امریکا کا اپنی افواج 2016 کے بعد بھی افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ
پالیسی میں تبدیلی ’’کئی ماہ تک جاری رہنے والے تفصیلی جائزے‘‘ کا نتیجہ ہے، امریکی قومی سلامتی کونسل
امریکا نے افغانستان سے فوج کے انخلا کے پروگرام میں تبدیلی کرتے ہوئے امریکی افواج کو 2016 کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس منصوبے کا باضابطہ اعلان امریکی صدر براک اوباما کریں گے جب کہ اس منصوبے کے بعد جب وہ 2017 میں عہدۂ صدارت چھوڑیں گے تو اس وقت بھی افغانستان میں 5500 امریکی فوجی تعینات ہوں گے جن میں سے فوجیوں کی اکثریت چار مقامات، کابل، بگرام، جلال آباد اور قندھار میں تعینات رہیں گی۔
ابتدائی منصوبے کے تحت 2016 کے آخر تک امریکی سفارتخانے کے عملے کے محافظین کے علاوہ تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس آنا تھا تاہم امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ملک میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے افغان فوج کو مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ پالیسی میں تبدیلی ''کئی ماہ تک جاری رہنے والے تفصیلی جائزے'' کا نتیجہ ہے جس میں افغان فورسز کی طاقت کے بارے میں خدشات شمالی صوبے قندوز پر طالبان کے حملے اور جزوی قبضے کے بعد ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ افغانستان میں حکومتی فوج کو اب بڑے پیمانے پر غیر ملکی مدد حاصل نہیں ہے اور رواں سال طالبان کے حملوں میں انہیں بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
حال ہی میں افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر اور امریکی فوج کے جنرل جان کیمبل نے بھی کہا تھا کہ امریکہ کو 2016 کے بعد بھی افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافے پر غور کرنا چاہیے، قندوز میں ایم ایس ایف کے اسپتال پر امریکی بمباری کے بعد واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ''سکیورٹی کی مخدوش صورتحال'' اس بات کی متقاضی ہے کہ وہاں تعینات فوج میں کمی کی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کی جائے جب کہ اس سے پہلے افغان صدر اشرف غنی نے بھی رواں برس کے آغاز میں امریکا سے کہا تھا کہ وہ 2016 کے اختتام تک فوجوں کے انخلا کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
واضح رہے کہ اس وقت 9800 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اور معاونت کے لیے 2 سال کے عرصے کے لیے افغانستان میں ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس منصوبے کا باضابطہ اعلان امریکی صدر براک اوباما کریں گے جب کہ اس منصوبے کے بعد جب وہ 2017 میں عہدۂ صدارت چھوڑیں گے تو اس وقت بھی افغانستان میں 5500 امریکی فوجی تعینات ہوں گے جن میں سے فوجیوں کی اکثریت چار مقامات، کابل، بگرام، جلال آباد اور قندھار میں تعینات رہیں گی۔
ابتدائی منصوبے کے تحت 2016 کے آخر تک امریکی سفارتخانے کے عملے کے محافظین کے علاوہ تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس آنا تھا تاہم امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ملک میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے افغان فوج کو مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ پالیسی میں تبدیلی ''کئی ماہ تک جاری رہنے والے تفصیلی جائزے'' کا نتیجہ ہے جس میں افغان فورسز کی طاقت کے بارے میں خدشات شمالی صوبے قندوز پر طالبان کے حملے اور جزوی قبضے کے بعد ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ افغانستان میں حکومتی فوج کو اب بڑے پیمانے پر غیر ملکی مدد حاصل نہیں ہے اور رواں سال طالبان کے حملوں میں انہیں بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
حال ہی میں افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر اور امریکی فوج کے جنرل جان کیمبل نے بھی کہا تھا کہ امریکہ کو 2016 کے بعد بھی افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافے پر غور کرنا چاہیے، قندوز میں ایم ایس ایف کے اسپتال پر امریکی بمباری کے بعد واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ''سکیورٹی کی مخدوش صورتحال'' اس بات کی متقاضی ہے کہ وہاں تعینات فوج میں کمی کی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کی جائے جب کہ اس سے پہلے افغان صدر اشرف غنی نے بھی رواں برس کے آغاز میں امریکا سے کہا تھا کہ وہ 2016 کے اختتام تک فوجوں کے انخلا کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
واضح رہے کہ اس وقت 9800 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اور معاونت کے لیے 2 سال کے عرصے کے لیے افغانستان میں ہیں۔