مضر صحت دودھ کی فروخت
دودھ، دودھ ہوتا ہے، بھینس کا ہو یا کہ گائے کا۔ شہرکراچی کے لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہے
دودھ، دودھ ہوتا ہے، بھینس کا ہو یا کہ گائے کا۔ شہرکراچی کے لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہے وہ بھی پانی میں دودھ ملاکر، دودھ میں پانی ملاکر نہیں۔ کراچی کی آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ دودھ کی پیداوار بھی کم پڑ رہی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے بھینسوں کو ممنوعہ ٹیکے لگائے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہی دودھ کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی ہیں۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شہری انتظامیہ نے دودھ کی قیمتوں کے تعین کے لیے پروفیشنل تعلیمی اداروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کراچی میں دودھ کی پیداواری قیمتوں کے تعین کے لیے لاگت کا غیر جانبدارانہ اور سائنسی بنیادوں پر تخمینہ لگایا جاسکے۔ جس کے لیے انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ آف پاکستان اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی خدمات سے استفادہ کیا جائے گا۔
ڈیری فارمرز کے نمایندوں کے مطابق دودھ کی پیداواری قیمت کا تخمینہ فارم کی سطح پر بھینس کا دودھ 85.46روپے فی لیٹر ہے، جونا ناقابل یقین ہے، صارفین کے نمایندوں کا موقف ہے کہ ڈیری فارمرز دودھ کی پیداوار بڑھانے، بھینسوں کی جگہ گائے کے دودھ کو فروغ دینے، لاگت میں کمی کے لیے جدید رجحانات اختیار کرنے کے بجائے قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے کچھ عرصے بعد دوبارہ قیمت بڑھانے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
کراچی کے شہریوں کو شکایت ہے کہ حکومت سندھ کراچی کو مضر صحت دودھ کی فروخت کی روک تھام میں بھی ناکام ہوگئی ہے، دودھ میں آلودہ پانی اورکیمیائی اجزا کی ملاوٹ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن کراچی کو لاوارث شہر بنادیاگیا ہے حکومت اورکمشنر کراچی کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈبے میں بند دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو بھی من مانی قیمتیں وصول کرنے سے نہیں روک پا رہے ہیں، سرکاری افسران کی ملی بھگت سے شہریوں کو مضر صحت دودھ فروخت کیا جارہاہے ایسے میں انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کرپٹ سرکاری افسران اور ڈیری مافیا کے خلف موثرکارروائی کا فقدان نظر آتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق شہر کراچی میں قلیل عرصے سے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کیا جا رہاہے، بھینسوں کو لگائے جانے والے بوسٹن انجکشن پر پابندی لگنے سے بھینس کالونی میں بوسٹن انجکشن کی قیمت میں 3گنا اضافہ ہوگیا ہے، پابندی کے باوجود بھینس کالونی میں بوسٹن انجکشن بلیک میں فروخت کیا جارہا ہے، بڑے تھوک فروشوں نے ایک بار پھر قیمتوں میں اضافے کے لیے شہر کراچی میں دودھ کا مصنوعی بحران پیدا کردیا ہے، قیمت بڑھانے کی وجہ سے چھوٹے دکاندار بالخصوص کثیر آبادی والے علاقوں کی دکانوں پر ملاوٹ شدہ اور مکس دودھ فروخت کیا جارہاہے۔
جس میں گائے، بھینس، بھیڑ اور اونٹ کا دودھ شامل ہے، بھینس کالونی میں انسانی اور حیوانی صحت کے لیے مضر بوسٹن انجکشن کی سپلائی کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، انجکشن پر پابندی کا معاملہ عدالت میں بھی زیر غور ہے، بھینس کالونی میں اب بھی بوسٹن انجکشن من مانی قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے، بوسٹن انجکشن بھینس کا دودھ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بعض گوالوں کا کہناہے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال سے بھینس کا دودھ زیادہ چوائی کے بغیر ہی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بوسٹن انجکشن مویشیوں اور ان مویشیوں کا دودھ استعمال کرنے والے انسانوں کے لیے بھی مضر صحت ہے، بوسٹن پر پابندی سے قبل انجکشن 250 سے 300 روپے میں فروخت کیا جارہاتھا یہ انجکشن ہر بھینس کو ایک دن کے وقفے سے لگایا جاتا ہے، دو شیشیوں (ایم پیولز) پر مشتمل ایک ٹیکہ 7 بھینسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، بھینس کالونی میں بوسٹن انجکشن اس وقت بلیک میں فروخت ہورہاہے اور ایک ٹیکے کی قیمت 1200 روپے تک وصول کی جارہی ہے، ذرایع کے مطابق دودھ میں آلودہ پانی کے ساتھ بیکٹیریا کو مارنے کے لیے ہائیڈروجن پر آکسائیڈ اور دیگر کیمیائی اجزا بھی ملائے جارہے ہیں، فوڈ ڈیپارٹمنٹ کا عملہ دکانوں سے نذرانے طے ہونے کی وجہ سے غیر ملاوٹ شدہ دودھ کے سیمپل بھرتا ہے اور ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے والی دکانوں کے لیے بھی سیمپل بڑی دکانوں یا غیر ملاوٹ شدہ دودھ سے بھرے جاتے ہیں۔ اگر بھینس کالونی کے خاری راستوں پر ناکہ لگاکر دودھ کے سیمپل بھرے جائیں تو دودھ میں ملاوٹ اور مضر صحت اجزا کی آمیزش کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
ذرایع کے مطابق ڈیری فارمرز میں بھینسوں سے دودھ کی زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے جانور اور انسانوں کے لیے مضر صحت انجکشن کے استعمال پر پابندی کے بعد بغیر انجکشن دودھ کی پیداوار میں 40 فی صد تک کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران انڈسٹری کو ایک ارب 25 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچ چکا تھا جس کی وجہ سے شہر کراچی میں دودھ کی طلب پوری کرنے میں مشکلات پیش آئی تھی، دکانداروں کے مطابق دودھ کے مڈل مین (پیکاروں) کی جانب سے دکانوں کو سالانہ بندی کے تحت دودھ کی سپلائی میں 10 فی صد کمی کردی گئی ہے۔
جس دکان پر یومیہ 10 من دودھ سلائی کیا جاتا تھا اب وہاں 9 من دودھ سپلائی کیا جارہاہے بقر عید کے موقع پر دودھ اور دہی کی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، موسم گرم ہونے کی وجہ سے دودھ کے مشروبات اور لسی کی طلب بھی بڑھ گئی تھی، دودھ کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے دکانداروں اور صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے، دودھ کی سپلائی کم ہونے سے شہر کراچی میں دودھ کی بیشتر دکانوں پر فروخت کا دورانیہ کم کردیاگیا ہے جن دکانوں پر دن بھر اور رات گئے تک دودھ بلا تعطل فروخت کیا جاتا تھا اب وہاں دن میں تین سے چار گھنٹے دکان بند رکھی جاتی ہے تاکہ سپلائی میں آنے والی کمی سے پیدا ہونے والے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکے۔
جب کہ چھوٹے دکانوں کی بڑی تعداد مستقل طور پر بند کردی گئی ہے بقر عید کی تعطیلات کے دوران دودھ کا بحران شدت اختیار کر گیا تھا عید کی دنوں میں قربانی کے پکوان میں بڑے پیمانے پر دہی کے استعمال، میٹھی سوغاتوں، مٹھائیوں کے لیے دودھ کی طلب بڑھنے سے سپلائی اور ڈیمانڈ کا فرق بھی بڑھ گیا تھا اس سے قبل ڈیری انڈسٹری کی جانب سے دودھ کی سرکاری قیمت پر نظر ثانی اور اضافے کا مطالبہ کیا جارہاتھا، دودھ کی قیمت بڑھ جانے کے باوجود شہر کراچی کے لیے دودھ کی طلب پوری کرنا دشوار نظر آتا ہے کراچی کے لیے دودھ کی گھریلو یومیہ کھپت 50 لاکھ لیٹر بتائی جاتی ہے، جس میں 30 سے 40 فی صد کی نمایاں کمی کو دور کرنے کے لیے فارمرز کی سطح پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ڈیری فارمرز پہلے ہی ہول سیلرز کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں حکومت کی سپورٹ کے بغیر اس بحران کا مقابلہ کرنا دشوار نظر آتا ہے۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف درخواست پر مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ دودھ کی سرکاری قیمت پر فروخت اور اسے ملاوٹ سے پاک رکھنے کا حکم دیا جائے، درخواست گزار رانا فیض الحق نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ 6 ستمبر 2015 کو ڈیری فارمرز نے من مانی کرتے ہوئے دودھ کی قیمت 84 روپے سے بڑھا کر 94 روپے فی لیٹر کردی ہے اور دہی کی قیمت فی لیٹر 120روپے سے بڑھ کر 140 روپے کردی ہے جب کہ سرکاری طور پر دودھ کی فی لیٹر 70 روپے ہے کراچی میں دودھ کی کھپت روزانہ 50 لاکھ لیٹر ہے، 14 روپے زائد دینے سے روزانہ یہ مافیا 7 کروڑ روپے عوام سے وصول کررہے تھے کہ مزید 10 روپے بڑھنے سے 5 کروڑ روپے روزانہ ان سے مزید بھتے کی شکل میں وصول کیے جارہے ہیں جوکہ شہریوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ اور کمشنر کراچی کو پابند کیا جائے کہ کراچی میں سرکاری طور طے کیے گئے نرخ 70 روپے فی لیٹر پر دودھ کی فروخت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس قیمت سے زائد فروخت کرنے پا پابندی کا حکم صادر فرمایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا کی ہدایت کی جائے ، پاکستانی شہری کے جان و مال کی ذمے داری ارباب حکومت کی ہے مزید یہ کہ شہر کراچی میں پرائس کنٹرول لسٹ پر عمل در آمد کرانے کی ہدایت کی جائے۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شہری انتظامیہ نے دودھ کی قیمتوں کے تعین کے لیے پروفیشنل تعلیمی اداروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کراچی میں دودھ کی پیداواری قیمتوں کے تعین کے لیے لاگت کا غیر جانبدارانہ اور سائنسی بنیادوں پر تخمینہ لگایا جاسکے۔ جس کے لیے انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ آف پاکستان اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی خدمات سے استفادہ کیا جائے گا۔
ڈیری فارمرز کے نمایندوں کے مطابق دودھ کی پیداواری قیمت کا تخمینہ فارم کی سطح پر بھینس کا دودھ 85.46روپے فی لیٹر ہے، جونا ناقابل یقین ہے، صارفین کے نمایندوں کا موقف ہے کہ ڈیری فارمرز دودھ کی پیداوار بڑھانے، بھینسوں کی جگہ گائے کے دودھ کو فروغ دینے، لاگت میں کمی کے لیے جدید رجحانات اختیار کرنے کے بجائے قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے کچھ عرصے بعد دوبارہ قیمت بڑھانے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
کراچی کے شہریوں کو شکایت ہے کہ حکومت سندھ کراچی کو مضر صحت دودھ کی فروخت کی روک تھام میں بھی ناکام ہوگئی ہے، دودھ میں آلودہ پانی اورکیمیائی اجزا کی ملاوٹ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن کراچی کو لاوارث شہر بنادیاگیا ہے حکومت اورکمشنر کراچی کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈبے میں بند دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو بھی من مانی قیمتیں وصول کرنے سے نہیں روک پا رہے ہیں، سرکاری افسران کی ملی بھگت سے شہریوں کو مضر صحت دودھ فروخت کیا جارہاہے ایسے میں انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کرپٹ سرکاری افسران اور ڈیری مافیا کے خلف موثرکارروائی کا فقدان نظر آتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق شہر کراچی میں قلیل عرصے سے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کیا جا رہاہے، بھینسوں کو لگائے جانے والے بوسٹن انجکشن پر پابندی لگنے سے بھینس کالونی میں بوسٹن انجکشن کی قیمت میں 3گنا اضافہ ہوگیا ہے، پابندی کے باوجود بھینس کالونی میں بوسٹن انجکشن بلیک میں فروخت کیا جارہا ہے، بڑے تھوک فروشوں نے ایک بار پھر قیمتوں میں اضافے کے لیے شہر کراچی میں دودھ کا مصنوعی بحران پیدا کردیا ہے، قیمت بڑھانے کی وجہ سے چھوٹے دکاندار بالخصوص کثیر آبادی والے علاقوں کی دکانوں پر ملاوٹ شدہ اور مکس دودھ فروخت کیا جارہاہے۔
جس میں گائے، بھینس، بھیڑ اور اونٹ کا دودھ شامل ہے، بھینس کالونی میں انسانی اور حیوانی صحت کے لیے مضر بوسٹن انجکشن کی سپلائی کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، انجکشن پر پابندی کا معاملہ عدالت میں بھی زیر غور ہے، بھینس کالونی میں اب بھی بوسٹن انجکشن من مانی قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے، بوسٹن انجکشن بھینس کا دودھ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بعض گوالوں کا کہناہے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال سے بھینس کا دودھ زیادہ چوائی کے بغیر ہی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بوسٹن انجکشن مویشیوں اور ان مویشیوں کا دودھ استعمال کرنے والے انسانوں کے لیے بھی مضر صحت ہے، بوسٹن پر پابندی سے قبل انجکشن 250 سے 300 روپے میں فروخت کیا جارہاتھا یہ انجکشن ہر بھینس کو ایک دن کے وقفے سے لگایا جاتا ہے، دو شیشیوں (ایم پیولز) پر مشتمل ایک ٹیکہ 7 بھینسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، بھینس کالونی میں بوسٹن انجکشن اس وقت بلیک میں فروخت ہورہاہے اور ایک ٹیکے کی قیمت 1200 روپے تک وصول کی جارہی ہے، ذرایع کے مطابق دودھ میں آلودہ پانی کے ساتھ بیکٹیریا کو مارنے کے لیے ہائیڈروجن پر آکسائیڈ اور دیگر کیمیائی اجزا بھی ملائے جارہے ہیں، فوڈ ڈیپارٹمنٹ کا عملہ دکانوں سے نذرانے طے ہونے کی وجہ سے غیر ملاوٹ شدہ دودھ کے سیمپل بھرتا ہے اور ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے والی دکانوں کے لیے بھی سیمپل بڑی دکانوں یا غیر ملاوٹ شدہ دودھ سے بھرے جاتے ہیں۔ اگر بھینس کالونی کے خاری راستوں پر ناکہ لگاکر دودھ کے سیمپل بھرے جائیں تو دودھ میں ملاوٹ اور مضر صحت اجزا کی آمیزش کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
ذرایع کے مطابق ڈیری فارمرز میں بھینسوں سے دودھ کی زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے جانور اور انسانوں کے لیے مضر صحت انجکشن کے استعمال پر پابندی کے بعد بغیر انجکشن دودھ کی پیداوار میں 40 فی صد تک کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران انڈسٹری کو ایک ارب 25 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچ چکا تھا جس کی وجہ سے شہر کراچی میں دودھ کی طلب پوری کرنے میں مشکلات پیش آئی تھی، دکانداروں کے مطابق دودھ کے مڈل مین (پیکاروں) کی جانب سے دکانوں کو سالانہ بندی کے تحت دودھ کی سپلائی میں 10 فی صد کمی کردی گئی ہے۔
جس دکان پر یومیہ 10 من دودھ سلائی کیا جاتا تھا اب وہاں 9 من دودھ سپلائی کیا جارہاہے بقر عید کے موقع پر دودھ اور دہی کی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، موسم گرم ہونے کی وجہ سے دودھ کے مشروبات اور لسی کی طلب بھی بڑھ گئی تھی، دودھ کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے دکانداروں اور صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے، دودھ کی سپلائی کم ہونے سے شہر کراچی میں دودھ کی بیشتر دکانوں پر فروخت کا دورانیہ کم کردیاگیا ہے جن دکانوں پر دن بھر اور رات گئے تک دودھ بلا تعطل فروخت کیا جاتا تھا اب وہاں دن میں تین سے چار گھنٹے دکان بند رکھی جاتی ہے تاکہ سپلائی میں آنے والی کمی سے پیدا ہونے والے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکے۔
جب کہ چھوٹے دکانوں کی بڑی تعداد مستقل طور پر بند کردی گئی ہے بقر عید کی تعطیلات کے دوران دودھ کا بحران شدت اختیار کر گیا تھا عید کی دنوں میں قربانی کے پکوان میں بڑے پیمانے پر دہی کے استعمال، میٹھی سوغاتوں، مٹھائیوں کے لیے دودھ کی طلب بڑھنے سے سپلائی اور ڈیمانڈ کا فرق بھی بڑھ گیا تھا اس سے قبل ڈیری انڈسٹری کی جانب سے دودھ کی سرکاری قیمت پر نظر ثانی اور اضافے کا مطالبہ کیا جارہاتھا، دودھ کی قیمت بڑھ جانے کے باوجود شہر کراچی کے لیے دودھ کی طلب پوری کرنا دشوار نظر آتا ہے کراچی کے لیے دودھ کی گھریلو یومیہ کھپت 50 لاکھ لیٹر بتائی جاتی ہے، جس میں 30 سے 40 فی صد کی نمایاں کمی کو دور کرنے کے لیے فارمرز کی سطح پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ڈیری فارمرز پہلے ہی ہول سیلرز کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں حکومت کی سپورٹ کے بغیر اس بحران کا مقابلہ کرنا دشوار نظر آتا ہے۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف درخواست پر مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ دودھ کی سرکاری قیمت پر فروخت اور اسے ملاوٹ سے پاک رکھنے کا حکم دیا جائے، درخواست گزار رانا فیض الحق نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ 6 ستمبر 2015 کو ڈیری فارمرز نے من مانی کرتے ہوئے دودھ کی قیمت 84 روپے سے بڑھا کر 94 روپے فی لیٹر کردی ہے اور دہی کی قیمت فی لیٹر 120روپے سے بڑھ کر 140 روپے کردی ہے جب کہ سرکاری طور پر دودھ کی فی لیٹر 70 روپے ہے کراچی میں دودھ کی کھپت روزانہ 50 لاکھ لیٹر ہے، 14 روپے زائد دینے سے روزانہ یہ مافیا 7 کروڑ روپے عوام سے وصول کررہے تھے کہ مزید 10 روپے بڑھنے سے 5 کروڑ روپے روزانہ ان سے مزید بھتے کی شکل میں وصول کیے جارہے ہیں جوکہ شہریوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ اور کمشنر کراچی کو پابند کیا جائے کہ کراچی میں سرکاری طور طے کیے گئے نرخ 70 روپے فی لیٹر پر دودھ کی فروخت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس قیمت سے زائد فروخت کرنے پا پابندی کا حکم صادر فرمایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا کی ہدایت کی جائے ، پاکستانی شہری کے جان و مال کی ذمے داری ارباب حکومت کی ہے مزید یہ کہ شہر کراچی میں پرائس کنٹرول لسٹ پر عمل در آمد کرانے کی ہدایت کی جائے۔