سعید شہیدِ علم و حکمت
قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔
''اس سے قبل کہ آپ ہمیں ماریں، کیوں نہ ہم آپ کو قتل کردیں''
یہ وہ دھمکی تھی جو حکیم محمد سعید کو ان کی شہادت کے چند دنوں قبل موصول ہوئی تھی۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ جو پاکستان کی بقا کے دشمن ہیں انہیں گولی ماردینی چاہیے۔ نہایت امن پسند اور نرم مزاج حکیم محمد سعید نے یہ بیان پاکستان کی محبت میں دیا تھا جو پاکستان کے نام پر ہمہ وقت قربان ہونے کو تیار تھے اور اسی کے لیے بھارت میں نہایت سکون اور آرام کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
آخر کیوں نہ ہو، حکیم محمد سعید شہید پاکستان کو سورۃ رحمٰن کی نعمتوں کی عملی تفسیر سمجھتے تھے، جو بھارت میں اپنے بڑوں کا کاروبار، بزرگوں کی قبریں اور سب کچھ چھوڑ کر دو جوڑی کپڑے لے کر پاکستان آگئے اور آخر دم تک اسی کی عظمت کے لیے کام کرتے رہے۔ کئی ماہ تک نوکری کی تلاش میں جوتے گھس کر پھٹ گئے لیکن جنون نہ ہارا۔ پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے 9 جنوری 1920 کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ 2 برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔
لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کیساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔
پھر ہوا یوں کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔ پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیاء میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔ کراچی آکر 50 روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے 12 روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا، پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمت کے لیے باقاعدہ وقف کردیا یعنی ادارے کا منافع خدمتِ خلق کے لیے وقف کردیا گیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔
گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ انہیں غیر ملکی دوروں میں جو رقم سرکاری خرچ کے لئے ملی وہ بھی واپس کردی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے 14 اگست 1958 میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔ حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
بچوں سے محبت
آج ملک میں ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے لیکن ان کے پاس بچوں کے لیے ایک منٹ بھی نہیں۔ حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔ لیکن آج پاکستان کے بچے بھوک، بیماری، جہالت اور غربت کے شکار ہیں لیکن کوئی دل نہیں جو پسیجتا ہوں۔ انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی 1953 میں ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے، جو آج بھی پڑھنے کے قابل ہیں۔ آج پاکستان میں ایک نسل موجود ہے جس نے ہمدرد نونہال اور نونہال ادب کی کتابیں پڑھ کر خود کو سنوارا ہے۔
علم کی تڑپ اور احترامِ عالم
علم سے محبت، بچوں سے لگاؤ، پاکستان سے عشق، انسانیت کا احترام اور سائنس کا جنون ایک جگہ جمع ہوجائیں تو حکیم محمد سعید کا خمیر بنتا ہے۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے تڑپتے ہوئے سعید نے 35 سال تک شامِ ہمدرد اور ہمدرد شوریٰ کو جاری رکھا جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر سے سائنسداں، شاعر، ادیب، اسکالر، دانشور ملکی مسائل پر اپنی رائے اور فکر بیان کرتے اور قوم کو روشنی دکھاتے رہے۔ اگر ان تجاویز میں سے نصف پر بھی عمل ہوجاتا تو پاکستان آج کہیں اور ہوتا۔ دوسرا اہم کام یہ کیا گیا کہ پاکستان کے خیرخواہوں کو یہاں بلاکر ان کا احترام کیا گیا۔ مثلاً جب ماسکو یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسر مادام لُدمِلا ویسیلوا کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے تو مادام کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حکیم صاحب نے ایسی اہم شاموں کی روداد عوام تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جو بلاشبہ ایک ادارے کا کام تھا لیکن ایک شخص نے کیا۔
کراچی میں ''مدینتہ الحکمت'' نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اور علم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے، جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔ حکیم سعید کو کتابوں سے اتنی محبت تھی کہ ایک مرتبہ کہا کہ
''میری حالت یہ ہے کہ اگر مجھے اچھی کتابیں کہیں نظر آجائیں تو میں اپنے کپڑے فروخت کرکے خرید لوں''
حکیم صاحب نے لڑکپن میں ہی اس وقت کی مشہور کتابوں کا مطالعہ کرلیا تھا اور ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالتے تھے۔ حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لا تعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا۔ وہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 10 ہزار افراد کو عیدین اور نئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان، ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ ہر خط کا جواب خود دیا کرتے تھے اور دنیا بھر کے خطوط کا جواب دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ وصول کرنے والے عید اور سالگرہ کارڈز کا بھی جواب دیا کرتے تھے۔
ممتاز قلمکار ستار طاہر، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔ میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں 5 ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیاری کیلئے کمر بستہ ہوں۔ ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور ان کے کئی اقوال آج بھی بہت مقبول ہیں جنہیں اگر نئی نسل نعرہ بناکر عمل کرے تو بہت بہتر ہوگا۔
''پاکستان سے محبت کرو، پاکستان کی تعمیر کرو''
''علم سے محبت اور استاد کی عزت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا''
''پاکستان میں فروغِ علم پر تو کام ہوا ہے لیکن تخلیقِ علم کی اشد ضرورت ہے''
''بقائے صِحت کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے قلب کو بھی پاک صَاف رکھے''
''یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ فرائِض ادا کیے بغیر حقوق حاصِل ہو جائیں''
''ایسی ریاست جس میں ہر انسان مطمئن اور محفوظ ہو اسلامی فلاحی ریاست ہے''
''ایمان روشنی ہے، کفر تاریکی ہے، قرآنِ حکیم کا مقصدِ نزول کفر کی تاریکی کو ایمان کی روشنی سے بدل دینا ہے''
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی شہادت سے چند ہفتوں قبل ان کے قتل کی افواہ اڑی تو اس نے ہر درد مند پاکستانی کو مضطرب کردیا، جبکہ اس وقت اتنے ٹی وی چینلز نہیں تھے۔ پھر 17 اکتوبر 1998 کی صبح آگئی جب انہیں کراچی میں ان کے مطب کے باہر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور دنیا نے یہ المناک منظر بھی دیکھا کہ پاکستان کے ایک درویش صفت انسان کی لاش نصف گھنٹے تک زمین پر پڑی رہی، اس مسیحا کی لاش جس نے زندگی بھر لاکھوں انسانوں کا مفت علاج کیا تھا۔
[poll id="717"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس