خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
مسلمان قوم کو علومِ جدید سے روشناس کروانا سر سید کی خدمات ہیں اور ان کا اعتراف بہرحال کیا جانا چاہئے۔
ISLAMABAD:
سر سید کا عمومی تعارف ایک مصلح، مجدد اور جہالت کے گھپ اندھیروں میں علم تعلیم تھامنے والے ایک شخص کے طور پر کروایا جاتا ہے۔ ان کی ذات کے تعارف میں یہی کہا جاتا ہے کہ سرسید احمد خاں برصغیرمیں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خان انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں باعزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔
سر سید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ ان کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں گئی تھیں۔ نوکریوں کے دروازے ان پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان سائیس، خانساماں، خدمتگار اور معمولی نوکروں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے، ایسے میں سر سید نے محسوس کرلیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ ان کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جدوجہد کرتے رہے۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ،
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان جدید تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے اور یہاں وہ حق بجانب تھے کہ جب تک مسلمان جدیدیت کا دامن نہیں تھامیں گے، دنیاوی علوم سے بہرہ ور نہیں ہوں گے تب تک ان پر دنیاوی ترقی کے دروازے نہیں کھل سکیں گے اور یہ کہ مسلمانوں کو اپنے آباء کے کارناموں پر فخر کرنے اور اس ''نوسٹلجیا'' سے باہر نکلنا ہوگا وگرنہ وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔ آج بھی بائیں بازو کے بیشتر ترقی پسندوں کا یہی عقیدہ ہے۔
سر سید پر ایک الزام جو اُن کے مخالفین کی طرف سے لگایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے جدید تعلیم کی آڑ میں در حقیقت انگریزوں کے ایجنٹ ہونے کا کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو ایسی چیزیں پڑھائیں جو انہیں ان کے دین سے دور کرتی تھیں، مجھے یہ تو علم نہیں کہ سر سید واقعی برٹش ایجنٹ تھے یا نہیں لیکن، مجھے یہ ضرور علم ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں سر سید احمد خان سرکاری نوکری کے سلسلہ میں ضلع بجنور میں تعینات تھے اور اس قیام کے دوران جہاں انہوں نے کتاب ''سرکشی ضلع بجنور'' لکھی، وہیں جنگِ آزادی کے دوران بہت سے انگریزوں کی جانیں بھی بچائیں۔ آپ نہ صرف یہ امر تسلیم کرتے تھے بلکہ یہ توضیح پیش کرتے تھے کہ میں نے یہ کام انسانی ہمدردی کیلئے ادا کیا۔ سر سید کو جنگ آزادی کے بعد آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کیلئے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
یہاں پر یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں سب سے اہم موڑ 1857ء کی جنگِ آزادی ہی ہے کیونکہ، ویسے تو انگریز 1757ء میں ہی بنگال پر قابض ہوچکے تھے مگر بیشتر ریاستوں میں راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کی حاکمیت برقرار تھی حتیٰ کہ دہلی کے لال قلعہ کا تاج بھی مسلمانوں کے سر پر ہی سجا ہوا تھا مگر یہ انگریزوں کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا ایسے میں مسلمان ریاستوں کے نوابوں نے ہندو ریاستوں کے راجائوں سے مل کر ''ایک دھکا اور'' دینے کا ارادہ کیا اور ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کردی ۔1857ء میں اس جنگ میں 2 واضح گروہ موجود تھے، مقامی ہندوستانی جن میں مسلمان پیش پیش تھے اور دوسرا ایسٹ انڈیا کمپنی، اس جنگ میں جہاں ہندوستانیوں کو شکست ہوئی وہیں تاجِ برطانیہ نے بھی ایسٹ انڈیا کے ہاتھ سے تمام معاملات خود لے لئے اور ہندوستان کا تاج اپنے سر پر سجا اور لیا اور پورے ہندوستان پر یونین جیک لہرانے لگا۔ ایسے میں تاجِ برطانیہ نے ممکنہ بغاوتوں کو کچلنے اور جنگ کا سبق سکھانے کیلئے ایسی ایسی سزائیں دیں کہ روح کانپ جائے۔ جا بجا درختوں پر مسلمان علماء کی نعشیں لٹکی نظر آتی تھیں۔ کہیں انہیں توپوں کے دہانے پر باندھ کر اڑایا جا رہا تھا اور کہیں انہیں کالے پانی کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ ایسے حالات میں سر سید احمد خاں انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی جانیں بچا رہے تھے کہ جب پورے برصغیر کے علماء انگریز کے خلاف جہاد فرض ہونے کا فتویٰ دے چکے تھے۔ بہر کیف یہ ان کی زندگی کا ایک تاریک و گمنام پہلو تھا اور میں اس بنیاد پر ان کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کرکے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے، آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں کو خبردار کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لئے آپ نے متعدد اقدامات بھی کئے۔ 1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا جہاں فارسی کی تعلیم کیساتھ ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تا کہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کرسکیں۔
1866ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبارجاری کیا گیا، جسے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے۔ یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس اخبار کے ذریعے انگریزوں تک مسلمانوں کے جذبات کی آگاہی کا اہتمام کیا گیا۔ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا اور ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یہ فیصلہ کرلیا کہ ہندوستان واپس جا کر اس طرز کے تعلیمی ادارے قائم کریں گے۔ 1870ء میں ہندوستان واپسی پر آپ نے ''انجمن ترقی مسلمانان ہند'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ اسی سال آپ نے اپنا شہرہ آفاق رسالہ ''تہذیب الاخلاق'' جاری کیا، جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووئوں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی۔ پھر آپ نے ''محمڈن کالج کمیٹی'' قائم کی جس کے تحت جدید علوم کے کالج قائم کرنا تھے اور اس مقصد کیلئے آپ نے پورے ہندوستان سے فنڈز اکھٹے کیے۔ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔
1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا، پھر آپ نے 27 دسمبر 1886ء کو ''محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس'' کی بنیاد رکھی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات کرنا تھے۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر جلسے کئے۔ ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس کانفرنس کے سربراہان میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حالی جیسی نابغہ ہستیاں شامل تھیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہی ڈھاکا میں عمل میں آیا تھا۔
سرسید کو اپنی زندگی میں بھی بے شمار مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، اکبر آلہ آبادی کا شمار بھی ابتدائی دور میں آپ کے ناقدین میں ہوتا تھا، جدید تعلیم کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ,
نیز یہ کہ،
لیکن بہرحال مسلمان قوم کو علومِ جدید سے روشناس کروانا سر سید کی خدمات ہیں اور ان کا اعتراف بہرحال کیا جانا چاہئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اس سفر میں سر سید کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا وہیں بیشمار دیدہ ور ہستیاں ان کے ہمقدم بھی تھیں۔ دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ سر سید کے خلاف فتویٰ بازی اور ان کی مخالفت کی وجہ انگریزی سے محبت نہیں تھی بلکہ یہ بغضِ معاویہ تھا۔ جدیدیت کی آڑ میں سرسید ایسے نظریات کے حامی کہ جن کا نہ حقیقت سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی وہ دنیاوی ترقی کیلئے ضروری تھا۔ جب انسان کسی سے قرب کا خواہشمند ہوتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں نظر انداز کردیتا ہے جن کا اثر باہمی تعلق پر ہوتا ہے اور ایسا ہی سر سید احمد خان نے بھی کیا اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اگر ہم ہندوئوں سے قرب کے خواہاں ہیں تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم وحدانیت کے منکر ہوجائیں مگر سر سید کا المیہ یہی رہا کہ ان کے نظریات، ان کے عقائد مسلمانوں سے زیادہ عیسائیوں سے میل کھاتے تھے، مثلاً وہ بھی عیسائیوں اور گمراہ فرقوں کی مانند حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کے قائل تھے اور اپنے اس نظریے کو قرآن سے تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ،
(تفسیر سر سید احمد خاں صاحب جلد 4 صفحہ46 ۔ 47)
یہ بات تو خود سر سید بھی تسلیم کرتے تھے کہ اور برملا کہتے تھے کہ،
(مکتوبات سرسید، جلد 1ص 3، ناشر مجلس ترقی ادب)
بہتر ہوتا کہ سرسید خود کو تعلیم اور جدیدیت تک ہی محدود رکھتے، خود سرسید کے پیروکار و معتقد مولانا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ
(حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۴۸۱)
ان کے عمومی نظریات میں سے چند پیشِ خدمت ہیں۔
٭ فرشتے، جنات اور ابلیس کوئی علیحدہ مخلوق نہیں۔ جنات کوئی غیر مرئی مخلوق نہیں بلکہ اس سے مراد جنگلی وحشی انسان ہیں اور ابلیس کا کوئی خارجی وجود نہیں یہ انسان میں موجود اُس قوت کا نام ہے جو اسے راہِ حق سے بھٹکاتی ہے۔
٭ پیغمبروں پر وحی کسی فرشتے کے ذریعے نہیں بلکہ القا کی صورت میں آتی تھی یعنی ان کے دل میں جو بات پیدا ہوتی وہ اسے وحی قرار دیتے تھے۔
٭ انبیاء کے علاوہ مقدس لوگوں پر بھی وحی آتی ہے۔
٭ معجزہ سے مراد کسی مافوق الفطرت واقعہ یا کسی خلافِ عقل امر کا وقوع ہے تو کسی نبی سے کوئی معجزہ رونما نہیں ہوا۔
٭ جنت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے، اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں، دودھ و شراب و شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ۔۔۔ ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے، اگر بہشت یہی ہو تو بلا مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں''۔
٭ جبکہ حرم کعبہ کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ''جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے ۔۔۔ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے، اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے۔
اسی طرح ''حیاتِ جاوید'' میں مولانا حالی ایک واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سہارن پور کی جامع مسجد کی تعمیر کیلئے سر سید سے چندہ مانگا گیا تو انہوں نے چندہ دینے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ لکھ بھیجا کہ ''میں خداوند کے زندہ گھروں (کالج) کی تعمیر کیلئے فکر مند ہوں اور آپ لوگوں کو اینٹ اور مٹی کے گھر کی تعمیر کا خیال ہے''۔
ان عقائد کے باعث کہا جاتا ہے کہ سر سید دین اسلام میں ایک نئے فرقے کے بانی تھے اور اس فرقے کو ''نیچریہ'' کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ معجزات اور ماورائے عقل باتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے نیچر یعنی فطرت کو ہی سب کچھ گردانتا ہے۔ اس کے نزدیک فطرت سب سے بڑا مذہب ہے اور عقل سب سے بڑا عقیدہ، اسی باعث جو باتیں ان کی عقل کے خانے میں نہ سما سکیں یہ اسے تسلیم نہیں کرتے تھے۔
سر سید سے متعلق بات کرتے ہوئے سب سے زیادہ میزان کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تعصب میں آ کر ان کی خدمات کا سرے سے ہی انکار کردیا جائے یا دوسری طرف ان کی عقیدت میں خوامخواہ میں ان کا مجسمہ تعمیر کیا جائے یہ بات درست ہے کہ وہ جدید تعلیم کے حامی تھے مگر انکار اس سے بھی نہیں کہ وہ جدیدت کی آڑ میں خود بھی بھٹک چکے تھے۔ ان کے قائم کردہ اداروں سے ہزاروں لاکھوں لوگوں نے فیض پایا۔ ایک ایسے دور میں جب اسلام ''صاحب القول'' لوگوں کے مذہب بن کر رہ گیا تھا، ایسے میں سر سید ''صاحب العمل'' بن کر آئے اور اپنے عمل سے لوگوں کو جدیدیت کی طرف راغب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی نے ان کی وفات پہ کہا تھا کہ،
[poll id="718"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
سر سید کا عمومی تعارف ایک مصلح، مجدد اور جہالت کے گھپ اندھیروں میں علم تعلیم تھامنے والے ایک شخص کے طور پر کروایا جاتا ہے۔ ان کی ذات کے تعارف میں یہی کہا جاتا ہے کہ سرسید احمد خاں برصغیرمیں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خان انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں باعزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔
سر سید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ ان کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں گئی تھیں۔ نوکریوں کے دروازے ان پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان سائیس، خانساماں، خدمتگار اور معمولی نوکروں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے، ایسے میں سر سید نے محسوس کرلیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ ان کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جدوجہد کرتے رہے۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ،
''جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں''
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان جدید تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے اور یہاں وہ حق بجانب تھے کہ جب تک مسلمان جدیدیت کا دامن نہیں تھامیں گے، دنیاوی علوم سے بہرہ ور نہیں ہوں گے تب تک ان پر دنیاوی ترقی کے دروازے نہیں کھل سکیں گے اور یہ کہ مسلمانوں کو اپنے آباء کے کارناموں پر فخر کرنے اور اس ''نوسٹلجیا'' سے باہر نکلنا ہوگا وگرنہ وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔ آج بھی بائیں بازو کے بیشتر ترقی پسندوں کا یہی عقیدہ ہے۔
سر سید پر ایک الزام جو اُن کے مخالفین کی طرف سے لگایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے جدید تعلیم کی آڑ میں در حقیقت انگریزوں کے ایجنٹ ہونے کا کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو ایسی چیزیں پڑھائیں جو انہیں ان کے دین سے دور کرتی تھیں، مجھے یہ تو علم نہیں کہ سر سید واقعی برٹش ایجنٹ تھے یا نہیں لیکن، مجھے یہ ضرور علم ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں سر سید احمد خان سرکاری نوکری کے سلسلہ میں ضلع بجنور میں تعینات تھے اور اس قیام کے دوران جہاں انہوں نے کتاب ''سرکشی ضلع بجنور'' لکھی، وہیں جنگِ آزادی کے دوران بہت سے انگریزوں کی جانیں بھی بچائیں۔ آپ نہ صرف یہ امر تسلیم کرتے تھے بلکہ یہ توضیح پیش کرتے تھے کہ میں نے یہ کام انسانی ہمدردی کیلئے ادا کیا۔ سر سید کو جنگ آزادی کے بعد آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کیلئے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
یہاں پر یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں سب سے اہم موڑ 1857ء کی جنگِ آزادی ہی ہے کیونکہ، ویسے تو انگریز 1757ء میں ہی بنگال پر قابض ہوچکے تھے مگر بیشتر ریاستوں میں راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کی حاکمیت برقرار تھی حتیٰ کہ دہلی کے لال قلعہ کا تاج بھی مسلمانوں کے سر پر ہی سجا ہوا تھا مگر یہ انگریزوں کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا ایسے میں مسلمان ریاستوں کے نوابوں نے ہندو ریاستوں کے راجائوں سے مل کر ''ایک دھکا اور'' دینے کا ارادہ کیا اور ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کردی ۔1857ء میں اس جنگ میں 2 واضح گروہ موجود تھے، مقامی ہندوستانی جن میں مسلمان پیش پیش تھے اور دوسرا ایسٹ انڈیا کمپنی، اس جنگ میں جہاں ہندوستانیوں کو شکست ہوئی وہیں تاجِ برطانیہ نے بھی ایسٹ انڈیا کے ہاتھ سے تمام معاملات خود لے لئے اور ہندوستان کا تاج اپنے سر پر سجا اور لیا اور پورے ہندوستان پر یونین جیک لہرانے لگا۔ ایسے میں تاجِ برطانیہ نے ممکنہ بغاوتوں کو کچلنے اور جنگ کا سبق سکھانے کیلئے ایسی ایسی سزائیں دیں کہ روح کانپ جائے۔ جا بجا درختوں پر مسلمان علماء کی نعشیں لٹکی نظر آتی تھیں۔ کہیں انہیں توپوں کے دہانے پر باندھ کر اڑایا جا رہا تھا اور کہیں انہیں کالے پانی کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ ایسے حالات میں سر سید احمد خاں انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی جانیں بچا رہے تھے کہ جب پورے برصغیر کے علماء انگریز کے خلاف جہاد فرض ہونے کا فتویٰ دے چکے تھے۔ بہر کیف یہ ان کی زندگی کا ایک تاریک و گمنام پہلو تھا اور میں اس بنیاد پر ان کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کرکے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے، آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں کو خبردار کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لئے آپ نے متعدد اقدامات بھی کئے۔ 1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا جہاں فارسی کی تعلیم کیساتھ ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تا کہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کرسکیں۔
1866ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبارجاری کیا گیا، جسے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے۔ یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس اخبار کے ذریعے انگریزوں تک مسلمانوں کے جذبات کی آگاہی کا اہتمام کیا گیا۔ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا اور ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یہ فیصلہ کرلیا کہ ہندوستان واپس جا کر اس طرز کے تعلیمی ادارے قائم کریں گے۔ 1870ء میں ہندوستان واپسی پر آپ نے ''انجمن ترقی مسلمانان ہند'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ اسی سال آپ نے اپنا شہرہ آفاق رسالہ ''تہذیب الاخلاق'' جاری کیا، جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووئوں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی۔ پھر آپ نے ''محمڈن کالج کمیٹی'' قائم کی جس کے تحت جدید علوم کے کالج قائم کرنا تھے اور اس مقصد کیلئے آپ نے پورے ہندوستان سے فنڈز اکھٹے کیے۔ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔
1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا، پھر آپ نے 27 دسمبر 1886ء کو ''محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس'' کی بنیاد رکھی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات کرنا تھے۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر جلسے کئے۔ ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس کانفرنس کے سربراہان میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حالی جیسی نابغہ ہستیاں شامل تھیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہی ڈھاکا میں عمل میں آیا تھا۔
سرسید کو اپنی زندگی میں بھی بے شمار مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، اکبر آلہ آبادی کا شمار بھی ابتدائی دور میں آپ کے ناقدین میں ہوتا تھا، جدید تعلیم کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ,
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
نیز یہ کہ،
ابتدا کی جنابِ سیّد نے
جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونیورسٹی پہ ہوئی
قوم کا کام اب تمام ہوا
لیکن بہرحال مسلمان قوم کو علومِ جدید سے روشناس کروانا سر سید کی خدمات ہیں اور ان کا اعتراف بہرحال کیا جانا چاہئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اس سفر میں سر سید کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا وہیں بیشمار دیدہ ور ہستیاں ان کے ہمقدم بھی تھیں۔ دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ سر سید کے خلاف فتویٰ بازی اور ان کی مخالفت کی وجہ انگریزی سے محبت نہیں تھی بلکہ یہ بغضِ معاویہ تھا۔ جدیدیت کی آڑ میں سرسید ایسے نظریات کے حامی کہ جن کا نہ حقیقت سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی وہ دنیاوی ترقی کیلئے ضروری تھا۔ جب انسان کسی سے قرب کا خواہشمند ہوتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں نظر انداز کردیتا ہے جن کا اثر باہمی تعلق پر ہوتا ہے اور ایسا ہی سر سید احمد خان نے بھی کیا اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اگر ہم ہندوئوں سے قرب کے خواہاں ہیں تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم وحدانیت کے منکر ہوجائیں مگر سر سید کا المیہ یہی رہا کہ ان کے نظریات، ان کے عقائد مسلمانوں سے زیادہ عیسائیوں سے میل کھاتے تھے، مثلاً وہ بھی عیسائیوں اور گمراہ فرقوں کی مانند حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کے قائل تھے اور اپنے اس نظریے کو قرآن سے تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ،
'' اب ہم کو قرآن مجید پر غور کرنا چاہئیے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کے متعلق 4 جگہ ذکر آیا ہے۔ پہلی 3 آیتوں سے حضرت عیسیٰ ؑ کا طبعی موت سے وفات پانا ظاہر ہے مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرقِ نصاریٰ کے قبل اس کے کہ قرآن پر غور کریں، یہ تسلیم کرلیا تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے''۔
(تفسیر سر سید احمد خاں صاحب جلد 4 صفحہ46 ۔ 47)
یہ بات تو خود سر سید بھی تسلیم کرتے تھے کہ اور برملا کہتے تھے کہ،
''البتہ میری خواہش رہی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئی فرقہ ہمارا دوست ہوسکتا ہے تو وہ عیسائی ہیں''۔
(مکتوبات سرسید، جلد 1ص 3، ناشر مجلس ترقی ادب)
بہتر ہوتا کہ سرسید خود کو تعلیم اور جدیدیت تک ہی محدود رکھتے، خود سرسید کے پیروکار و معتقد مولانا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ
''سرسید نے اس تفسیر میں جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں''۔
(حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۴۸۱)
ان کے عمومی نظریات میں سے چند پیشِ خدمت ہیں۔
٭ فرشتے، جنات اور ابلیس کوئی علیحدہ مخلوق نہیں۔ جنات کوئی غیر مرئی مخلوق نہیں بلکہ اس سے مراد جنگلی وحشی انسان ہیں اور ابلیس کا کوئی خارجی وجود نہیں یہ انسان میں موجود اُس قوت کا نام ہے جو اسے راہِ حق سے بھٹکاتی ہے۔
٭ پیغمبروں پر وحی کسی فرشتے کے ذریعے نہیں بلکہ القا کی صورت میں آتی تھی یعنی ان کے دل میں جو بات پیدا ہوتی وہ اسے وحی قرار دیتے تھے۔
٭ انبیاء کے علاوہ مقدس لوگوں پر بھی وحی آتی ہے۔
٭ معجزہ سے مراد کسی مافوق الفطرت واقعہ یا کسی خلافِ عقل امر کا وقوع ہے تو کسی نبی سے کوئی معجزہ رونما نہیں ہوا۔
٭ جنت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے، اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں، دودھ و شراب و شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ۔۔۔ ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے، اگر بہشت یہی ہو تو بلا مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں''۔
٭ جبکہ حرم کعبہ کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ''جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے ۔۔۔ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے، اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے۔
اسی طرح ''حیاتِ جاوید'' میں مولانا حالی ایک واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سہارن پور کی جامع مسجد کی تعمیر کیلئے سر سید سے چندہ مانگا گیا تو انہوں نے چندہ دینے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ لکھ بھیجا کہ ''میں خداوند کے زندہ گھروں (کالج) کی تعمیر کیلئے فکر مند ہوں اور آپ لوگوں کو اینٹ اور مٹی کے گھر کی تعمیر کا خیال ہے''۔
ان عقائد کے باعث کہا جاتا ہے کہ سر سید دین اسلام میں ایک نئے فرقے کے بانی تھے اور اس فرقے کو ''نیچریہ'' کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ معجزات اور ماورائے عقل باتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے نیچر یعنی فطرت کو ہی سب کچھ گردانتا ہے۔ اس کے نزدیک فطرت سب سے بڑا مذہب ہے اور عقل سب سے بڑا عقیدہ، اسی باعث جو باتیں ان کی عقل کے خانے میں نہ سما سکیں یہ اسے تسلیم نہیں کرتے تھے۔
سر سید سے متعلق بات کرتے ہوئے سب سے زیادہ میزان کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تعصب میں آ کر ان کی خدمات کا سرے سے ہی انکار کردیا جائے یا دوسری طرف ان کی عقیدت میں خوامخواہ میں ان کا مجسمہ تعمیر کیا جائے یہ بات درست ہے کہ وہ جدید تعلیم کے حامی تھے مگر انکار اس سے بھی نہیں کہ وہ جدیدت کی آڑ میں خود بھی بھٹک چکے تھے۔ ان کے قائم کردہ اداروں سے ہزاروں لاکھوں لوگوں نے فیض پایا۔ ایک ایسے دور میں جب اسلام ''صاحب القول'' لوگوں کے مذہب بن کر رہ گیا تھا، ایسے میں سر سید ''صاحب العمل'' بن کر آئے اور اپنے عمل سے لوگوں کو جدیدیت کی طرف راغب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی نے ان کی وفات پہ کہا تھا کہ،
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا تھا
نہ بھولو اس کو جو کچھ فرق ہے کہنے میں کرنے میں
یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر ؔیہ کہتا ہے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
[poll id="718"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس