وہ سب پاکستانی

اندرا گاندھی کے بعد بھارتی حکمران ایک بار پھر سکھوں کو سبق سکھانے آئے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

اندرا گاندھی کے بعد بھارتی حکمران ایک بار پھر سکھوں کو سبق سکھانے آئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اندرا گاندھی سکھوں کے خلاف مسلح کارروائیاں کر رہی تھی تو اس دوران دلی میں ہی ایک دن اندرا کے حامی ایک صحافی کلدیپ نیئّر کہنے لگے کہ میں نے اندرا رانی کو بہت سمجھایا ہے مگر مانتی ہی نہیں ہیں، میں نے ان کو بتایا ہے کہ سکھ اپنے ساتھ زیادتی کو بھولتے نہیں ہیں آپ باز آ جائیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہیں ،اب مدتوں بعد ان دنوں سکھوں کی کسی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کی گئی ہے تو ہنگامے شروع ہو چکے ہیں۔

چار سکھ مر بھی چکے ہیں اور ایک سو سے زیادہ زخمی یعنی صورت حال تشویشناک ہے اور بھارتی حکومت مسلمانوں پر تشدّد کے بعد اور ان کے خلاف کئی دوسرے اقدامات کرنے اور سکھوں پر تشدد کے بعد بھارت کی عدم رواداری اور تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان بھارتی حکمرانوں کی جدید پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت کی ایک اندرونی مشکل یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زندہ موجود ہے جو بے اثر ہونے پر تیار نہیں ہے، یہی حال سکھ آبادی کا ہے۔

بھارت کے بہت ہی بڑے فنکار دلیپ کمار نے کہا ہے کہ گوتم بدھ اور گورو نانک کی سرزمین پر عدم رواداری ایک تہذیبی المیہ ہے جو بھارت کی شہرت کو داغدار کرتا ہے۔ ان دنوں الیکشن کے بعد شایع ہونے والے پاکستانی اخباروں نے ایک پاکستانی آبی ماہر اور نئے دور کے بڑے سائنس دان جناب شمس الملک کا ایک بیان شایع کیا ہے کہ کالا باغ کے مخالف اس کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہیں۔ صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ نے کالا باغ ڈیم کو پاکستان کے لیے روشنی اور زندگی کہا ہے کون نہیں جانتا کہ کالا باغ کی مخالفت کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، ایسے کوتاہ نظر لوگ پاک و ہند میں بہت ہیں۔

ان دنوں بھارت میں سکھوں کی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ 1984ء میں ایسا ہوا تھا لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔ بھارتی پنجاب کے ضلع فرید کوٹ میں سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب گورو گرنتھ صاحب کی توہین پر ہزاروں سکھ جمع ہو گئے، سڑکیں بلاک کر دیں اور خیمے گاڑ کر وہاں احتجاج کرنے اور رہنے لگے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ توہین کرنے والوں کو پکڑ کر انھیں سزا دی جائے۔ پولیس نے حسب معمول پہلے تو ہجوم پر لاٹھی چارج کیا پھر گولی چلا دی جس سے دو سکھ مر گئے۔ اس حادثے کے بعد کی خبریں ہیں کہ سکھوں نے پورے بھارت سے سکھوں کی امداد کی درخواست کی ہے۔ یہ تو بھارت کا مسئلہ ہے لیکن اس نوعیت کے بھارتی مسئلے پاکستانی بھی بن جاتے ہیں جب ان کی کوئی آوارہ چنگاری ہمارے ہاں بھی آگ بن جاتی ہے۔


پاکستان اور بھارت دونوں ملک انیسویں صدی کے ایک زبردست ہنگامے اور آبادی کے تبادلے کے بعد وجود میں آئے جس کے اثرات اب تک موجود ہیں۔ پاکستان کے ہر صوبے میں بھارت سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے خصوصاً سندھ میں جہاں ان بھارتی نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اس نے ایک باقاعدہ جماعت بنا لی ہے جسے ایم کیو ایم کا نام دیا گیا ہے اور یہ لوگ اسی جماعت کے نام سے اپنی سیاست کرتے ہیں۔

پنجاب میں بھی بھارتی آباد کاروں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو کوئی الگ سے نام اختیار نہیں کر سکی لیکن مقامی اور بھارتی نقل مکانی کرنے والوں میں بوقت ضرورت فاصلہ سامنے آ جاتا ہے۔

ہمارے حکمران میاں صاحب مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے لاہور آئے ہیں یہاں انھوں نے اپنے بھارتی گاؤں کے نام پر ایک بستی بسائی ہے لیکن اس میں رہائش صرف ان کے خاندان کی ہے اگرچہ یہ جاتی عمرہ کے نام سے معروف ہے اور بھارت میں یہ ایک چھوٹا سا آباد گاؤں تھا جہاں کارکن قسم کے لوگ بستے تھے لیکن میاں صاحبان کے خاندان نے اپنی محنت کے ساتھ ایک نیا جاتی عمرہ بسا لیا جو بھارت کے جاتی عمرہ کے باشندوں کے لیے ایک قابل رشک عجیب سی بستی تھی، خوشحال اور پرامن۔ مشرقی پنجاب کے باشندے ایک بھارتی صدر جب دلی میں میاں صاحب سے ملے اور تعارف ہوا تو صدر ذیل سنگھ نے پرجوش جپھی ڈالی اور اپنی یادیں تازہ کیں اور میاں صاحبان کو ان کی کامیابیوں پر مبارک باد دی اور ان کے بزرگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کیا۔

بھارت سے آنے والے باشندوں کی ایک بڑی تعداد پنجاب میں آباد ہو گئی۔ پنجاب کا کوئی شہر ان سے خالی نہیں ہے جہاں وہ کاروبار نہیں کر رہے یا اپنا پرانا کام نئے انداز میں کر رہے ہیں لیکن پورے پنجاب میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق ہر گز نہیں ہے اور اب تو شاید ہی کسی مہاجر پنجابی کو یاد ہو کہ اس کے آباؤ اجداد مشرقی پنجاب میں کہاں کے رہنے والے تھے۔ وقت نے تمام سرحدیں ہٹا دی ہیں اور پاکستان میں جو بھی ہے وہ پاکستان کا باشندہ ہے۔ اگر کوئی پاکستانی کسی بھارتی شہر کا نام اپنے نام کے ساتھ رکھتا ہے جیسے لکھنوی یا دہلوی تو یہ محض ایک افسردہ یاد ہے۔ ورنہ اس کا ووٹ پاکستان میں ہے اور اس کا پتہ پاکستان کا ہے۔
Load Next Story