تمام رات رہا جشنِ نوبہاراں خوب
11 اکتوبر 2015 کے دن لاہور میں تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن ہوا۔
11 اکتوبر 2015 کے دن لاہور میں تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن ہوا۔ یہ لاہور کا حلقہ این اے 122 اور پی پی 147 تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے اربوں روپے کا الیکشن لڑا، اور برابر کا مقابلہ رہا۔ وطن کے دو کروڑ بچے جو اسکول نہیں جاتے، ''جاتی امرا'' اور ''بنی گالہ'' کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ کھلے آسمان تلے، زمین پر بیٹھے تعلیم حاصل کرتے بچے بھی ودھائیاں دے رہے ہیں، بھوکے ننگے بغیر دوا علاج کے اسپتالوں کی دہلیز پر مرنے والے، ہاری مزدور، کسان، ریڑھی والے، رکشے والے، سارے مسائل زدگان کی طرف سے دونوں پارٹیوں کی قیادت کو فتح مبارک ہو۔ اب ایک نہیں تختِ لاہور دو کا ہے۔
شام 5 بجے پولنگ کا وقت ختم ہوا، جو پولنگ ایریا تھے انھوں نے بھی شام 6 بجے تک ووٹ ڈال دیے تھے، اور پھر شام آگئی، بلکہ سہانی شام آگئی۔ ایسی سہانی شام شاید ہی پہلے کبھی لاہوریوں نے دیکھی ہو۔ دونوں فاتحین نے کئی لاکھ آتش بازی کی چنگاریوں کی صورت جلا دیے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی خرچے کی حد 15 لاکھ رکھی تھی۔ دونوں بادشاہ لوگوں نے الیکشن کمیشن کے ارکان سمیت ان کے احکامات کو ٹھوکروں میں اڑا دیا اور بے چارہ الیکشن کمیشن کچھ بھی نہ کرسکا۔ بس تماشا دیکھتا رہا۔
ایچی سن کے طالب علم عمران خان اور ایاز صادق اپنے اپنے منہ زور گھوڑے دوڑاتے رہے۔ اونچے شملوں والی پگیں لہراتے رہے اور غریب آنسو بہاتے رہے۔ غریب کی بچیوں کے جہیز آتش بازی میں جلتے رہے۔ دواؤں کا انبار آتش بازی کی نذر ہوتا رہا۔ وہ دوائیں جن کے لیے غریب ترستے ہیں، بچوں کی کتابیں، کاپیاں جلتی رہیں۔ جو روپیہ اسکولوں کی مرمت، بیت الخلا، صاف پانی پر خرچ ہوتا وہ آتش بازی میں اڑا دیا گیا۔ الیکشن میں بہادیا۔
11 اکتوبر 2015 کا دن اور رات یادگار بن گئے ہیں اور ''کس درجہ بری رات تھی، کس درجہ برا دن ... میں چپ ہوں ذرا ڈوبتے خورشید سے پوچھو''۔ جشن اتنا بڑا تھا کہ دوسرے صوبوں سے لوگ جشن میں شریک ہونے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے۔ لاہور کے قریبی شہروں سے بھی ''یار دوست'' کھانے پینے کے اعلیٰ بندوبست کرکے آئے تھے۔ بہتے اشکوں کے برستے بادلوں کے بازار لگے ہوئے تھے اور خریدار خرید رہے تھے۔ جشن تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، آسمان خوبصورت نقش و نگار والی آتش بازی سے اٹا پڑا تھا، یہ مہتابی چلی، وہ انار چلے، ادھر گولے فضا میں بلند ہوئے اور اوپر جاکر پھٹے، ستارے کہکشاں بن کر پھیل گئے، دیوانے مستانے، کیا پیر کیا جوان، گلوں میں پارٹی پرچم کے پٹکے ڈالے، ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے، دھمال ڈال رہے تھے۔ نیند کوسوں دور، پتا نہیں کہاں مرگئی تھی۔ سارا لاہور رت جگے میں مصروف تھا۔ سڑکوں پر جیالے، متوالے، محلوں میں فاتحین، میدان مارنے والے اور دوسری طرف غریب، سدا مسائل کے رت جگوں کا عادی، دن بھر مزدوری کی، جو اجرت ملی گھر میں مسائل اس کے مقابلے میں بہت زیادہ۔ دوا دارو، کریانے والے، دودھ والے کا ادھار، رات اجرت اور مسائل کے توڑ جوڑ میں ہی گزر جاتی ہے۔ یہ حلقہ 122 والے کیا جانیں؟ ''ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے دن رات''۔ ''کہے فقیر نمانڑاں لنگ جا چپ چپیتے'' یہ شاہ حسین جو دربارِ اکبری کا انکاری تھا۔
فقیر بے چارہ کہہ رہا ہے، چپ چاپ خاموشی سے گزر جا، مگر خاموش کیسے رہا جائے، خاموش رہنے پر بھی طوفان نہیں تھمتے۔ جوش یاد آگئے، کہتے ہیں واہ جوش، جوش ہیں:
نہ بوئے گل، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
اب لوگ دڑبے نما فلیٹوں میں رہتے ہیں، لُو چلتی ہے، تو ''اختیار والے'' بجلی بند کردیتے ہیں اور لوگ اپنے دڑبوں میں ہی مر کھپ جاتے ہیں، یا پھر صاحب اختیار آگ لگا کر بھی مسئلہ حل کردیتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کے خلاف طلبا سڑکوں پر تھے۔ یہ 1966-67 کا زمانہ تھا۔ کراچی شہر اپنے مزاج کے مطابق ظلم کے خلاف صف آرا تھا، طلبا کی فعال ترین تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہراول دستہ بن کر آگے آگے تھی۔ معراج محمد خان این ایس ایف کے صدر تھے۔ اور اسلامیہ کالج باغی طلبا کا قلعہ بنا ہوا تھا۔ حکومت کو یہ سب منظور نہیں تھا اور ایک دن ''حکومتی'' بندوقیں اٹھائے اسلامیہ کالج پر چڑھ دوڑے پولیس اور کنونشن مسلم لیگ کے غنڈوں نے اسلامیہ کالج کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کالج کے اندر گھس کر سائنس لیبارٹریز کا قیمتی ساز و سامان توڑ ڈالا۔ وسیع و عریض عمارت کے شیشے توڑ ڈالے، یہ حکومتی جبر کا انداز تھا۔ میاں یاسین وٹو اس وقت مرکزی وزیر تعلیم تھے، انھوں نے واقعے پر نہایت ''افسوس'' کا اظہار کیا اور طلبا تنظیم این ایس ایف کراچی شاخ سے اظہار افسوس کے لیے کراچی آگئے۔ وزیر تعلیم تباہ حال اسلامیہ کالج بھی آنا چاہتے تھے۔ این ایس ایف کے مرکزی رہنما معراج محمد خان نے وزیر صاحب سے کہا ''آپ آئیے مگر بغیر فورس کے آئیے۔'' وزیر موصوف آئے۔ مجھے یاد ہے اسلامیہ کالج کراچی کی عمارت پر بہت بڑا بینر آویزاں تھا ''تباہ حال اسلامیہ کالج وزیر تعلیم کو خوش آمدید کہتا ہے'' میاں یاسین وٹو آئے، طلبا میں اشتعال تھا، کچھ طلبا ''بپھرے'' مگر اپنے قائد معراج محمد خان کے کہنے پر سنبھل گئے۔ وزیر موصوف کچھ دیر رکے، تشدد زدہ اساتذہ سے ملے اور وعدے وعید کرکے چلے گئے۔
یہ جو آج ہم پر ''برائیاں'' مسلط ہیں، ''یہ قصے بہت پرانے ہیں، دو چار دنوں کی بات نہیں'' کراچی ہی کی بات ہے۔ جنرل ایوب نے دھاندلی، دھونس، دھن سے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا تھا۔ مگر بدترین دھاندلی کے باوجود کراچی سے جنرل کو بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ جنرل ایوب نے لیاقت آباد کے گھروں کو جلاکر فتح کا جشن منایا تھا۔ تب حبیب جالب کی آواز آئی۔ صرف مطلع لکھوں گا اور پھر وہ شعر جس کا مصرعہ آج کے کالم کا عنوان ہے:
نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب
سنوارتے ہیں یونہی چہرہ گلستان خوب
ہر ایک بجھتا ہوا دیپ کہہ رہا ہے یہی
تمام رات رہا جشنِ نو بہاراں خوب
شام 5 بجے پولنگ کا وقت ختم ہوا، جو پولنگ ایریا تھے انھوں نے بھی شام 6 بجے تک ووٹ ڈال دیے تھے، اور پھر شام آگئی، بلکہ سہانی شام آگئی۔ ایسی سہانی شام شاید ہی پہلے کبھی لاہوریوں نے دیکھی ہو۔ دونوں فاتحین نے کئی لاکھ آتش بازی کی چنگاریوں کی صورت جلا دیے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی خرچے کی حد 15 لاکھ رکھی تھی۔ دونوں بادشاہ لوگوں نے الیکشن کمیشن کے ارکان سمیت ان کے احکامات کو ٹھوکروں میں اڑا دیا اور بے چارہ الیکشن کمیشن کچھ بھی نہ کرسکا۔ بس تماشا دیکھتا رہا۔
ایچی سن کے طالب علم عمران خان اور ایاز صادق اپنے اپنے منہ زور گھوڑے دوڑاتے رہے۔ اونچے شملوں والی پگیں لہراتے رہے اور غریب آنسو بہاتے رہے۔ غریب کی بچیوں کے جہیز آتش بازی میں جلتے رہے۔ دواؤں کا انبار آتش بازی کی نذر ہوتا رہا۔ وہ دوائیں جن کے لیے غریب ترستے ہیں، بچوں کی کتابیں، کاپیاں جلتی رہیں۔ جو روپیہ اسکولوں کی مرمت، بیت الخلا، صاف پانی پر خرچ ہوتا وہ آتش بازی میں اڑا دیا گیا۔ الیکشن میں بہادیا۔
11 اکتوبر 2015 کا دن اور رات یادگار بن گئے ہیں اور ''کس درجہ بری رات تھی، کس درجہ برا دن ... میں چپ ہوں ذرا ڈوبتے خورشید سے پوچھو''۔ جشن اتنا بڑا تھا کہ دوسرے صوبوں سے لوگ جشن میں شریک ہونے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے۔ لاہور کے قریبی شہروں سے بھی ''یار دوست'' کھانے پینے کے اعلیٰ بندوبست کرکے آئے تھے۔ بہتے اشکوں کے برستے بادلوں کے بازار لگے ہوئے تھے اور خریدار خرید رہے تھے۔ جشن تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، آسمان خوبصورت نقش و نگار والی آتش بازی سے اٹا پڑا تھا، یہ مہتابی چلی، وہ انار چلے، ادھر گولے فضا میں بلند ہوئے اور اوپر جاکر پھٹے، ستارے کہکشاں بن کر پھیل گئے، دیوانے مستانے، کیا پیر کیا جوان، گلوں میں پارٹی پرچم کے پٹکے ڈالے، ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے، دھمال ڈال رہے تھے۔ نیند کوسوں دور، پتا نہیں کہاں مرگئی تھی۔ سارا لاہور رت جگے میں مصروف تھا۔ سڑکوں پر جیالے، متوالے، محلوں میں فاتحین، میدان مارنے والے اور دوسری طرف غریب، سدا مسائل کے رت جگوں کا عادی، دن بھر مزدوری کی، جو اجرت ملی گھر میں مسائل اس کے مقابلے میں بہت زیادہ۔ دوا دارو، کریانے والے، دودھ والے کا ادھار، رات اجرت اور مسائل کے توڑ جوڑ میں ہی گزر جاتی ہے۔ یہ حلقہ 122 والے کیا جانیں؟ ''ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے دن رات''۔ ''کہے فقیر نمانڑاں لنگ جا چپ چپیتے'' یہ شاہ حسین جو دربارِ اکبری کا انکاری تھا۔
فقیر بے چارہ کہہ رہا ہے، چپ چاپ خاموشی سے گزر جا، مگر خاموش کیسے رہا جائے، خاموش رہنے پر بھی طوفان نہیں تھمتے۔ جوش یاد آگئے، کہتے ہیں واہ جوش، جوش ہیں:
نہ بوئے گل، نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
اب لوگ دڑبے نما فلیٹوں میں رہتے ہیں، لُو چلتی ہے، تو ''اختیار والے'' بجلی بند کردیتے ہیں اور لوگ اپنے دڑبوں میں ہی مر کھپ جاتے ہیں، یا پھر صاحب اختیار آگ لگا کر بھی مسئلہ حل کردیتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کے خلاف طلبا سڑکوں پر تھے۔ یہ 1966-67 کا زمانہ تھا۔ کراچی شہر اپنے مزاج کے مطابق ظلم کے خلاف صف آرا تھا، طلبا کی فعال ترین تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہراول دستہ بن کر آگے آگے تھی۔ معراج محمد خان این ایس ایف کے صدر تھے۔ اور اسلامیہ کالج باغی طلبا کا قلعہ بنا ہوا تھا۔ حکومت کو یہ سب منظور نہیں تھا اور ایک دن ''حکومتی'' بندوقیں اٹھائے اسلامیہ کالج پر چڑھ دوڑے پولیس اور کنونشن مسلم لیگ کے غنڈوں نے اسلامیہ کالج کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کالج کے اندر گھس کر سائنس لیبارٹریز کا قیمتی ساز و سامان توڑ ڈالا۔ وسیع و عریض عمارت کے شیشے توڑ ڈالے، یہ حکومتی جبر کا انداز تھا۔ میاں یاسین وٹو اس وقت مرکزی وزیر تعلیم تھے، انھوں نے واقعے پر نہایت ''افسوس'' کا اظہار کیا اور طلبا تنظیم این ایس ایف کراچی شاخ سے اظہار افسوس کے لیے کراچی آگئے۔ وزیر تعلیم تباہ حال اسلامیہ کالج بھی آنا چاہتے تھے۔ این ایس ایف کے مرکزی رہنما معراج محمد خان نے وزیر صاحب سے کہا ''آپ آئیے مگر بغیر فورس کے آئیے۔'' وزیر موصوف آئے۔ مجھے یاد ہے اسلامیہ کالج کراچی کی عمارت پر بہت بڑا بینر آویزاں تھا ''تباہ حال اسلامیہ کالج وزیر تعلیم کو خوش آمدید کہتا ہے'' میاں یاسین وٹو آئے، طلبا میں اشتعال تھا، کچھ طلبا ''بپھرے'' مگر اپنے قائد معراج محمد خان کے کہنے پر سنبھل گئے۔ وزیر موصوف کچھ دیر رکے، تشدد زدہ اساتذہ سے ملے اور وعدے وعید کرکے چلے گئے۔
یہ جو آج ہم پر ''برائیاں'' مسلط ہیں، ''یہ قصے بہت پرانے ہیں، دو چار دنوں کی بات نہیں'' کراچی ہی کی بات ہے۔ جنرل ایوب نے دھاندلی، دھونس، دھن سے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا تھا۔ مگر بدترین دھاندلی کے باوجود کراچی سے جنرل کو بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ جنرل ایوب نے لیاقت آباد کے گھروں کو جلاکر فتح کا جشن منایا تھا۔ تب حبیب جالب کی آواز آئی۔ صرف مطلع لکھوں گا اور پھر وہ شعر جس کا مصرعہ آج کے کالم کا عنوان ہے:
نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب
سنوارتے ہیں یونہی چہرہ گلستان خوب
ہر ایک بجھتا ہوا دیپ کہہ رہا ہے یہی
تمام رات رہا جشنِ نو بہاراں خوب