نجکاری اور قومی تقاضے
آج کل پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے سلسلے میں سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں اچھی خاصہ بحث و مباحثہ جاری ہے۔
سقوطِ ڈھاکا کے فوراً بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو بچے کچے پاکستان کی حکمرانی سونپ دی گئی تو اُنہوں نے سوشلزم اور کمیونزم سے متاثر اپنے نظریات اور خیالات کے تحت اپنے پیشرو فیلڈ مارشل ایوب خان کی اُن تمام کوششوں اور کاوشوں پر سرے سے پانی پھیر دیا جنھیں بامراد اور کامیاب ہونے میں دس برس کا طویل عرصہ لگا تھا۔ اقتدار میں آتے ہی اُنہوں نے ملک کے تمام بڑے بڑے ادارے، محکمے اور کارخانے قومی ملکیت میں لے کر اُنہیں تنزلی کی جانب موڑ دیا۔
اُن میں سے بیشتر آج اپنا وجود ہی کھو بیٹھے ہیں اور جو باقی بھی رہ گئے اُن کے حالاتِ زار کوئی ایسے نہیں جن پر ہم فخر کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی صاحبزادی کو 1988ء میں پہلی بار اقتدار ملا تو اُنہوں نے ویسے تو اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھانے کا عندیہ دیا لیکن نیشنلائزیشن کی اُن کی سابقہ پالیسی سے یکسر اختلاف کرتے ہوئے اداروں کی ڈی نیشنلائزیشن کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کرپشن کو روک نہ سکیں۔ اِسی کرپشن کے باعث ہمارے کئی بڑے بڑے ادارے آج اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جن کو زندہ رکھنا اور جوں کا توں چلانا ہماری کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔
آج کل پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے سلسلے میں سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں اچھی خاصہ بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے اپنی نجکاری پالیسی سے متعلق آئی ایم ایف کے ساتھ جو عہد و پیمان کیے ہوئے ہیں اُس میں پی آئی اے کو اِس سال دسمبر تک او ر پاکستان اِسٹیل ملز کو مارچ 2016ء تک پرائیوٹائز کر دیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ہر ماہ ملکی خزانے سے اربوں روپے لے کر اپنے ملازمین کی صرف تنخواہیں اور اخراجات ہی پوری کر رہے ہیں۔ اُن کے اپنے اندر یہ صلاحیت اب باقی نہیں رہی ہے کہ وہ خود سے فنڈ جنریٹ کر کے اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ پی آئی اے کا حال ہم سب کو معلوم ہے۔ اُس کے پاس صرف 44 طیارے ایسے ہیں جو پرواز کے قابل ہیں اور اِس ادارے میں ملازمین کی تعداد اِس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک جہاز کی خدمت اور سروس کے لیے 550 افراد مامور ہیں۔ جو دنیا کی کسی بھی ائیرلائن کے نسبت بہت زیادہ ہے۔
ایسا ہی کچھ حال پاکستان اسٹیل ملز کا بھی ہے۔ اُس کی پیداواری صلاحیت گھٹتے گھٹتے اب صرف چند فیصد رہ گئی ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ جو پارٹی اِس اسٹیل ملز کو بنانے کا دعوی ٰ کرتی رہی ہے وہی اِس کی تباہی و بربادی کی اصل ذمے دار بتائی جاتی ہے۔ 1988 ء کے بعد برسرِاقتدار آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اِسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے وہاں اعلیٰ عہدوں اور نچلی سطح پر ایسے ایسے لوگ بھرتی کیے جن کا کام صرف اور صرف اِسے لوٹ کر کھا جانا تھا۔ گرچہ احتساب کے ناقص اور کمزور طریقہ کار نے قصورواروں سزا سے بچا لیا۔
اُس زمانے میں ایک فرنٹ مین کا تذکرہ ہمارے پرنٹ میڈیا میں بہت آتا رہا۔ گرچہ اُس کا اسٹیل ملز سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کس کے لیے کام کرتا تھا اور جو کچھ اُس نے وہاں سے کمایا اُس میں سے اصل اور بڑی اماؤنٹ کسے جاتی تھی یہ کوئی اب خفیہ راز نہیں ہے۔ مزدور دوستی کے نام پر اداروں میں اُن کی گنجائش سے زیادہ افراد کی بھرتی کر کے اُنہیں اُس حد تک پہنچا دیا جائے کہ وہ خود بخود زمین بوس ہو جائیں اور پھر اگر کوئی اُنہیں پرائیوٹائز کرنے کی کوشش کرے تو ایک بار پھر مزدور دوستی کا نعرہ بلند کر کے اُس کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ یہ سب کیا ہے؟
پاکستان اسٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت اب تقریبا صفر ہو کر رہ گئی ہے اور اُس کے ماہانہ اخراجات اربوں روپوں میں ہیں جو قومی خزانے سے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وزیرِاعظم شوکت عزیز کے دور میں اِسے سعودی عرب کی ایک کمپنی کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اگست 2006ء میں ہماری سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے سے اِس سلسلے میں ہونے والے معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ پھر اِسے پھر سے فعال اور منافع بخش بنانے کی کوششیں کی گئیں جو سب کی سب رائیگاں گئیں۔
موجودہ حکومت اب اِسے پرائیویٹ سیکٹر میں دینے کے لیے پرعزم اور سرگرم ہو گئی ہے۔ لیکن ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ وہ اِسے حکومتِ سندھ کے حوالے کرنے پر شاید تیار ہو گئی ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر وفاقی حکومت اِس ہر قیمت پر کسی کو دینا چاہتی ہے تو بہتر ہے کہ ہمیں دیدے۔ اُن کے بقول اِسے جس پارٹی کے قائد نے بنایا تھا تو وہی اِس کی حقدار بھی ہے۔ ویسے بھی تمام صوبوں کی کارکردگی میں حکومتِ سندھ کی کارکردگی سب سے نچلی سطح پر ہے۔
پیپلز پارٹی اگر اِسے بہتر طور پر چلانا جانتی ہے تو وہ اُس وقت کیوں نہیں چلا پائی جب وفاق اور سندھ دونوں جگہ خود اُس کی اپنی حکومت تھی۔ اب اچانک کیسے اُسے منافع بخش بنانے کی چھڑی اُس کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ ابھی نیب اور رینجرز کے ہاتھوں اُس کا کچا چٹھا سامنے آ رہا ہے ایسے میں اتنا اہم اور بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے وفاقی حکومت کو عوام کی رائے بھی معلوم کر لینی چاہیے۔ حکومت اگر ہر قیمت پر اِس سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے تو اِسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں نیلام کر دے ۔ اِس طرح کم ازکم کچھ نہ کچھ رقم تو قومی خزانے میں واپس آ جائے گی بصورتِ دیگر یہ یونہی مزید چند بڑے بڑے لوگوں کی کرپشن کی نذر ہو جائے گا۔ نہ عوام کو کچھ مل پائے گا اور نہ حکومت کو۔
اُن میں سے بیشتر آج اپنا وجود ہی کھو بیٹھے ہیں اور جو باقی بھی رہ گئے اُن کے حالاتِ زار کوئی ایسے نہیں جن پر ہم فخر کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی صاحبزادی کو 1988ء میں پہلی بار اقتدار ملا تو اُنہوں نے ویسے تو اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھانے کا عندیہ دیا لیکن نیشنلائزیشن کی اُن کی سابقہ پالیسی سے یکسر اختلاف کرتے ہوئے اداروں کی ڈی نیشنلائزیشن کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کرپشن کو روک نہ سکیں۔ اِسی کرپشن کے باعث ہمارے کئی بڑے بڑے ادارے آج اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جن کو زندہ رکھنا اور جوں کا توں چلانا ہماری کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔
آج کل پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے سلسلے میں سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں اچھی خاصہ بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے اپنی نجکاری پالیسی سے متعلق آئی ایم ایف کے ساتھ جو عہد و پیمان کیے ہوئے ہیں اُس میں پی آئی اے کو اِس سال دسمبر تک او ر پاکستان اِسٹیل ملز کو مارچ 2016ء تک پرائیوٹائز کر دیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ہر ماہ ملکی خزانے سے اربوں روپے لے کر اپنے ملازمین کی صرف تنخواہیں اور اخراجات ہی پوری کر رہے ہیں۔ اُن کے اپنے اندر یہ صلاحیت اب باقی نہیں رہی ہے کہ وہ خود سے فنڈ جنریٹ کر کے اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ پی آئی اے کا حال ہم سب کو معلوم ہے۔ اُس کے پاس صرف 44 طیارے ایسے ہیں جو پرواز کے قابل ہیں اور اِس ادارے میں ملازمین کی تعداد اِس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک جہاز کی خدمت اور سروس کے لیے 550 افراد مامور ہیں۔ جو دنیا کی کسی بھی ائیرلائن کے نسبت بہت زیادہ ہے۔
ایسا ہی کچھ حال پاکستان اسٹیل ملز کا بھی ہے۔ اُس کی پیداواری صلاحیت گھٹتے گھٹتے اب صرف چند فیصد رہ گئی ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ جو پارٹی اِس اسٹیل ملز کو بنانے کا دعوی ٰ کرتی رہی ہے وہی اِس کی تباہی و بربادی کی اصل ذمے دار بتائی جاتی ہے۔ 1988 ء کے بعد برسرِاقتدار آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اِسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے وہاں اعلیٰ عہدوں اور نچلی سطح پر ایسے ایسے لوگ بھرتی کیے جن کا کام صرف اور صرف اِسے لوٹ کر کھا جانا تھا۔ گرچہ احتساب کے ناقص اور کمزور طریقہ کار نے قصورواروں سزا سے بچا لیا۔
اُس زمانے میں ایک فرنٹ مین کا تذکرہ ہمارے پرنٹ میڈیا میں بہت آتا رہا۔ گرچہ اُس کا اسٹیل ملز سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کس کے لیے کام کرتا تھا اور جو کچھ اُس نے وہاں سے کمایا اُس میں سے اصل اور بڑی اماؤنٹ کسے جاتی تھی یہ کوئی اب خفیہ راز نہیں ہے۔ مزدور دوستی کے نام پر اداروں میں اُن کی گنجائش سے زیادہ افراد کی بھرتی کر کے اُنہیں اُس حد تک پہنچا دیا جائے کہ وہ خود بخود زمین بوس ہو جائیں اور پھر اگر کوئی اُنہیں پرائیوٹائز کرنے کی کوشش کرے تو ایک بار پھر مزدور دوستی کا نعرہ بلند کر کے اُس کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ یہ سب کیا ہے؟
پاکستان اسٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت اب تقریبا صفر ہو کر رہ گئی ہے اور اُس کے ماہانہ اخراجات اربوں روپوں میں ہیں جو قومی خزانے سے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وزیرِاعظم شوکت عزیز کے دور میں اِسے سعودی عرب کی ایک کمپنی کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اگست 2006ء میں ہماری سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے سے اِس سلسلے میں ہونے والے معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ پھر اِسے پھر سے فعال اور منافع بخش بنانے کی کوششیں کی گئیں جو سب کی سب رائیگاں گئیں۔
موجودہ حکومت اب اِسے پرائیویٹ سیکٹر میں دینے کے لیے پرعزم اور سرگرم ہو گئی ہے۔ لیکن ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ وہ اِسے حکومتِ سندھ کے حوالے کرنے پر شاید تیار ہو گئی ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر وفاقی حکومت اِس ہر قیمت پر کسی کو دینا چاہتی ہے تو بہتر ہے کہ ہمیں دیدے۔ اُن کے بقول اِسے جس پارٹی کے قائد نے بنایا تھا تو وہی اِس کی حقدار بھی ہے۔ ویسے بھی تمام صوبوں کی کارکردگی میں حکومتِ سندھ کی کارکردگی سب سے نچلی سطح پر ہے۔
پیپلز پارٹی اگر اِسے بہتر طور پر چلانا جانتی ہے تو وہ اُس وقت کیوں نہیں چلا پائی جب وفاق اور سندھ دونوں جگہ خود اُس کی اپنی حکومت تھی۔ اب اچانک کیسے اُسے منافع بخش بنانے کی چھڑی اُس کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ ابھی نیب اور رینجرز کے ہاتھوں اُس کا کچا چٹھا سامنے آ رہا ہے ایسے میں اتنا اہم اور بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے وفاقی حکومت کو عوام کی رائے بھی معلوم کر لینی چاہیے۔ حکومت اگر ہر قیمت پر اِس سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے تو اِسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں نیلام کر دے ۔ اِس طرح کم ازکم کچھ نہ کچھ رقم تو قومی خزانے میں واپس آ جائے گی بصورتِ دیگر یہ یونہی مزید چند بڑے بڑے لوگوں کی کرپشن کی نذر ہو جائے گا۔ نہ عوام کو کچھ مل پائے گا اور نہ حکومت کو۔