شام فلسطین یمن عراق ہند پہلی قسط
گزشتہ چودہ صدیوں سے مسلمان اس زمین پر آباد ہیں۔ ان کی داستان عروج سے زوال کی دردناک کہانی ہے
JERUSALEM:
گزشتہ چودہ صدیوں سے مسلمان اس زمین پر آباد ہیں۔ ان کی داستان عروج سے زوال کی دردناک کہانی ہے۔ حالی نے جب مدّ و جزرِ اسلام پر مسدس لکھی تو اس کا آغاز اس مصرعے سے کیا "پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے" تھا۔ پستی کی انتہا جس کو حالی نے اس وقت محسوس کیا تھا۔ اس کے بارے میں درد مندانِ ملت یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علاج موجود ہے۔
اسی زمانے میں پورے عالمِ اسلام میں خوابیدہ ملت کو جگانے کی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک سے لے کر تحریکِ خلافت تک ایک بیداری کی لہر تھی جو نہ صرف برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں دوڑی بلکہ افریقہ میں مہدی سوڈانی، مصر میں اخوان، انڈونیشیا میں ماشومی جیسی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔
ملت کو اقبال جیسا ہدی خوان میسر آیا جس نے عجم میں آباد مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کیں۔ ان تمام تحاریک اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے علمبرداروں کی کاوشیں اور محنتیں اس وقت بکھر کر رہ گئیں جب مسلم دنیا جدید سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہر کوئی سرحدوں میں قید اپنے ملکوں پر مسلط کیے گئے حکمرانوں سے لڑنے میں مصروف ہو گیا۔ ان ستاون کے قریب اسلامی ملکوں میں جتنے بھی حکمران تھے ان میں اکثریت سیکولر ڈکٹیٹروں کی تھی۔
ہر ملک میں ان سیکولر ڈکٹیٹروں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ مصر میں جمال عبد الناصر، انورالسادات، حسنی مبارک، عراق میں احمد حسن البکر، صدام حسین، شام میں حافظ الاسد اور بشار الاسد، لیبیا میں معمر قذافی، پاکستان میں ایوب خان، یحییٰ خان، پرویز مشرف۔ سعودی عرب اور ایران کو چھوڑ کر پوری عرب دنیا اور مسلم خِطوں میں تمام کے تمام حکمران خواہ ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری سیکولر قومی ریاستی اقدار کے پاسبان ہیں۔ کوئی سیکولر جمہوری ہے تو کوئی سیکولر ڈکٹیٹر۔ یہ سب کے سب مسلمانوں کی چودہ سو سال کی تاریخ، روایت، اقدار اور طرزِ زندگی کا الٹ ہیں۔ چودہ سو سال میں مسلمانوں میں حکمران خلافت اور ملوکیت دونوں طرز کے رہے لیکن 1924ء تک مسلم دنیا میں اسلامی اصولوں پر مبنی تمام ادارے قائم رہے۔
اسلام کا تعزیراتی نظام نافذ رہا اور عدالتی نظام بھی اسی طرح قائم رہا۔ مسلمانوں کا معاشی نظام 1924ء تک ترکوں کے "سوک" تک چلتا تھا جس میں سود نام کی چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ مجلہ عدلیہ الاسلامیہ بھی اسی دور تک نافذ رہا جس سے تمام اسلامی معاشی اصول نافذ کیے جاتے تھے۔ تمام تعلیمی ادارے اسلامی اصولوں کے تحت تعلیمی نظام چلاتے تھے۔
جدید سیکولر قومی ریاستوں کے وجود کے بعد مسلم امت پر مسلط سیکولر ڈکٹیٹروں نے اپنے ملکوں میں سیکولر اخلاقیات نافذ کرنے کی کوشش کی۔ امت کے وہ لوگ جو چودہ سو سال سے ایک مختلف طرزِ زندگی کے عادی تھے ان میں اوّل اوّل تو شدید نفرت کے جذبات ابھرے۔ یہی وجہ ہے اس دور کا لکھا گیا اسلامی ادب مزاحمتی ادب کا پیکر تھا۔
مولانا ابوالاعلٰی مودودی اور سید قطب اس دور کے درخشندہ ستارے تھے جن کی تحریروں نے امت کے پژمردہ اور مایوس جسم میں انقلاب کی روح پھونکنے کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد ہرمسلم کہلانے والے ملک میں ایک گروہ ایسا ضرور پیدا ہو گیاجو اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاہتا تھا جس میں ان کے دین کو معاشرتی زندگی پر غلبہ حاصل تھا۔ جدید سیکولر قومی ریاستوں کا المیہ یہ تھا کہ ان میں ہر کوئی عالمی سیاسی نظام کا محتاج اور عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر تھا۔
ان عالمی طاقتوں نے جو عالمی سیاسی نظام وضع کیا تھا اس میں جمہوریت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن ایسی جمہوریت جو سیکولر اقدار پر استوار ہو۔ اسی لیے الجزائر اور مصر میں جب ایسے لوگ جمہوری طور پر برسرِ اقتدار آئے جو اسلامی نظامِ حکومت کے داعی تھے تو انھیں بزور طاقت کچل دیا گیا۔ افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کو قتل کر کے، خود ایک آئین تحریر کیا گیا، اپنی نگرانی میں الیکشن کرائے گئے اور طاقت کے زور پر جمہوریت نافذ کر دی گئی۔
یہ گزشتہ سو سال کی مایوسی، ناکامی، نامرادی، عالمی طاقتوں کی غنڈہ گردی، تشدّد، شدید قتلِ عام، اور ہر سطح پر عدم شنوائی تھی جس کی وجہ سے چیچنیا سے شام، یمن سے عراق، لیبیا سے صومالیہ اور فلسطین سے کشمیر تک ہر جگہ مسلح جدوجہد کے سوا اب کچھ اور نظر نہیں آتا۔ کیا یہ سب فساد کسی دن امن کے خوبصورت مستقبل میں بدل جائے گا یا پھر ایک طویل خونریزی اور بہت بڑی جنگ ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ اس امت کے ہر مرد و زن کے چہرے پر لکھا ہوا سوال ہے۔
جو لوگ سیدالانبیاء ﷺ کے علمِ حدیث کے دریا میں غوطہ زن ہیں، ان کے نزدیک اب امن نہیں بلکہ ایک طویل خونریزی اور بہت بڑی جنگ ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ دورِ فتن ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا "تم پر چار فتنے آئیں گے، پہلے فتنے میں خونریزی کو حلال سمجھا جائے گا، دوسرے فتنے میں خون اور مالوں کو حلال سمجھا جائے گا، تیسرے فتنے میں خون، مال اور شرمگاہوں کو حلال سمجھا جائے گا، اور چوتھا فتنہ بہرا، اندھا اور سب پر چھا جانے والا ہو گا، وہ سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا حتٰی کہ لوگوں میں کسی ایک کے لیے بھی اس فتنے سے بچنے کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔
یہ فتنہ ملک شام میں پھرے گا اور عراق کو ڈھانپ لے گا اور جزیرہ عرب کو اپنے ہاتھ اور پاؤں سے روند ڈالے گا"۔ (کتاب الفتن، نعیم بن حماد؛ 89) یہ ہے وہ ترتیب جو میرے آقا نے دورِ فتن کے دوران آنے والے فتنوں کے بارے میں بتائی۔ اس دورِ فتن کے آخر میں ایک بہت بڑی جنگ ہے جس میں حق کی فتح اور اسلام کا غلبہ ہے۔
حضرت ابراہیم کی نسل سے تین مذاہب نے جنم لیا۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ ان تینوں مذاہب کے لوگ اس جنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم اس پر پختہ ایمان صرف اور صرف یہودیوں کا ہے، اور انھوں نے اجتماعی طور پر پختہ یقین کے ساتھ اس کے لیے ہجرت بھی کی ہے۔ ذرا چند لمحوں کے لیے یہ تصور کیجیے کہ آپ یورپ یا امریکا کے کسی بڑے شہر میں آباد ہیں۔ آپ کا وہاں وسیع کاروبار ہے۔ آپ کا وہاں بہت بڑا گھر ہے، جس میں آپ کئی دہائیوں سے امن، سکون اور عیش و عشرت سے رہ رہے ہیں۔
آپ یا آپ کی کم از کم گزشتہ چھ سات نسلوں کا یروشلم سے گزر تک نہیں ہوا کہ آپ کی کوئی جذباتی وابستگی اس شہر یا اس کے گرد و نواح کے ساتھ ہو۔ آپ کی قوم پر گزشتہ دو ہزار سال سے افتاد ضرور ٹوٹی ہے، آپ کو دنیا بھر میں شدید نفرت کا سامنا رہا ہے۔ مگر اب تو حالات بدل چکے۔ اب تو معاشی، سیاسی، بینکاری اور میڈیا تک کی قوتیں آپ کے ہاتھ ہیں۔
آپ کا دنیا کے فیصلہ کرنے والے مراکز پر قبضہ ہے۔ ایسے حالات میں آپ سے یہ کہا جائے کہ جزیرہ نمائے عرب کے ایک کونے اور صحرائے سینا کے دامن میں جا کر آباد ہو جاؤ۔ ایسا علاقہ جہاں نہ پانی میسر ہے نہ بجلی، نہ کوئی شہری آبادی ہے اور نہ ہی شہری سہولیات کا تصور۔ تو یقینا آپ اسے پاگل پن کہیں گے۔ لیکن یہودی 1920ء سے آہستہ آہستہ اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی علاقوں میں جہاں چاروں جانب ریت اور اردگرد آباد دشمن۔ جنگِ عظیم دوم آئی یہودیوں پر شدید ظلم و ستم ہوا لیکن وہ ڈٹے رہے اور اتحادی افواج کی فتح کے بعد وہ ان ملکوں میں مستحکم ہو گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اب انھی ملکوں میں رہتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے۔ لیکن وہ یروشلم کے آس پاس آ گئے، انھوں نے ایک خود مختار قومی ریاست بنائی، اسے سیکولر نہیں مذہبی ریاست رکھا اور تورات کو اس کا آئین قرار دیا۔ ریاست بنتے ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی لیکن کسی یہودی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا نہ ہوا، کوئی اسرائیل چھوڑ کر نہ بھاگا۔ بلکہ آج دن تک امریکا اور یورپ کے خوشحال یہودیوں کا وہاں آ کر آباد ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ سب یہاں کاروبار کرنے، شہر آباد کرنے یا کسی پر فضا مقام پر زندگی گزارنے کے لیے جمع نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی عالمگیر جنگ کے لیے جمع ہو رہے ہیں، جس کے بعد انھیں یقین ہے کہ ان کی ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جو پوری دنیا پر حکمران ہو گی اور جس کا ہیڈکوارٹر یروشلم ہو گا۔ جہاں ان کا مسیحا آئے گا، ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر ہو گا اور وہ اپنا عروج دیکھیں گے۔
کیا تمام مسلم امہ میں دس فیصد لوگوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ وہ سب کے سب ہم سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے منبر و محراب پر سید الانبیاء کی بیان کردہ وہ حدیث جو متفق علیہ ہے بیان ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم یہودیوں سے جنگ کرو گے، یہاں تک کہ وہ پتھر جس کے پیچھے یہودی ہو گا، کہے گا کہ اے مسلم! یہ دیکھو یہ ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
" (بخاری)۔ ایسی ہی حدیث مسلم شریف میں بھی درج ہے جس میں ایک اضافہ ہے "یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا، اے مسلمان! اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے ہے، سوائے غرقد کے درخت کے کیوں کہ وہ یہود کا درختوں میں سے ہے" (مسلم)۔ یہ وہ عالمی جنگ جس کی تمام تیاری دوسری جانب سے مکمل ہے۔ لیکن اس جنگ سے قبل مسلم امّہ ایک بہت بڑے دورِ فتن سے گزرے گی، یہ وہی فتنے ہیں جو اندھے گونگے اور بہرے ہیں۔ یہ فتنے چار سو ہیں، اور اس وقت ہر ملک میں پھیلے ہیں۔ (باقی آیندہ)
گزشتہ چودہ صدیوں سے مسلمان اس زمین پر آباد ہیں۔ ان کی داستان عروج سے زوال کی دردناک کہانی ہے۔ حالی نے جب مدّ و جزرِ اسلام پر مسدس لکھی تو اس کا آغاز اس مصرعے سے کیا "پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے" تھا۔ پستی کی انتہا جس کو حالی نے اس وقت محسوس کیا تھا۔ اس کے بارے میں درد مندانِ ملت یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علاج موجود ہے۔
اسی زمانے میں پورے عالمِ اسلام میں خوابیدہ ملت کو جگانے کی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک سے لے کر تحریکِ خلافت تک ایک بیداری کی لہر تھی جو نہ صرف برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں دوڑی بلکہ افریقہ میں مہدی سوڈانی، مصر میں اخوان، انڈونیشیا میں ماشومی جیسی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔
ملت کو اقبال جیسا ہدی خوان میسر آیا جس نے عجم میں آباد مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کیں۔ ان تمام تحاریک اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے علمبرداروں کی کاوشیں اور محنتیں اس وقت بکھر کر رہ گئیں جب مسلم دنیا جدید سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہر کوئی سرحدوں میں قید اپنے ملکوں پر مسلط کیے گئے حکمرانوں سے لڑنے میں مصروف ہو گیا۔ ان ستاون کے قریب اسلامی ملکوں میں جتنے بھی حکمران تھے ان میں اکثریت سیکولر ڈکٹیٹروں کی تھی۔
ہر ملک میں ان سیکولر ڈکٹیٹروں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ مصر میں جمال عبد الناصر، انورالسادات، حسنی مبارک، عراق میں احمد حسن البکر، صدام حسین، شام میں حافظ الاسد اور بشار الاسد، لیبیا میں معمر قذافی، پاکستان میں ایوب خان، یحییٰ خان، پرویز مشرف۔ سعودی عرب اور ایران کو چھوڑ کر پوری عرب دنیا اور مسلم خِطوں میں تمام کے تمام حکمران خواہ ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری سیکولر قومی ریاستی اقدار کے پاسبان ہیں۔ کوئی سیکولر جمہوری ہے تو کوئی سیکولر ڈکٹیٹر۔ یہ سب کے سب مسلمانوں کی چودہ سو سال کی تاریخ، روایت، اقدار اور طرزِ زندگی کا الٹ ہیں۔ چودہ سو سال میں مسلمانوں میں حکمران خلافت اور ملوکیت دونوں طرز کے رہے لیکن 1924ء تک مسلم دنیا میں اسلامی اصولوں پر مبنی تمام ادارے قائم رہے۔
اسلام کا تعزیراتی نظام نافذ رہا اور عدالتی نظام بھی اسی طرح قائم رہا۔ مسلمانوں کا معاشی نظام 1924ء تک ترکوں کے "سوک" تک چلتا تھا جس میں سود نام کی چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ مجلہ عدلیہ الاسلامیہ بھی اسی دور تک نافذ رہا جس سے تمام اسلامی معاشی اصول نافذ کیے جاتے تھے۔ تمام تعلیمی ادارے اسلامی اصولوں کے تحت تعلیمی نظام چلاتے تھے۔
جدید سیکولر قومی ریاستوں کے وجود کے بعد مسلم امت پر مسلط سیکولر ڈکٹیٹروں نے اپنے ملکوں میں سیکولر اخلاقیات نافذ کرنے کی کوشش کی۔ امت کے وہ لوگ جو چودہ سو سال سے ایک مختلف طرزِ زندگی کے عادی تھے ان میں اوّل اوّل تو شدید نفرت کے جذبات ابھرے۔ یہی وجہ ہے اس دور کا لکھا گیا اسلامی ادب مزاحمتی ادب کا پیکر تھا۔
مولانا ابوالاعلٰی مودودی اور سید قطب اس دور کے درخشندہ ستارے تھے جن کی تحریروں نے امت کے پژمردہ اور مایوس جسم میں انقلاب کی روح پھونکنے کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد ہرمسلم کہلانے والے ملک میں ایک گروہ ایسا ضرور پیدا ہو گیاجو اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاہتا تھا جس میں ان کے دین کو معاشرتی زندگی پر غلبہ حاصل تھا۔ جدید سیکولر قومی ریاستوں کا المیہ یہ تھا کہ ان میں ہر کوئی عالمی سیاسی نظام کا محتاج اور عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر تھا۔
ان عالمی طاقتوں نے جو عالمی سیاسی نظام وضع کیا تھا اس میں جمہوریت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن ایسی جمہوریت جو سیکولر اقدار پر استوار ہو۔ اسی لیے الجزائر اور مصر میں جب ایسے لوگ جمہوری طور پر برسرِ اقتدار آئے جو اسلامی نظامِ حکومت کے داعی تھے تو انھیں بزور طاقت کچل دیا گیا۔ افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کو قتل کر کے، خود ایک آئین تحریر کیا گیا، اپنی نگرانی میں الیکشن کرائے گئے اور طاقت کے زور پر جمہوریت نافذ کر دی گئی۔
یہ گزشتہ سو سال کی مایوسی، ناکامی، نامرادی، عالمی طاقتوں کی غنڈہ گردی، تشدّد، شدید قتلِ عام، اور ہر سطح پر عدم شنوائی تھی جس کی وجہ سے چیچنیا سے شام، یمن سے عراق، لیبیا سے صومالیہ اور فلسطین سے کشمیر تک ہر جگہ مسلح جدوجہد کے سوا اب کچھ اور نظر نہیں آتا۔ کیا یہ سب فساد کسی دن امن کے خوبصورت مستقبل میں بدل جائے گا یا پھر ایک طویل خونریزی اور بہت بڑی جنگ ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ اس امت کے ہر مرد و زن کے چہرے پر لکھا ہوا سوال ہے۔
جو لوگ سیدالانبیاء ﷺ کے علمِ حدیث کے دریا میں غوطہ زن ہیں، ان کے نزدیک اب امن نہیں بلکہ ایک طویل خونریزی اور بہت بڑی جنگ ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ دورِ فتن ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا "تم پر چار فتنے آئیں گے، پہلے فتنے میں خونریزی کو حلال سمجھا جائے گا، دوسرے فتنے میں خون اور مالوں کو حلال سمجھا جائے گا، تیسرے فتنے میں خون، مال اور شرمگاہوں کو حلال سمجھا جائے گا، اور چوتھا فتنہ بہرا، اندھا اور سب پر چھا جانے والا ہو گا، وہ سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا حتٰی کہ لوگوں میں کسی ایک کے لیے بھی اس فتنے سے بچنے کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔
یہ فتنہ ملک شام میں پھرے گا اور عراق کو ڈھانپ لے گا اور جزیرہ عرب کو اپنے ہاتھ اور پاؤں سے روند ڈالے گا"۔ (کتاب الفتن، نعیم بن حماد؛ 89) یہ ہے وہ ترتیب جو میرے آقا نے دورِ فتن کے دوران آنے والے فتنوں کے بارے میں بتائی۔ اس دورِ فتن کے آخر میں ایک بہت بڑی جنگ ہے جس میں حق کی فتح اور اسلام کا غلبہ ہے۔
حضرت ابراہیم کی نسل سے تین مذاہب نے جنم لیا۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ ان تینوں مذاہب کے لوگ اس جنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم اس پر پختہ ایمان صرف اور صرف یہودیوں کا ہے، اور انھوں نے اجتماعی طور پر پختہ یقین کے ساتھ اس کے لیے ہجرت بھی کی ہے۔ ذرا چند لمحوں کے لیے یہ تصور کیجیے کہ آپ یورپ یا امریکا کے کسی بڑے شہر میں آباد ہیں۔ آپ کا وہاں وسیع کاروبار ہے۔ آپ کا وہاں بہت بڑا گھر ہے، جس میں آپ کئی دہائیوں سے امن، سکون اور عیش و عشرت سے رہ رہے ہیں۔
آپ یا آپ کی کم از کم گزشتہ چھ سات نسلوں کا یروشلم سے گزر تک نہیں ہوا کہ آپ کی کوئی جذباتی وابستگی اس شہر یا اس کے گرد و نواح کے ساتھ ہو۔ آپ کی قوم پر گزشتہ دو ہزار سال سے افتاد ضرور ٹوٹی ہے، آپ کو دنیا بھر میں شدید نفرت کا سامنا رہا ہے۔ مگر اب تو حالات بدل چکے۔ اب تو معاشی، سیاسی، بینکاری اور میڈیا تک کی قوتیں آپ کے ہاتھ ہیں۔
آپ کا دنیا کے فیصلہ کرنے والے مراکز پر قبضہ ہے۔ ایسے حالات میں آپ سے یہ کہا جائے کہ جزیرہ نمائے عرب کے ایک کونے اور صحرائے سینا کے دامن میں جا کر آباد ہو جاؤ۔ ایسا علاقہ جہاں نہ پانی میسر ہے نہ بجلی، نہ کوئی شہری آبادی ہے اور نہ ہی شہری سہولیات کا تصور۔ تو یقینا آپ اسے پاگل پن کہیں گے۔ لیکن یہودی 1920ء سے آہستہ آہستہ اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی علاقوں میں جہاں چاروں جانب ریت اور اردگرد آباد دشمن۔ جنگِ عظیم دوم آئی یہودیوں پر شدید ظلم و ستم ہوا لیکن وہ ڈٹے رہے اور اتحادی افواج کی فتح کے بعد وہ ان ملکوں میں مستحکم ہو گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اب انھی ملکوں میں رہتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے۔ لیکن وہ یروشلم کے آس پاس آ گئے، انھوں نے ایک خود مختار قومی ریاست بنائی، اسے سیکولر نہیں مذہبی ریاست رکھا اور تورات کو اس کا آئین قرار دیا۔ ریاست بنتے ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی لیکن کسی یہودی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا نہ ہوا، کوئی اسرائیل چھوڑ کر نہ بھاگا۔ بلکہ آج دن تک امریکا اور یورپ کے خوشحال یہودیوں کا وہاں آ کر آباد ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ سب یہاں کاروبار کرنے، شہر آباد کرنے یا کسی پر فضا مقام پر زندگی گزارنے کے لیے جمع نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی عالمگیر جنگ کے لیے جمع ہو رہے ہیں، جس کے بعد انھیں یقین ہے کہ ان کی ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جو پوری دنیا پر حکمران ہو گی اور جس کا ہیڈکوارٹر یروشلم ہو گا۔ جہاں ان کا مسیحا آئے گا، ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر ہو گا اور وہ اپنا عروج دیکھیں گے۔
کیا تمام مسلم امہ میں دس فیصد لوگوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ وہ سب کے سب ہم سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے منبر و محراب پر سید الانبیاء کی بیان کردہ وہ حدیث جو متفق علیہ ہے بیان ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم یہودیوں سے جنگ کرو گے، یہاں تک کہ وہ پتھر جس کے پیچھے یہودی ہو گا، کہے گا کہ اے مسلم! یہ دیکھو یہ ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
" (بخاری)۔ ایسی ہی حدیث مسلم شریف میں بھی درج ہے جس میں ایک اضافہ ہے "یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا، اے مسلمان! اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے ہے، سوائے غرقد کے درخت کے کیوں کہ وہ یہود کا درختوں میں سے ہے" (مسلم)۔ یہ وہ عالمی جنگ جس کی تمام تیاری دوسری جانب سے مکمل ہے۔ لیکن اس جنگ سے قبل مسلم امّہ ایک بہت بڑے دورِ فتن سے گزرے گی، یہ وہی فتنے ہیں جو اندھے گونگے اور بہرے ہیں۔ یہ فتنے چار سو ہیں، اور اس وقت ہر ملک میں پھیلے ہیں۔ (باقی آیندہ)