پاکستان کی جانب سے دباؤ بڑھنے پر دہشت گرد افغانستان بھاگ آئے صدر اوباما
وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں طالبان، افغان حکومت سے مذاکرات آگے بڑھانے پر بات ہوگی، امریکی صدر کا پالیسی بیان
امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں پر دباؤ بڑھ گیا جس کے باعث دہشت گرد افغانستان بھاگ آئے۔
امریکی صدر براک اوباما نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ اپنے تمام اتحادیوں پر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہوں اور اپنی ٹیم کے ساتھ افغانستان کی صورتحال کا باقاعدگی سے جائزہ لیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان فوجیوں کو اپنے ملک کی سیکیورٹی اور القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے تربیت دی جب کہ اس وقت افغانستان کی حفاظت نہ صرف خود افغان فوجی کررہے ہیں بلکہ اپنے ملک کا بھی بہادری سے تحفظ کر رہے ہیں تاہم افغان فورسز ابھی اتنی مضبوط نہیں جتنا انہیں ہوناچاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان صدرکی خواہش ہے کہ افغان فورسزتربیت یافتہ ہوں جب کہ اشرف غنی کرپشن کے خلاف اورقانون کی عملداری کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج 42 ملکی اتحاد کاحصہ ہے تاہم افغانستان میں آیندہ سال 9800 امریکی فوجی برقرار رہیں گے جس میں سے 5500 امریکی فوجی جلال آباد اور قندھار کی بیسز پر رہیں گے تاکہ ضرورت کی جگہ امریکی فوجی با آسانی پہنچ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے نظریے کی حمایت نہیں کرتا، افغانستان بدستور خطرناک ملک ہے اور کابل میں اب بھی طالبان کی جانب سے حملے جاری ہیں تاہم افغانستان سے متعلق فیصلہ مایوس کن نہیں، یہ فیصلہ زمینی حقائق دیکھ کر کیا کیونکہ یہ اقدام امریکا کی قومی سلامتی کے لیے بے حد ضروری تھا۔
صدر اوباما نے پاکستان میں جاری آپریشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کے باعث وہ افغانستان بھاگ آئے۔ انہوں نے کہا کہ آیندہ ہفتے وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی میزبانی کروں گا اور ان سے ہونے والی ملاقات میں بھی طالبان، افغان حکومت سے مذاکرات آگے بڑھانے پر بات ہوگی۔
https://www.dailymotion.com/video/x39ta3x_barack-obama_news
امریکی صدر براک اوباما نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ اپنے تمام اتحادیوں پر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہوں اور اپنی ٹیم کے ساتھ افغانستان کی صورتحال کا باقاعدگی سے جائزہ لیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان فوجیوں کو اپنے ملک کی سیکیورٹی اور القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے تربیت دی جب کہ اس وقت افغانستان کی حفاظت نہ صرف خود افغان فوجی کررہے ہیں بلکہ اپنے ملک کا بھی بہادری سے تحفظ کر رہے ہیں تاہم افغان فورسز ابھی اتنی مضبوط نہیں جتنا انہیں ہوناچاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان صدرکی خواہش ہے کہ افغان فورسزتربیت یافتہ ہوں جب کہ اشرف غنی کرپشن کے خلاف اورقانون کی عملداری کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج 42 ملکی اتحاد کاحصہ ہے تاہم افغانستان میں آیندہ سال 9800 امریکی فوجی برقرار رہیں گے جس میں سے 5500 امریکی فوجی جلال آباد اور قندھار کی بیسز پر رہیں گے تاکہ ضرورت کی جگہ امریکی فوجی با آسانی پہنچ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے نظریے کی حمایت نہیں کرتا، افغانستان بدستور خطرناک ملک ہے اور کابل میں اب بھی طالبان کی جانب سے حملے جاری ہیں تاہم افغانستان سے متعلق فیصلہ مایوس کن نہیں، یہ فیصلہ زمینی حقائق دیکھ کر کیا کیونکہ یہ اقدام امریکا کی قومی سلامتی کے لیے بے حد ضروری تھا۔
صدر اوباما نے پاکستان میں جاری آپریشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کے باعث وہ افغانستان بھاگ آئے۔ انہوں نے کہا کہ آیندہ ہفتے وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی میزبانی کروں گا اور ان سے ہونے والی ملاقات میں بھی طالبان، افغان حکومت سے مذاکرات آگے بڑھانے پر بات ہوگی۔
https://www.dailymotion.com/video/x39ta3x_barack-obama_news