جنریشن گیپ آج کی دنیا کا بڑھتا ہوا مسئلہ
جنریشن گیپ سے مراد وہ ذہنی فاصلہ ہے جو نا قابل قبول حد تک محسوس ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔
لاہور:
احمد پچھلے کافی دنوں سے پریشان تھا کہ وہ والدین سے بات کرے یا نہ کرے۔ اسی سوچ نے اس میں چڑچڑا پن پیدا کردیا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ انجینئرنگ کے شعبے میں جانا چاہتا تھا، لیکن اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ اُس میں ذہانت کی کمی ہے یا پھر وہ محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ جب بھی ہمت کرتا اس کے سامنے والدین کا ادب و احترام حائل ہوجاتا جسے حل کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔
یہ ایک احمد کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ہر چھوٹے کا بڑے سے اور بڑے کا چھوٹے سے مسئلہ ہے۔ بڑوں کو چھوٹوں سے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان کی بات نہیں مانتے اور ان کی خواہشات کا احترام نہیں کرتے، نتیجے میں نالائق، سست، بے ادب، کمزور اور بدتمیز جیسے القابات آج کی نوجوان نسل کو مل رہے ہیں، اور آج کی نسل اپنے بڑوں مثلاََ والدین، خاندان کے بزرگوں اور اساتذہ سے شاکی رہتے ہیں کہ ہمارے جذبات و خیالات کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارا طرز زندگی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے تبدیلیوں نے یکسر بدل کر رکھ دیا ہے مگر ہمارے رویوں میں کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ تعلیم سے معاشرے میں کسی حد تک تبدیلی تو ممکن ہوئی ہے لیکن معاشرتی سوچ اور رویے اب تک محدود ہیں۔
جنریشن گیپ جو کہ والدین اور اولاد کے درمیان رویوں، ترجیحات اور خیالات پر اختلافات اور غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے، وہیں اس سے کئی گھرانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور یہ دوریاں کئی اور معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جنریشن گیپ دونوں کو تقسیم کر دیتا ہے۔ جنریشن گیپ سے مراد وہ ذہنی فاصلہ ہے جو ناقابل قبول حد تک محسوس ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ گیپ 18 سے 40 سال کی عمر یا اس سے زائد کے افراد کے درمیان پایا جاتا ہے، جہاں دونوں اپنی اپنی جگہ الگ زاویے سے سوچتے ہیں، دونوں نسلیں ایک ہی چیز کو مختلف زاویوں سے تولتی ہیں۔ یہ باہمی فرق کام کرنے کے انداز، ماضی کے تجربات اور ٹیکنالوجی کے استعمال تک واضح نظر آتا ہے۔ مثلاََ اگر بات کی جائے رابطہ رکھنے کی تو ہمارے بزرگ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے یا پھر فون پر کال کے ذریعے بات کرنے کے قائل نظر آتے ہیں جبکہ ہماری نسل کے نوجوان صرف ٹیکسٹ میسج سے ہی کام چلاتے ہیں۔
خلیل جبران نے لکھا ہے کہ،
اس لئے کہ ہر کسی کے خیالات جدا ہوتے ہیں۔ اولاد اور والدین میں دوری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ والدین اپنے خیالات و خواہشات اولاد پر تھوپنا چاہتے ہیں اور اولاد اپنی زندگی اپنی مرضی بلکہ اپنی خواہشات کے لئے گذارنے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ آگے چل کر والدین اور اولاد کے درمیان دوری اور باہمی چپقلش کا باعث بنتی ہے۔ جیسے کوئی خود ڈاکٹر تو نہیں بن سکا لیکن، وہ اپنی اولاد کو ڈاکٹر بنانے کی مکمل کوشش کرے گا۔ یہ درست ہے کہ والدین کا تجربہ اور زمانہ سازی بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود بچے اس سے مستفید نہیں ہونا چاہتے۔
ہم اپنی فعال زندگی میں تقریباََ 20 سال تک اس تبدیلی کو محسوس نہیں کر پاتے لیکن اپنی اولاد کے لڑکپن میں ہمیں دنیا نہیں بلکہ اپنی اولاد یا اگلی نسل بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ گویا زمانے میں ہونے والی سست رفتار تبدیلی اگلی نسل کی شکل میں اچانک انقلاب کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جب تک ہمیں زمانے کی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، اگر میں اپنی بات کروں تو میں شاید 15 سال کی عمر کے لگ بھگ کمپیوٹر سے روشناس ہوا تھا، لیکن میرے چھوٹے بھائی اسی عمر میں مجھ سے کہیں بہتر طور پر کمپیوٹر سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔
ہماری تعلیم و تربیت، حالات اور ماحول ہماری شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اگر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو لازم قرار دیا جائے اور ان تبدیلیوں کو قبول کرنے کی ہم اپنے اندر قوت پیدا کرلیں تو آئندہ نسل کی ہم بہتر طور پر تربیت کرکے اس 'جنریشن گیپ' کو کم کرسکتے ہیں۔ ہمارا یہ کردار ہم سے پہلی نسل اور آئندہ آنے والی نسل کے درمیان ایک پل کا سا ہوسکتا ہے۔ ہم پہلی نسلوں پر اس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں کہ ان کے معاملے میں سوچ لیں کہ ان کی تربیت مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ درمیانی نسل کے طور پر ہمیں مسلسل فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر پرانی نسل کو آئندہ نسل کو یہ رعایت دینا ہوگی کہ وہ ان کے زمانے میں بننے والے معیارات کا احترام کرے اور جس حد تک ممکن ہو ان کا پاس کرے۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ارشاد فرمایا،
اس حدیث سے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم اپنے چھوٹوں کے ساتھ کس رویہ سے پیش آتے ہیں اور اپنے بڑوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا جارحانہ بلکہ گستاخانہ ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اولاد ایک چلتی پھرتی مشین نہیں بلکہ ایک انسان ہے اسے گھر میں ایک دوست کی ضرورت ہوتی ہے، نا کہ ایک داروغہ کی جس کا کام ہی ہر غلطی پر سرزنش اور ماردھاڑ ہوتا ہے۔ والدین اپنا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ اور مشفقانہ رکھیں اور ان کے ساتھ اپنی ماضی کی باتیں شئیر کریں لیکن کوشش کریں کہ اس میں اولاد کے متعلق ہتک کا کوئی پہلو نہ ہو۔ نتیجے کے طور پر اولاد بھی اپنے مسائل اور اپنی خواہشات آپ کے ساتھ شئیر کرے گی۔ کوشش کریں کہ اولاد کی جائز خواہشات کو مانیں اور ان پر اپنی خواہشات نہ تھوپیں۔ اولاد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے مسائل و خواہشات شئیر کریں اور یقین رکھیں کہ ان کا مشورہ ان کے لئے بہترین ہوگا، ان کا ادب و احترام بطور مسلمان ہم پر فرض ہے، ان کی خواہشات کو حتی الامکان فوقیت دیں اور کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذاریں اور اُن کے تجربات سے مستفید ہوں۔
[poll id="722"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
احمد پچھلے کافی دنوں سے پریشان تھا کہ وہ والدین سے بات کرے یا نہ کرے۔ اسی سوچ نے اس میں چڑچڑا پن پیدا کردیا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ انجینئرنگ کے شعبے میں جانا چاہتا تھا، لیکن اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ اُس میں ذہانت کی کمی ہے یا پھر وہ محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ جب بھی ہمت کرتا اس کے سامنے والدین کا ادب و احترام حائل ہوجاتا جسے حل کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔
یہ ایک احمد کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ہر چھوٹے کا بڑے سے اور بڑے کا چھوٹے سے مسئلہ ہے۔ بڑوں کو چھوٹوں سے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان کی بات نہیں مانتے اور ان کی خواہشات کا احترام نہیں کرتے، نتیجے میں نالائق، سست، بے ادب، کمزور اور بدتمیز جیسے القابات آج کی نوجوان نسل کو مل رہے ہیں، اور آج کی نسل اپنے بڑوں مثلاََ والدین، خاندان کے بزرگوں اور اساتذہ سے شاکی رہتے ہیں کہ ہمارے جذبات و خیالات کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارا طرز زندگی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے تبدیلیوں نے یکسر بدل کر رکھ دیا ہے مگر ہمارے رویوں میں کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ تعلیم سے معاشرے میں کسی حد تک تبدیلی تو ممکن ہوئی ہے لیکن معاشرتی سوچ اور رویے اب تک محدود ہیں۔
جنریشن گیپ جو کہ والدین اور اولاد کے درمیان رویوں، ترجیحات اور خیالات پر اختلافات اور غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے، وہیں اس سے کئی گھرانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور یہ دوریاں کئی اور معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جنریشن گیپ دونوں کو تقسیم کر دیتا ہے۔ جنریشن گیپ سے مراد وہ ذہنی فاصلہ ہے جو ناقابل قبول حد تک محسوس ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ گیپ 18 سے 40 سال کی عمر یا اس سے زائد کے افراد کے درمیان پایا جاتا ہے، جہاں دونوں اپنی اپنی جگہ الگ زاویے سے سوچتے ہیں، دونوں نسلیں ایک ہی چیز کو مختلف زاویوں سے تولتی ہیں۔ یہ باہمی فرق کام کرنے کے انداز، ماضی کے تجربات اور ٹیکنالوجی کے استعمال تک واضح نظر آتا ہے۔ مثلاََ اگر بات کی جائے رابطہ رکھنے کی تو ہمارے بزرگ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے یا پھر فون پر کال کے ذریعے بات کرنے کے قائل نظر آتے ہیں جبکہ ہماری نسل کے نوجوان صرف ٹیکسٹ میسج سے ہی کام چلاتے ہیں۔
خلیل جبران نے لکھا ہے کہ،
''ہم اپنی اولاد کو بے پناہ محبت تو دے سکتے ہیں لیکن اپنے خیالات نہیں''۔
اس لئے کہ ہر کسی کے خیالات جدا ہوتے ہیں۔ اولاد اور والدین میں دوری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ والدین اپنے خیالات و خواہشات اولاد پر تھوپنا چاہتے ہیں اور اولاد اپنی زندگی اپنی مرضی بلکہ اپنی خواہشات کے لئے گذارنے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ آگے چل کر والدین اور اولاد کے درمیان دوری اور باہمی چپقلش کا باعث بنتی ہے۔ جیسے کوئی خود ڈاکٹر تو نہیں بن سکا لیکن، وہ اپنی اولاد کو ڈاکٹر بنانے کی مکمل کوشش کرے گا۔ یہ درست ہے کہ والدین کا تجربہ اور زمانہ سازی بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود بچے اس سے مستفید نہیں ہونا چاہتے۔
ہم اپنی فعال زندگی میں تقریباََ 20 سال تک اس تبدیلی کو محسوس نہیں کر پاتے لیکن اپنی اولاد کے لڑکپن میں ہمیں دنیا نہیں بلکہ اپنی اولاد یا اگلی نسل بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ گویا زمانے میں ہونے والی سست رفتار تبدیلی اگلی نسل کی شکل میں اچانک انقلاب کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جب تک ہمیں زمانے کی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، اگر میں اپنی بات کروں تو میں شاید 15 سال کی عمر کے لگ بھگ کمپیوٹر سے روشناس ہوا تھا، لیکن میرے چھوٹے بھائی اسی عمر میں مجھ سے کہیں بہتر طور پر کمپیوٹر سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔
ہماری تعلیم و تربیت، حالات اور ماحول ہماری شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اگر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو لازم قرار دیا جائے اور ان تبدیلیوں کو قبول کرنے کی ہم اپنے اندر قوت پیدا کرلیں تو آئندہ نسل کی ہم بہتر طور پر تربیت کرکے اس 'جنریشن گیپ' کو کم کرسکتے ہیں۔ ہمارا یہ کردار ہم سے پہلی نسل اور آئندہ آنے والی نسل کے درمیان ایک پل کا سا ہوسکتا ہے۔ ہم پہلی نسلوں پر اس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں کہ ان کے معاملے میں سوچ لیں کہ ان کی تربیت مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ درمیانی نسل کے طور پر ہمیں مسلسل فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر پرانی نسل کو آئندہ نسل کو یہ رعایت دینا ہوگی کہ وہ ان کے زمانے میں بننے والے معیارات کا احترام کرے اور جس حد تک ممکن ہو ان کا پاس کرے۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ارشاد فرمایا،
''جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں''۔
( سنن ابی داؤد،باب فی الرحمۃ )
اس حدیث سے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم اپنے چھوٹوں کے ساتھ کس رویہ سے پیش آتے ہیں اور اپنے بڑوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا جارحانہ بلکہ گستاخانہ ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اولاد ایک چلتی پھرتی مشین نہیں بلکہ ایک انسان ہے اسے گھر میں ایک دوست کی ضرورت ہوتی ہے، نا کہ ایک داروغہ کی جس کا کام ہی ہر غلطی پر سرزنش اور ماردھاڑ ہوتا ہے۔ والدین اپنا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ اور مشفقانہ رکھیں اور ان کے ساتھ اپنی ماضی کی باتیں شئیر کریں لیکن کوشش کریں کہ اس میں اولاد کے متعلق ہتک کا کوئی پہلو نہ ہو۔ نتیجے کے طور پر اولاد بھی اپنے مسائل اور اپنی خواہشات آپ کے ساتھ شئیر کرے گی۔ کوشش کریں کہ اولاد کی جائز خواہشات کو مانیں اور ان پر اپنی خواہشات نہ تھوپیں۔ اولاد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے مسائل و خواہشات شئیر کریں اور یقین رکھیں کہ ان کا مشورہ ان کے لئے بہترین ہوگا، ان کا ادب و احترام بطور مسلمان ہم پر فرض ہے، ان کی خواہشات کو حتی الامکان فوقیت دیں اور کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذاریں اور اُن کے تجربات سے مستفید ہوں۔
[poll id="722"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔