ہمارا الیکشن

11 اکتوبر کا دن سیاسی لاہور کا ایک یادگار دن تھا کہ یہ سیاسی کشیدگی اور سرمائے کے قدیم تنازعے کا ایک دن بننے والا تھا

Abdulqhasan@hotmail.com

گزشتہ اتوار یعنی 11 اکتوبر کا دن سیاسی لاہور کا ایک یادگار دن تھا کہ یہ سیاسی کشیدگی اور سرمائے کے قدیم تنازعے کا ایک دن بننے والا تھا۔ دونوں مدمقابل سرمائے کی بوریوں پر بیٹھے تھے اور ان کی خون پسینے کی کمائی کو لوٹا جا رہا تھا مگر یہ ایسی لوٹ تھی کہ جس پر لٹنے اور لوٹنے والے دونوں خوش تھے کیونکہ یہ الیکشن کا دن تھا جن کے پاس ووٹ تھا وہ لوٹ رہے تھے اور جن کے پاس متوقع اقتدار تھا وہ بخوشی لٹ رہے تھے۔ ہمارے ہاں الیکشن میں یہی کچھ ہوتا ہے جو پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن جیسا بھرپور اور عوام گیر واقعہ نظریاتی چپقلش کا دن ہونا چاہیے۔

بہر حال یہ وقت تو صرف ایک بار قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کے وقت آیا تھا جب اس خطے کے لوگوں نے ایک نظریاتی ملک کے لیے ووٹ دیے تھے انھوں نے تو اس الیکشن میں زندگیاں تک قربان کر دی تھیں مگر ان کا بیمار لیڈر اپنی بیماری کو چھپاتے ہوئے اس پاکستان سے گزر گیا جو اس قوم کے لیے اس کی زندگی کے تابناک لمحوں کا عطیہ تھا، یوں تو وہ پاکستان کا پہلا حکمران بھی بن گیا تھا اور اپنے نظریات کے نفاذ میں مصروف ہو گیا تھا لیکن اس کے کچھ ساتھی اس کی بیماری کی تاک میں تھے اور کچھ اس سخت گیر بیمار لیڈر کی زندگی کے بعد کے دور کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے تھے۔

سوائے اس کے بانی کے، پاکستان کے لیے کوئی بھی تیاری نہیں کر رہا تھا چنانچہ ادھر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی آنکھیں بند ہوئیں پاکستان ان کی نظروں سے اوجھل ہوا اور اپنی اپنی اوقات اور حیثیت کے مطابق پاکستان جیسے نئے ملک پر جھپٹ پڑے۔ قصہ مختصر آج ہم اسی پاکستان پر حکمرانی کے لیے ایک اور الیکشن سے گزرے ہیں۔ الیکشن کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں نے بتایا ہے کہ اربوں روپے الیکشن پر خرچ کر دیے گئے ہیں۔

الیکشن ایک مہنگا سودا ہے اس پر حسب توفیق خرچ کیا جاتا ہے۔ دونوں امیدواروں کو خدا نے جی بھر کر خرچ کرنے کی توفیق دی تھی اور انھوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا۔ اس دوران الیکشن کے کارکنوں کی بھی سنی گئی اور انھوں نے بھی دونوں امیدواروں کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آگے یہ کسی کی اپنی اپنی قسمت، ایک کا سرمایہ جیت گیا دوسرے کا ہار گیا اور الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے۔


ہمارا یہ الیکشن جو پاکستان کے بڑے سیاسی شہر میں ہوا گویا قوم کی نبضیں گنتا ہوا تمام ہوا لیکن ایک بات بتا گیا کہ اگر امیدوار محض ووٹ لینے والے ہوں گے اور ان کا قوم کی خدمت اور ترقی کا کوئی قابل ذکر پروگرام نہیں ہو گا تو پھر یہ الیکشن پاکستان کا نہیں کسی بھی ایک ملک کا ہو گا۔ وہ ملک کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک عام سا غیر نظریاتی رسمی سا ملک جس کے بنانے کے لیے کسی قائداعظم کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی پیغمبروں کی تربیت یافتہ قوم کی۔ ہمارا یہ الیکشن جو برسوں بعد ہوا کچھ لوگوں کو زیادہ ہی پریشان کر گیا۔

ان کا خیال تھا کہ دنیا کی مار کھانے کے بعد ملک کو نصف کر دینے کے بعد اور نفس پرست لیڈروں کی بے حس قیادت کے بعد حالات کچھ سدھر گئے ہوں گے اور ہمارے لیڈر بھی کچھ ہوش سے کام لیں گے قوم کو نئی راہ دکھائیں گے اور خود قوم کی اس راہ پر چلنے کی قیادت کریں گے۔ کون ہارا کون جیتا یہ تو ایک عام سے الیکشن کی بات ہے اور یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کن نظریات کو شکست ہوئی اور کن کو کامیابی اور اب الیکشن کے بعد یہ ملک کیا شکل و صورت لے کر طلوع ہو گا اور اس کے شہری کیا کیا امیدیں لے کر اس ملک کی خدمت میں جت جائیں گے کیونکہ ملک کوئی بھی ہو اسے بنانا پڑتا ہے۔ بنا بنایا نہیں ملتا جیسے یہ پاکستان۔

پاکستان کے نیم بڑھاپے میں الیکشن سے گزرنے والے ملک میں اس کے عوام بلاشبہ ایک باشعور قوم بن چکے ہیں اور یہ الیکشن افسوس کہ صرف دو لیڈروں کا مقابلہ تھا وہ لیڈر جنھوں نے اپنی انتخابی مہم میں قوم کو کوئی پیغام نہیں دیا۔ الیکشن کمیشن یا کسی دوسرے ادارے کو چاہیے تھا کہ الیکشن لڑنے والوں کو اپنے نظریات پیش کرنے پر مجبور کرتا اور یہ نظریات جیسے بھی ہوں انھیں الیکشن میں حصہ لینے کے اہل تصور کرتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے برائے نام نظریاتی کسی امیدوار کو اس ملک کی اگر توہین کہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ ہمارے مسائل زدہ عوام اور ووٹر بڑے لوگ نہیں ہیں۔

ان کی تربیت جیسی بھی ہوتی ہے ایک محب وطن قوم کی ہوتی ہے اور پاکستان کے وجود کو دشمن کی طرف سے جب بھی خطرہ پیش آیا پوری قوم فوج بن گئی۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا دشمن جو ہمارے پڑوس میں آباد ہے اور ہماری سانسیں بھی گنتا ہے اس سے خبردار رہنا ہماری بقا ہے۔ موسیقی ہمارے دشمن کے مذہب کا حصہ ہے لیکن اگر کوئی موسیقار پاکستانی ہو تو پھر وہ دشمن ہے اور ناقابل برداشت۔ بھارت تو اپنے مسلمان فنکاروں کو ممبئی میں کرائے پر مکان بھی نہیں دیتا جب کہ ہم تو شروع دن سے ہی غیر اور دشمن ہیں۔ بہر حال عرض یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کبھی الیکشن ہو تو ہم اپنے دشمن کو نہ بھولیں۔ وہ ہمیں کبھی نہیں بھولتا۔
Load Next Story