جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
آج کے ترقی یافتہ دور میں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا ہر طرف چرچا ہے
جب مسلمان ابن رشدکی کتابیں جلا رہے تھے تو ابن رشد کا ایک شاگرد رونے لگا، ابن رشد نے اسے کہا اگر تم ان لوگوں کی علم کی بے قدری پر رو رہے ہو تو یاد رکھو دنیا بھر کے سمندروں کے برابر آنسو بہانے سے بھی ان کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اگر تم کتابوں کے جلائے جانے پر رو رہے ہو تو جان لو سوچ کے پَر ہوتے ہیں اور وہ اڑ کر اپنے قدردان کو تلاش کر ہی لے گی۔ ابن رشد ایک فلسفی، ریاضی دان، ماہر علم فلکیات، ماہر فن طب اور مقنن تھے۔
خلیفہ المنصور نے کفر کا فتویٰ عائد کر کے ان کی تمام کتابیں جلا دیں۔ ابن رشد کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ ''انسان کا ذہن محض ایک طرح کی صلاحیت یا طبع ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کر کے اُسے عملی شکل دیتا ہے، انسان از خود یا پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ تمام انسانوں میں ذہانت مشترک ہے اور شخصی دوام کا نظریہ بے بنیاد ہے، نیز مذہب اور فلسفیانہ حقیقت میں تضاد ممکن ہے۔''
ابو یوسف یعقوب المنصور کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلفیہ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے قاضی القضاۃ اور طبیب خاص پر کفرکا الزام لگا کر ایسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں یہودی رہتے ہیں) ملک بدر کر دے، خلیفہ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگا دی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کر دی۔ ایک عظیم دماغ کے نچوڑ اور برسہا برس کی محنت کو جلا کر خاکسترکر دیا گیا بعد میں خلیفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھیں دوبارہ دربار میں شامل کر دیا لیکن زندگی کے چار دن پورے ہو چکے تھے اور ابن رشد اور خلفیہ المنصور دونوں ہی اسی سال یعنی1198 عیسوی کو مراکش میں انتقال کر گئے۔
ابن رشد کا خاص تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا ہر طرف چرچا ہے۔ خاص طور پر یورپ و امریکا میں ویمنز لِب پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے حقوق نسواں کا آئیڈیا کہاں سے لیا۔ شائد یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یورپ میں حقوق نسواں کا سب سے پہلا علم بردار ابن رشد قرطبی تھا۔
افلاطون کی کتاب الجمہوریہ افلاطون کی شرح متوسط میں ابن رشد نے لکھا کہ عورتیں تمام معاملات میں مساوی ہیں امن اور جنگ میں مردوں اور عورتوں کی قابلیتیں ایک جیسی ہیں۔ ان کے یہ نظریات الحاد قرار دیے گئے جس کی پاداش میں جو ان کے ساتھ ہوا وہ تاریخ میں سیاہ حرفوں میں لکھا جائے گا۔ اسپین کے اس بڑے فلسفی و حکیم پر یہی الزام تھا کہ وہ کائنات کی قدرت، بقا، روح اور حشر و نشر کے عقائد سے متعلق تھے وہ مروجہ عقائد اسلامی کے بالکل منکر نہ تھے لیکن وہ ان کو عقل و فلسفے کے مطابق کرنا چاہتے تھے وہ کہتے تھے کہ قرآن میں اگر کوئی بیان ایسا نظر آتا ہے جو عقل کے خلاف ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا مفہوم کچھ اور ہے جسے عقلی حیثیت سے سمجھنا چاہے، علما ظواہر، ان ہی عقائد کی وجہ سے مخالف تھے اور ملحد کہتے تھے۔
ایک smoker کا کہنا تھا کہ I always think to get red of smoking but for thinking , I need a cigarette. کچھ ایسا عمل اسلام کے ساتھ بھی ہو رہا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی نظریاتی اساس کو جلایا جا رہا ہے۔ اس کی داخلی اور بیرونی پالیسیوں کو الحاد سمجھ کر خاکستر کیا جا رہا ہے۔ ہم مسلمان لوگ آگ سے آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہماری یہ حکمت عملی ہمیں مستقبل میں کبھی کوئی فائدہ دے سکے گی۔
ابھی تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ کسی مسلم ملک پر جب بھی کوئی الزام لگتا ہے تو ایسے گورنمنٹ کسی بھی طرح بھی respond کرنے کے لیے pro-actively تیار نہیں ہوتی اور ہمیشہ fumble کر جاتی ہے یا پریشانی میں ایسی بات کر جاتی ہے جس کو بعد میں exploit بھی کیا جاتا ہے۔
کافی عرصے بعد ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بڑے ٹھوس انداز میں بات کی گئی اور پاکستان کی جانب سے دیے جانے والے فارمولے کو جس طرح بھارت نے رد کیا۔ اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں استحکام پیدا ہوا، ملک کا وزیر اعظم جب اقوام متحدہ سے واپس آتا ہے تو اس پر بہت تنقید کی جاتی ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔
ہمارے ملک کی خود مختاری کو ہمیشہ Hurt کیا جاتا ہے impair ہوتی ہے۔ پہلی بار پاکستان نے مغربی طاقتوں سے ڈومور کا مطالبہ کیا جو یقینی طور پاکستان کی ٹھوس حکمت عملی کی جیت بن کر سامنے آئی ہے۔ کشمیری مسئلے کی اہمیت کو بڑی قوت کے ساتھ اجاگر کیا گیا اور بھارت کو مستقل سلامتی کونسل کی نشست نہ ملنے پر شدید خفت اور ہزئمیت کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت ہمیشہ ہم پر پریشر ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن ایسے یہ یاد کرانے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے کہ پاکستان جب 1948ء میں جنگ لڑ سکتا ہے تو 2015ء میں ہمارے پاس وہ کچھ جو بھارت کے پاس نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر جو جذبہ ہے وہ دوسری کسی قوم میں نہیں ہے۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا کہ صرف ہتھیاروں کی مدد سے کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ قوم کو بھی ساتھ دینا پڑتا ہے جب تک قوم ساتھ نہیں ہوتی تو 1971ء کی طرح کے سانحے کسی بھی وقت رونما ہو سکتے ہیں۔ ہمیں عقائد اور مسلک کے نام پر الجھا دیا گیا ہے اور بچے کچے دانشور قوم پرستی اور لسانیت کے پرچارک بن کر دو قومی نظریے کو لگی آگ میں مزید ایندھن دینے کا سبب بن رہے ہیں۔
مسلم ممالک کو اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور یہ مسلم قومیت کو ایک تشخص دے سکتا ہے لیکن جب کفر، الحاد اور مسالک پر مبنی ادارے ہزاروں کی تعداد میں انسانی میزائل پیدا کرتے رہیں گے تو کسی بھی مسلم ملک میں اسلامی تشخص درست طریقے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے اور قوم جنگل میں گم ہو کر اپنے تئیں منزل کو تلاش کر رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ہے۔
ہر معاشرے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں دیگر معاشروں کے بھی ماضی میں اپنے مخصوص مسائل تھے تاہم ان معاشروں نے آزاد سوچ کے حامل مفکرین ، نقاد اور فلسفیوں کو آگے آنے کا موقع دیا، ان لوگوں نے بغیر کسی قید و بند کے معاشرتی امراض پر کھل کر آزادانہ تنقید کی اور خرابیوں اکے اسباب و سدباب پر کھل کر روشنی ڈالی ، یہودی معاشرے میں سپینوزا، کارل مارکس اورآئن سٹائن و دیگر جیسے نابغہ روزگار پیدا کیے تو عیسائی معاشروں نے بھی ڈیکارٹ ، کانٹ ، ڈیوڈ ہیوم اور برٹرینڈ رسل جیسے بڑے مفکر پیدا کیے، ان مفکرین نے مذہب کے نام نہاد رہنماؤں کو بھی بُری طرح لتاڑا۔ بد قسمتی سے اسلامی معاشروں نے تمام تر معاشرتی خرابیوں کے باوجود کبھی بھی سنجیدگی سے اپنے آزاد مصلحین و مفکرین کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا، خاص طور سے گزشتہ آٹھ سو سال میں۔ اسلامی دنیا میں ترقی کا ایک دور ایسا سنہرا بھی گزرا ہے۔
جس میں ایجادات و ترقی نے انسانی سوچ کے پیمانوں کو پستی سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا ۔ 800سے 1200عیسوی کے بعد سے شریعت کو اپنے مزاج کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ حضرت نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین کے بعد شریعت کے معنی بدلنا شروع ہوگئے اور ابن رشد جیسے ان گنت فلسفیوں کی برسہا برس کی تحقیق کو حسد کی آگ نے جلا کر خا کستر کر دیا۔
یہ آگ آج تک نہیں بجھی ہے ہم ایسے آج بھی مسلم ممالک میں دیکھتے ہیں ، سعودی عرب ہو یا ایران ، عراق ہو شام ، مصر ہو یا ترکی ، یمن ہو یا فلسطین ، لبنان ہو یا پاکستان ، جتنے بھی مسلم ممالک کو دیکھیں گے وہ خود اجتہاد کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں اس پر کفر کا فتوی لگا کر مار ڈالتے ہیں۔ پاکستان بھی ایسے ہی مسلم ممالک کی فہرست میں بدقسمتی سے شامل ہے۔
خلیفہ المنصور نے کفر کا فتویٰ عائد کر کے ان کی تمام کتابیں جلا دیں۔ ابن رشد کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ ''انسان کا ذہن محض ایک طرح کی صلاحیت یا طبع ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کر کے اُسے عملی شکل دیتا ہے، انسان از خود یا پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ تمام انسانوں میں ذہانت مشترک ہے اور شخصی دوام کا نظریہ بے بنیاد ہے، نیز مذہب اور فلسفیانہ حقیقت میں تضاد ممکن ہے۔''
ابو یوسف یعقوب المنصور کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلفیہ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے قاضی القضاۃ اور طبیب خاص پر کفرکا الزام لگا کر ایسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں یہودی رہتے ہیں) ملک بدر کر دے، خلیفہ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگا دی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کر دی۔ ایک عظیم دماغ کے نچوڑ اور برسہا برس کی محنت کو جلا کر خاکسترکر دیا گیا بعد میں خلیفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھیں دوبارہ دربار میں شامل کر دیا لیکن زندگی کے چار دن پورے ہو چکے تھے اور ابن رشد اور خلفیہ المنصور دونوں ہی اسی سال یعنی1198 عیسوی کو مراکش میں انتقال کر گئے۔
ابن رشد کا خاص تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا ہر طرف چرچا ہے۔ خاص طور پر یورپ و امریکا میں ویمنز لِب پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے حقوق نسواں کا آئیڈیا کہاں سے لیا۔ شائد یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یورپ میں حقوق نسواں کا سب سے پہلا علم بردار ابن رشد قرطبی تھا۔
افلاطون کی کتاب الجمہوریہ افلاطون کی شرح متوسط میں ابن رشد نے لکھا کہ عورتیں تمام معاملات میں مساوی ہیں امن اور جنگ میں مردوں اور عورتوں کی قابلیتیں ایک جیسی ہیں۔ ان کے یہ نظریات الحاد قرار دیے گئے جس کی پاداش میں جو ان کے ساتھ ہوا وہ تاریخ میں سیاہ حرفوں میں لکھا جائے گا۔ اسپین کے اس بڑے فلسفی و حکیم پر یہی الزام تھا کہ وہ کائنات کی قدرت، بقا، روح اور حشر و نشر کے عقائد سے متعلق تھے وہ مروجہ عقائد اسلامی کے بالکل منکر نہ تھے لیکن وہ ان کو عقل و فلسفے کے مطابق کرنا چاہتے تھے وہ کہتے تھے کہ قرآن میں اگر کوئی بیان ایسا نظر آتا ہے جو عقل کے خلاف ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا مفہوم کچھ اور ہے جسے عقلی حیثیت سے سمجھنا چاہے، علما ظواہر، ان ہی عقائد کی وجہ سے مخالف تھے اور ملحد کہتے تھے۔
ایک smoker کا کہنا تھا کہ I always think to get red of smoking but for thinking , I need a cigarette. کچھ ایسا عمل اسلام کے ساتھ بھی ہو رہا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی نظریاتی اساس کو جلایا جا رہا ہے۔ اس کی داخلی اور بیرونی پالیسیوں کو الحاد سمجھ کر خاکستر کیا جا رہا ہے۔ ہم مسلمان لوگ آگ سے آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہماری یہ حکمت عملی ہمیں مستقبل میں کبھی کوئی فائدہ دے سکے گی۔
ابھی تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ کسی مسلم ملک پر جب بھی کوئی الزام لگتا ہے تو ایسے گورنمنٹ کسی بھی طرح بھی respond کرنے کے لیے pro-actively تیار نہیں ہوتی اور ہمیشہ fumble کر جاتی ہے یا پریشانی میں ایسی بات کر جاتی ہے جس کو بعد میں exploit بھی کیا جاتا ہے۔
کافی عرصے بعد ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بڑے ٹھوس انداز میں بات کی گئی اور پاکستان کی جانب سے دیے جانے والے فارمولے کو جس طرح بھارت نے رد کیا۔ اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں استحکام پیدا ہوا، ملک کا وزیر اعظم جب اقوام متحدہ سے واپس آتا ہے تو اس پر بہت تنقید کی جاتی ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔
ہمارے ملک کی خود مختاری کو ہمیشہ Hurt کیا جاتا ہے impair ہوتی ہے۔ پہلی بار پاکستان نے مغربی طاقتوں سے ڈومور کا مطالبہ کیا جو یقینی طور پاکستان کی ٹھوس حکمت عملی کی جیت بن کر سامنے آئی ہے۔ کشمیری مسئلے کی اہمیت کو بڑی قوت کے ساتھ اجاگر کیا گیا اور بھارت کو مستقل سلامتی کونسل کی نشست نہ ملنے پر شدید خفت اور ہزئمیت کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت ہمیشہ ہم پر پریشر ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن ایسے یہ یاد کرانے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے کہ پاکستان جب 1948ء میں جنگ لڑ سکتا ہے تو 2015ء میں ہمارے پاس وہ کچھ جو بھارت کے پاس نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر جو جذبہ ہے وہ دوسری کسی قوم میں نہیں ہے۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا کہ صرف ہتھیاروں کی مدد سے کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ قوم کو بھی ساتھ دینا پڑتا ہے جب تک قوم ساتھ نہیں ہوتی تو 1971ء کی طرح کے سانحے کسی بھی وقت رونما ہو سکتے ہیں۔ ہمیں عقائد اور مسلک کے نام پر الجھا دیا گیا ہے اور بچے کچے دانشور قوم پرستی اور لسانیت کے پرچارک بن کر دو قومی نظریے کو لگی آگ میں مزید ایندھن دینے کا سبب بن رہے ہیں۔
مسلم ممالک کو اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور یہ مسلم قومیت کو ایک تشخص دے سکتا ہے لیکن جب کفر، الحاد اور مسالک پر مبنی ادارے ہزاروں کی تعداد میں انسانی میزائل پیدا کرتے رہیں گے تو کسی بھی مسلم ملک میں اسلامی تشخص درست طریقے سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے اور قوم جنگل میں گم ہو کر اپنے تئیں منزل کو تلاش کر رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ہے۔
ہر معاشرے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں دیگر معاشروں کے بھی ماضی میں اپنے مخصوص مسائل تھے تاہم ان معاشروں نے آزاد سوچ کے حامل مفکرین ، نقاد اور فلسفیوں کو آگے آنے کا موقع دیا، ان لوگوں نے بغیر کسی قید و بند کے معاشرتی امراض پر کھل کر آزادانہ تنقید کی اور خرابیوں اکے اسباب و سدباب پر کھل کر روشنی ڈالی ، یہودی معاشرے میں سپینوزا، کارل مارکس اورآئن سٹائن و دیگر جیسے نابغہ روزگار پیدا کیے تو عیسائی معاشروں نے بھی ڈیکارٹ ، کانٹ ، ڈیوڈ ہیوم اور برٹرینڈ رسل جیسے بڑے مفکر پیدا کیے، ان مفکرین نے مذہب کے نام نہاد رہنماؤں کو بھی بُری طرح لتاڑا۔ بد قسمتی سے اسلامی معاشروں نے تمام تر معاشرتی خرابیوں کے باوجود کبھی بھی سنجیدگی سے اپنے آزاد مصلحین و مفکرین کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا، خاص طور سے گزشتہ آٹھ سو سال میں۔ اسلامی دنیا میں ترقی کا ایک دور ایسا سنہرا بھی گزرا ہے۔
جس میں ایجادات و ترقی نے انسانی سوچ کے پیمانوں کو پستی سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا ۔ 800سے 1200عیسوی کے بعد سے شریعت کو اپنے مزاج کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ حضرت نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین کے بعد شریعت کے معنی بدلنا شروع ہوگئے اور ابن رشد جیسے ان گنت فلسفیوں کی برسہا برس کی تحقیق کو حسد کی آگ نے جلا کر خا کستر کر دیا۔
یہ آگ آج تک نہیں بجھی ہے ہم ایسے آج بھی مسلم ممالک میں دیکھتے ہیں ، سعودی عرب ہو یا ایران ، عراق ہو شام ، مصر ہو یا ترکی ، یمن ہو یا فلسطین ، لبنان ہو یا پاکستان ، جتنے بھی مسلم ممالک کو دیکھیں گے وہ خود اجتہاد کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں اس پر کفر کا فتوی لگا کر مار ڈالتے ہیں۔ پاکستان بھی ایسے ہی مسلم ممالک کی فہرست میں بدقسمتی سے شامل ہے۔