ذرا ’’ڈھاکہ‘‘ تک

خوش مزاج اور خوش گفتار انسان کا ہمیشہ مسکراتا ہوا چہرہ اب کیسا لگ رہا ہو گا میں اس کے تصور کی جرأت نہیں پاتا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

صبح صبح اخباروں کے ہجوم پر پہلی سرسری سی نظر ڈالتے ہی اخبار میرے ہاتھ سے گر گیا اور مجھ پر ایک گھبراہٹ سی طاری ہو گئی۔ یہ ذاتی حادثہ اس خبر پر ہوا کہ پاکستان فضائیہ کے بانی ایئرمارشل ریٹائرڈ جناب اصغر خان دل کی بیماری کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہو گئے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں دل کے مرض سے اسپتال میں داخلہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

ایک انتہائی خوش مزاج اور خوش گفتار انسان کا ہمیشہ مسکراتا ہوا چہرہ اب کیسا لگ رہا ہو گا میں اس کے تصور کی جرأت نہیں پاتا۔ ایک بار ڈھاکہ جا رہے تھے کہ جہاز کی فضائی میزبان نے مجھے ایئرمارشل کے قریب کا آدمی سمجھ کر مجھ سے کہا کہ ایک درخواست ہے کہ آپ ایئرمارشل صاحب سے کہہ دیں کہ وہ جب جہاز سے اتر رہے ہوں تو مجھے اپنی مسکرہٹ کے ساتھ ایک بار دیکھ لیں۔

اور اگر میں ہی یہ کام کر دوں تو آپ جیسے چہرے کو کسی کی مسکراہٹ کی طلب کیسے ہو سکتی ہے تو وہ ہنس پڑی لیکن اس کا اصرار قائم رہا۔ ظاہر ہے کہ میں ایئرمارشل تک اس کی خواہش نہیں پہنچا سکتا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ ایئرمارشل جہاز سے رخصت ہوتے وقت سب کو اپنی دلکش اور دلربا مسکراہٹ کے ساتھ تو ضرور دیکھیں گے چنانچہ یہی ہوا اور ایئرہوسٹس پھولے نہ سمائی اتنی کہ مجھ سے بھی شکریہ ادا کیا جب کہ میری اپنی نیت صاف نہیں تھی۔

بہرکیف یہ خوبصورت زمانے گزر گئے اور ڈھاکہ کی سرسبز دنیا میں ایئرمارشل سیاسی تکلفات میں الجھ گئے۔ دوسرا دن جمعے کا تھا اور ایئرمارشل مسجد بیت المکرم میں نماز پڑھنے چلے گئے جہاں ایک ہجوم جمع ہو گیا۔ پولیس جو پہلے سے تیار تھی اس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے رنگین پانی پھینکا۔ ڈھاکہ کلب میں قیام تھا واپسی پر میں لیٹ ہو گیا، دیر بعد اٹھا تو ایئرمارشل کا پتہ کیا معلوم ہوا وہ اپنی سرخ پانی سے رنگین قمیض دھو کر اسے خشک کر رہے تھے۔ بلحاظ عہدہ ایئرمارشل کے پاس سب کچھ تھا لیکن ان کے مزاج کی نرمی اور انکساری ان سے قمیض بھی دھلوا رہی تھی۔

مشرقی پاکستان کا یہ سفر اس لحاظ سے یادگار تھا کہ پاکستان کے ساتھ جو محبت ان لوگوں میں دیکھی وہ مغربی پاکستان سے کبھی دکھائی نہیں دی۔ ایک جگہ رات آ گئی اور ایئرمارشل ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں چلے گئے۔ صبح ناشتے وغیرہ کے بعد جب میں اور ڈھاکہ کے ایک مشہور صحافی غلام رسول ایئرمارشل کی قیام گاہ پہنچے تو باہر ہزاروں کا مجمع لگا تھا اور یقین کیجیے کہ یہ لوگ رات بھر اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ صبح ہو گی تو وہ ایئرمارشل کی ایک جھلک دیکھنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔


غلام رسول نے مجھے ان لوگوں کی ملک سے محبت کا بتایا اور رو دیا۔ یہ تھا پاکستان سے الگ ہو جانے والا مشرقی پاکستان۔ لعنت کے سوا اور کوئی لفظ نہیں جو مغربی پاکستان کے ان لیڈروں کے لیے استعمال کیا جائے جو ملک توڑنے اور مشرقی پاکستان کے بے حد پیار کرنے والے پاکستانیوں سے الگ ہو گئے۔

ایئرمارشل صاحب کے ہمراہ کئی دن مشرقی پاکستان میں گزر گئے اور ہر دن ایک یادگار دن بن گیا خصوصاً رات کا وہ حصہ جو سندربن کے جنگل سے راکٹ کے سفر پر گزرا۔ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں مشہور یہ جنگل جو دریاؤں اور جھیلوں کے پانیوں پر آباد ہے سندربن اس لیے کہلاتا ہے کہ اس میں ایک درخت سندربن کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کا نام سندربن یعنی سندر کا جنگل مشہور ہے۔ میں اپنے کمزور ہو جانے والے حافظے کی ملامت کرتا ہوں کہ سندربن کا سفر دو بڑے شہروں کے درمیان کا سفر ہے۔ ایک شہر غالباً باری سال ہے دوسرا یاد نہیں۔

ایئرمارشل صاحب نے سیاست شروع ہی کی تھی کہ وہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تشریف لے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرے بغیر کوئی بڑا لیڈر سیاست نہیں کرتا تھا۔ میری سائیکل کے پہنچنے تک جو پنکچر بھی ہو سکتی تھی پریس کانفرنس میں میرا انتظار کیا جاتا تھا اور ملک کے اندر سیاسی سفر تو میر بغیر گویا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ میرا اخبار تھا جو پاکستان کا واحد اپوزیشن اخبار تھا اور میں سیاسی رپورٹنگ سے بددیانتی نہیں کرتا تھا۔ ایئرمارشل نے جب مشرقی پاکستان کا دورہ کرنا چاہا تو میری خدمات حاصل کی گئیں لیکن میرا مرحوم ایڈیٹر اس پر تیار نہ تھا۔ مجھے بڑی مشکل سے چھٹی ملی اور ایئرمارشل کی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ میں نے سفر شروع کیا اور جیسا کہ بتایا ہے کہ فضائی میزبانوں سے رشوت لیتا گیا۔

خدا کرے ایئرمارشل جلد ہی صحت یاب ہوں کیونکہ انھوں نے مجھ پر ہمیشہ مہربانی کی ہے۔ ایک بار سیاست دانوں سے تنگ آ کر سیاست ترک کرنے کا اعلان کر دیا اور ایبٹ آباد میں اپنے گھر بند ہو کر بیٹھ گئے اس اعلان کے ساتھ کہ وہ کسی سے نہیں ملیں گے۔ میرے ایڈیٹر نے میری طرف ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ میں اللہ کا نام لے کر ایبٹ آباد پہنچ گیا۔ مرحوم نسیم حجازی کے ہاں پہنچا اور سفر کی غرض بیان کی۔ انھوں نے مجھے ایک بھاری جیکٹ دی کہ یہ پہن لو یہاں کسی وقت اچانک سردی ہو جاتی ہے چنانچہ نسیم صاحب کے ہمراہ میں بغیر اطلاع ایئرمارشل کے ہاں پہنچ گیا۔

ان کے چہرے پر وہ دلآویز مسکراہٹ تھی مگر اب اس کی قیمت دینے والا کوئی نہیں تھا اور انھوں نے مجھے انٹرویو دے کر میری قیمت ادا کر دی اور میں لاہور پہنچ گیا۔ یہ وہ دن تھا جب یحییٰ خان نے تین سو سے زائد بڑے افسروں کو رخصت کر دیا تھا۔ اس طرح میری خبر ذرا کمزور پڑ گئی لیکن اصل خبر شاید یہی تھی اور جس میں مشرقی پاکستان کے سندبن کی خوشبو اور محبت جھلکتی تھی۔
Load Next Story