پیپلزپارٹی کا ترقیاتی ایجنڈا آخری حصہ

پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ بڑی شاہرات سے متصل سڑکوں کا بھی خیال رکھا جائے،

پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ بڑی شاہرات سے متصل سڑکوں کا بھی خیال رکھا جائے، ترقی کے اسی اصول کو اپناتے ہوئے کراچی کی شاہرات سے متعلقہ مضافاتی سڑکوں پر توجہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے ہمراہ 17 نومبر 2014 کو تھڈونالہ ملیر پر تعمیر ہونیوالے پل کا افتتاح کیا۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی نے تقریباً 13کروڑ روپے کی لاگت سے اس منصوبے کو 9 ماہ میں کی مختصر مدت میں مکمل کیا ہے جس سے میمن گوٹھ سمیت ملیر اور ملحقہ علاقوں کے لاکھوں عوام کو سہولت حاصل ہوئی ہے، جن کا برسات کے دوران تھدو نالے میں پانی کی مقدار بڑھنے سے شہر سے رابطہ کٹ جاتا تھا اور انھیں گوٹھوں میں جانے کے لیے کھوکھرا پار یا سپرہائی وے سے آنا پڑتا تھا جس کے لیے انھیں کئی گھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔

نالے پر تعمیر ہونیوالے 110 میٹر طویل اس پل سے گوٹھوں کے عوام کا شہر سے براہ راست رابطہ ممکن ہوگیا ہے۔ ڈملوٹی کے علاقے ملیر ندی پر تعمیر ہونے والے اس پل کے لیے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے 13کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ جاری کی۔کراچی کو آلودگی سے بچانے اور سمندری حیات کو محفوظ کرنے کے لیے آئل ٹرمینل کی شہر سے باہر منتقلی لازمی ہو گئی تھی۔

اس لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی نے حکومت سندھ کی ہدایت پر 2012 کو لانڈھی سے آگے نیشنل ہائی وے ذوالفقارآباد میں 150 ایکٹر رقبہ پر آئل ٹینکر ٹرمینل تعمیرکرنے کے کام کا آغازکیا جس پر 2 فیز میں کام کیا گیا، پہلا فیز 313 ملین روپے کا پی سی ون تیارکیا گیا جس پرتیزی سے کام مکمل ہوا جب کہ 2013 میں دوسرے فیزکے لیے 860 ملین روپے کا پی سی ون منظور ہوا۔ 2015 کو بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اس منصوبے کو مکمل کیا اور 24 اگست2015 کو آئل ٹینکرزکی منتقلی کے کام کا باقاعدہ عملی آغاز ہوا۔

مجموعی طور پر 150 ایکڑ رقبے پر مشتمل اس آئل ٹینکرز ٹرمینل پر 120 ایکڑ رقبے کے لیے ٹینکرز پارکنگ جب کہ 30 ایکڑ پر دیگر سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ واٹر بورڈ نے 54 انچ قطرکی پانی کی خصوصی لائن ٹرمینل کے لیے ڈالی ہے، جس سے 150 ہزار گیلن زیر زمین اور 60 ہزارگیلن بالائی ٹینک تعمیرکیا گیا، جس سے ٹرمینل کے ہر حصے میں لائن کے ذریعے پانی سپلائی کیا جاسکے گا۔ 2375 ٹینکرز اور 10 ہزار افراد کے گنجائش کا انفراء اسٹرکچر ڈالا گیا ہے۔

یہ آئل ٹرمینل تمام اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے تعمیرکیا گیا ہے۔آلودگی سے پاک ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے لیے حکومت نے سی این جی بسوں کو چلایا تاکہ شہری اور ماحول دونوں کاربن کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی حوالے سے 5 ستمبرکو وزیراعلیٰ ہاؤس میں 36 سی این جی بسوں کو روڈ پر لانے کے لیے باقاعدہ افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

بسوں کے چلنے سے شہرکی 30 فیصد آبادی اس سہولت سے استفادہ کر رہی ہے، کیونکہ تقریباً 40 کلو میٹر طویل روٹ پرکوئی معیاری عوامی ٹرانسپورٹ سروس موجود نہیں ہے، ان بسوں کے چلنے سے اس روٹ پر سفرکرنیوالے لاکھوں شہریوں کو سہولت حاصل ہوگی جب کہ طویل روٹ ہونے کے باوجود کرایہ انتہائی کم اور مناسب بھی ہے جو 20 روپے یکطرفہ رکھا گیا ہے۔

یہ بسیں خراب حالت میں ڈپو پر کھڑی تھی، پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر 4 کروڑ روپے کی خطیر رقم بلدیہ عظمیٰ کراچی کو جاری کی جو خصوصی گرانٹ کے طور پر جاری کی گئی جس سے 36 بسوں کی مرمت کرکے سڑک پر لایا گیا۔

بیماری یا حادثے کی صورت میں مریضوں کی فوری اسپتال تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اسپتالوں کے لیے 20 ملین روپے کی لاگت سے خریدی گئی 24 ایمبولینس گاڑیوں کا افتتاح وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں 16 ستمبر 2013 کو کیا گیا، یہ ایمبولینس گاڑیاں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایمرجنسی رسپانس سینٹر 1122 کے لیے دی گئی تھیں۔


جس کا مقصد بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 13 بڑے اسپتالوں مریضوں کے لیے ان ایمبولینس گاڑیوں کو استعمال کیا جانا ہے جب کہ گورنر ہاؤس میں موجود ڈسپنسری میں بھی یہ گاڑیاں موجود رہتی ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے جن بڑے اسپتالوں کے لیے ایمبولینس گاڑیاں دی گئی ہیں۔

ان اسپتالوں میں عباسی شہید اسپتال، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز ، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ، سو بھراج میٹرنٹی اسپتال ، لپیروسی اسپتال منگھو پیر، کارڈیک ایمرجنسی سینٹر لانڈھی،کارڈیک ایمرجنسی سینٹر شاہ فیصل کالونی، لانڈھی میڈیکل کمپلیکس،گزدرآباد جنرل اسپتال، سرفراز رفیقی شہید اسپتال، پاک کالو نی میٹرنٹی ہوم، گزری میٹرنٹی ہوم اوردیگر اسپتال شامل ہیں۔ کشمیر روڈ پر واقع اسپورٹس کمپلیکس بھی شہریوں کے لیے ایک ایسی تفریح گاہ ہے۔

سوئمنگ پولز کے تزئین وآرائش کے کاموں کو مکمل ہونے کے بعد اب اس کا افتتاح 2 جون 2015 کو ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی ثاقب سومرو نے کیا۔اے ڈی پی کے تحت بنائے گئے سوئمنگ پولزکی تعمیر اور تزئین وآرائش کے کام مکمل ہونے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا یہ سوئمنگ پولز بین الاقوامی معیارکو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔

یہاں تین طرح کے سوئمنگ پولز بنائے گئے ہیں، اسپورٹس کمپلیکس کی ممبر شپ اوپن ہے اور عام شہری بھی اس کے ممبر بن سکتے ہیں سوئمنگ پول میں موجود پانی جراثیم سے پاک اور صاف رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل فلٹر پلانٹ بھی لگایا گیا ہے، یہ فلٹر پلان خودکار سسٹم کے تحت کام کرے گا اور پانی کو صاف رکھے گا یہاں ایک فائبر شیڈ بھی لگایا گیا ہے ، بچوں کے کھیلنے کی جگہ کو بھی بہتر بنایا گیا ہے، جہاں مختلف قسم کے جھولے نصب کیے گئے ہیں، جب کہ سوئمنگ پول اور ڈائیونگ پول کے اطراف ڈرینج سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے تاکہ خود کار طریقے سے پانی کی نکاسی ہوسکے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور ممبر قومی اسمبلی نفیسہ شاہ ذاتی دلچسپی لے کر سفاری پارک اور کراچی زو کے لیے نئے جانور منگوانے کی ہدایت کی ہے، ان نئے جانوروں میں ہپو، زرافہ، گینڈا، ہاتھی اور شیر شامل ہونگے جن کے آنے کے بعد چڑیا گھر اور سفاری پارک کی رونقوں میں مزید اضافہ ہوگا اور شہریوں کو بھرپور تفریحی مواقعے میسر آئیں گے۔سفاری پارک 265 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا سنگ بنیاد 1970 میں رکھا گیا تھا۔

سفاری پارک کے قیام کا مقصد شہریوں کو صاف ستھری اور عمدہ ماحول میں بھرپور تفریح کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انواع واقسام کے جانور اور پرندوں کو قدرتی ماحول فراہم کرنا بھی ہے۔ اسی خوبصورت پارک میں ہاتھیوں کے لیے بنائے گئے نئے، جدید اورخوبصورت ہاتھی گھر کا افتتاح 8 مئی 2014 کو کیا گیا۔

مذکورہ انکلوژ سندھ حکومت کی جانب سے اے ڈی پی اسکیم میں مختص رقم سے مکمل کیا گیا ہے۔ہاتھی گھر کی تعمیر پر ایک کروڑ 99 لاکھ روپے لاگت آئی ہے اور یہ منصوبہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت مکمل کیا گیا ہے ۔ سندھ حکومت نے پورے صوبے کے ترقیاتی پروگرام کو مد نظر رکھتے ہوئے کراچی کو اس کی ضرورت سے زیادہ حصہ دیا ہے تاکہ شہرکو اس کی شہری ضروریات کیمطابق حصہ دیا جا سکے ۔

پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ کراچی اور سندھ کی ترقی ایک دوسرے سے منسلک ہے اس لیے مربوط ترقیاتی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے صوبے کو جدید بنانے کے لیے کراچی کی جدید خطوط پر ترقی ضروری ہے ۔پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اجتماعی ترقی کے اصول کو اپناتے ہوئے ہر ترقیاتی پروگرام کو مجموعی مربوط طریقہ کار کو اپنایا ہے جس کا فائدہ ہر شہری کو مساوی بنیادوں پر ملا ہے ۔عوامی ترقی کے لیے ذرایع آمدورفت بہت اہمیت رکھتے ہیں، اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے شاہرات کی تعمیر پر توجہ دیتے ہوئے ۔

ماضی میں جس طرح 95/96 میں سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے 121 ارب روپے کراچی پیکیج کے لیے دیا۔اس طرح ستمبر 2015 میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کراچی پیکیج کا ایک بار پھر اعلان کیا۔ پیکیج تقریباً 150 ارب روپے کی خطیررقم کا اعلان کیا یہ اعلانات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کی ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہے۔
Load Next Story