ہفتوں کا احوال
گزشتہ ہفتوں میں اہم واقعات رونما ہوئے، جو قابل غور و فکر ہیں۔ اقوام متحدہ کا اجلاس ہوا
گزشتہ ہفتوں میں اہم واقعات رونما ہوئے، جو قابل غور و فکر ہیں۔ اقوام متحدہ کا اجلاس ہوا، جس کی ابتدا پوپ کے خطاب کے بعد عظیم انقلابی گلوکار جان لینن کے انقلابی گیت 'ایماجن' (قیاس) گا کر ہوا۔ کامریڈ جان لینن کا تعلق برطانیہ سے تھا اور نیویارک میں 1980ء میں انھیں ایک سامراجی آلہ کار نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ ان کا مشہور گانا 'قیاس' کولمبیا کی معروف گلوکارہ 'شکیرا' نے گایا۔ اس گانے کا متن یوں ہے۔
قیاس کرو قیاس تو کرو کہ جنت ہے بھی کہیں یہ بھی سہل ہے ہمارے قدموں تلے کوئی جہنم نہیں/سروں پہ ہمارے محض آسمان ہے، دنیا کے سب ہی لوگ مستانہ وار جی رہے ہیں/ قیاس کرو کہ دنیا میں کوئی ملک نہیں ہے اور یوں سوچنا کوئی دشوار بھی نہیں ہے/ یوں دھرتی پر مارنے مرنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا اور کوئی دین دھرم بھی نہیں موجود/ سارے زن و مرد چین و راحت کی زندگی بسر کر رہے ہیں تم یہ کہہ سکتے ہوکہ / میں جاگتے میں خواب دیکھا کرتا ہوں لیکن ایسا ایک میں ہی نہیں/ امید یہ ہے کہ ایک دن تم بھی ہم سے مل جاؤ گے اور دنیا ایک ہو جائے گی/ قیاس کرو جب ہمارا اثاثہ ساجھے داری کا ہو گا کیا تمھارے لیے یہ ممکن بھی ہے/ جب نہ لالچ رہے گا اور نہ بھوک تمام انسان ایک برادری میں ڈھل جائیں گے۔
امریکی سامراج کے دیس میں طبقاتی نظام کے خلاف سامراجیوں کے گڑھ میں انارکسٹ کمیونسٹ جان لینن کا گانا 'شکیرا' نے گایا۔ واضح رہے کہ شکیرا نے یہ گانا شام کے ساحل سمندر پہ ڈوب کے مرنے والے چار سالہ بچے 'ایلان' کے نام وقف کیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ''بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات سے دہشت گردی بڑھی ہے اور سلامتی کونسل کو طاقت ور ممالک کا کلب نہ بنائیں۔ اب بڑی طاقتوں کے درمیان تنازع کیا ہے؟ تنازع مفادات کا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں بے بہا معدنیات کے ذخیرے ہیں، ان پر کس کی اجارہ داری ہو، اسی لیے جنگی مشقیں ہوتی رہتی ہیں اور ہمارے ملک کے حکمران اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ دنیا کے چار بڑے تانبے کے ذخائر میں سے ایک افغانستان میں ہے، جس کا ٹھیکا چین نے لے رکھا ہے۔ افغانستان میں گیس کے بھی بھاری ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سونا، کرومائیٹ، چاندی، تانبے، سلفر، کوئلہ، گیس اور دیگر معدنیات کے بے بہا ذخائر موجود ہیں۔
ان ذخائر میں چین، سعودی عرب، عرب امارات، امریکا اور اندرون ملک سردار اور دیگر سیاسی لیڈران قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور مزید قبضے کے لیے کوشاں ہیں۔ گوادر پورٹ اور سونے کی کان پر چین کی اجارہ داری ہے۔ بلوچستان سے نکالے جانے والے کُل سونے کا اکاون فیصد چین لے جاتا ہے۔ بلوچستان کو صرف دو فیصد ملتا ہے۔ ایران نے کب سے ہمیں توانائی فراہم کرنے کی نہ صرف پیش کش کی ہے بلکہ پائپ لائن بھی بچھا دی ہے۔ مگر ہمارے سامراج پروردہ حکمران معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرتے۔
پرویز مشرف نے امریکی فوج کو پاکستان پر سے گزرنے کی اجازت دی، اس سے قبل بے نظیر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے ادوار میں طالبان کو پاکستان کے مدارس سے مسلح تربیت دیکر افغانستان میں داخل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان میں کشت و خون کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ تقریر میں وزیر اعظم نواز شریف نے دوسری اہم بات یہ کی ہے کہ ''سلامتی کونسل کو طاقتور ملکوں کا کلب نہ بنایا جائے۔'' مگر یہ نہیں کہا کہ بڑی طاقتوں کا ویٹو کا اختیار ختم کیا جائے۔
جب کہ ویٹو کا اختیار ختم کرنے کا مطالبہ ڈاکٹر سوئیکارنو، مارشل ٹیٹو، کرنل جمال عبدل ناصر، ڈاکٹر فیدل کاسترو، کرنل معمر قذافی، ہوگو شاویز، ڈاکٹر چی گویرا اور تھامس سنکارا بھی کر چکے ہیں۔ ان عظیم رہنماؤں نے نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اس کے خلاف موثر مہم بھی چلائی۔ ویٹو کرنے کے اختیار کو ختم کرنے کے مطالبے سے قبل ہمیں اپنے ملک سے عالمی سامراجی طاقتوں سے غلامانہ رشتہ رکھنے کے بجائے سب سے پہلے ان سامراجی معاہدات سے علیحدگی اختیار کرنی ہو گی۔ جس طرح سے مندرجہ بالا رہنماؤں نے کیا تھا۔
افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ ''افغانستان کے کسی بھی حصے پر کسی بھی دھڑے کا قبضہ ناقابل قبول ہے، انھوں نے مزید کہا کہ 'افغانستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہے۔ جی ہاں، اشرف غنی، عبداللہ اور اس سے قبل حامد کرزئی ایسے ہی جمہوری صدور ہیں جیسے شوکت عزیز پاکستان کے منتخب وزیر اعظم تھے۔ اسی طرح کے منتخب وزیر اعظم عراق کے ہیں۔
ان سارے حکمرانوں کو امریکا نے ہی لا بٹھایا ہے۔ اس نے صدام حسین، ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر نجیب اللہ کو شہید کیا پھر مالکی، کرزئی، جونیجو اور شوکت عزیز کو مسند نشین کیا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب طالبان گلے میں قرآن اور ہاتھ میں سفید جھنڈا لے کر پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو رہے تھے اور پی ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا۔
اس وقت وہ ہیرو تھے اور اب زیرو ہیں۔ پھر یہ شکایت کرنا کہ بڑی طاقتوں کے تنازعات سے دہشت گردی کو بڑھاوا ملا ہے یا سیکیورٹی کونسل کو طاقتوروں کا کلب بنایا گیا ہے' یہ ایک منافقانہ موقف ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اقبال احسن نے کہا ہے کہ ''اصل طاقت ایٹم بم نہیں بلکہ نوجوان ہیں۔'' بڑی دیر میں اقبال صاحب کو درست بات کرنے کی سوجھی۔ اور دوسروں کو بھی سمجھائیں جو ایٹم بم پر روز پالش کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ بات پہلے سمجھ جاتے تو شاید ایٹم بم بنانے کے بجائے اسپتال بنانے اور عوام کو مفت، معقول اور بروقت علاج کی سہولت میسر ہوتی۔ سرگودھا، فیصل آباد اور تھرپارکر میں ہزاروں بچے عدم ادویات اور علاج نہ ہونے سے جان سے نہ جاتے ۔
اس وقت دنیا کا بڑا اہم واقعہ شام کے مہاجرین کا ہے۔ شام میں مداخلت کرنے والے ممالک سعودی عرب، عرب امارات، کویت، بحرین اور ایران نے ایک بھی مہاجر کو پناہ نہیں دی۔ جب کہ امریکا اور روس جو کہ شام میں براہ راست مداخلت کر رہے ہیں نے صرف ایک ایک ہزار مہاجرین کو لینا قبول کیا ہے اور وہ بھی مخصوص شرائط کے ساتھ۔ دولت سے مالامال سعودی عرب نے شامی مہاجرین کو قبول تو نہیں کیا لیکن حال ہی میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے دوران امریکا میں پورے ہوٹل کے دو سو بائیس کمروں کی تین دن کے لیے بکنگ کروائی جس کے کل چارجز تیس لاکھ ڈالر تھے۔
اس طبقاتی نابرابری اور استحصال کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے آزاد جمہوری سوشلزم جو اسٹیٹ لیس سوسائٹی کی جانب فوری سفر کے ساتھ ساتھ ملکوں کی سرحدیں ختم کر کے دنیا کو ایک کر دے گا اور جنگ، بھوک اور غربت کا خاتمہ کر دے گا۔
قیاس کرو قیاس تو کرو کہ جنت ہے بھی کہیں یہ بھی سہل ہے ہمارے قدموں تلے کوئی جہنم نہیں/سروں پہ ہمارے محض آسمان ہے، دنیا کے سب ہی لوگ مستانہ وار جی رہے ہیں/ قیاس کرو کہ دنیا میں کوئی ملک نہیں ہے اور یوں سوچنا کوئی دشوار بھی نہیں ہے/ یوں دھرتی پر مارنے مرنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا اور کوئی دین دھرم بھی نہیں موجود/ سارے زن و مرد چین و راحت کی زندگی بسر کر رہے ہیں تم یہ کہہ سکتے ہوکہ / میں جاگتے میں خواب دیکھا کرتا ہوں لیکن ایسا ایک میں ہی نہیں/ امید یہ ہے کہ ایک دن تم بھی ہم سے مل جاؤ گے اور دنیا ایک ہو جائے گی/ قیاس کرو جب ہمارا اثاثہ ساجھے داری کا ہو گا کیا تمھارے لیے یہ ممکن بھی ہے/ جب نہ لالچ رہے گا اور نہ بھوک تمام انسان ایک برادری میں ڈھل جائیں گے۔
امریکی سامراج کے دیس میں طبقاتی نظام کے خلاف سامراجیوں کے گڑھ میں انارکسٹ کمیونسٹ جان لینن کا گانا 'شکیرا' نے گایا۔ واضح رہے کہ شکیرا نے یہ گانا شام کے ساحل سمندر پہ ڈوب کے مرنے والے چار سالہ بچے 'ایلان' کے نام وقف کیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ''بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات سے دہشت گردی بڑھی ہے اور سلامتی کونسل کو طاقت ور ممالک کا کلب نہ بنائیں۔ اب بڑی طاقتوں کے درمیان تنازع کیا ہے؟ تنازع مفادات کا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں بے بہا معدنیات کے ذخیرے ہیں، ان پر کس کی اجارہ داری ہو، اسی لیے جنگی مشقیں ہوتی رہتی ہیں اور ہمارے ملک کے حکمران اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ دنیا کے چار بڑے تانبے کے ذخائر میں سے ایک افغانستان میں ہے، جس کا ٹھیکا چین نے لے رکھا ہے۔ افغانستان میں گیس کے بھی بھاری ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سونا، کرومائیٹ، چاندی، تانبے، سلفر، کوئلہ، گیس اور دیگر معدنیات کے بے بہا ذخائر موجود ہیں۔
ان ذخائر میں چین، سعودی عرب، عرب امارات، امریکا اور اندرون ملک سردار اور دیگر سیاسی لیڈران قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور مزید قبضے کے لیے کوشاں ہیں۔ گوادر پورٹ اور سونے کی کان پر چین کی اجارہ داری ہے۔ بلوچستان سے نکالے جانے والے کُل سونے کا اکاون فیصد چین لے جاتا ہے۔ بلوچستان کو صرف دو فیصد ملتا ہے۔ ایران نے کب سے ہمیں توانائی فراہم کرنے کی نہ صرف پیش کش کی ہے بلکہ پائپ لائن بھی بچھا دی ہے۔ مگر ہمارے سامراج پروردہ حکمران معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرتے۔
پرویز مشرف نے امریکی فوج کو پاکستان پر سے گزرنے کی اجازت دی، اس سے قبل بے نظیر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے ادوار میں طالبان کو پاکستان کے مدارس سے مسلح تربیت دیکر افغانستان میں داخل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان میں کشت و خون کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ تقریر میں وزیر اعظم نواز شریف نے دوسری اہم بات یہ کی ہے کہ ''سلامتی کونسل کو طاقتور ملکوں کا کلب نہ بنایا جائے۔'' مگر یہ نہیں کہا کہ بڑی طاقتوں کا ویٹو کا اختیار ختم کیا جائے۔
جب کہ ویٹو کا اختیار ختم کرنے کا مطالبہ ڈاکٹر سوئیکارنو، مارشل ٹیٹو، کرنل جمال عبدل ناصر، ڈاکٹر فیدل کاسترو، کرنل معمر قذافی، ہوگو شاویز، ڈاکٹر چی گویرا اور تھامس سنکارا بھی کر چکے ہیں۔ ان عظیم رہنماؤں نے نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اس کے خلاف موثر مہم بھی چلائی۔ ویٹو کرنے کے اختیار کو ختم کرنے کے مطالبے سے قبل ہمیں اپنے ملک سے عالمی سامراجی طاقتوں سے غلامانہ رشتہ رکھنے کے بجائے سب سے پہلے ان سامراجی معاہدات سے علیحدگی اختیار کرنی ہو گی۔ جس طرح سے مندرجہ بالا رہنماؤں نے کیا تھا۔
افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ ''افغانستان کے کسی بھی حصے پر کسی بھی دھڑے کا قبضہ ناقابل قبول ہے، انھوں نے مزید کہا کہ 'افغانستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہے۔ جی ہاں، اشرف غنی، عبداللہ اور اس سے قبل حامد کرزئی ایسے ہی جمہوری صدور ہیں جیسے شوکت عزیز پاکستان کے منتخب وزیر اعظم تھے۔ اسی طرح کے منتخب وزیر اعظم عراق کے ہیں۔
ان سارے حکمرانوں کو امریکا نے ہی لا بٹھایا ہے۔ اس نے صدام حسین، ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر نجیب اللہ کو شہید کیا پھر مالکی، کرزئی، جونیجو اور شوکت عزیز کو مسند نشین کیا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب طالبان گلے میں قرآن اور ہاتھ میں سفید جھنڈا لے کر پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو رہے تھے اور پی ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا۔
اس وقت وہ ہیرو تھے اور اب زیرو ہیں۔ پھر یہ شکایت کرنا کہ بڑی طاقتوں کے تنازعات سے دہشت گردی کو بڑھاوا ملا ہے یا سیکیورٹی کونسل کو طاقتوروں کا کلب بنایا گیا ہے' یہ ایک منافقانہ موقف ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اقبال احسن نے کہا ہے کہ ''اصل طاقت ایٹم بم نہیں بلکہ نوجوان ہیں۔'' بڑی دیر میں اقبال صاحب کو درست بات کرنے کی سوجھی۔ اور دوسروں کو بھی سمجھائیں جو ایٹم بم پر روز پالش کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ بات پہلے سمجھ جاتے تو شاید ایٹم بم بنانے کے بجائے اسپتال بنانے اور عوام کو مفت، معقول اور بروقت علاج کی سہولت میسر ہوتی۔ سرگودھا، فیصل آباد اور تھرپارکر میں ہزاروں بچے عدم ادویات اور علاج نہ ہونے سے جان سے نہ جاتے ۔
اس وقت دنیا کا بڑا اہم واقعہ شام کے مہاجرین کا ہے۔ شام میں مداخلت کرنے والے ممالک سعودی عرب، عرب امارات، کویت، بحرین اور ایران نے ایک بھی مہاجر کو پناہ نہیں دی۔ جب کہ امریکا اور روس جو کہ شام میں براہ راست مداخلت کر رہے ہیں نے صرف ایک ایک ہزار مہاجرین کو لینا قبول کیا ہے اور وہ بھی مخصوص شرائط کے ساتھ۔ دولت سے مالامال سعودی عرب نے شامی مہاجرین کو قبول تو نہیں کیا لیکن حال ہی میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے دوران امریکا میں پورے ہوٹل کے دو سو بائیس کمروں کی تین دن کے لیے بکنگ کروائی جس کے کل چارجز تیس لاکھ ڈالر تھے۔
اس طبقاتی نابرابری اور استحصال کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے آزاد جمہوری سوشلزم جو اسٹیٹ لیس سوسائٹی کی جانب فوری سفر کے ساتھ ساتھ ملکوں کی سرحدیں ختم کر کے دنیا کو ایک کر دے گا اور جنگ، بھوک اور غربت کا خاتمہ کر دے گا۔