ہندو مسلم کے درمیان خلیج میں اضافہ
بھارت کو ایک غیر ضروری بحث میں الجھا دیا گیا ہے کہ بیف پر پابندی لگا دی جانی چاہیے یا نہیں لگانی چاہیے
TEHRAN:
بھارت کو ایک غیر ضروری بحث میں الجھا دیا گیا ہے کہ بیف پر پابندی لگا دی جانی چاہیے یا نہیں لگانی چاہیے۔ یہ سوال ایک ایسے ملک میں پوچھنا ہی غلط ہے جہاں ہندوؤں کے جذبات گائے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس کو وہ مقدس اور پوتر گردانتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک شخص کو اس وجہ سے جان سے مار دینا چاہیے کہ اس نے بیف کھایا، حتیٰ کہ یہ الزام بھی بعد میں جھوٹا ثابت ہوا جو ایک جھوٹی افواہ کی بنیاد پر عاید کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہندو انتہا پسند مذہب کے بارے میں اپنے خیالات کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ اچھی بات تھی کہ بیف پر ہونے والی بحث زیادہ عرصے تک نہیں چلی۔ اس بحث نے معاشرے میں انتشار پیدا کرنا شروع کر دیا تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو کہنا پڑا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو مل کر غریبی کے خلاف لڑنا چاہیے، آپس میں نہیں لڑنا چاہیے۔ مودی پورا ہفتہ خاموش رہے ہیں اور غالباً وہ اس معاملے میں کوئی واضح پوزیشن نہیں لینا چاہتے تھے لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے وہ کچھ کہنے پر مجبور ہو گئے۔
اور بالآخر جو انھوں نے کہا وہ بھی کوئی خاص بامعنی بات نہیں تھی۔ بس ایسے ہی جیسے کوئی رسمی کارروائی پوری کی ہو۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ) کو یہ محسوس ہوا ہے کہ اگر نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت پر کڑی نگاہ نہ رکھی جائے تو اس کو انتہا پسندوں کی طرف سے نہ نظر آنیوالے خطرات کا سامنا رہے گا۔ مسلمان اس صورت میں خود کو اور زیادہ غیر محفوظ محسوس کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نے اپنی آواز مدھم کر دی ہے۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بی جے پی کے قد آور لیڈر ایل کے ایڈوانی نے اس بات کو صاف صاف تسلیم کیا تھا کہ بی جے پی کے لیے ہندوؤں کی حمایت سے لوک سبھا میں مکمل اکثریت حاصل کر لینا خارج از امکان نہیں لیکن مسلمانوں کے تعاون کے بغیر ملک کو چلایا نہیں جا سکتا۔ مگر ان کی یہ بات صرف کاغذات میں لکھی رہ گئی ہے۔
اگر سنگھ پریوار کو واقعی مسلمانوں کی حمایت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے تو انھیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تھے جن سے مسلمانوں کی شرکت بھی ممکن ہو سکے کیونکہ اس وقت جو صورت حال ہے اسے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ملکی معاملات میں مسلمانوں کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ مرکزی کابینہ کو ہی دیکھ لیں اس میں مسلمانوں کے پاس صرف ایک وزارت کا قلمدان ہے اور وہ وزارت بھی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں۔ اس سے بھی بدترین جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دونوں برادریوں میں فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دونوں اپنی اپنی دنیا میں ہی کھوئی ہوئی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر فرقہ واریت کا نتیجہ ہے جو دن بدن گہری ہو رہی ہے بلکہ سنگھ پریوار جان بوجھ کر اس کو شدید سے شدید تر کر رہا ہے۔
یہ نکتہ اس وقت منظرعام پر آیا جب چھ مشہور ادبی شخصیات نے، جن میں جواہر لعل نہرو کی بھانجی نیانترا سہگل بھی شامل ہیں، اپنے اکیڈمی ایوارڈ واپس کر دیے۔ اپنے مشترکہ خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ آزادی اظہار کی گنجائش دن بدن سکڑ رہی ہے۔ بے شک یہ لوگ ملک کے حقیقی اصولوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ بی جے پی کی ہندوتوا کو بالجبر نافذ کرنے کی پالیسی ہمارے معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے جس کی ابتدائی تربیت اظہار خیال کی آزادی اور اجتماعیت کے حوالے سے رہی ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے اس بنیادی حقیقت کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔ مودی جو ایک وقت میں آر ایس ایس کے پرچارک تھے انھیں دہلی کے نواح میں دادری کے علاقے میں ہونیوالے فرقہ وارانہ فسادات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایک مسلمان کو صرف اس افواہ کی بنیاد پر جان سے مار دیا گیا کہ اس نے بیف کھایا تھا۔ بالفرض محال اگر اس نے کھایا بھی تھا تو ملک کے کسی قانون میں اس کی ممانعت نہیں۔ یہ درست ہے کہ سوائے دو تین ریاستوں کے باقی سب نے گائے کے ذبیحے پر پابندی کر دی ہے لیکن بیف کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔مودی کو لازماً یہ احساس ہونا چاہیے کہ اجتماعیت ہی ہمارے معاشرے کو زندہ رکھ سکتی ہے۔
خواہ سنگھ پریوار کے بعض انتہا پسند اسے پسند کریں یا نہ کریں ملک کی اکثریت جمہوریت' سیکولر ازم اور روشن خیالی پر یقین رکھتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک میں بعض ایسے عناصر موجود ہیں جو اجتماعیت کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن پوری قوم کے تناظر میں یہ درست نہیں ہے۔
وہ اقلیتوں کو اپنی بات کہنے کا حق دیتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے ٹی وی اسکرین پر برملا یہ کہا کہ وہ بیف کھاتے ہیں، انھوں نے اس مسئلے کو سلجھانے میں کوئی مدد نہیں کی۔ وہ اگر اپنی طرف سے اپنے سیکولر ہونے کی تشہیر کر رہے تھے مگر یہ مناسب طریقہ نہیں ہے۔ ملک کا فوکس اس واقعے پر ہونا چاہیے جب اخلاق حسین کو اس کے گھر سے گھسیٹ کر نکالا گیا کیونکہ اس کے بارے میں افواہ اڑی تھی کہ اس نے بیف کھایا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سچ بھی ہوتا تو کیا بیف کھانے والے کسی شخص کو جان سے مار دینا چاہیے؟ ملک کی تقریباً تمام ریاستوں نے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگا رکھی ہے جو آئین کے رہنما اصول کے مطابق ہے کہ ''گائے بھینس کی افزائش نسل کی طرف خصوصی توجہ دی جائے اور ان کے ذبیحے پر پابندی لگائی جائے''۔بیف کا معاملہ ایک مقدمے میں سپریم کورٹ آف انڈیا تک جا پہنچا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے ''یہ اختیار ایک فرد کو حاصل ہے کہ وہ بیف کھائے یا نہ کھائے اور کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو بیف کھانے والے کو مجرم قرار دے سکے''۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے انتخابی مقاصد کے لیے بیف کے مسئلے پر معاشرے کو تفریق در تفریق کا شکار بنانے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح شیوسینا نے، جو ہندوؤں کی ایک انتہا پسند تنظیم ہے لیکن جو صرف مہاراشٹر تک محدود ہے، اس نے اپنی ریاست کا نام بدنام کیا ہے۔ شیوسینا نے نہ صرف بھارت کے جمہوری ڈھانچے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کے چہرے پر سیاہی مل دی ہے۔ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کو تشدد کی سیاست کے بے مقصد ہونے کا احساس ہو گیا تھا جس پر اس نے تشدد کی مذمت شروع کر دی تھی۔ اس سے شیوسینا کو مقبولیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں اس کا نامزد کردہ شخص وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہے تاہم شیوسینا کی نئی نسل کو جمہوریت پسند نہیں ہے۔
ایک قابل احترام صحافی سریندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پھینک دینا شیوسینا کی تازہ کارروائی ہے حالانکہ کلکرنی کا جھکاؤ بھی بی جے پی کی طرف ہے۔ اس واقعے کے خلاف جو شور و غل اٹھا ہے اس سے سنگھ پریوار کو یہ احساس ہو جانا چاہیے کہ بھارت کی روح سیکولر ہے اور بھارت ایسا ہی رہے گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
بھارت کو ایک غیر ضروری بحث میں الجھا دیا گیا ہے کہ بیف پر پابندی لگا دی جانی چاہیے یا نہیں لگانی چاہیے۔ یہ سوال ایک ایسے ملک میں پوچھنا ہی غلط ہے جہاں ہندوؤں کے جذبات گائے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس کو وہ مقدس اور پوتر گردانتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک شخص کو اس وجہ سے جان سے مار دینا چاہیے کہ اس نے بیف کھایا، حتیٰ کہ یہ الزام بھی بعد میں جھوٹا ثابت ہوا جو ایک جھوٹی افواہ کی بنیاد پر عاید کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہندو انتہا پسند مذہب کے بارے میں اپنے خیالات کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ اچھی بات تھی کہ بیف پر ہونے والی بحث زیادہ عرصے تک نہیں چلی۔ اس بحث نے معاشرے میں انتشار پیدا کرنا شروع کر دیا تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو کہنا پڑا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو مل کر غریبی کے خلاف لڑنا چاہیے، آپس میں نہیں لڑنا چاہیے۔ مودی پورا ہفتہ خاموش رہے ہیں اور غالباً وہ اس معاملے میں کوئی واضح پوزیشن نہیں لینا چاہتے تھے لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے وہ کچھ کہنے پر مجبور ہو گئے۔
اور بالآخر جو انھوں نے کہا وہ بھی کوئی خاص بامعنی بات نہیں تھی۔ بس ایسے ہی جیسے کوئی رسمی کارروائی پوری کی ہو۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ) کو یہ محسوس ہوا ہے کہ اگر نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت پر کڑی نگاہ نہ رکھی جائے تو اس کو انتہا پسندوں کی طرف سے نہ نظر آنیوالے خطرات کا سامنا رہے گا۔ مسلمان اس صورت میں خود کو اور زیادہ غیر محفوظ محسوس کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نے اپنی آواز مدھم کر دی ہے۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بی جے پی کے قد آور لیڈر ایل کے ایڈوانی نے اس بات کو صاف صاف تسلیم کیا تھا کہ بی جے پی کے لیے ہندوؤں کی حمایت سے لوک سبھا میں مکمل اکثریت حاصل کر لینا خارج از امکان نہیں لیکن مسلمانوں کے تعاون کے بغیر ملک کو چلایا نہیں جا سکتا۔ مگر ان کی یہ بات صرف کاغذات میں لکھی رہ گئی ہے۔
اگر سنگھ پریوار کو واقعی مسلمانوں کی حمایت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے تو انھیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تھے جن سے مسلمانوں کی شرکت بھی ممکن ہو سکے کیونکہ اس وقت جو صورت حال ہے اسے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ملکی معاملات میں مسلمانوں کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ مرکزی کابینہ کو ہی دیکھ لیں اس میں مسلمانوں کے پاس صرف ایک وزارت کا قلمدان ہے اور وہ وزارت بھی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں۔ اس سے بھی بدترین جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دونوں برادریوں میں فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دونوں اپنی اپنی دنیا میں ہی کھوئی ہوئی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر فرقہ واریت کا نتیجہ ہے جو دن بدن گہری ہو رہی ہے بلکہ سنگھ پریوار جان بوجھ کر اس کو شدید سے شدید تر کر رہا ہے۔
یہ نکتہ اس وقت منظرعام پر آیا جب چھ مشہور ادبی شخصیات نے، جن میں جواہر لعل نہرو کی بھانجی نیانترا سہگل بھی شامل ہیں، اپنے اکیڈمی ایوارڈ واپس کر دیے۔ اپنے مشترکہ خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ آزادی اظہار کی گنجائش دن بدن سکڑ رہی ہے۔ بے شک یہ لوگ ملک کے حقیقی اصولوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ بی جے پی کی ہندوتوا کو بالجبر نافذ کرنے کی پالیسی ہمارے معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے جس کی ابتدائی تربیت اظہار خیال کی آزادی اور اجتماعیت کے حوالے سے رہی ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے اس بنیادی حقیقت کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔ مودی جو ایک وقت میں آر ایس ایس کے پرچارک تھے انھیں دہلی کے نواح میں دادری کے علاقے میں ہونیوالے فرقہ وارانہ فسادات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایک مسلمان کو صرف اس افواہ کی بنیاد پر جان سے مار دیا گیا کہ اس نے بیف کھایا تھا۔ بالفرض محال اگر اس نے کھایا بھی تھا تو ملک کے کسی قانون میں اس کی ممانعت نہیں۔ یہ درست ہے کہ سوائے دو تین ریاستوں کے باقی سب نے گائے کے ذبیحے پر پابندی کر دی ہے لیکن بیف کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔مودی کو لازماً یہ احساس ہونا چاہیے کہ اجتماعیت ہی ہمارے معاشرے کو زندہ رکھ سکتی ہے۔
خواہ سنگھ پریوار کے بعض انتہا پسند اسے پسند کریں یا نہ کریں ملک کی اکثریت جمہوریت' سیکولر ازم اور روشن خیالی پر یقین رکھتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک میں بعض ایسے عناصر موجود ہیں جو اجتماعیت کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن پوری قوم کے تناظر میں یہ درست نہیں ہے۔
وہ اقلیتوں کو اپنی بات کہنے کا حق دیتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے ٹی وی اسکرین پر برملا یہ کہا کہ وہ بیف کھاتے ہیں، انھوں نے اس مسئلے کو سلجھانے میں کوئی مدد نہیں کی۔ وہ اگر اپنی طرف سے اپنے سیکولر ہونے کی تشہیر کر رہے تھے مگر یہ مناسب طریقہ نہیں ہے۔ ملک کا فوکس اس واقعے پر ہونا چاہیے جب اخلاق حسین کو اس کے گھر سے گھسیٹ کر نکالا گیا کیونکہ اس کے بارے میں افواہ اڑی تھی کہ اس نے بیف کھایا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سچ بھی ہوتا تو کیا بیف کھانے والے کسی شخص کو جان سے مار دینا چاہیے؟ ملک کی تقریباً تمام ریاستوں نے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگا رکھی ہے جو آئین کے رہنما اصول کے مطابق ہے کہ ''گائے بھینس کی افزائش نسل کی طرف خصوصی توجہ دی جائے اور ان کے ذبیحے پر پابندی لگائی جائے''۔بیف کا معاملہ ایک مقدمے میں سپریم کورٹ آف انڈیا تک جا پہنچا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے ''یہ اختیار ایک فرد کو حاصل ہے کہ وہ بیف کھائے یا نہ کھائے اور کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو بیف کھانے والے کو مجرم قرار دے سکے''۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے انتخابی مقاصد کے لیے بیف کے مسئلے پر معاشرے کو تفریق در تفریق کا شکار بنانے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح شیوسینا نے، جو ہندوؤں کی ایک انتہا پسند تنظیم ہے لیکن جو صرف مہاراشٹر تک محدود ہے، اس نے اپنی ریاست کا نام بدنام کیا ہے۔ شیوسینا نے نہ صرف بھارت کے جمہوری ڈھانچے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کے چہرے پر سیاہی مل دی ہے۔ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کو تشدد کی سیاست کے بے مقصد ہونے کا احساس ہو گیا تھا جس پر اس نے تشدد کی مذمت شروع کر دی تھی۔ اس سے شیوسینا کو مقبولیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں اس کا نامزد کردہ شخص وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہے تاہم شیوسینا کی نئی نسل کو جمہوریت پسند نہیں ہے۔
ایک قابل احترام صحافی سریندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پھینک دینا شیوسینا کی تازہ کارروائی ہے حالانکہ کلکرنی کا جھکاؤ بھی بی جے پی کی طرف ہے۔ اس واقعے کے خلاف جو شور و غل اٹھا ہے اس سے سنگھ پریوار کو یہ احساس ہو جانا چاہیے کہ بھارت کی روح سیکولر ہے اور بھارت ایسا ہی رہے گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)