حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج اور مضمرات

لاہور کے ضمنی انتخاب نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی کیونکہ اس میں مقابلہ بڑا سخت تھا

S_afarooqi@yahoo.com

عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کی نوعیت میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ ضمنی انتخابات میں عام انتخابات جیسا جوش وخروش اور دھوم دھڑکا نہیں ہوتا اور ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بھی نسبتاً کم ہی ہوتا ہے، لیکن پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں صورتحال اس کے برعکس رہی۔ ان انتخابات میں مقابلے کی فضا اعصاب شکن تھی۔ سب سے زیادہ کانٹے کا مقابلہ لاہور کے حلقہ این اے 122 لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور پی ٹی آئی کے امیدوار علیم خان کے درمیان ہوا جس میں فتح تو سردار ایاز صادق کی ہوئی لیکن پاکستان تحریک انصاف نے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ اس حلقے میں اس کی مقبولیت میں ماضی کی بہ نسبت اضافہ ہوا ہے۔ اس حلقے میں مجموعی ٹرن آؤٹ 43.10 فیصد رہا جوکہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے اچھا ٹرن آؤٹ کہا جاسکتا ہے۔

لاہور کے ضمنی انتخاب نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی کیونکہ اس میں مقابلہ بڑا سخت تھا اور یہ دونوں پارٹیوں کے لیے Do or Die کا مسئلہ تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کو حکمراں جماعت ہونے کی وجہ سے فطری برتری حاصل تھی اور اس کا پلہ بھاری تھا۔ مسلم لیگ (ن) چاہے کچھ بھی کہے لیکن نفسیاتی اعتبار سے اس کا دباؤ زیادہ تھا جوکہ ایک فطری امر تھا۔ اس اعتبار سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے حوالے سے یہ کہنا بجا اور مناسب ہوگا کہ:

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

اس انتخاب کے حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حلیف مذہبی جماعتوں نے انتخابی مہم میں پورا زور لگا دیا ہوتا تو ممکن ہے فتح پی ٹی آئی کا مقدر بن جاتی۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی شرح سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر حکمراں جماعت نے ڈھیلے پن کا مظاہرہ کیا تو مستقبل میں پی ٹی آئی اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ بلاشبہ ضمنی انتخابات کے نتائج بلدیاتی انتخابات پر ضرور اثرانداز ہوں گے۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 147 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شعیب صدیقی کی کامیابی نے حکمراں جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کی وجہ سے ماحول مجموعی طور پر پرامن اور پرسکون رہا تاہم فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف خطابات اور تقریروں میں جو زبان استعمال کی گئی وہ ہرگز پارلیمانی نہیں کہی جاسکتی اور اس نے غالب کے اس شعر کی یاد تازہ کردی:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُوکیا ہے
تم ہی کہوکہ یہ اندازِگفتگوکیا ہے

کاش دونوں جانب سے اس سیاسی بلوغت اور شائستگی کا مظاہرہ کیا جاتا جس کی ہمیں توقع تھی۔

ادھر اوکاڑہ کے انتخاب میں آزاد امیدوار چوہدری ریاض الحق نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کا دھڑن تختہ کرکے ثابت کردیا کہ رائے دہندگان کو کسی سیاسی جماعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی انھیں اچھی اور بری حکمرانی سے متعلق تقریری مقابلوں میں کوئی دلچسپی ہے۔ اوکاڑہ میں آزاد امیدوار چوہدری ریاض الحق جج نے اپنے حریف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے مجموعی حاصل کردہ ووٹوں سے کہیں زیادہ 53 ہزار240 ووٹ حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی۔


اوکاڑہ کے اس انتخابی نتیجے نے ایک پرانے مقامی سیاسی کارکن کے اس قول کو درست ثابت کردیا کہ ''اوکاڑہ پنجاب کا سیاسی کوفہ ہے۔'' اس سیاسی کارکن کا یہ کہنا بھی بجا ثابت ہوگیا کہ ''یہاں کے لوگ آپ کو بادشاہ بھی بنوا سکتے ہیں لیکن اگر آپ انھیں خاطر میں نہ لائیں تو یہ لوگ آپ کو عبرتناک انجام سے دوچار بھی کرسکتے ہیں۔''

ایک وقت وہ بھی تھا جب اوکاڑہ بھٹو کا ہوا کرتا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو اوکاڑہ کے دو شہریوں نے خودسوزی کرلی۔ اس کے بعد یہاں کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی اور وسطی پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح اوکاڑہ بھی مسلم لیگ ن کا حمایتی بن گیا۔ مگر اب یہ شریفوں اور زرداریوں سے بے نیاز ہے۔ یہاں کے ووٹر اب کسی سیاسی جماعت کے کاسہ لیس یا مرہون منت نہیں رہے۔

یہاں جب ضمنی انتخابات سے صرف تین ہفتے پہلے ریاض الحق جج نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا تو تب لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ ریاض الحق کون صاحب ہیں؟ نعمت بناسپتی فیملی کے اس سپوت کو ضمنی انتخاب میں اتنی زبردست کامیابی حاصل ہوگی ایسا شایدکسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ یہاں کے لوگوں کا عام خیال یہی ہے کہ اوکاڑہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا زوال اس وقت شروع ہوگیا تھا جب اس سے تعلق رکھنے والے کسی بااثر شخص کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ''میں اس شہر میں کسی کو کوئی نئی دکان نہیں کھولنے دوں گا۔'' امر واقعہ یہ ہے کہ اوکاڑہ کی بناسپتی فیملی نے اپنے کاروبار کا آغاز پرچون کی ایک معمولی سی دکان سے کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خاندان مقدر کا سکندر بن گیا۔

بے شک اللہ جسے چاہے عزت دے۔ چنانچہ اوکاڑہ کے ضمنی انتخاب میں دولت کے اس پس منظر کی موجودگی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فیملی کا اصل ذریعہ آمدنی شوگرکا کاروبار ہے۔ یہ خاندان بڑا مخیر بھی ہے اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مستحقین میں دل کھول کر راشن بھی تقسیم کرتا ہے۔

لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام کے دل جیت کر آپ الیکشن بھی جیت سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی عوام کے دل جیت کر ہی برسر اقتدار آئی تھی۔ مگر اب پیپلز پارٹی کا زوال ہے۔ اس کا حال اس رئیس اور دولت مند کا سا ہے جو لٹ پٹ چکا ہے اور اپنی امیری کے دور کے قصے لوگوں کو سنا سنا کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ ان قصوں میں اس کے شاندار ماضی کی داستان اور سیاسی قربانیوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔

پنجاب پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے جس کا اندازہ لاہور کے حلقہ این اے 122 کے حالیہ ضمنی انتخاب کے نتیجے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو صرف 803 ووٹ حاصل ہوئے جس کے باعث اسے شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ یہ حلقہ ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں 1988 میں بے نظیر بھٹو نے زبردست فتح حاصل کی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے اس سے بڑا لمحہ فکریہ بھلا اور کیا ہوسکتا ہے؟ پنجاب ہی نہیں سندھ میں بھی اس کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے جس کی جانب اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو صورتحال کسی بھی حد تک بگڑ سکتی ہے۔

پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات تمام سیاسی پارٹیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ان انتخابات نے ثابت کردیا ہے کہ آیندہ عام انتخابات میں ووٹرز کو Taken for granted نہیں لیا جاسکتا کیونکہ عوامی شعور بڑی تیزی کے ساتھ بیدار ہو رہا ہے اور آیندہ کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بقول محشر بدایونی:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
Load Next Story