رب ِکائنات کی نعمت گوشت کھانا جب ’’جرم‘‘بن جائے

ہندو حکمران طبقے نے بھارتی عوام میں فرقہ واریت پیدا کرنے کی خاطر گوشت کو بطور ہتھیار کیسے استعمال کیا…چشم کشا انکشافات

ہندو حکمران طبقے نے بھارتی عوام میں فرقہ واریت پیدا کرنے کی خاطر گوشت کو بطور ہتھیار کیسے استعمال کیا…چشم کشا انکشافات ۔ فوٹو : فائل

JACOBABAD:
یہ دسمبر 2014ء کی بات ہے، جموں شہر میں واقع جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے صدر دفتر میں پریموکش سیٹھ نامی ایک ہندو وکیل داخل ہوا۔ اس نے ہائی کورٹ میں یہ پی آئی ایل درخواست(Public interest litigation) داخل کرائی کہ ''تعزیراتِ رنبیر'' کے تحت ریاست میں گائے بیل کے ذبیح اور گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔

مگر لوگ کھلے عام یہ پابندی توڑتے ہیں۔ لہٰذا پولیس کو حکم دیا جائے کہ وہ سختی سے پابندی پر عمل درآمد کرائے۔پریموکش سیٹھ جموں میں قوم پرست ہندو جماعت، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کا اہم لیڈر تھا۔ جب دسمبر 2014ء کے ریاستی الیکشن میں بی جے پی نے پچیس نشستیں جیتیں تو اس کے حوصلے بلند ہوگئے۔ اس نے پھر کشمیری مسلمانوں پر وار کرنے کا فیصلہ کیا... یہی کہ گائے کے ذبیح پر پابندی لگوا کر انہیں باور کرایا جائے کہ کشمیر مسلم ریاست نہیں بلکہ ہندو مملکت بھارت کا حصّہ ہے۔

اسی دوران مارچ 2015ء میں جموں و کشمیر میں بی جے پی اور سیکولر مسلمانوں کی جماعت، پی ڈی پی نے مل کر حکومت بنالی۔ حکومت میں ہندو ساجھے داروں کی خواہش پر اسی ماہ وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے پریموکش سیٹھ کو ریاست کا ڈپٹی اٹارنی جنرل مقرر کردیا۔

ستمبر 2015ء میں پریموکش کی دائر کردہ پی آئی ایل جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے سامنے پیش ہوئی۔ یہ بنچ دو ہندو ججوں، جسٹس دھیراج سنگھ اور جسٹس جانک راج پر مشتمل تھا۔ ان ججوں نے کشمیری مسلمانوں کا مؤقف سنے بغیر ریاستی پولیس کے آئی جی کو حکم دیا کہ وہ گائے بیل کے ذبیح پر پابندی کا مؤثر نفاذ یقینی بنائے۔گویا ریاست میں ان مویشیوں کا گوشت کھانا جرم بن گیا۔اس ناروا فیصلے نے قدرتاً کشمیری مسلمانوں کو مشتعل کردیا۔

انہوں نے پھر حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور اعلان کیا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر علی اعلان گائیں بیل ذبح کیے جائیں گے۔ہندو ججوں کا فیصلہ مذہبی تعصب کی بدترین مثال ہے۔ یہ قیام پاکستان کا سبب بننے والے دو قومی نظریے کی بھر پور وضاحت اور یہ سچائی آشکار کرتا ہے کہ ہندو اور مسلمان مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف قوم ہیں۔اب گائے بیل کے گوشت کا معاملہ ہی لیجیے۔

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں بڑا گوشت من بھاتا کھاجا ہے۔ مگر ہندو ان دونوں کو مقدس اور پوتر جانور سمجھتے ہیں اور ان کا گوشت نہیں کھاتے۔بلکہ بہت سے ہندو خصوصاً برہمن ہر قسم کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی حکم ہے کہ وہ اعتدال سے گوشت کھائیں۔ خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور حکومت میں یہ احکامات جاری فرمائے تھے کہ مسلمان مسلسل دو دن گوشت نہ کھائیں۔ خلیفہ دوم گوشت خوری کو نفس پروری کا مترادف سمجھتے تھے۔

لیکن مسلمانوں کے طرز زندگی میں بہرحال گوشت کھانا شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اعتدال سے کھائی جائے، تو انسان کو بیش بہا طبی فوائد بخشتی اور صحت کی دولت عطا کرتی ہے۔ گائے بیل کا گوشت خصوصاً پروٹین، وٹامن اور معدنیات کا خزانہ ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ شاہد ہے ، مقامی آبادی کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے بیشتر ہندوستانی مسلم حکمرانوں نے گائے بیل کے کھلے عام ذبیح پر پابندی لگائی رکھی۔ یوں انہوں نے رواداری کا ثبوت دیا۔ اسلامی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے خواہ مخواہ تعرض نہ کرو اور انہیں اپنی مذہبی رسومات آزادی سے بجا لانے دو۔لیکن مغل حکومت کو زوال آیا اور سکھوں و ہندوؤں کو حکومت ملی، تو انہوں نے بدترین تعصب کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستان میں پنجاب کے مسلمان وہ پہلے مسلم ہیں جنہیں مذہبی تعصب کی وجہ سے مختلف اقسام کے عذاب سہنے پڑے۔انہی میں گائے بیل کا گوشت کھانے پہ پابندی بھی شامل ہے۔

1800ء میں رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران بن گیا۔ اس کے مشیروں میں ہندو اور سکھ شامل تھے۔ ہندو مشیروں کے دباؤ پر رنجیت سنگھ نے جلد ہی گائے بیل کے ذبیح پر پابندی عائد کردی۔ اب پنجاب میں جو مسلمان گائے ذبح کرتا اور اس کا گوشت کھاتا نظر آتا، اسے عموماً موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ یوں مسلمانانِ پنجاب کے لیے گائے بیل کو چھونا بھی جرم بن گیا۔ اس کا گوشت تناول کرنا تو دور کی بات ہے۔گویا سکھ اور ہندو طاقت پاکر مسلمانوں پر ظلم ڈھانے لگے اور انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا جانے لگا۔ یہ ریاستی جبر اور آمریت کی نمایاں مثال ہے۔

1820ء میں سکھوں نے ریاست جموں و کشمیر پر بھی قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کا دشمن اور رنجیت سنگھ کی سپاہ کا جرنیل، ہری سنگھ نلوہ گورنر کشمیر مقرر ہوا۔ اس نے جموں و کشمیر میں بھی گائے بیل کے ذبیح پر پابندی لگا دی اور یوں مسلمانوں پر کاری وار کیا۔وجہ یہی کہ گائے بیل کے ذبیح اور گوشت کی خریدو فروخت سے سیکڑوں مسلمانوں کا روزگار وابستہ تھا۔ جب ذبیح پر پابندی لگی، تو وہ بے روزگار ہوگئے۔ پھر بڑا گوشت کھانے سے محروم ہوکر ان کے جذبات کو بھی ٹھیس لگی۔



حیرت انگیز بات یہ کہ اس زمانے میں ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد تھی۔ مگر کشمیری مسلمان روایتی طور پر سادہ مزاج، امن پسند اور صابر ہیں۔ سکھوں اور ہندوؤں نے ان کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور انہیں اپنا محکوم بنالیا۔ کشمیری مسلمانوں پر خصوصاً ڈوگرا ہندو حکمرانوں کے ظلم و ستم کی داستان نہایت لرزہ خیز اور چشم کشا ہے۔

رنجیت سنگھ کی فوج میں ہندو ڈوگرا سردار، گلاب سنگھ بھی شامل تھا۔ جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا، تو اس نے بڑی عیاری سے ان کے ساتھ جموں و کشمیر کا سودا کیا اور ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔گلاب سنگھ نے پھر کشمیری مسلمانوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی۔ جو مسلمان ٹیکس نہ دے پاتے، ان سے ''بیگار'' کا کام لیا جاتا۔ معمولی جرائم پر مسلمانوں کو نہایت سخت سزائیں دی جاتیں۔ یوں ریاست میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرکے ہندو حکمران اپنی فوج کی مدد سے حکومت کرنے لگے۔ ریاست میں تمام کلیدی عہدوں پر ہندو یا سکھ فائز تھے جو کشمیری مسلمانوں کا خوب استحصال کرتے۔


1857 ء میں گلاب سنگھ کا بیٹا، رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا۔ اس نے بھی جابر باپ کی طرح کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہی نہیں، اس نے اپنے جرائم کو ''قانونی'' شکل دینے کی خاطر 1861ء میں ضابطہ فوجداری (کرمنل کوڈ) متعارف کرایا جو اسی کے نام پر ''تعزیرات رنبیر'' (رنبیر پینل کوڈ) کہلاتا ہے۔ یہ ضابطہ دراصل ''تعزیرات ہند'' (انڈین پینل کوڈ) کا چربہ تھا جسے ہندوستان پر قابض انگریز غاصبوں نے 1860ء میں تشکیل دیا۔

تعزیراتِ رنبیر کے سیکشن 298 اے اور 298 بی کی رو سے ریاست میں گائے بیل کا ذبیح ''جرم'' قرار پایا۔ اب قانون کی رو سے گائے ذبیح کرنا ناقابل ضمانت جرم تھا۔ اس جرم کا مرتکب ''مجرم'' 10 سال کی قید پاتا اور اس پر بھاری جرمانہ بھی عائد ہوتا۔ حتیٰ کہ جس مسلمان کے پاس سے گائے بیل کا گوشت نکل آتا، اسے بھی ایک سال تک جیل کی ہوا کھانا پڑتی۔ یوں ہندو راجا نے اکثریتی کشمیری مسلمانوں پر زبردستی اپنی یہ مذہبی رسم ٹھونس دی کہ گائے بیل ذبح نہ کیے جائیں۔

سوا سو برس تک مظالم سہنے کے بعد آخر کار 1930ء سے کشمیری مسلمان ہندو ڈوگرا حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ اس احتجاج نے ہندو راجا کو اتنا زیادہ چراغ پا کیا کہ اس نے ریاست میں ہر قسم کا گوشت کھانے پر پابندی لگادی۔ اخلاقی و قانونی طور پر اس مذموم قدم نے مسلمانوں کو مزید مشتعل کردیا۔

1947ء کے بعد مسلمان رہنما ریاست میں برسراقتدار آگئے۔ تاہم انہوں نے ''تعزیرات رنبیر'' کا سیکشن 298 ختم کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے، اب ایک ہندو وکیل کو یہ موقع مل گیا کہ وہ سیکشن 298 سے مدد لے کر جموں و کشمیر میں فرقہ ورانہ فساد کی آگ بھڑکا سکے۔ تاریخ بتاتی ہے، مذہب و نسل کی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتیں عموماً دنگا فساد کے ذریعے ہی پھلتی پھولتی ہیں۔

بی جے پی کا ماضی تو اس انوکھے مظہر کی منہ بولتی مثال ہے۔عام خیال یہ ہے کہ 1947ء میں سیکولر بھارت وجود میں آیا۔ لیکن جلد ہی اسی سیکولر مملکت میں ریاستی ہندو حکومتیں اقلیتوں پر اپنے مذہبی عقائد تھوپنے لگیں۔ 1954ء میں ریاست گجرات نے گائے بیل کے ذبیح پر پابندی لگادی۔ جلد ہی کرناٹک، ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں نے بھی یہ پابندی عائد کردی۔

آج بھارت کی بیشتر ریاستوں میں گائے بیل ذبح کرنے والا مسلمان ''مجرم'' قرار پاتا ہے۔ صرف کیرالہ اور شمال مشرق بھارت کی ریاستوں (اروناچل پردیش، سکم، تری پورہ، ناگالینڈ وغیرہ) میں مسلمان آزادی سے گائے بیل ذبح کرسکتے ہیں۔پورے بھارت میں گنے چنے علاقے ہی ہیں جہاں آباد مسلمان عیدالضحیٰ پر بلاخوف و خطر گائے بیل کی قربانی کرتے اور اپنا مذہبی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ورنہ بیشتر علاقوں میں انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں کا خطرہ سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔

جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، قوم پرست اور انتہا پسند ہندوؤں کی سر توڑ کوشش ہے کہ بھارت کو ہندو مملکت بنا دیا جائے۔ چناں چہ وہ مختلف چکر چلا کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ان کی مکروہ مہم کے باعث بھارتی مسلمانوں کی نوجوان نسل ہندوؤں کے بچھائے جال میں پھنس کر اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتی جارہی ہے۔ قوم پرست ہندوؤں کا بھی یہی خفیہ ایجنڈا ہے کہ نوجوان بھارتی مسلمان ہندو تہذیب و ثقافت میں رچ بس جائیں اور مسلمانوں کی اگلی نسلیں اپنے انداز و اطوار اور عبادات سے مسلمان کم ہندو زیادہ نظر آئیں۔

ایک بھارتی پروفیسر کی گواہی

62 سالہ پروفیسر کنچا الیہا (Kancha Ilaiah) بھارت کے مشہور مورخ، محقق اور ماہر سیاسیات ہیں۔ حیدر آباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ ہندو اچھوت (دلت) گھرانے میں پیدا ہوئے، اب عیسائیت قبول کرچکے۔

پروفیسر کنچا کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے قدیم ہندوستان کی سیاسی تاریخ پر گہری اور اچھوتی تحقیق کی ہے۔ اپنی تحقیق کے سلسلے میں وہ انگریزی کتابیں بھی لکھ چکے۔ دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے اپنی منفرد کتاب'' God As Political Philosopher: Budha's challenge to Brahminism'' میں ''گوشت کی تاریخ'' پر بھی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔

موصوف کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے، قدیم ہندوستانی گائے بیل کو متبرک سمجھتے۔ وجہ یہ کہ وہ نہ صرف کھیتی باڑی میں کام آتی بلکہ انہیں دودھ و مکھن بھی دیتی۔ حتیٰ کہ مرنے کے بعد چمڑا فراہم کرتی۔ لیکن قدیم ہندوستانی گائے کا گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ حقیقتاً جب گائے کام کاج کے قابل نہ رہتی، تو وہ اسے کاٹ کر گوشت ہڑپ کرجاتے۔

رفتہ رفتہ قدیم ہندوستان کا وہ حکمران طبقہ گوشت خور ہوگیا جو اب ''برہمن'' کہلاتا ہے۔ یہ حکمران طبقہ حد سے زیادہ گوشت کھانے لگا۔ اس روش نے انہیں مختلف نفسانی بیماریوں میںمبتلا کردیا۔ اسی لیے ڈھائی ہزار سال پہلے گوتم بدھ نے برہمن حکمران طبقے کی گوشت خوری کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔

جب بدھ مت ہندوستان میں تیزی سے پھیلنے لگا، تو برہمنوں کو اپنا اقتدار ہاتھ سے نکلتا دکھائی دیا۔ تب اپنی حکومت بچانے کے لیے برہمن حکمران طبقے نے ایک چال یہ بھی چلی کہ نہ صرف گوشت کھانا ترک کیا، بلکہ یہ پرچار کرنے لگا کہ گائے بیل مقدس و پوتر جانور ہیں۔ اس لیے ان کے گوشت کا استعمال ترک کردینا چاہیے۔

گویا اپنا اقتدار بچانے کے لیے برہمنوں نے خصوصاً گائے بیل کے گوشت کو بطور سیاسی چال استعمال کیا۔ ان کی یہ ترکیب کامیاب رہی اور آہستہ آہستہ ہندوستان میں گائے بیل کو دیوی دیوتا جیسی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آج قدامت پسند اور روایتی ہندو ذوق و شوق سے گائے بیل کی پوجا کرتے اور ان کے سامنے اپنی حاجتیں یوں بتاتے ہیں جیسے وہ جانور نہیں کائنات کے مالک ہوں۔اب بی جے پی بھی ہندوؤں میں زیادہ سے زیادہ مقبول ہونے کے واسطے گائے بیل کے گوشت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ وہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات بھڑکانا چاہتی ہے تاکہ نہ صرف اس کا اقتدار مستحکم ہو بلکہ بھارتی مسلمان بھی خوف و گھٹن کا شکار ہو کے مذید پسماندہ اور تنہاہو جائیں۔
Load Next Story