خوبصورت گیتوں کا خالق اختر یوسف
ان کی گفتگو سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اختر یوسف اگر شاعر نہ ہوتے تو ایک اچھے سیاست دان ضرور ہوتے
HARIPUR:
جب بھی فلمسازوہدایت کاراحتشام کی بلاک بسٹر فلم ''چکوری'' کا ذکر آئیگا تو کئی فلمی شخصیتوں کے نام آئینگے جنھیں اس فلم سے وہ شہرت ملی جو فلمی دنیا میں ایک فلم سے کم ہی لوگوں کونصیب ہوتی ہے، چکوری سے نذیر بیگ، ندیم کے روپ میں نامور ہیرو بن کر ابھرا، اداکارہ شبانہ مشہورہیروئن بن کر منظر عام پر آئی اوراسی فلم کے گیتوں کی مقبولیت سے شاعراختر یوسف کو لازوال شہرت میسر آئی اوراس ایک فلم کے بعد اختر یوسف نامور نغمہ نگاروں کی فہرست میں صف اول پر آگئے تھے۔
اختر یوسف سے میری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ایک مقامی ہوٹل میں فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک شام منانے کا اہتمام کیا گیا تھا اور وہ ایک یاد گار شام تھی۔ اس وقت میں فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کا جوائنٹ سیکریٹری تھا جب کہ جنرل سیکریٹری یوکملانی اور صدر اے آر سلوٹ تھے، اختریوسف بہت ہی سوٹڈ بوٹڈ انداز میں اس محفل میں اپنی خوش گفتاری کے پھول کھلارہے تھے، اور مجھے وہ اس محفل میں ایک شاعر کم ایک بیوروکریٹ زیادہ نظر آرہے تھے۔
ان کی گفتگو سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اختر یوسف اگر شاعر نہ ہوتے تو ایک اچھے سیاست دان ضرور ہوتے، ویسے تو یہ ایک اچھے ادیب اور شاعر بہت پہلے سے تھے، اور ڈھاکا میں ان کی بہت اچھی پہچان تھی مگر فلم ''چکوری'' میں لکھے گئے ان کے گیتوں نے ان کی شہرت میں چار چاند لگادیے تھے اور خاص طور پر یہ گیت ''کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں، یہ سماں'' جسے فردوس بیگم اور ندیم نے گایا تھا اور وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں جسے مجیب عالم نے گایا تھا۔ ان گیتوں کی گونج مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک پھیل گئی تھی۔ اختریوسف کے لکھے ہوئے یہ خوبصورت گیت فلم ''چکوری'' کی جان تھے اور اس جان کی پہچان شاعر اختر یوسف تھے۔
اب میں کچھ اختر یوسف کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کے بارے میں بتاتا ہوں جب اختر یوسف کلکتہ میں تھے تو تعلیم کے دوران ان کی دوستی سلیل چوہدری سے ہوئی تھی بعد میں سلیل چوہدری کلکتہ چھوڑکر بمبئی چلے گئے تھے اور پھر موسیقار سلیل چوہدری مشہورہوگئے تھے، اختر یوسف کی پرانی دوستی رنگ لائی اور ایک دن یہ بھی بمبئی پہنچ گئے، بمبئی میں بحیثیت شاعر انھیں ابتدا میں کوئی پذیرائی نہ مل سکی مگر ان کی لکھی ہوئی ایک کہانی فلم ''پریچے'' کے فلمساز کو پسند آئی تھی اور اختر یوسف نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک کہانی کار کی حیثیت سے کیا تھا جب کہ ''پریچے'' کے گیت شاعر گلزار نے لکھے تھے، فلم کی موسیقی آر ڈی برمن نے دی تھی اور گلزارکا لکھا ہوا ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا۔
مسافر ہوں یارو نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ
مجھے چلتے جانا ہے بس چلتے جانا
اور یہ گیت کشورکمار نے گایا تھا، فلم کا ایک ہی گیت ہٹ ہوا تھا مگر فلم بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، فلم کے فلاپ ہونے کے بعد اختر یوسف پر بھی کافی دنوں تک مایوسی کی گرد چھائی رہی پھر اختر یوسف کے دوست سلیل چوہدری کو بطور موسیقار ایک فلم ملی جس کا نام تھا ''ایک گاؤں کی کہانی'' فلم کے ہدایت کار دلال گوہا نے سلیل چوہدری کی موسیقی اختر یوسف سے بھی گیت لکھوائے تھے اور شلیندر کے بھی گیت تھے مگر اس فلم میں بھی شلیندر کا لکھا ہوا اور طلعت محمود کا گایا ہوا ایک گیت ''رات نے کیا کیا خواب دکھائے'' ہٹ ہوا تھا اور اختر یوسف کے لکھے ہوئے کسی گیت نے مقبولیت حاصل نہیں کی تھی پھر بھی اختر یوسف حوصلہ نہیں ہارے اور بمبئی میں قسمت آزمائی کرتے رہتے، جب کچھ دنوں تک بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اختر یوسف کی کوئی شنوائی نہ ہوسکی تو یہ پھر ڈھاکا واپس آگئے۔
یہاں انھوں نے کچھ عرصے تک سلہٹ میں چائے کی ایک کمپنی میں بطور منیجر ملازمت کی اور چائے کے باغات میں ان کی شاعری کو فروغ حاصل ہوتا رہا، کچھ عرصے کے بعد ان کا دل اس ملازمت سے اچاٹ ہوگیا اور جب 1962 میں فلمساز وہدایتکار احتشام نے اپنی پہلی اردو فلم ''ڈاک بنگلہ'' کا آغازکیا تو اختر یوسف کو اس فلم کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا، فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے، اس فلم میں فردوس بیگم کی آواز میں اختر یوسف کا لکھا ہوا ایک گیت فلم بینوں کو پسند آیا تھا جس کے بول تھے ''نہ تھے تمہاری ادا کے قابل'' اور ڈھاکا میں اردو فلموں کے آغاز کے ساتھ ہی اختر یوسف کی شاعری کو بھی تقویت ملتی چلی گئی اور یہ پھر دیگر فلمسازوں کی نظروں میں بھی آتے چلے گئے اسی دوران ہدایت کار محسن کی فلم ''گوری'' کے لیے اختر یوسف نے گیت لکھے، فلم گوری کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے، اس فلم میں ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے۔
''پھر ایک بار وہی نغمہ گنگنا دو ذرا'' اسی دوران اختر یوسف فلمساز و ہدایت کار اداکار رحمان کی گڈ بک میں بھی آگئے اور انھوں نے رحمان کی فلم ''ایندھن'' کے لیے اور پھر رحمان کی دوسری فلم ''حمایت'' کے لیے بھی گیت لکھے اور ''چاہت'' کے ایک گیت نے اختر یوسف کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا تھا، اس خوبصورت گیت کے بول تھے:
ساون آئے ساون جائے رے
تجھ کو پکاریں گیت ہمارے رے
یہ گیت پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن میں کئی کئی بار نشر ہوتا تھا اور اسی گیت کی گائیکی نے اخلاق احمد کو بھی صف اول کے گلوکاروں میں لاکھڑا کیا تھا، پھر اس گیت کو سال کے بہترین نگارایوارڈ سے نوازا گیا تھا، اختر یوسف نے ''چاہت'' کے بعد کئی اور فلموں میں بھی خوبصورت گیت لکھے جنھیں چھوٹے صاحب اناڑی اورداغ میں بھی ان کے گیتوں کو بہت پسند کیا گیا تھا،اختر یوسف نے لاہور فلم انڈسٹری کا بھی ایک چکر تو لگایا مگر اس دوران انھوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ لاہورکی فلم انڈسٹری میں کچھ زیادہ ہی گروپ بندی ہے۔
مگر اصل بات یہ تھی کہ اختر یوسف لاہور کے فلمی ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرسکے تھے، پھر وہ واپس ڈھاکا چلے گئے اورانھوں نے فلمسازی کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا، اپنا ذاتی فلمساز ادارہ بنایا جس کے بینر تلے انھوں نے پہلی فلم کا آغازکیا اور فلم ''چاہت'' کے مشہور گیت کے مکھڑے، ساون آئے ساون جائے کو اپنی فلم کا ٹائٹل بنایا شاید انھوں نے یہ سوچا ہوکہ ان کا یہ گیت سپر ہٹ ہوا تھا تو اس نام کی فلم بھی ہٹ ہوجائے گی مگر یہ ان کی خام خیالی تھی کیوں کہ شاعری کرنا الگ بات ہے اور ایک فلم پروڈیوس کرنا بڑی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔
فلم کے ہر شعبے کی ذمے داری کاندھوں پرآجاتی ہے اور پھر یہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، ان کی فلم ''ساون آئے ساون جائے'' بن بادل برسات ثابت ہوئی اور بری طرح فلاپ ہوگئی۔ اپنی فلم کی انتہائی ناکامی نے اختر یوسف کے سارے عزائم خاک میں ملادیے تھے، انھوں نے بحیثیت شاعر جو کچھ کمایا تھا وہ بھی اور جو کچھ سرمایہ ان کے پاس تھا وہ بھی ان کی ناکام فلم کی نذر ہوگیا تھا۔
ایسی ہی ایک غلطی مشہور شاعر سروربارہ بنکوی نے کی تھی وہ بھی فلمسازی کے میدان میں اپنی قسمت آزمانے اتر گئے تھے مگر انھیں بھی پہلی فلم ''آخری اسٹیشن'' نے بھی کچھ نہ دیا اور پھر دوسری فلم ''تم میرے ہو'' نے ان کی ساری جمع شدہ پونجی اور ساری کمائی بربادکردی تھی اور وہ پھرکسی صورت میں بھی خود کو فلموں سے جوڑ نہ سکے تھے، یہی حال اختریوسف کا بھی ہوا، اختر یوسف ناکام فلم کے بعد کراچی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے تھے۔کراچی آکرکچھ عرصہ ایک کمپنی میں ملازمت اختیارکی اسی دوران انھیں ایک فلم ''چیک پوسٹ'' میں گیت لکھنے کا موقع ملا مگر بدقسمتی سے یہ فلم پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی اس فلم کے موسیقار بلال محمد اقبال تھے۔
ان کی بھی یہ فلم ابتدائی فلموں میں سے ایک تھی، جو نہ اختر یوسف کی شاعری کو سہارا دے سکی اور نہ اختر یوسف کی مالی پریشانیاں دورکرسکی، اختر یوسف ایک ہشاش بشاش خوش لباس اور خوش گفتار انسان تھے مگر مسلسل ناکامیوں نے ان کے حوصلے پست کردیے تھے۔ ان سے میری آخری ملاقات ہفتہ روزہ نگار کے دفتر میں ہوئی تھی جب وہ مدیر نگار الیاس رشیدی کی ذاتی فلم ''احساس'' کے لیے گیت لکھنے کی غرض سے آئے تھے، اس فلم کے ہدایت کار نذر الاسلام تھے، موسیقارروبن گھوش اور''احساس'' کی کہانی مشہور ادیب اورکالم نگار ابراہیم جلیس نے تحریر کی تھی۔
جس کے مکالمے بشیر نیاز نے لکھے تھے۔ یہ فلم اپنے گیتوں کی وجہ سے بھی بڑی پسند کی گئی تھی اس فلم میں ڈھاکا ہی سے تعلق رکھنے والے شاعروں سرور بارہ بنکوی اور اختر یوسف نے گیت تحریر کیے تھے،اختر یوسف کی زندگی کی یہ آخری فلم تھی جسے کچھ کامیابی تو نصیب ہوئی تھی مگر پھر زندگی ان کے ساتھ وفا نہ کرسکی اور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے یہ دنیا ہی چھوڑ بیٹھے، آج اختر یوسف دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے لکھے ہوئے دلکش گیت کی گونج باقی ہے۔
'' کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں''
جب بھی فلمسازوہدایت کاراحتشام کی بلاک بسٹر فلم ''چکوری'' کا ذکر آئیگا تو کئی فلمی شخصیتوں کے نام آئینگے جنھیں اس فلم سے وہ شہرت ملی جو فلمی دنیا میں ایک فلم سے کم ہی لوگوں کونصیب ہوتی ہے، چکوری سے نذیر بیگ، ندیم کے روپ میں نامور ہیرو بن کر ابھرا، اداکارہ شبانہ مشہورہیروئن بن کر منظر عام پر آئی اوراسی فلم کے گیتوں کی مقبولیت سے شاعراختر یوسف کو لازوال شہرت میسر آئی اوراس ایک فلم کے بعد اختر یوسف نامور نغمہ نگاروں کی فہرست میں صف اول پر آگئے تھے۔
اختر یوسف سے میری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ایک مقامی ہوٹل میں فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک شام منانے کا اہتمام کیا گیا تھا اور وہ ایک یاد گار شام تھی۔ اس وقت میں فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کا جوائنٹ سیکریٹری تھا جب کہ جنرل سیکریٹری یوکملانی اور صدر اے آر سلوٹ تھے، اختریوسف بہت ہی سوٹڈ بوٹڈ انداز میں اس محفل میں اپنی خوش گفتاری کے پھول کھلارہے تھے، اور مجھے وہ اس محفل میں ایک شاعر کم ایک بیوروکریٹ زیادہ نظر آرہے تھے۔
ان کی گفتگو سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اختر یوسف اگر شاعر نہ ہوتے تو ایک اچھے سیاست دان ضرور ہوتے، ویسے تو یہ ایک اچھے ادیب اور شاعر بہت پہلے سے تھے، اور ڈھاکا میں ان کی بہت اچھی پہچان تھی مگر فلم ''چکوری'' میں لکھے گئے ان کے گیتوں نے ان کی شہرت میں چار چاند لگادیے تھے اور خاص طور پر یہ گیت ''کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں، یہ سماں'' جسے فردوس بیگم اور ندیم نے گایا تھا اور وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں جسے مجیب عالم نے گایا تھا۔ ان گیتوں کی گونج مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک پھیل گئی تھی۔ اختریوسف کے لکھے ہوئے یہ خوبصورت گیت فلم ''چکوری'' کی جان تھے اور اس جان کی پہچان شاعر اختر یوسف تھے۔
اب میں کچھ اختر یوسف کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کے بارے میں بتاتا ہوں جب اختر یوسف کلکتہ میں تھے تو تعلیم کے دوران ان کی دوستی سلیل چوہدری سے ہوئی تھی بعد میں سلیل چوہدری کلکتہ چھوڑکر بمبئی چلے گئے تھے اور پھر موسیقار سلیل چوہدری مشہورہوگئے تھے، اختر یوسف کی پرانی دوستی رنگ لائی اور ایک دن یہ بھی بمبئی پہنچ گئے، بمبئی میں بحیثیت شاعر انھیں ابتدا میں کوئی پذیرائی نہ مل سکی مگر ان کی لکھی ہوئی ایک کہانی فلم ''پریچے'' کے فلمساز کو پسند آئی تھی اور اختر یوسف نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک کہانی کار کی حیثیت سے کیا تھا جب کہ ''پریچے'' کے گیت شاعر گلزار نے لکھے تھے، فلم کی موسیقی آر ڈی برمن نے دی تھی اور گلزارکا لکھا ہوا ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا۔
مسافر ہوں یارو نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ
مجھے چلتے جانا ہے بس چلتے جانا
اور یہ گیت کشورکمار نے گایا تھا، فلم کا ایک ہی گیت ہٹ ہوا تھا مگر فلم بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، فلم کے فلاپ ہونے کے بعد اختر یوسف پر بھی کافی دنوں تک مایوسی کی گرد چھائی رہی پھر اختر یوسف کے دوست سلیل چوہدری کو بطور موسیقار ایک فلم ملی جس کا نام تھا ''ایک گاؤں کی کہانی'' فلم کے ہدایت کار دلال گوہا نے سلیل چوہدری کی موسیقی اختر یوسف سے بھی گیت لکھوائے تھے اور شلیندر کے بھی گیت تھے مگر اس فلم میں بھی شلیندر کا لکھا ہوا اور طلعت محمود کا گایا ہوا ایک گیت ''رات نے کیا کیا خواب دکھائے'' ہٹ ہوا تھا اور اختر یوسف کے لکھے ہوئے کسی گیت نے مقبولیت حاصل نہیں کی تھی پھر بھی اختر یوسف حوصلہ نہیں ہارے اور بمبئی میں قسمت آزمائی کرتے رہتے، جب کچھ دنوں تک بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اختر یوسف کی کوئی شنوائی نہ ہوسکی تو یہ پھر ڈھاکا واپس آگئے۔
یہاں انھوں نے کچھ عرصے تک سلہٹ میں چائے کی ایک کمپنی میں بطور منیجر ملازمت کی اور چائے کے باغات میں ان کی شاعری کو فروغ حاصل ہوتا رہا، کچھ عرصے کے بعد ان کا دل اس ملازمت سے اچاٹ ہوگیا اور جب 1962 میں فلمساز وہدایتکار احتشام نے اپنی پہلی اردو فلم ''ڈاک بنگلہ'' کا آغازکیا تو اختر یوسف کو اس فلم کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا، فلم کے موسیقار روبن گھوش تھے، اس فلم میں فردوس بیگم کی آواز میں اختر یوسف کا لکھا ہوا ایک گیت فلم بینوں کو پسند آیا تھا جس کے بول تھے ''نہ تھے تمہاری ادا کے قابل'' اور ڈھاکا میں اردو فلموں کے آغاز کے ساتھ ہی اختر یوسف کی شاعری کو بھی تقویت ملتی چلی گئی اور یہ پھر دیگر فلمسازوں کی نظروں میں بھی آتے چلے گئے اسی دوران ہدایت کار محسن کی فلم ''گوری'' کے لیے اختر یوسف نے گیت لکھے، فلم گوری کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے، اس فلم میں ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے۔
''پھر ایک بار وہی نغمہ گنگنا دو ذرا'' اسی دوران اختر یوسف فلمساز و ہدایت کار اداکار رحمان کی گڈ بک میں بھی آگئے اور انھوں نے رحمان کی فلم ''ایندھن'' کے لیے اور پھر رحمان کی دوسری فلم ''حمایت'' کے لیے بھی گیت لکھے اور ''چاہت'' کے ایک گیت نے اختر یوسف کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا تھا، اس خوبصورت گیت کے بول تھے:
ساون آئے ساون جائے رے
تجھ کو پکاریں گیت ہمارے رے
یہ گیت پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن میں کئی کئی بار نشر ہوتا تھا اور اسی گیت کی گائیکی نے اخلاق احمد کو بھی صف اول کے گلوکاروں میں لاکھڑا کیا تھا، پھر اس گیت کو سال کے بہترین نگارایوارڈ سے نوازا گیا تھا، اختر یوسف نے ''چاہت'' کے بعد کئی اور فلموں میں بھی خوبصورت گیت لکھے جنھیں چھوٹے صاحب اناڑی اورداغ میں بھی ان کے گیتوں کو بہت پسند کیا گیا تھا،اختر یوسف نے لاہور فلم انڈسٹری کا بھی ایک چکر تو لگایا مگر اس دوران انھوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ لاہورکی فلم انڈسٹری میں کچھ زیادہ ہی گروپ بندی ہے۔
مگر اصل بات یہ تھی کہ اختر یوسف لاہور کے فلمی ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرسکے تھے، پھر وہ واپس ڈھاکا چلے گئے اورانھوں نے فلمسازی کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا، اپنا ذاتی فلمساز ادارہ بنایا جس کے بینر تلے انھوں نے پہلی فلم کا آغازکیا اور فلم ''چاہت'' کے مشہور گیت کے مکھڑے، ساون آئے ساون جائے کو اپنی فلم کا ٹائٹل بنایا شاید انھوں نے یہ سوچا ہوکہ ان کا یہ گیت سپر ہٹ ہوا تھا تو اس نام کی فلم بھی ہٹ ہوجائے گی مگر یہ ان کی خام خیالی تھی کیوں کہ شاعری کرنا الگ بات ہے اور ایک فلم پروڈیوس کرنا بڑی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔
فلم کے ہر شعبے کی ذمے داری کاندھوں پرآجاتی ہے اور پھر یہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، ان کی فلم ''ساون آئے ساون جائے'' بن بادل برسات ثابت ہوئی اور بری طرح فلاپ ہوگئی۔ اپنی فلم کی انتہائی ناکامی نے اختر یوسف کے سارے عزائم خاک میں ملادیے تھے، انھوں نے بحیثیت شاعر جو کچھ کمایا تھا وہ بھی اور جو کچھ سرمایہ ان کے پاس تھا وہ بھی ان کی ناکام فلم کی نذر ہوگیا تھا۔
ایسی ہی ایک غلطی مشہور شاعر سروربارہ بنکوی نے کی تھی وہ بھی فلمسازی کے میدان میں اپنی قسمت آزمانے اتر گئے تھے مگر انھیں بھی پہلی فلم ''آخری اسٹیشن'' نے بھی کچھ نہ دیا اور پھر دوسری فلم ''تم میرے ہو'' نے ان کی ساری جمع شدہ پونجی اور ساری کمائی بربادکردی تھی اور وہ پھرکسی صورت میں بھی خود کو فلموں سے جوڑ نہ سکے تھے، یہی حال اختریوسف کا بھی ہوا، اختر یوسف ناکام فلم کے بعد کراچی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے تھے۔کراچی آکرکچھ عرصہ ایک کمپنی میں ملازمت اختیارکی اسی دوران انھیں ایک فلم ''چیک پوسٹ'' میں گیت لکھنے کا موقع ملا مگر بدقسمتی سے یہ فلم پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی اس فلم کے موسیقار بلال محمد اقبال تھے۔
ان کی بھی یہ فلم ابتدائی فلموں میں سے ایک تھی، جو نہ اختر یوسف کی شاعری کو سہارا دے سکی اور نہ اختر یوسف کی مالی پریشانیاں دورکرسکی، اختر یوسف ایک ہشاش بشاش خوش لباس اور خوش گفتار انسان تھے مگر مسلسل ناکامیوں نے ان کے حوصلے پست کردیے تھے۔ ان سے میری آخری ملاقات ہفتہ روزہ نگار کے دفتر میں ہوئی تھی جب وہ مدیر نگار الیاس رشیدی کی ذاتی فلم ''احساس'' کے لیے گیت لکھنے کی غرض سے آئے تھے، اس فلم کے ہدایت کار نذر الاسلام تھے، موسیقارروبن گھوش اور''احساس'' کی کہانی مشہور ادیب اورکالم نگار ابراہیم جلیس نے تحریر کی تھی۔
جس کے مکالمے بشیر نیاز نے لکھے تھے۔ یہ فلم اپنے گیتوں کی وجہ سے بھی بڑی پسند کی گئی تھی اس فلم میں ڈھاکا ہی سے تعلق رکھنے والے شاعروں سرور بارہ بنکوی اور اختر یوسف نے گیت تحریر کیے تھے،اختر یوسف کی زندگی کی یہ آخری فلم تھی جسے کچھ کامیابی تو نصیب ہوئی تھی مگر پھر زندگی ان کے ساتھ وفا نہ کرسکی اور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے یہ دنیا ہی چھوڑ بیٹھے، آج اختر یوسف دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے لکھے ہوئے دلکش گیت کی گونج باقی ہے۔
'' کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں''