ڈوگرلینڈ
ماضی کا جنت نظیر خطہ جو آج جنوب شمالی سمندر کی تہہ میں سورہا ہے
ڈوگر لینڈ خشکی یعنی زمین کا وہ وسیع و عریض ٹکڑا تھا جو برفانی دور کے اواخر میں برطانیہ کو یورپ سے ملاتا تھا اور آج یہ جنوبی شمالی سمندر کے نیچے تہہ میں موجود ہے۔ اس کے بعد کرۂ ارض پر ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث 6,200 سے 6,500 قبل مسیح کے درمیانی کسی عرصے میں خشکی کا یہ ٹکڑا مرحلے وار سمندر کی سطح کے نیچے آتا چلا گیا اور ایک وقت وہ آیا جب یہ مکمل طور پر سمندر کی تہہ میں پہنچ گیا اور آج بھی پانی کی دنیا میں سکون سے پڑا ہوا ہے۔ یہی ڈوگر لینڈ تھا۔
شمالی سمندر کے کشتی راں صدیوں تک زمین کی تہہ میں غائب ہونے والی اس انوکھی اور گم شدہ دنیا یعنی ڈوگر لینڈ کا کھوج لگاتے رہے اور اسے ڈھونڈنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔
اس مشکل مہم جوئی میں ان کے پاس سوائے کشتیوں اور مچھلی پکڑنے کے جال کے اور کچھ نہیں تھا، لیکن یہ سمندری لوگ دیوانوں کی طرح انہی کی مدد سے اپنے کام میں لگے رہے اور آخرکار یہ کشتیاں اور مچھلی پکڑنے والے جال ہی ان کے کام آئے اور ان سے ہی انہوں نے ماضی کی گم شدہ دنیا ڈوگر لینڈ کا سراغ لگالیا۔ خشکی کا یہ ٹکڑا تو پانی کے اندر غرقاب ہوگیا تھا، مگر قدیم جغرافیائی علوم کے ماہرین اس حوالے سے آپس میں باتیں کرتے تھے اور یہ سوال ہمیشہ ان کے لبوں پر ہوتا تھا:
جن لوگوں کا وطن سمندر کی تہہ میں چلا گیا، وہ خود کہاں گئے؟ ان کے ساتھ اصل میں کیا ہوا تھا؟
لیکن ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہیں تھے۔ اس کے باوجود ماہرین مایوس نہیں ہوئے، بلکہ اپنے سوالوں کے جواب مسلسل تلاش کرتے رہے اور کھوج میں لگے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک نہ ایک روز انہیں اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
اس کے بعد وہ وقت بھی آیا جب سب سے پہلے شمالی سمندر کی تہہ میں کسی گم شدہ دنیا یا ڈوگر لینڈ کی علامات اور نشانیاں اس طرح نمودار ہونا شروع ہوئیں کہ وہ سمندر کی تہہ سے ابھر کر سطح آب پر آنے لگیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، مگر کسی نے بھی ''سمندر سے ابھرنے والی ان چیزوں'' پر یقین نہیں کیا، بلکہ انہیں ٹالتے رہے۔ بیش تر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ محض افسانوی باتیں ہیں اور یہ کہ ایسی کوئی دنیا پہلے کبھی وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔
وہ ڈوگرلینڈ کے سرے سے قائل ہی نہیں تھے۔ لیکن پھر ایسی باتیں کرنے والوں کو نصف صدی پہلے جب متعدد ثبوت اور شواہد ملے تو وہ کسی حد تک پریشان ہوگئے۔ جب یہ تمام شواہد پوری توانائی کے ساتھ سمندر کی سطح پر ابھرے تو اب ماہرین کے ساتھ عام لوگوں کے پاس بھی یقین کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ گویا انہوں نے اب ڈوگرلینڈ کے وجود پر یقین کرلیا تھا۔ انہوں نے اس بار اسے نظر انداز کرنے کے بجائے اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا۔
اس حوالے سے اصل کہانی یوں ہے:
نصف صدی پہلے کچھ ملاح ولندیزی ساحل پر ماہی گیری میں مصروف تھے۔ انہوں نے اس کے لیے کافی وسیع پیمانے پر ایک تیکنیک اختیار کی تھی جسے beam trawling کہا جاتا ہے۔
اس طریقے کے تحت وہ سمندر کی تہہ میں بھاری بھرکم جال تہہ کے فرش پر ڈال کر گھسیٹتے تھے جس کی مدد سے طرح طرح کی مچھلیاں اور دیگر چیزیں بھی جال میں پھنس کر اوپر سطح پر آجاتی تھیں۔ لیکن بعض اوقات ان جالوں میں عجیب و غریب چیزیں بھی اوپر کی سطح پر پہنچ جاتی تھیں جن میں قدیم جانوروں کے بڑے دانت، بالوں والے گینڈوں کی باقیات، یورپی جنگلی بھینسوں کے جسمانی اعضاء اور ہڈیاں دنیا سے صدیوں پہلے مٹ جانے والے درندوں کی باقیات شامل ہوتی تھیں۔
یہ سب چیزیں دیکھ کر ماہی گیر کافی الجھ گئے، کیوں کہ ان کے لیے یہ انوکھی اور ناقابل یقین چیزیں تھیں، وہ تو شمالی سمندر کے ساحلوں اور ان کی تہوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ایسی چیزیں سمندر کے اندر سے نکل سکتی ہیں۔ انہوں نے ان تمام چیزوں کو دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی، مگر جب ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تو انہوں نے وہ تمام چیزیں سمندر میں واپس پھینک دیں اور اس طرح یہ واقعات ماضی کا حصہ بن گئے اور وہ بھی اس معاملے کو بھول گئے۔
لیکن اس دوران سینہ بہ سینہ ہوتی ہوئی یہ بات Dick Mol نامی ایک ماہر حجریات (فوسلز کا ماہر) تک پہنچی تو اس نے مذکورہ ماہی گیروں سے رابطہ کیا اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ اگر اب ان کے ہاتھ ایسی ہڈیاں یا قدیم جانوروں کی باقیات لگیں تو وہ اسے دے دیں۔ اس نے ان سے کہا تھا کہ وہ ان کو دیکھ کر ان کے بارے میں کھوج لگائے گا اور یہاں کسی زمانے میں آباد دنیا ڈوگر لینڈ کے بارے میں پتا چلانے کی کوشش کرے گا۔
اس کے بعد 1985 میں ایک بحری کشتی کا ملاح ڈک مول کے پاس ایک انسانی جبڑے کی ہڈی لے کر آیا جسے اس نے بہت احتیاط اور خوب صورتی کے ساتھ محفوظ کر رکھا تھا۔ اس جبڑے کے ساتھ دانت اور ڈاڑھیں بھی تھیں۔ یہ دیکھ کر ڈک مول خوش ہوگیا۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست اور ساتھی جان گلمروین کے ساتھ مل کر اس جبڑے کا زمانہ معلوم کرنے کے لیے اس کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی۔
اس طریقے کے تحت مذکورہ چیز کا کیمیکل تجزیہ کیا جاتا ہے جس سے اس کا زمانہ پتا چل جاتا ہے۔ دونوں ماہرین کی محنت رنگ لائی اور یہ انکشاف ہوا کہ یہ انسانی جبڑا اور اس کے دانت اور ڈاڑھیں 9,500 سال پرانی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ فرد Mesolithic period یعنی پتھر کے زمانے کا تھا، کیوں کہ شمالی یورپ میں پتھر کا دور برفانی دور کے اواخر میں یعنی لگ بھگ 12,000سال پہلے شروع ہوا تھا اور یہ اس کے 6,000 سال بعد یعنی زراعت کے دور کے آغاز پر ختم ہوگیا تھا۔
گلمر وین کا کہنا ہے:''ہمارا خیال ہے کہ یہ انسانی جبڑا کسی قبرستان یا قبر سے ملا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی جگہ سکون سے موجود رہا، اسے کسی نے نہ چھیڑا، جب کہ اس دور کی دنیا لگ بھگ 8,000 سال قبل سمندر برد ہوگئی۔''اس خطۂ زمین کے سمندر میں آہستہ آہستہ غائب ہونے کی کہانی برفانی دور کے زوال کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔
18,000سال پہلے شمالی یورپ کے اطراف میں موجود سمندر آج کے مقابلے میں لگ بھگ 400فیٹ نیچے تھے، مگر آج یہ چار سو فیٹ تک اونچا ہوچکا ہے۔
اس وقت برطانیہ ایک جزیرہ نہیں تھا، بلکہ یورپ کے شمال مغرب کا ایک غیرآباد اور ویران گوشہ تھا۔ اس وقت اس کے اور باقی براعظم کے درمیان دور دور تک منجمد ٹنڈرا پھیلا ہوا تھا۔ پھر جیسے جیسے ہمارا کرۂ ارض گرم ہونا شروع ہوا اور یہاں جمی ہوئی برف پگھلنے لگی تو اس وقت زمین پر پائے جانے والے جانور مثلاً ہرن، جنگلی یورپی بھینسے اور جنگلی سؤر شمال اور مغرب کی طرف جانے لگے۔
چناںچہ ان کے پیچھے شکاری بھی انہی سمتوں میں روانہ ہوئے۔ جب یہ لوگ بالائی علاقوں (جو اب براعظمی یورپ کہلاتا ہے) سے اترکر نیچے پہنچے تو انہوں نے اپنے آپ کو وسیع و عریض زیریں میدانوں میں پایا جو ہر لحاظ سے رہائش کے قابل بھی تھے اور وہاں زراعت بھی ممکن تھی۔ یہی وہ گم شدہ زمین تھی جسے آثار قدیمہ کے ماہرین ڈوگر لینڈ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ شمالی سمندر کا ریتیلا کنارا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں کبھی کبھار Dogger Bank پر بحری مشکلات بھی اٹھ کھڑی ہوتی تھیں۔
ایک بار یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ چوں کہ یہ ایک غیرآباد اور ویران زمین ہے اور دور جدید کے براعظمی یورپ اور برطانیہ کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ وجہ جو بھی ہو، لیکن اسے ڈوگر لینڈ کہہ کر پکارا گیا تھا اور یہ سمندر میں غرقاب ہوگیا تھا۔ بہرحال ڈوگر لینڈ جہاں کہیں بھی تھا، اس کے بارے میں ماہرین کو یقین ہے کہ یہاں پتھر کے دور کے لوگ کافی بڑی تعداد میں آباد ہوئے تھے ۔
جنہیں ہزاروں سال بعد بپھرے ہوئے سمندر کی وحشی لہروں نے یہ جگہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کے علاوہ آب و ہوا کی مسلسل تبدیلیوں اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ نے بھی اس جگہ یعنی ڈوگر لینڈ پر ستم کیا اور اسی کی وجہ سے پتھر کے دور کا خاتمہ ہوا جس کے نتیجے میں یورپ خشکی کے ایک بہت بڑے خطے اور ایک بہت بڑی انسانی آبادی سے بھی محروم ہوگیا اور ویسا ہوگیا جیسا آج نظر آتا ہے۔
یہ تھا ڈوگر لینڈ کا انجام!
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے بہت سے دوست اور ساتھی ڈوگر لینڈ کو ہمارے لیے شمالی یورپ میں پتھر کے دور کی حقیقت کو سمجھنے میں اہم نکتہ قرار دیتے ہیں۔ واقعی یہ وہ خطہ ہے جو دنیا میں آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث معدومیت کا شکار ہوا۔
اس ضمن میں یونی ورسٹی آف برمنگھم کے ماہرین کی ایک ٹیم نے Vince Gaffney کی قیادت میں جو کام کیا ہے، اس کے بعد اس گم شدہ دنیا یعنی ڈوگرلینڈ کے بارے میں ہمارے ذہنوں سے کافی الجھنیں دور ہوچکی ہیں اور ہمیں اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ دنیا کیسی تھی۔
شمالی سمندر میں کام کرنے والی تیل کی بہت سی کمپنیوں کے سیسمک سروے (زلزلے سے متعلق سروے) کا جو ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں ونس گیفنے اور ان کے ساتھیوں نے سمندر میں جزوی طور پر غرق گم شدہ دنیا، ڈوگر لینڈ کے لگ بھگ 18,000مربع میل علاقے کو کمپیوٹر پر دوبارہ تعمیر کردیا ہے اور یہ رقبہ نیدر لینڈز (ہالینڈ) سے بھی بڑا ہے۔
ونس گیفنے یونی ورسٹی کے آئی بی ایم ویژول اینڈ اسپیشل ٹیکنالوجی سینٹر کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس مرکز میں بہت بڑے اور رنگین اسکرینز پر اپنے پراجیکٹ کی مذکورہ تصویریں بھی دکھائیں۔ اس نقشے میں دکھایا گیا ہے کہ جس جگہ دریائے رائن اور دریائے ٹیمز کا سنگم ہوتا تھا، وہاں سے یہ جنوب میں چینل ریور کی طرف بہتے تھے۔ گیفنے نے دریا کے دوسرے سسٹمز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس ان کے نام موجود نہیں ہیں، لیکن یہ سسٹم موجود ہیں۔
اس دور کی آب و ہوا کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ آج کے درجۂ حرارت کے مقابلے میں چند درجے زیادہ گرم تھی۔ گیفنے نے اپنی اسکرین پر نرمی سے گھومتی ہوئی پہاڑیاں بھی دکھائیں اور سرسبز وادیاں بھی، بھرپور دلدلی علاقے بھی اور نیلی پرسکون جھیلیں بھی۔ گیفنے کے مطابق:''یہ جگہ شکاریوں کے لیے ایک جنت تھی۔'' گویا یہ تھا ڈوگرلینڈ کا ماضی جو ہر طرح ایک مکمل اور پرفیکٹ دنیا تھی۔
مزید ریسرچ اور رسائل میں چھپنے والے مضامین کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ پتھر کے زمانے کی وہ دنیا بہت خوب صورت تھی جس میں پُرفضا مقامات بھی تھے اور ہری بھری بستیاں بھی۔ چوں کہ شمالی سمندر میں پانی کے اندر کے مناظر زیادہ واضح نہیں ہیں، اس لیے ماضی میں وہاں کا اندرونی حصہ صاف طور پر نہیں دیکھا جاسکا تھا، لیکن ماہرین نے ڈوگرلینڈ میں رہنے والوں کو دیکھنے اور ان کے طرززندگی کو سمجھنے کے لیے دوسرے طریقے استعمال کیے جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس خطے میں رہنے والے لوگ کون تھے اور جب سمندر نے انہیں بے گھر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو جواب میں انہوں نے کس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اپنی بقا اور سلامتی کے لیے کیا اقدامات کیے تھے۔
بہرحال ملاحوں نے اس خطے یعنی ڈوگرلینڈ کے بارے میں اپنے مچھلی پکڑنے والے جالوں میں معلومات کے پورے خزانے جمع کرلیے تھے۔ پھر انہیں وہ انسانی جبڑے کی ہڈی بھی ملی جس سے انہیں اس خطے کے بارے میں جاننے کا مرکزی راستہ ملا۔ اس کے علاوہ گلمروین نے سو سے بھی زیادہ دیگر نادر چیزیں جمع کرلی تھیں جن میں جانوروں کی ہڈیاں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کی ہڈیوں اور ان کے سینگوں سے تیار کردہ اوزار بھی ملے جن میں زگ زیگ طرز کی ایک آراستہ کلہاڑی بھی شامل تھی۔
سمندر کی تہہ سے ان چیزوں کے ملنے کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ڈوگر لینڈ کی گم شدہ دنیا کے حوالے سے ملنے والی زیادہ تر چیزیں جنوبی شمال سمندر سے ملی ہیں۔ اس حصے کو ولندیزی Dutch call De Stekels یعنی ''ریڑھ کی ہڈیاں'' کہتے ہیں۔ یہ سب چیزیں سمندر کی تہہ میں موجود قدرتی دراڑوں یا درازوں سے ملی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یا تو اس گم شدہ دنیا یعنی ڈوگرلینڈ کے لوگ دریائی سسٹم کے بالکل ساتھ رہتے تھے یا پھر ان کی رہائش دریا کے کنارے ریتلے ٹیلوں پر تھی۔
ماہرین کا یہ بھی خیال تھا کہ ڈوگرلینڈ میں رہنے والوں کو سمجھنے اور ان کے بارے میں جاننے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان کے متوقع مقامات کے قریب جگہوں میں اسی عہد کے جزوی طور پر غرقاب اتھلے پانیوں میں کھدائی کی جائے۔
1970اور 1980کے عشروں میں Tybrind Vigنامی ایک مقام پر جو بحیرۂ بالٹک میں ڈنمارک کے ایک جزیرے کے کناروں سے چند سو گز دور، ایسے حیران کن شواہد ملے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ یہ پتھر کے دور کا آخری زمانہ تھا جس میں ماہی گیری کا کلچر فروغ پارہا تھا۔ اس مقام سے ایک ڈونگی کے آراستہ و پیراستہ پتوار بھی ملے ہیں اور متعدد لمبی ڈونگیاں بھی ملی ہیں، جن میں سے ایک کی لمبائی تو 30فیٹ ہے۔ یہ سب ڈوگرلینڈ کے تحفے تھے۔
حال ہی میں جرمنی کی ریاست Schleswig کے سینٹر فار بالٹک اینڈ اسکینڈے نیوین آرکیالوجی میں Harald Lübke اور ان کے ساتھیوں نے اپنی کھدائی کی مہم کے دوران جرمنی کی خلیج Wismar میں زیرآب انسانی آبادیوں اور بستیوں کا پتا چلایا ہے۔
جن کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ 5,500 سے 8,800 سال پرانی بستیاں تھیں۔ اس جگہ کا مزید سروے کرنے کے بعد ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جب یہاں یعنی ''ڈوگرلینڈ'' کے لوگوں کے لیے سمندر نے مسائل پیدا کرنے شروع کیے تو یہ تازہ پانی کی مچھلی کے بجائے سمندری خوراک پر انحصار کرنے لگے تھے۔
اس کے علاوہ ویلز میں بھی ماہرین کی ایک ٹیم نے بیل کی سربراہی میں جن کا تعلق یونی ورسٹی آف ریڈنگ سے تھا، اس خطے میں کھدائی کا کام کیا۔ یہ لوگ اس کام میں 21 سال سے لگے ہوئے تھے کہ انہیں ایک وادی ملی جس کے اندر دریائے Severn تھا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ماضی بعید میں جب سمندر بلند ہوا تو مذکورہ دریا اپنے کناروں سے باہر نکل کر وادی میں دور تک پھیل گیا، یہ واقعہ غالباً ایک صدی پہلے ہوا تھا۔
اس سے ایک جدید دریا کے خطوط واضح ہوئے اور بعد میں اس کی وادی ہی ''ڈوگرلینڈ'' کہلائی۔ بیل کا کہنا ہے کہ یہاں کے آثار سے پتا چلا ہے کہ اس خطے میں ماضی میں بہت سے لوگ کیمپوں میں رہتے تھے۔ لیکن ان میں لوگ مستقل نہیں رہتے تھے۔ بیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں سے سب سے قدیم کیمپ بھی پانی میں غرقاب تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں لوگ مستقل بنیادوں پر نہیں رہتے تھے، بلکہ کبھی کبھار سیروتفریح کی غرض سے آتے تھے، ان کیمپوں میں قیام کرتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے۔
ہر بار سمندر کا پانی خشکی پر آجاتا تو ہر بار ہی انہیں اپنے کیمپ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بلندی پر لگانے پڑتے تھے۔ زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ مسلسل آتے تھے اور صدیوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا، مگر انہوں نے سمندر سے ہار نہیں مانی۔ یہ تھا ''ڈوگرلینڈ'' کا ایک اور نظریہ جس کے حوالے سے ماہرین اپنی اپنی آراء پیش کرتے رہے ہیں۔
جہاں تک ماہرین نے اس خطے کے موسموں کے حوالے سے اپنی آراء پیش کی ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ ڈوگرلینڈ کے لوگ موسم گرما اور موسم خزاں میں بہت خوش ہوتے تھے، کیوں کہ اس زمانے میں یہاں کے دلدلی علاقوں اور زرخیز چراگاہوں میں ڈھیروں جانور آتے تھے جن کا شکار ان کے لیے بہت خوشیاں لاسکتا تھا اور اس کی وجہ سے ان کے لیے خوراک کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی جمع ہوجاتا۔
اس کے علاوہ ڈوگرلینڈ میں یہ ماہی گیری کے لیے بھی مناسب وقت ہوتا تھا۔ ساتھ ہی اس خطے میں درختوں اور پیڑ پودوں پر بھی خوب بہار ہوتی تھی۔ درخت اپنے گری دار میووں کی سوغات بھی دیتے تھے اور بیری کے درخت اپنا تحفہ دیتے تھے۔ ڈوگرلینڈ میں دوسرے موسموں میں یہاں کے رہنے والے بلند مقامات کی طرف ہجرت کرجاتے تھے۔ ممکن ہے یہ لوگ دریائےSevern کی وادیوں میں چلے جاتے ہوں۔
ڈوگرلینڈ والوں کا کلچر محض زبانی کلچر تھا جس میں بڑی عمر کے افراد ماحولیات کی بھرپور معلومات رکھتے تھے۔ وہ پرندوں کی ہجرت کے نمونوں کو بہ غور دیکھتے اور سمجھتے تھے، اسی لیے وہ اپنے گروپ یا اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بتادیتے تھے کہ انہیں کون سے موسم میں ساحل کی طرف جانا ہے اور کس موسم میں انہیں بالائی یا بلند مقامات کا رخ کرنا چاہیے۔ یہ بڑے بوڑھے ایسے طریقے بتاتے تھے جن پر ان لوگوں کی بقا اور سلامتی کا انحصار ہوتا تھا اور وہ ہر طرح کے خطرات سے محفوظ بھی رہتے تھے۔
تفصیلی مطالعے کے بعد یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس دور میں ڈوگرلینڈ میں رہنے والے خاص خاص مواقع پر موسموں کے حوالے سے جشن بھی مناتے تھے اور ہر سال تہواروں کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ موسم خزاں کے اوائل میں اس خطے میں سیل بھی آتی تھیں اور سالمن مچھلیاں بھی اپنے جلوے دکھاتی تھیں، اس موقع پر بہار کا سماں ہوتا تھا۔ شکاریوں کو خوب شکار ملتا تھا۔
ڈوگرلینڈ میں اصل مسائل اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب سمندروں کی سطح مسلسل بلند ہونے لگتی تھی۔ ویسے تو سمندر کی سطح میں یہ اضافہ ایک صدی میں تین سے چھے فیٹ تک ہوتا تھا، لیکن اس زمانے میں بعض موسمی تغیرات کے باعث اس اضافے میں زیادہ ہی تیزی آگئی تھی۔ ڈوگرلینڈ میں جب سمندر کی سطح بلند ہوتی تو اندرونی میدانی حصوں میں یہ اضافہ میلوں تک چلا جاتا تھا، مگر پہاڑی مقامات میں یہ اضافہ کم ہوتا تھا۔
لیکن سمندری سطح کا اضافہ اہل ڈوگرلینڈ کے لیے متعدد مسائل ساتھ لاتا تھا۔ ڈوگرلینڈ کے لوگوں نے خود کو ان موسموں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سخت محنت کی تھی، کیوں کہ ان کا جینا مرنا اسی سمندر کے ساتھ تھا، وہ سمندر کے موڈ کو تو نہیں بدل سکتے تھے، البتہ خود کو سمندر کے موڈ کے مطابق کرسکتے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس کے باوجود ان کی دنیا آہستہ آہستہ زوال کی طرف گام زن ہوگئی۔ وہ اپنی آنکھوں سے اسے ختم ہوتے دیکھتے رہے۔ ان کے لوگ ان کے سامنے ختم ہوتے رہے۔
سمندر ان کے گھر رفتہ رفتہ نگلتا رہا، ان کی نظریں ان کی جنت کو زیرآب جاتے دیکھتی رہیں۔ وہ خود کو بے گھر اور بے در ہوتے دیکھتے رہے۔ اس دوران بے شمار لوگوں نے اس صورت حال سے پریشان ہوکر اجتماعی ہجرت بھی کی۔ شمالی سمندر یا ڈوگرلینڈ کے کچھ مکین برطانیہ چلے گئے اور وہاں نارتھمبرلینڈ کی پہاڑیوں کو اپنا مسکن بنالیا، جب کہ کچھ نے برطانیہ کے شمال مشرقی ساحل کا رخ کیا۔ اب ماضی کے شان دار ڈوگرلینڈ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ یہ اگر ہے تو سمندر کی تہہ میں!
شمالی سمندر کے کشتی راں صدیوں تک زمین کی تہہ میں غائب ہونے والی اس انوکھی اور گم شدہ دنیا یعنی ڈوگر لینڈ کا کھوج لگاتے رہے اور اسے ڈھونڈنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔
اس مشکل مہم جوئی میں ان کے پاس سوائے کشتیوں اور مچھلی پکڑنے کے جال کے اور کچھ نہیں تھا، لیکن یہ سمندری لوگ دیوانوں کی طرح انہی کی مدد سے اپنے کام میں لگے رہے اور آخرکار یہ کشتیاں اور مچھلی پکڑنے والے جال ہی ان کے کام آئے اور ان سے ہی انہوں نے ماضی کی گم شدہ دنیا ڈوگر لینڈ کا سراغ لگالیا۔ خشکی کا یہ ٹکڑا تو پانی کے اندر غرقاب ہوگیا تھا، مگر قدیم جغرافیائی علوم کے ماہرین اس حوالے سے آپس میں باتیں کرتے تھے اور یہ سوال ہمیشہ ان کے لبوں پر ہوتا تھا:
جن لوگوں کا وطن سمندر کی تہہ میں چلا گیا، وہ خود کہاں گئے؟ ان کے ساتھ اصل میں کیا ہوا تھا؟
لیکن ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہیں تھے۔ اس کے باوجود ماہرین مایوس نہیں ہوئے، بلکہ اپنے سوالوں کے جواب مسلسل تلاش کرتے رہے اور کھوج میں لگے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک نہ ایک روز انہیں اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
اس کے بعد وہ وقت بھی آیا جب سب سے پہلے شمالی سمندر کی تہہ میں کسی گم شدہ دنیا یا ڈوگر لینڈ کی علامات اور نشانیاں اس طرح نمودار ہونا شروع ہوئیں کہ وہ سمندر کی تہہ سے ابھر کر سطح آب پر آنے لگیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، مگر کسی نے بھی ''سمندر سے ابھرنے والی ان چیزوں'' پر یقین نہیں کیا، بلکہ انہیں ٹالتے رہے۔ بیش تر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ محض افسانوی باتیں ہیں اور یہ کہ ایسی کوئی دنیا پہلے کبھی وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔
وہ ڈوگرلینڈ کے سرے سے قائل ہی نہیں تھے۔ لیکن پھر ایسی باتیں کرنے والوں کو نصف صدی پہلے جب متعدد ثبوت اور شواہد ملے تو وہ کسی حد تک پریشان ہوگئے۔ جب یہ تمام شواہد پوری توانائی کے ساتھ سمندر کی سطح پر ابھرے تو اب ماہرین کے ساتھ عام لوگوں کے پاس بھی یقین کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ گویا انہوں نے اب ڈوگرلینڈ کے وجود پر یقین کرلیا تھا۔ انہوں نے اس بار اسے نظر انداز کرنے کے بجائے اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا۔
اس حوالے سے اصل کہانی یوں ہے:
نصف صدی پہلے کچھ ملاح ولندیزی ساحل پر ماہی گیری میں مصروف تھے۔ انہوں نے اس کے لیے کافی وسیع پیمانے پر ایک تیکنیک اختیار کی تھی جسے beam trawling کہا جاتا ہے۔
اس طریقے کے تحت وہ سمندر کی تہہ میں بھاری بھرکم جال تہہ کے فرش پر ڈال کر گھسیٹتے تھے جس کی مدد سے طرح طرح کی مچھلیاں اور دیگر چیزیں بھی جال میں پھنس کر اوپر سطح پر آجاتی تھیں۔ لیکن بعض اوقات ان جالوں میں عجیب و غریب چیزیں بھی اوپر کی سطح پر پہنچ جاتی تھیں جن میں قدیم جانوروں کے بڑے دانت، بالوں والے گینڈوں کی باقیات، یورپی جنگلی بھینسوں کے جسمانی اعضاء اور ہڈیاں دنیا سے صدیوں پہلے مٹ جانے والے درندوں کی باقیات شامل ہوتی تھیں۔
یہ سب چیزیں دیکھ کر ماہی گیر کافی الجھ گئے، کیوں کہ ان کے لیے یہ انوکھی اور ناقابل یقین چیزیں تھیں، وہ تو شمالی سمندر کے ساحلوں اور ان کی تہوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ایسی چیزیں سمندر کے اندر سے نکل سکتی ہیں۔ انہوں نے ان تمام چیزوں کو دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی، مگر جب ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تو انہوں نے وہ تمام چیزیں سمندر میں واپس پھینک دیں اور اس طرح یہ واقعات ماضی کا حصہ بن گئے اور وہ بھی اس معاملے کو بھول گئے۔
لیکن اس دوران سینہ بہ سینہ ہوتی ہوئی یہ بات Dick Mol نامی ایک ماہر حجریات (فوسلز کا ماہر) تک پہنچی تو اس نے مذکورہ ماہی گیروں سے رابطہ کیا اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ اگر اب ان کے ہاتھ ایسی ہڈیاں یا قدیم جانوروں کی باقیات لگیں تو وہ اسے دے دیں۔ اس نے ان سے کہا تھا کہ وہ ان کو دیکھ کر ان کے بارے میں کھوج لگائے گا اور یہاں کسی زمانے میں آباد دنیا ڈوگر لینڈ کے بارے میں پتا چلانے کی کوشش کرے گا۔
اس کے بعد 1985 میں ایک بحری کشتی کا ملاح ڈک مول کے پاس ایک انسانی جبڑے کی ہڈی لے کر آیا جسے اس نے بہت احتیاط اور خوب صورتی کے ساتھ محفوظ کر رکھا تھا۔ اس جبڑے کے ساتھ دانت اور ڈاڑھیں بھی تھیں۔ یہ دیکھ کر ڈک مول خوش ہوگیا۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست اور ساتھی جان گلمروین کے ساتھ مل کر اس جبڑے کا زمانہ معلوم کرنے کے لیے اس کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی۔
اس طریقے کے تحت مذکورہ چیز کا کیمیکل تجزیہ کیا جاتا ہے جس سے اس کا زمانہ پتا چل جاتا ہے۔ دونوں ماہرین کی محنت رنگ لائی اور یہ انکشاف ہوا کہ یہ انسانی جبڑا اور اس کے دانت اور ڈاڑھیں 9,500 سال پرانی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ فرد Mesolithic period یعنی پتھر کے زمانے کا تھا، کیوں کہ شمالی یورپ میں پتھر کا دور برفانی دور کے اواخر میں یعنی لگ بھگ 12,000سال پہلے شروع ہوا تھا اور یہ اس کے 6,000 سال بعد یعنی زراعت کے دور کے آغاز پر ختم ہوگیا تھا۔
گلمر وین کا کہنا ہے:''ہمارا خیال ہے کہ یہ انسانی جبڑا کسی قبرستان یا قبر سے ملا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی جگہ سکون سے موجود رہا، اسے کسی نے نہ چھیڑا، جب کہ اس دور کی دنیا لگ بھگ 8,000 سال قبل سمندر برد ہوگئی۔''اس خطۂ زمین کے سمندر میں آہستہ آہستہ غائب ہونے کی کہانی برفانی دور کے زوال کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔
18,000سال پہلے شمالی یورپ کے اطراف میں موجود سمندر آج کے مقابلے میں لگ بھگ 400فیٹ نیچے تھے، مگر آج یہ چار سو فیٹ تک اونچا ہوچکا ہے۔
اس وقت برطانیہ ایک جزیرہ نہیں تھا، بلکہ یورپ کے شمال مغرب کا ایک غیرآباد اور ویران گوشہ تھا۔ اس وقت اس کے اور باقی براعظم کے درمیان دور دور تک منجمد ٹنڈرا پھیلا ہوا تھا۔ پھر جیسے جیسے ہمارا کرۂ ارض گرم ہونا شروع ہوا اور یہاں جمی ہوئی برف پگھلنے لگی تو اس وقت زمین پر پائے جانے والے جانور مثلاً ہرن، جنگلی یورپی بھینسے اور جنگلی سؤر شمال اور مغرب کی طرف جانے لگے۔
چناںچہ ان کے پیچھے شکاری بھی انہی سمتوں میں روانہ ہوئے۔ جب یہ لوگ بالائی علاقوں (جو اب براعظمی یورپ کہلاتا ہے) سے اترکر نیچے پہنچے تو انہوں نے اپنے آپ کو وسیع و عریض زیریں میدانوں میں پایا جو ہر لحاظ سے رہائش کے قابل بھی تھے اور وہاں زراعت بھی ممکن تھی۔ یہی وہ گم شدہ زمین تھی جسے آثار قدیمہ کے ماہرین ڈوگر لینڈ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ شمالی سمندر کا ریتیلا کنارا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں کبھی کبھار Dogger Bank پر بحری مشکلات بھی اٹھ کھڑی ہوتی تھیں۔
ایک بار یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ چوں کہ یہ ایک غیرآباد اور ویران زمین ہے اور دور جدید کے براعظمی یورپ اور برطانیہ کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ وجہ جو بھی ہو، لیکن اسے ڈوگر لینڈ کہہ کر پکارا گیا تھا اور یہ سمندر میں غرقاب ہوگیا تھا۔ بہرحال ڈوگر لینڈ جہاں کہیں بھی تھا، اس کے بارے میں ماہرین کو یقین ہے کہ یہاں پتھر کے دور کے لوگ کافی بڑی تعداد میں آباد ہوئے تھے ۔
جنہیں ہزاروں سال بعد بپھرے ہوئے سمندر کی وحشی لہروں نے یہ جگہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس کے علاوہ آب و ہوا کی مسلسل تبدیلیوں اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ نے بھی اس جگہ یعنی ڈوگر لینڈ پر ستم کیا اور اسی کی وجہ سے پتھر کے دور کا خاتمہ ہوا جس کے نتیجے میں یورپ خشکی کے ایک بہت بڑے خطے اور ایک بہت بڑی انسانی آبادی سے بھی محروم ہوگیا اور ویسا ہوگیا جیسا آج نظر آتا ہے۔
یہ تھا ڈوگر لینڈ کا انجام!
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے بہت سے دوست اور ساتھی ڈوگر لینڈ کو ہمارے لیے شمالی یورپ میں پتھر کے دور کی حقیقت کو سمجھنے میں اہم نکتہ قرار دیتے ہیں۔ واقعی یہ وہ خطہ ہے جو دنیا میں آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث معدومیت کا شکار ہوا۔
اس ضمن میں یونی ورسٹی آف برمنگھم کے ماہرین کی ایک ٹیم نے Vince Gaffney کی قیادت میں جو کام کیا ہے، اس کے بعد اس گم شدہ دنیا یعنی ڈوگرلینڈ کے بارے میں ہمارے ذہنوں سے کافی الجھنیں دور ہوچکی ہیں اور ہمیں اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ دنیا کیسی تھی۔
شمالی سمندر میں کام کرنے والی تیل کی بہت سی کمپنیوں کے سیسمک سروے (زلزلے سے متعلق سروے) کا جو ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں ونس گیفنے اور ان کے ساتھیوں نے سمندر میں جزوی طور پر غرق گم شدہ دنیا، ڈوگر لینڈ کے لگ بھگ 18,000مربع میل علاقے کو کمپیوٹر پر دوبارہ تعمیر کردیا ہے اور یہ رقبہ نیدر لینڈز (ہالینڈ) سے بھی بڑا ہے۔
ونس گیفنے یونی ورسٹی کے آئی بی ایم ویژول اینڈ اسپیشل ٹیکنالوجی سینٹر کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس مرکز میں بہت بڑے اور رنگین اسکرینز پر اپنے پراجیکٹ کی مذکورہ تصویریں بھی دکھائیں۔ اس نقشے میں دکھایا گیا ہے کہ جس جگہ دریائے رائن اور دریائے ٹیمز کا سنگم ہوتا تھا، وہاں سے یہ جنوب میں چینل ریور کی طرف بہتے تھے۔ گیفنے نے دریا کے دوسرے سسٹمز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس ان کے نام موجود نہیں ہیں، لیکن یہ سسٹم موجود ہیں۔
اس دور کی آب و ہوا کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ آج کے درجۂ حرارت کے مقابلے میں چند درجے زیادہ گرم تھی۔ گیفنے نے اپنی اسکرین پر نرمی سے گھومتی ہوئی پہاڑیاں بھی دکھائیں اور سرسبز وادیاں بھی، بھرپور دلدلی علاقے بھی اور نیلی پرسکون جھیلیں بھی۔ گیفنے کے مطابق:''یہ جگہ شکاریوں کے لیے ایک جنت تھی۔'' گویا یہ تھا ڈوگرلینڈ کا ماضی جو ہر طرح ایک مکمل اور پرفیکٹ دنیا تھی۔
مزید ریسرچ اور رسائل میں چھپنے والے مضامین کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ پتھر کے زمانے کی وہ دنیا بہت خوب صورت تھی جس میں پُرفضا مقامات بھی تھے اور ہری بھری بستیاں بھی۔ چوں کہ شمالی سمندر میں پانی کے اندر کے مناظر زیادہ واضح نہیں ہیں، اس لیے ماضی میں وہاں کا اندرونی حصہ صاف طور پر نہیں دیکھا جاسکا تھا، لیکن ماہرین نے ڈوگرلینڈ میں رہنے والوں کو دیکھنے اور ان کے طرززندگی کو سمجھنے کے لیے دوسرے طریقے استعمال کیے جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس خطے میں رہنے والے لوگ کون تھے اور جب سمندر نے انہیں بے گھر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو جواب میں انہوں نے کس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اپنی بقا اور سلامتی کے لیے کیا اقدامات کیے تھے۔
بہرحال ملاحوں نے اس خطے یعنی ڈوگرلینڈ کے بارے میں اپنے مچھلی پکڑنے والے جالوں میں معلومات کے پورے خزانے جمع کرلیے تھے۔ پھر انہیں وہ انسانی جبڑے کی ہڈی بھی ملی جس سے انہیں اس خطے کے بارے میں جاننے کا مرکزی راستہ ملا۔ اس کے علاوہ گلمروین نے سو سے بھی زیادہ دیگر نادر چیزیں جمع کرلی تھیں جن میں جانوروں کی ہڈیاں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کی ہڈیوں اور ان کے سینگوں سے تیار کردہ اوزار بھی ملے جن میں زگ زیگ طرز کی ایک آراستہ کلہاڑی بھی شامل تھی۔
سمندر کی تہہ سے ان چیزوں کے ملنے کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ڈوگر لینڈ کی گم شدہ دنیا کے حوالے سے ملنے والی زیادہ تر چیزیں جنوبی شمال سمندر سے ملی ہیں۔ اس حصے کو ولندیزی Dutch call De Stekels یعنی ''ریڑھ کی ہڈیاں'' کہتے ہیں۔ یہ سب چیزیں سمندر کی تہہ میں موجود قدرتی دراڑوں یا درازوں سے ملی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یا تو اس گم شدہ دنیا یعنی ڈوگرلینڈ کے لوگ دریائی سسٹم کے بالکل ساتھ رہتے تھے یا پھر ان کی رہائش دریا کے کنارے ریتلے ٹیلوں پر تھی۔
ماہرین کا یہ بھی خیال تھا کہ ڈوگرلینڈ میں رہنے والوں کو سمجھنے اور ان کے بارے میں جاننے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان کے متوقع مقامات کے قریب جگہوں میں اسی عہد کے جزوی طور پر غرقاب اتھلے پانیوں میں کھدائی کی جائے۔
1970اور 1980کے عشروں میں Tybrind Vigنامی ایک مقام پر جو بحیرۂ بالٹک میں ڈنمارک کے ایک جزیرے کے کناروں سے چند سو گز دور، ایسے حیران کن شواہد ملے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ یہ پتھر کے دور کا آخری زمانہ تھا جس میں ماہی گیری کا کلچر فروغ پارہا تھا۔ اس مقام سے ایک ڈونگی کے آراستہ و پیراستہ پتوار بھی ملے ہیں اور متعدد لمبی ڈونگیاں بھی ملی ہیں، جن میں سے ایک کی لمبائی تو 30فیٹ ہے۔ یہ سب ڈوگرلینڈ کے تحفے تھے۔
حال ہی میں جرمنی کی ریاست Schleswig کے سینٹر فار بالٹک اینڈ اسکینڈے نیوین آرکیالوجی میں Harald Lübke اور ان کے ساتھیوں نے اپنی کھدائی کی مہم کے دوران جرمنی کی خلیج Wismar میں زیرآب انسانی آبادیوں اور بستیوں کا پتا چلایا ہے۔
جن کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ 5,500 سے 8,800 سال پرانی بستیاں تھیں۔ اس جگہ کا مزید سروے کرنے کے بعد ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جب یہاں یعنی ''ڈوگرلینڈ'' کے لوگوں کے لیے سمندر نے مسائل پیدا کرنے شروع کیے تو یہ تازہ پانی کی مچھلی کے بجائے سمندری خوراک پر انحصار کرنے لگے تھے۔
اس کے علاوہ ویلز میں بھی ماہرین کی ایک ٹیم نے بیل کی سربراہی میں جن کا تعلق یونی ورسٹی آف ریڈنگ سے تھا، اس خطے میں کھدائی کا کام کیا۔ یہ لوگ اس کام میں 21 سال سے لگے ہوئے تھے کہ انہیں ایک وادی ملی جس کے اندر دریائے Severn تھا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ماضی بعید میں جب سمندر بلند ہوا تو مذکورہ دریا اپنے کناروں سے باہر نکل کر وادی میں دور تک پھیل گیا، یہ واقعہ غالباً ایک صدی پہلے ہوا تھا۔
اس سے ایک جدید دریا کے خطوط واضح ہوئے اور بعد میں اس کی وادی ہی ''ڈوگرلینڈ'' کہلائی۔ بیل کا کہنا ہے کہ یہاں کے آثار سے پتا چلا ہے کہ اس خطے میں ماضی میں بہت سے لوگ کیمپوں میں رہتے تھے۔ لیکن ان میں لوگ مستقل نہیں رہتے تھے۔ بیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں سے سب سے قدیم کیمپ بھی پانی میں غرقاب تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں لوگ مستقل بنیادوں پر نہیں رہتے تھے، بلکہ کبھی کبھار سیروتفریح کی غرض سے آتے تھے، ان کیمپوں میں قیام کرتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے۔
ہر بار سمندر کا پانی خشکی پر آجاتا تو ہر بار ہی انہیں اپنے کیمپ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بلندی پر لگانے پڑتے تھے۔ زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ مسلسل آتے تھے اور صدیوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا، مگر انہوں نے سمندر سے ہار نہیں مانی۔ یہ تھا ''ڈوگرلینڈ'' کا ایک اور نظریہ جس کے حوالے سے ماہرین اپنی اپنی آراء پیش کرتے رہے ہیں۔
جہاں تک ماہرین نے اس خطے کے موسموں کے حوالے سے اپنی آراء پیش کی ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ ڈوگرلینڈ کے لوگ موسم گرما اور موسم خزاں میں بہت خوش ہوتے تھے، کیوں کہ اس زمانے میں یہاں کے دلدلی علاقوں اور زرخیز چراگاہوں میں ڈھیروں جانور آتے تھے جن کا شکار ان کے لیے بہت خوشیاں لاسکتا تھا اور اس کی وجہ سے ان کے لیے خوراک کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی جمع ہوجاتا۔
اس کے علاوہ ڈوگرلینڈ میں یہ ماہی گیری کے لیے بھی مناسب وقت ہوتا تھا۔ ساتھ ہی اس خطے میں درختوں اور پیڑ پودوں پر بھی خوب بہار ہوتی تھی۔ درخت اپنے گری دار میووں کی سوغات بھی دیتے تھے اور بیری کے درخت اپنا تحفہ دیتے تھے۔ ڈوگرلینڈ میں دوسرے موسموں میں یہاں کے رہنے والے بلند مقامات کی طرف ہجرت کرجاتے تھے۔ ممکن ہے یہ لوگ دریائےSevern کی وادیوں میں چلے جاتے ہوں۔
ڈوگرلینڈ والوں کا کلچر محض زبانی کلچر تھا جس میں بڑی عمر کے افراد ماحولیات کی بھرپور معلومات رکھتے تھے۔ وہ پرندوں کی ہجرت کے نمونوں کو بہ غور دیکھتے اور سمجھتے تھے، اسی لیے وہ اپنے گروپ یا اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بتادیتے تھے کہ انہیں کون سے موسم میں ساحل کی طرف جانا ہے اور کس موسم میں انہیں بالائی یا بلند مقامات کا رخ کرنا چاہیے۔ یہ بڑے بوڑھے ایسے طریقے بتاتے تھے جن پر ان لوگوں کی بقا اور سلامتی کا انحصار ہوتا تھا اور وہ ہر طرح کے خطرات سے محفوظ بھی رہتے تھے۔
تفصیلی مطالعے کے بعد یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس دور میں ڈوگرلینڈ میں رہنے والے خاص خاص مواقع پر موسموں کے حوالے سے جشن بھی مناتے تھے اور ہر سال تہواروں کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ موسم خزاں کے اوائل میں اس خطے میں سیل بھی آتی تھیں اور سالمن مچھلیاں بھی اپنے جلوے دکھاتی تھیں، اس موقع پر بہار کا سماں ہوتا تھا۔ شکاریوں کو خوب شکار ملتا تھا۔
ڈوگرلینڈ میں اصل مسائل اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب سمندروں کی سطح مسلسل بلند ہونے لگتی تھی۔ ویسے تو سمندر کی سطح میں یہ اضافہ ایک صدی میں تین سے چھے فیٹ تک ہوتا تھا، لیکن اس زمانے میں بعض موسمی تغیرات کے باعث اس اضافے میں زیادہ ہی تیزی آگئی تھی۔ ڈوگرلینڈ میں جب سمندر کی سطح بلند ہوتی تو اندرونی میدانی حصوں میں یہ اضافہ میلوں تک چلا جاتا تھا، مگر پہاڑی مقامات میں یہ اضافہ کم ہوتا تھا۔
لیکن سمندری سطح کا اضافہ اہل ڈوگرلینڈ کے لیے متعدد مسائل ساتھ لاتا تھا۔ ڈوگرلینڈ کے لوگوں نے خود کو ان موسموں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سخت محنت کی تھی، کیوں کہ ان کا جینا مرنا اسی سمندر کے ساتھ تھا، وہ سمندر کے موڈ کو تو نہیں بدل سکتے تھے، البتہ خود کو سمندر کے موڈ کے مطابق کرسکتے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس کے باوجود ان کی دنیا آہستہ آہستہ زوال کی طرف گام زن ہوگئی۔ وہ اپنی آنکھوں سے اسے ختم ہوتے دیکھتے رہے۔ ان کے لوگ ان کے سامنے ختم ہوتے رہے۔
سمندر ان کے گھر رفتہ رفتہ نگلتا رہا، ان کی نظریں ان کی جنت کو زیرآب جاتے دیکھتی رہیں۔ وہ خود کو بے گھر اور بے در ہوتے دیکھتے رہے۔ اس دوران بے شمار لوگوں نے اس صورت حال سے پریشان ہوکر اجتماعی ہجرت بھی کی۔ شمالی سمندر یا ڈوگرلینڈ کے کچھ مکین برطانیہ چلے گئے اور وہاں نارتھمبرلینڈ کی پہاڑیوں کو اپنا مسکن بنالیا، جب کہ کچھ نے برطانیہ کے شمال مشرقی ساحل کا رخ کیا۔ اب ماضی کے شان دار ڈوگرلینڈ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ یہ اگر ہے تو سمندر کی تہہ میں!