خادم اعلی کی مصروفیت کا احوال
ویسے تو رات گئے تک کام کرنے کا عادی ہوں مگر آج شام ہی بیگم کا پیغام مِلا کہ ہیلی کاہپٹرچایے، مچھلی کھانے مری جانا ہے۔
KARACHI:
12 اپریل 2015 کو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ برسات کی آمد آمد ہے اور میرے لمبے بوٹ ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہے۔ افوہ نیند کو فوراََ معطل کرکے اُٹھ بیٹھا۔ چیف سیکرٹری بہت نکما ہے، اسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ خواب کہاں سے آتے ہیں۔ کل بھی خواب میں ایک مرحوم انقلابی شاعر نے اپنی نظموں کو صحیح تلفظ سے غلط مواقع پر پڑھنے کے الزام میں مجھ پر مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔
خیر غسل کرکے واپس آیا تو حسبِ معمول تین فہرستیں میز پر رکھی تھیں۔ ایک اُن سرکاری افسروں کی جن کو میں نے کل معطل کیا تھا، دوسرے وہ جن کو آج معطل کرنا تھا اور تیسرے وہ جن کو پرسوں معطل کیا تھا، اور آج اُن کی معطلی واپس لینی تھی۔ ناشتے کے دوران نیوز چینل لگایا تو کچھ ملک دشمن صحافی، ترقیاتی منصوبوں میں بلاوجہ کی مین میخ نکال رہے تھے۔ اہلِ خانہ کے ہمراہ ہاتھ اُٹھا کر ان صحافیوں کے حق میں دعا کی کہ یا تو باری تعالیٰ ان کو راہِ راست پہ لانے کی سعادت نصیب فرمائے آمین، بڑے بیٹے نے جذبۂ حب الوطنی کے زیرِ اثر ان صحافیوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو سختی سے اس کی سرزنش کی کہ جب دِل میں بغض رکھ سکتے ہو تو یوں سب کے سامنے ایسی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
ناشتے کے بعد اخبار پڑھا۔ کچھ کالم نگاروں نے تنقید کی ہوئی تھی کہ وزیرِ اعلیٰ کا یہ کام نہیں کہ اسپتال میں چھاپے مار کر گندی بالٹیاں اور ٹوٹے ہوئے واش بیسن ڈھونڈتا پھرے، میں حیران ہوں کہ اور میرا کیا کام ہے؟ کل ایک جلسے میں، میں نے مخالفین کے بارے کہا تھا کہ اُن سے تو فرعون اچھا تھا۔ آج ایک محبِ وطن صحافی نے فرعون کے فضائل و مناقب پر کالم لکھ رکھا تھا۔ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ اُس کے زورِ قلم اور بینک بیلنس میں برکت کی بالترتیب دعا اور دوا کرنے کے بعد دفتر روانہ ہوگیا۔
دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ڈکیتی کی ایک واردات میں 3 شہری وفات پا گئے ہیں، اس علاقے کا ڈی ایس پی بہت فرض شناس اور ایماندار تھا چنانچہ میرے کچھ کہے بغیر خود ہی معطل ہوگیا۔ اس مستعدی پر اسے شاباش دی اور ہدایت کی کہ ہفتہ دو ہفتہ ٹھہر کر دوبارہ چارج سنبھال لے۔ ایک محبِ وطن سرکاری افسر نے پچھلے الیکشن میں مُلک و قوم کے وسیع تر مفاد میں، ہمیں جتوانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسلام میں احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔ چنانچہ اس کو تین چار گریڈ اوپر ترقی دینے کا حکم جاری کیا تھا، جس پر کسی ناعاقبت اندیش سرکاری اہلکار نے اعتراض کیا کہ اصول اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جواباََ میں نے بھی لکھ بھیجا کہ
امید ہے کہ بات سمجھ گیا ہوگا۔
آج غریبوں اور ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کرنا تھا سو وقت پر دفتر سے نکلا، وقت پر دفتر سے نکلنا کچھ یوں بھی ضروری تھا کہ لوگ بہت بے صبرے ہو گئے ہیں۔ اگر سیکیورٹی کی وجہ سے 40 ، 50 منٹ ٹریفک بند رہے تو احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ راشن تقسیم کرتے وقت دعائیں اور تصویریں لیں۔ تصویریں لیتے وقت ایک عجیب بات ہوئی، ایک بچی کیمرے کی طرف دیکھنے کے بجائے آٹے کے اُس تھیلے کو تکے جا رہی تھی جو میں اسے تھما کر اور دوسرا ہاتھ اُس کے سر پہ رکھتے وقت تصویر بنوانی تھی، بہت مشکل سے اُسے کیمرے کی طرف دیکھنے پر راضی کیا گیا، وہ بھی اس طرح کہ آٹے کا تھیلا اُس نے بہت مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ خبر نہیں کیوں؟ واللہ اعلم!
ڈکیتی میں مرنے والوں کے وارثوں کو میڈیا بہت کوریج دے رہا تھا، سو میں بھی ان سے ملنے چلا گیا۔ ایک مقتول کی والدہ کو میں نے کہا کہ میرے دورِ حکومت میں آپ کا بیٹا قتل ہوگیا ہے، میں بہت شرمندہ ہوں، یہ 5 لاکھ روپے کا چیک رکھ لیں۔ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا اور بیٹا 5 لاکھ کا ہوتا ہے۔ یہ سُن کر اُس خاتون نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہی نازیبا الفاظ کہے جو میرے بیٹے نے ناشتے کی میز پر مُلک دشمن صحافیوں کے بارے کہے تھے، بہرحال خاندانی عورت تھیں، لبوں سے کچھ نہ کہا، خاموش رہیں۔
ایک جلسے میں جانا تھا اور آج کافی عرصے بعد ہاتھ مار کر مائیک گرانے کا دل کر رہا تھا، چنانچہ ملک و قوم کا پیسہ بچانے کی خاطر منتظمین کو پہلے ہی ہدایت کردی کہ مائیک سستے والے لگائے جائیں۔ جلسہ گاہ پہنچا تو پنڈال کھچا کھچ بھرا دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ مبالغہ آرائی میری فطرت نہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اور کچھ نہیں تو ساڑھے 3 سو سے کوئی درجن بھر زیادہ ہی لوگ ہوں گے، کم نہیں ہوں گے۔ خبر نہیں میڈیا کو یہ سب کیوں نظر نہیں آتا؟
ویسے تو میں رات گئے تک کام کرنے کا عادی ہوں مگر آج شام ساڑھے7 بجے ہی بیگم کا پیغام مِلا کہ آپ کا ہیلی کاہپٹر چایے، مَری مچھلی کھانے جانا ہے، کیونکہ اسلام میں بیوی کے بہت حقوق ہیں اور میری کافی ساری جائیداد کے جملہ حقوق بھی اُسی عفیفہ کے نام محفوظ ہیں، چنانچہ امورِ مملکت برخاست کرکے گھر روانہ ہوگیا۔
[poll id="719"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس
12 اپریل 2015 کو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ برسات کی آمد آمد ہے اور میرے لمبے بوٹ ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہے۔ افوہ نیند کو فوراََ معطل کرکے اُٹھ بیٹھا۔ چیف سیکرٹری بہت نکما ہے، اسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ خواب کہاں سے آتے ہیں۔ کل بھی خواب میں ایک مرحوم انقلابی شاعر نے اپنی نظموں کو صحیح تلفظ سے غلط مواقع پر پڑھنے کے الزام میں مجھ پر مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔
خیر غسل کرکے واپس آیا تو حسبِ معمول تین فہرستیں میز پر رکھی تھیں۔ ایک اُن سرکاری افسروں کی جن کو میں نے کل معطل کیا تھا، دوسرے وہ جن کو آج معطل کرنا تھا اور تیسرے وہ جن کو پرسوں معطل کیا تھا، اور آج اُن کی معطلی واپس لینی تھی۔ ناشتے کے دوران نیوز چینل لگایا تو کچھ ملک دشمن صحافی، ترقیاتی منصوبوں میں بلاوجہ کی مین میخ نکال رہے تھے۔ اہلِ خانہ کے ہمراہ ہاتھ اُٹھا کر ان صحافیوں کے حق میں دعا کی کہ یا تو باری تعالیٰ ان کو راہِ راست پہ لانے کی سعادت نصیب فرمائے آمین، بڑے بیٹے نے جذبۂ حب الوطنی کے زیرِ اثر ان صحافیوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو سختی سے اس کی سرزنش کی کہ جب دِل میں بغض رکھ سکتے ہو تو یوں سب کے سامنے ایسی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
ناشتے کے بعد اخبار پڑھا۔ کچھ کالم نگاروں نے تنقید کی ہوئی تھی کہ وزیرِ اعلیٰ کا یہ کام نہیں کہ اسپتال میں چھاپے مار کر گندی بالٹیاں اور ٹوٹے ہوئے واش بیسن ڈھونڈتا پھرے، میں حیران ہوں کہ اور میرا کیا کام ہے؟ کل ایک جلسے میں، میں نے مخالفین کے بارے کہا تھا کہ اُن سے تو فرعون اچھا تھا۔ آج ایک محبِ وطن صحافی نے فرعون کے فضائل و مناقب پر کالم لکھ رکھا تھا۔ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ اُس کے زورِ قلم اور بینک بیلنس میں برکت کی بالترتیب دعا اور دوا کرنے کے بعد دفتر روانہ ہوگیا۔
دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ڈکیتی کی ایک واردات میں 3 شہری وفات پا گئے ہیں، اس علاقے کا ڈی ایس پی بہت فرض شناس اور ایماندار تھا چنانچہ میرے کچھ کہے بغیر خود ہی معطل ہوگیا۔ اس مستعدی پر اسے شاباش دی اور ہدایت کی کہ ہفتہ دو ہفتہ ٹھہر کر دوبارہ چارج سنبھال لے۔ ایک محبِ وطن سرکاری افسر نے پچھلے الیکشن میں مُلک و قوم کے وسیع تر مفاد میں، ہمیں جتوانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسلام میں احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔ چنانچہ اس کو تین چار گریڈ اوپر ترقی دینے کا حکم جاری کیا تھا، جس پر کسی ناعاقبت اندیش سرکاری اہلکار نے اعتراض کیا کہ اصول اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جواباََ میں نے بھی لکھ بھیجا کہ
''ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا''۔
امید ہے کہ بات سمجھ گیا ہوگا۔
آج غریبوں اور ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کرنا تھا سو وقت پر دفتر سے نکلا، وقت پر دفتر سے نکلنا کچھ یوں بھی ضروری تھا کہ لوگ بہت بے صبرے ہو گئے ہیں۔ اگر سیکیورٹی کی وجہ سے 40 ، 50 منٹ ٹریفک بند رہے تو احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ راشن تقسیم کرتے وقت دعائیں اور تصویریں لیں۔ تصویریں لیتے وقت ایک عجیب بات ہوئی، ایک بچی کیمرے کی طرف دیکھنے کے بجائے آٹے کے اُس تھیلے کو تکے جا رہی تھی جو میں اسے تھما کر اور دوسرا ہاتھ اُس کے سر پہ رکھتے وقت تصویر بنوانی تھی، بہت مشکل سے اُسے کیمرے کی طرف دیکھنے پر راضی کیا گیا، وہ بھی اس طرح کہ آٹے کا تھیلا اُس نے بہت مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ خبر نہیں کیوں؟ واللہ اعلم!
ڈکیتی میں مرنے والوں کے وارثوں کو میڈیا بہت کوریج دے رہا تھا، سو میں بھی ان سے ملنے چلا گیا۔ ایک مقتول کی والدہ کو میں نے کہا کہ میرے دورِ حکومت میں آپ کا بیٹا قتل ہوگیا ہے، میں بہت شرمندہ ہوں، یہ 5 لاکھ روپے کا چیک رکھ لیں۔ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا اور بیٹا 5 لاکھ کا ہوتا ہے۔ یہ سُن کر اُس خاتون نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہی نازیبا الفاظ کہے جو میرے بیٹے نے ناشتے کی میز پر مُلک دشمن صحافیوں کے بارے کہے تھے، بہرحال خاندانی عورت تھیں، لبوں سے کچھ نہ کہا، خاموش رہیں۔
ایک جلسے میں جانا تھا اور آج کافی عرصے بعد ہاتھ مار کر مائیک گرانے کا دل کر رہا تھا، چنانچہ ملک و قوم کا پیسہ بچانے کی خاطر منتظمین کو پہلے ہی ہدایت کردی کہ مائیک سستے والے لگائے جائیں۔ جلسہ گاہ پہنچا تو پنڈال کھچا کھچ بھرا دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ مبالغہ آرائی میری فطرت نہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اور کچھ نہیں تو ساڑھے 3 سو سے کوئی درجن بھر زیادہ ہی لوگ ہوں گے، کم نہیں ہوں گے۔ خبر نہیں میڈیا کو یہ سب کیوں نظر نہیں آتا؟
ویسے تو میں رات گئے تک کام کرنے کا عادی ہوں مگر آج شام ساڑھے7 بجے ہی بیگم کا پیغام مِلا کہ آپ کا ہیلی کاہپٹر چایے، مَری مچھلی کھانے جانا ہے، کیونکہ اسلام میں بیوی کے بہت حقوق ہیں اور میری کافی ساری جائیداد کے جملہ حقوق بھی اُسی عفیفہ کے نام محفوظ ہیں، چنانچہ امورِ مملکت برخاست کرکے گھر روانہ ہوگیا۔
پاک سر زمین شاد باد!
[poll id="719"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس