انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہر جرم دہشت گردی تصور ہوگا قانون میں ترمیم کا فیصلہ

دہشت گردی کی تعریف تبدیل کرکے زیادہ ترجرائم انسداد دہشت گردی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آجائیں گے

کسی پلیٹ فارم کو مسلکی یا مذہبی تشدد اور انتہاپسندی کے لیے استعمال کرنا بھی دہشت گردی ہو گی، اشتر اوصاف۔ وٹو: فائل

انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کرکے اس کے دائرہ کار کو مزید وسعت دی جارہی ہے۔


ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور دہشت گردی کیلیے مذہب کے استعمال کو روکنے کیلیے دہشت گردی کی تعریف میں تبدیلی کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق ترمیم کے بعد ذاتی دشمنی، گھریلو جھگڑے اور لین دین کی وجہ سے ہونیوالے تنازعات کے علاوہ بیشتر جرائم انسداد دہشت گردی کے قانون کے دائرہ اختیار میں شامل ہوجائیں گے۔ ترمیم کے تحت انسداد دہشت گردی عدالتوں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا جائیگا۔ اس حوالے سے جب ایکسپریس نے وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف اشتر علی اوصاف سے بات کی تو انہوں نے قانون میں ترمیم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت صرف وہ مقدمات دہشتگردی کے قانون کے تحت دائر ہوتے ہیں جس میں خود کار ہتھیار، دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا ہو یا پھر واردات کے پیچھے معاشرے میں خوف پھیلانا، نسلی، مسلکی یا مذہبی مقصد کو آگے بڑھانا ہو لیکن ترمیم کے بعد دہشتگردی کی تعریف میں تبدیلی کرکے اس کا دائرہ کار بڑھایا جارہا ہے، اب واردات میں خود کار ہتھیاروں اور دھماکا خیز مواد کا استعمال نہ بھی ہو لیکن یہ ثابت ہو کہ جرم کے پیچھے انتہاپسندانہ سوچ کار فرما ہے تو ملزم کیخلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کیس درج اور ٹرائل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی پلیٹ فارم کو مسلکی یا مذہبی تشدد یا انتہاپسندی کیلئے استعمال کرنا بھی دہشت گردی ہوگی۔ اشتر اوصاف نے بتایا کہ ترمیم کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اضافہ بھی کیا جائیگا۔
Load Next Story