعبے میں جانے کا رجحان ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا خاندان تجارت کرتا تھا۔ سوچیے کہ اگر ان کا رجحان پڑھائی کی جانب نہ ہوتا اور وہ بیرسٹر بن کر سیاست میں نہ آتے تو کیا پاکستان قائم ہوتا؟ سوچیے مارکونی، گراہم بیل اور گلیلیو اگر لیبارٹری کے بجائے منڈی کا رخ کرکے ارب پتی بن جاتے تو ریڈیو، ٹیلی فون، پرنٹنگ پریس اور دور بین کون اور کب ایجاد کرتے؟ بتائیے کہ دنیا کا کون سا ارب پتی ان سے زیادہ مشہور اور قابل عزت ہے؟ بچے بچے کی زبان پر ان سائنسدانوں کا نام ہے یا ارب پتیوں کا۔
مسئلہ کیا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ایک بات چھوڑ دی ہے۔ غریب گھرانوں کے بچوں میں ایک عجیب و غریب کیفیت جنم لیتی ہے۔ بچپن میں عمدہ کھانے اور اچھے لباس کے لیے انھیں ترسنا پڑتا ہے۔ دوسروں کو دیکھ کر یقیناً کچھ احساس کمتری بھی جنم لیتا ہے۔ یہاں سے کچھ لوگ منڈی اور کچھ لوگ مکتب کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ فطری ذہانت اور تیز طبیعت کے ساتھ بچپن کی غربت انھیں مائل کرتی ہے کہ وہ امیر بن جائیں۔ اگر سو لوگ منڈی جاکر غربت مٹانے کی کوشش کریں تو پانچ دس کا کسی حد تک داؤ لگ جاتا ہے۔ قسمت یاوری کرتی ہے اور ان کا شمار اپنی نسل کے پہلے امیر آدمی میں ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح غریب گھرانے کے کسی شخص کا رجحان تعلیم کی طرف ہو تو اس کی بھی تیز نظر اور کامیاب انسان کو پرکھنے یا خوشامد کرنے کی صلاحیت اسے خوشحال بنا جاتی ہے۔ یہاں بھی خوش قسمتی کا تناسب پانچ یا دس فیصد کا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ نو دولتیے کا الزام سہتے سہتے کہنے لگتے ہیں کہ اپنی دنیا آپ بنانا ان کا اعزاز ہے۔ یہ دو حقیقتیں انھیں ہر اس شخص کو اپنا ہیرو ماننے پر مجبور کرتی ہیں جو جھونپڑی سے نکل کر محل میں آ جاتا ہے۔ پھر اس کی کامیابی و کامرانی کے وہ قلابے ملائے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ کامیابی کا معیار صرف اور صرف پیسے کو بنایا جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ناکام کاروباری لوگوں کو چھوڑ کر درجن بھر کا ذکر کیا جاتا ہے۔
منڈی کی اپنی ایک ضرورت ہے تو مکتب کی اپنی ایک اہمیت۔ ہمیں کھیل کے میدانوں اور سیاست کے ایوانوں کے لیے جوہر قابل درکار ہوتے ہیں۔ سائنسدان کا لیبارٹری میں ہونا اسی قدر لازمی ہے جتنا مزدور کا کارخانے میں ہونا۔ اگر کسان کھیتوں میں نہ ہو اور خاتون خانہ باورچی خانے میں نہ ہو تو ہم بھوکے مر جائیں۔ خدارا! تاجر کو منڈی اور استاد کو مکتب میں رہنے دیں۔ ہمارے دانشوروں کے لیے پیسے کو انچ ٹیپ بنا کر کسی طرح بھی مناسب نہیں موازنہ مکتب و منڈی۔