یونس کی پذیرائی ہو جاتی تو کیا غلط تھا
بورڈ نے یونس کو کتنے لاکھ روپے دیے، سنا ہے حکام تو ویسے ہی لاکھوں روپے لٹاتے رہتے ہیں، پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا سوال
KARACHI:
اچھا یونس خان نے ریکارڈ توڑ دیا، واہ ضرور اسٹیڈیم میں پی سی بی نے تقریب منعقد کی ہو گی،میانداد تو موجود تھے ناں؟
جب ابوظبی کے شیخ زید اسٹیڈیم سے ہوٹل واپس جاتے ہوئے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے یہ پوچھا تو میں نے ناں میں جواب دیا، وہ باتونی چپ نہ ہوا پھر بول پڑا'' اچھا بورڈ نے کتنے لاکھ روپے دیے، سنا ہے حکام تو ویسے ہی لاکھوں روپے لٹاتے رہتے ہیں''
کچھ نہیں دیا میرے بھائی، اب تم چپ ہو کر ڈرائیونگ پر توجہ دو گے، میں نے تنگ آ کر اس سے کہا تو وہ سمجھ گیا کہ مجھے یہ ٹاپک پسند نہیں آ رہا اور دوسری بات شروع کر دی، واپس پہنچ کر جب میں نے غور کیا تو واقعی محسوس ہوا کہ پی سی بی یونس خان کے ساتھ غلط کر گیا، کئی ماہ سے سب کو پتا تھا کہ وہ جاوید میانداد کے 8832 رنز کے ریکارڈ سے صرف 19رنزدور ہیں اور ابوظبی میں ریکارڈ قائم کر دیں گے لیکن کسی نے کچھ نہ سوچا، پاکستان 57 سال سے کرکٹ کھیل رہا ہے۔
اس دوران غالباً220 کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ پہننے کا موقع ملا، ان سب میں سب سے زیادہ رنز بنانا کوئی معمولی بات نہیں،اگر پہلے دن کا کھیل ختم ہونے کے بعد گراؤنڈ میں ہی چھوٹی سی تقریب سجا کر یونس کو ایک گولڈمیڈل پہنا دیتے تو کیا قباحت تھی، پی سی بی کے افسران امارات کا سفر ایسے کرتے ہیں جیسے لاہور سے اسلام آباد جا رہے ہوں، ایسے میں میچ کیلیے اگر جاوید میانداد کو مدعوکرلیا جاتا تو کیا خزانہ خالی ہوجاتا، اب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے یونس خان کو تو پی ایس ایل کی تقریب میں ایئرٹکٹ کے پیسے بچانے کیلیے لاہور نہیں بلایا میانداد کو ابوظبی کیسے بلا لیتے، پوائنٹ بالکل درست ہے۔
خیر چیئرمین اسٹیڈیم آ کر کوئی اعلان کر دیتے، وہ آئی سی سی میٹنگز کیلیے دبئی میں ہی موجود تھے، ان کی اہلیہ میچ دیکھنے کیلیے آئی بھی تھیں،اگر شہریارخان ایک دن کیلیے اپنی روانگی موخر کر دیتے توکیا فرق پڑجاتا، گذشتہ دنوں جب میں نے فون پر ان سے یونس کی پذیرائی کے بارے میں پوچھا تھا تو انداز سے ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ اسے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے،یونس سے تو ویسے ہی ان کی کبھی نہیں بنی، مگر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اتنے عظیم بیٹسمین کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے۔
ایک طرف آپ پی ایس ایل کیلیے غیرملکی کرکٹرز میں کروڑوں روپے بانٹ رہے ہیں ایسے میں اپنے اسٹار کو چند لاکھ روپے دے کر حوصلہ افزائی کر دیتے تو کیا جاتا، ایک بورڈ آفیشل کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں یہ روایت نہیں کہ ریکارڈ بنانے پر کسی کھلاڑی کو نوازا جائے تو ہم سے کیوں یہ توقع کر رہے ہیں، میں ان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ جناب دنیا میں کسی بورڈ کے پاس ملازمین کی اتنی بڑی فوج بھی نہیں، کہیں بغیر کام کیے لوگوں کو بھاری تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں۔
برطرفی کے بعد بھی کسی اور ملک میں کار ، سوا چار لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات دینے کا بھی کہیں نہیں سنا،11 رکنی ٹیم مینجمنٹ کون سا اور ملک بھیجتا ہے، کسی پلیئر کو ریٹائر ہونے پر ایک کروڑ روپے دینے سمیت ان گنت کئی مثالیں موجود ہیں جو ہماری کرکٹ کا خاصا ہیں، ایسے میں ایک کھلاڑی کی تھوڑی پذیرائی ہو جاتی تو کیا غلط تھا، بورڈ کی اسی سوچ کی وجہ سے کئی عظیم کھلاڑیوں کو شایان شان مقام نہیں ملا اب یونس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
وہ ریکارڈ بنانے پر بیحد خوش ہیں، گذشتہ روز میچ کے بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ اپنے مخصوص انداز میں گلے ملے اور خاصی دیر تک باتیں کرتے رہے، وہ پاکستان کے چند ان منکسر المزاج شخصیات میں سے ایک ہیں جو بالکل بھی غرور نہیں کرتیں، میں تصور کر سکتا ہوں کہ 4ہزار رنز بنانے پر مصباح کے یہ انداز ہیں اگر وہ ایسا کوئی کارنامہ انجام دے دیتے تو کیا حال ہوتا۔
ابوظبی اسٹیڈیم میں ہی کئی دیگر شخصیات سے ملاقات ہوئی، کرکٹ کھیل کر بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ ڈریسنگ روم تو شیئر نہ کر سکا مگر ایک خوشگوار احساس ہوا کہ جس پریس باکس میں بیٹھے میچ کور کر رہے ہیں، وہیں ای ین بوتھم سمیت کئی سابق انگلش کرکٹرز بطور صحافی موجود ہیں، بطور کمنٹیٹر یہاں آئے ہوئے رمیز راجہ نے مجھے دیکھتے ہی سب کے سامنے کہا کہ ''ایکسپریس'' کا اسپورٹس پیج بہت اچھا ہے'' ،وہ یونس خان کے ریکارڈ پر خوش مگر ساتھ ہی جاوید میانداد کے کارناموں کو بھی فراموش نہیں کرتے، پی ایس ایل کے سفیر رمیز جلد تفصیلی نشست کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے۔
گوکہ یہ پاکستان کی ہوم سیریز ہے مگر پریس باکس میں اکثریت برطانوی صحافیوں کی نظر آئی، پاکستان سے قمر احمد، شاہد ہاشمی اور عبدالرشید شکور سمیت چند ہی صحافی آئے ہیں، رشید شکور ملک میں اردو میں لکھنے والے بہترین اسپورٹس رائٹر ہیں، ان کا ساتھ کسی کو بور نہیں ہونے دیتا، ابھی سیریز جاری ہے جلد ہی دورے کی مزید روداد کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوں گا۔
اچھا یونس خان نے ریکارڈ توڑ دیا، واہ ضرور اسٹیڈیم میں پی سی بی نے تقریب منعقد کی ہو گی،میانداد تو موجود تھے ناں؟
جب ابوظبی کے شیخ زید اسٹیڈیم سے ہوٹل واپس جاتے ہوئے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے یہ پوچھا تو میں نے ناں میں جواب دیا، وہ باتونی چپ نہ ہوا پھر بول پڑا'' اچھا بورڈ نے کتنے لاکھ روپے دیے، سنا ہے حکام تو ویسے ہی لاکھوں روپے لٹاتے رہتے ہیں''
کچھ نہیں دیا میرے بھائی، اب تم چپ ہو کر ڈرائیونگ پر توجہ دو گے، میں نے تنگ آ کر اس سے کہا تو وہ سمجھ گیا کہ مجھے یہ ٹاپک پسند نہیں آ رہا اور دوسری بات شروع کر دی، واپس پہنچ کر جب میں نے غور کیا تو واقعی محسوس ہوا کہ پی سی بی یونس خان کے ساتھ غلط کر گیا، کئی ماہ سے سب کو پتا تھا کہ وہ جاوید میانداد کے 8832 رنز کے ریکارڈ سے صرف 19رنزدور ہیں اور ابوظبی میں ریکارڈ قائم کر دیں گے لیکن کسی نے کچھ نہ سوچا، پاکستان 57 سال سے کرکٹ کھیل رہا ہے۔
اس دوران غالباً220 کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ پہننے کا موقع ملا، ان سب میں سب سے زیادہ رنز بنانا کوئی معمولی بات نہیں،اگر پہلے دن کا کھیل ختم ہونے کے بعد گراؤنڈ میں ہی چھوٹی سی تقریب سجا کر یونس کو ایک گولڈمیڈل پہنا دیتے تو کیا قباحت تھی، پی سی بی کے افسران امارات کا سفر ایسے کرتے ہیں جیسے لاہور سے اسلام آباد جا رہے ہوں، ایسے میں میچ کیلیے اگر جاوید میانداد کو مدعوکرلیا جاتا تو کیا خزانہ خالی ہوجاتا، اب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے یونس خان کو تو پی ایس ایل کی تقریب میں ایئرٹکٹ کے پیسے بچانے کیلیے لاہور نہیں بلایا میانداد کو ابوظبی کیسے بلا لیتے، پوائنٹ بالکل درست ہے۔
خیر چیئرمین اسٹیڈیم آ کر کوئی اعلان کر دیتے، وہ آئی سی سی میٹنگز کیلیے دبئی میں ہی موجود تھے، ان کی اہلیہ میچ دیکھنے کیلیے آئی بھی تھیں،اگر شہریارخان ایک دن کیلیے اپنی روانگی موخر کر دیتے توکیا فرق پڑجاتا، گذشتہ دنوں جب میں نے فون پر ان سے یونس کی پذیرائی کے بارے میں پوچھا تھا تو انداز سے ہی پتا چل گیا تھا کہ وہ اسے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے،یونس سے تو ویسے ہی ان کی کبھی نہیں بنی، مگر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اتنے عظیم بیٹسمین کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے۔
ایک طرف آپ پی ایس ایل کیلیے غیرملکی کرکٹرز میں کروڑوں روپے بانٹ رہے ہیں ایسے میں اپنے اسٹار کو چند لاکھ روپے دے کر حوصلہ افزائی کر دیتے تو کیا جاتا، ایک بورڈ آفیشل کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں یہ روایت نہیں کہ ریکارڈ بنانے پر کسی کھلاڑی کو نوازا جائے تو ہم سے کیوں یہ توقع کر رہے ہیں، میں ان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ جناب دنیا میں کسی بورڈ کے پاس ملازمین کی اتنی بڑی فوج بھی نہیں، کہیں بغیر کام کیے لوگوں کو بھاری تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں۔
برطرفی کے بعد بھی کسی اور ملک میں کار ، سوا چار لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات دینے کا بھی کہیں نہیں سنا،11 رکنی ٹیم مینجمنٹ کون سا اور ملک بھیجتا ہے، کسی پلیئر کو ریٹائر ہونے پر ایک کروڑ روپے دینے سمیت ان گنت کئی مثالیں موجود ہیں جو ہماری کرکٹ کا خاصا ہیں، ایسے میں ایک کھلاڑی کی تھوڑی پذیرائی ہو جاتی تو کیا غلط تھا، بورڈ کی اسی سوچ کی وجہ سے کئی عظیم کھلاڑیوں کو شایان شان مقام نہیں ملا اب یونس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
وہ ریکارڈ بنانے پر بیحد خوش ہیں، گذشتہ روز میچ کے بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ اپنے مخصوص انداز میں گلے ملے اور خاصی دیر تک باتیں کرتے رہے، وہ پاکستان کے چند ان منکسر المزاج شخصیات میں سے ایک ہیں جو بالکل بھی غرور نہیں کرتیں، میں تصور کر سکتا ہوں کہ 4ہزار رنز بنانے پر مصباح کے یہ انداز ہیں اگر وہ ایسا کوئی کارنامہ انجام دے دیتے تو کیا حال ہوتا۔
ابوظبی اسٹیڈیم میں ہی کئی دیگر شخصیات سے ملاقات ہوئی، کرکٹ کھیل کر بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ ڈریسنگ روم تو شیئر نہ کر سکا مگر ایک خوشگوار احساس ہوا کہ جس پریس باکس میں بیٹھے میچ کور کر رہے ہیں، وہیں ای ین بوتھم سمیت کئی سابق انگلش کرکٹرز بطور صحافی موجود ہیں، بطور کمنٹیٹر یہاں آئے ہوئے رمیز راجہ نے مجھے دیکھتے ہی سب کے سامنے کہا کہ ''ایکسپریس'' کا اسپورٹس پیج بہت اچھا ہے'' ،وہ یونس خان کے ریکارڈ پر خوش مگر ساتھ ہی جاوید میانداد کے کارناموں کو بھی فراموش نہیں کرتے، پی ایس ایل کے سفیر رمیز جلد تفصیلی نشست کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے۔
گوکہ یہ پاکستان کی ہوم سیریز ہے مگر پریس باکس میں اکثریت برطانوی صحافیوں کی نظر آئی، پاکستان سے قمر احمد، شاہد ہاشمی اور عبدالرشید شکور سمیت چند ہی صحافی آئے ہیں، رشید شکور ملک میں اردو میں لکھنے والے بہترین اسپورٹس رائٹر ہیں، ان کا ساتھ کسی کو بور نہیں ہونے دیتا، ابھی سیریز جاری ہے جلد ہی دورے کی مزید روداد کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوں گا۔