توازن

جنھیں اس سے قبل شور و غوغا، گالی گلوچ اور الزام تراشیوں کے گرد و غبار میں چھپا دیا جاتا تھا

Amjadislam@gmail.com

کوئی تین دہائیاں قبل اسی عنوان کے ساتھ مرحوم ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ شایع ہوا تھا جو اس بات کا غماز تھا کہ ادبی تنقید میں توازن کو قائم کیا جائے تو ہم کسی ادب پارے کو نہ صرف بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ معاشرتی عمل کے ساتھ اس کا ایک رشتہ اور تعلق بھی استوار کر سکتے ہیں۔

ادب اور بالخصوص تنقیدی ادب ہمارے جیسے نیم پسماندہ اور خواندگی کی پست سطح کے حامل معاشروں میں جس سلوک کے روادار ٹھہرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ اس رویے کا عکس ہمارے تہذیبی، معاشرتی، اعتقادی اور سیاسی رویوں میں بھی جاری و ساری نظر آتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے رات آٹھ سے بارہ بجے تک مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے پروگراموں کو ایک نظر دیکھ لینا کافی ہے۔ ان Peek Time نوے فی صد پروگراموں میں آپ کو توازن، برداشت، دلیل اعتدال اور افہام و تفہیم کے علاوہ سب کچھ مل جائے گا۔ بحث و مباحثہ اور اپنی رائے کے اظہار میں جرأت اور بے باکی بہت اچھی چیزیں ہیں۔

بشرطیکہ ان کا مقصد معاملے کا حل اور خیر کا حصول ہو اور یہ کہ اینکر سمیت گفتگو میں شریک تمام لوگ کھیل کی نوعیت اور آداب کا خیال رکھیں۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر اینکرز نے Hard Talk کا مطلب بے معنی جارحیت، بدتمیزی اور پوائنٹ اسکورنگ سمجھ لیا ہے اور بیشتر شرکا بھی اسے ''میں نہ مانوں'' سے ہی تعبیر کرتے نظر آتے ہیں۔

سنا ہے کہ اسٹالن کے دور حکومت میں جب امریکا اور روس میں سرد جنگ اپنے عروج پر تھی امریکی وزیر خارجہ (سیکریٹری آف اسٹیٹ) کا فون روسی ہم پلہ کو آیا۔ اسٹالن نے اپنے وزیر سے کہا کہ تم نے اس کی کوئی بات نہیں سننی اور ہر بات پر No کہنا ہے۔ متعلقہ وزیر نے ایسا ہی کیا مگر آٹھ دس بار نو کہنے کے بعد وہ رکا اور کہا یس (Yes) اس کے بعد پھر نو کی گردان شروع ہو گئی۔ فون ختم ہوا تو اسٹالن نے غصے سے کہا تم نے درمیان میں ایک بار یس کیوں کہا تھا؟ وزیر نے جواب دیا سر وہ پوچھ رہا تھا ''کیا تمہیں میری آواز آ رہی ہے''؟

پی ٹی وی کی اجارہ داری کے زمانے یعنی کم و بیش 1995ء تک اینکرز کا کام (Hockey) ہاکی کے سینٹر ہاف کا سا ہوتا تھا یعنی جو بال آئے اسے تیزی اور مہارت سے فارورڈ لائن کے کسی کھلاڑی کی طرف بڑھا دے جب کہ آج کے اینکرز یا تو گیند سے اٹھکیلیاں شروع کر دیتے یا خود گول کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔

ان کے اس فاؤل پلے کا اثر یہ ہوا کہ اب کھلاڑی بھی اسی رنگ میں رنگے گئے ہیں اور چونکہ اینکر یعنی ریفری کا دھیان کھیل کے بجائے صرف اپنی خوش بیانی کی نمائش میں ہوتا ہے اس لیے ہر فاؤل یا تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر اس کا جواب ایک اور فاؤل سے دیا جاتا ہے اور یوں توازن یعنی ڈسپلن کا جنازہ نکل جاتا ہے۔


زیادہ تر شرکاء اپنی رائے فیصلے کے انداز میں دیتے ہیں، کچھ کے نزدیک ان کی دلیل کا سارا زور ان کی بلند آواز اور دوسرے کی بات نہ سننے یا اس پر خارج از بحث قسم کے حملے کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ گھر سے آتے ہی شور مچانے یا اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کا حق نمک ادا کرنے کے لیے ہیں۔ کم و بیش یہی صورت سرحد کے دوسری طرف بھی ہے۔

گزشتہ برسوں میں مجھے کئی بار بھارت جانے کا موقع ملا اور میں نے ہر بار یہ محسوس کیا کہ اب ان کے میڈیا میں بھی یہ رویہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ عام ہو گیا ہے اور بالخصوص پاکستان کے بارے میں ان کے بیشتر چینل تعصب، غلط بیانی اور اشتعال انگریزی کی ہر حد کو پار کر جاتے ہیں۔

البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ اب دونوں ہمسایہ ملکوں میں اس غار کے دوسرے سرے پر نظر آنے والی اعتدال، توازن اور حق گوئی کی روشنی میں بھی آہستہ ہی سہی مگر مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں حلقہ 122 کے الیکشن کے دوران گہما گہمی، جذباتی وابستگی، قانون شکنی اور الزامات کی روائتی شدت میں تو کمی نہیں آئی مگر اس کے بارے میں عوامی ردعمل سیاسی تجزیہ نگاروں کے بیانات اور سنجیدہ تجزیوں کا معیار یقینا بہتر ہوا ہے اور الیکشن کے عمل میں موجود مسائل اور اس کے اصلاح طلب پہلوؤں پر بہت سی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں ۔

جنھیں اس سے قبل شور و غوغا، گالی گلوچ اور الزام تراشیوں کے گرد و غبار میں چھپا دیا جاتا تھا۔ میرے لیے یہ بات ایک اطلاع سے کم نہیں تھی کہ اب ایک باقاعدہ قانون کے تحت انتخابی امیدواروں کو اس بات کا پابند کر دیا گیا ہے کہ ان کی انتخابی مہم میں ان کے احباب کی طرف سے کیے جانے والے تمام اخراجات بھی ان کے لیے منظور شدہ حد کے اندر ہوں گے اور اس کی خلاف ورزی کی ذمے داری براہ راست متعلقہ امیدوار پر ہو گی۔ اب اگر میڈیا عوامی ردعمل کی قوت اور قابل اعتبار اعداد و شمار کے ذریعے الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو غیر جانبدارانہ تفتیش اور متعلقہ سزاؤں پر عمل درآمد پر مجبور کر دیتا ہے تو ذرا سوچئے کہ کس قدر ملکی دولت ضایع ہونے سے بچ سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاست کو ''کاروبار'' سمجھنے کے رویے میں کیسی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔

ایسی ہی ایک مثال بھارتی میڈیا میں خورشید محمود قصوری صاحب کی کتاب کی ممبئی میں ہونے والی تقریب رونمائی کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے۔ آر ایس ایس کے متعصب، شدت پسندوں نے تقریب کے میزبان کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پھینک کر اپنی روایتی بدمعاشی اور جارحیت کا اظہار تو کر دیا مگر جس طرح اس تقریب کو جاری رکھا گیا اور جس سختی سے بی جے پی کی حکومت کے باوجود میڈیا نے اس عمل پر کڑی اور مسلسل تنقید کی وہ یقینا حوصلہ افزا اور قابل تحسین ہے کہ جب تک کوئی معاشرہ ''احساس زیاں'' سے عاری نہیں ہو جاتا اس میں بہتری کے امکانات قائم اور موجود رہتے ہیں۔

پاکستان دشمنی کے عمومی رویے اور جن سنگھی ذہنیت کے دباؤ کے باوجود اگر بھارتی عوام اور میڈیا کے غالب حصے نے اس عمل کو ناپسند کیا ہے اور اسے بھارتی عوام کے بجائے ایک مخصوص گروہ کی شرانگیزی سے تعبیر کیا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ اسی انداز فکر سے اس برداشت و توازن کے رویے کی بازیافت ہو سکتی ہے جس سے معاشرے مہذب اور آدمی انسان بنتے ہیں۔
Load Next Story