ایک سپاہی جس نے ہتھیار نہیں کھولے

محمد اصغر خان کے اس دعوے میں کسی کے لیے عزت تھی ،کسی کے لیے ذلت

Abdulqhasan@hotmail.com

FAISALABAD:
پاک فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل ریٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی خوبصورت ،کامیاب اور قومی خدمت سے مرصع زندگی میں ایک اور قومی کارنامہ سر انجام دے دیا ہے۔

کوئی سولہ برس قبل جب انھوں نے دیکھا کہ فوج کی حکومت نے قطعاً ناجائز طور پر بہت سارے سیاسی لیڈروں کو رشوت دی ہے اور ایک خاص پارٹی کے لیے ان سے ووٹ لیے ہیں تو سوال یہ نہیں تھا کہ اس کوشش کے نتیجے میں کون جیتا اور کون ہارا، اصل سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کیا اتنی کرپٹ ہو چکی ہے کہ خود مالدار ہونے کے باوجود رشوت لے کر اپنے ضمیر اور ملک کے مفاد کے خلاف ووٹ دے دیتی ہے۔ مدعی نے اپنے بڑھاپے میں طویل صبر کیا، سولہ برس تک عدالت کو اپنی درخواست یاد دلاتا رہا لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔ اس کا یہی صبر اور استقامت اس کے بڑھاپے کو عزت دار بنا گیا۔'' اﷲ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے''۔ محمد اصغر خان کے اس دعوے میں کسی کے لیے عزت تھی ،کسی کے لیے ذلت جس کے حصے میں جو کچھ تھا، عدلیہ کے فیصلے کے بعد وہ اسے مل گیا۔ قدرت کے قانون تبدیل نہیں ہوتے۔

محترم اصغر خان کی طرح سپریم کورٹ کے چیف بھی قوم کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئے، ان کے پاس نہ فوج نہ پولیس بس آئین کی ایک کتاب ہے اور انھوں نے اپنے کردار کے ذریعے اس کتاب کو ایک ہتھیار بنا لیا ہے۔ وہ اس قدر صاف بات کرتے ہیں اور اس قدر قومی جذبے کے ساتھ کہ اس سے انکار ممکن نہیں ہوتا۔ میاں شہباز شریف نے اپنے بیٹوں جیسے داماد کو جیل بھجوا دیا لیکن قانون میں مداخلت نہیں کی۔ داماد بیٹوں سے زیادہ قابل عزت ہوتے ہیں، جسٹس افتخار نے بھی اپنے بیٹے کی پروا نہیں کی اور قانون کو اس کے بارے میں آزاد چھوڑ دیا۔ حضرت عمرؓ جو زیادہ تر زمین پر بیٹھا کرتے تھے، ایک بار زلزلہ آیا اور زمین کانپنے اور تلملانے لگی تو حضرت عمرؓ کو یہ دیکھ کر غصہ آیا اور انھوںنے زمین پر اپنا کوڑا مار کر کہا، بتائو کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا اور یہ سن کر زمین تھم گئی۔

پاکستان کے لاتعداد مسائل اور مشکلات میں سرفہرست شاید انصاف کا فقدان ہے۔ انصاف اس ملک کی سرزمین پر بہت کم دکھائی دیتا ہے لیکن اس پر بیٹھا ہوا کوئی عمرؓ نہیں جو اسے تنبیہہ کرے۔ انصاف قوموں کی بہت بڑی قوت ہوتا ہے۔ آئین کی محافظ اور رکھوالی ہماری عدلیہ کسی توپ و تفنگ کے بغیر بھی اتنی طاقت ور ہے کہ کسی بہانے اس کے کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں۔ عدلیہ کی اصل طاقت ہمارے عوام ہیں جو ابھی تک زندہ ہیں۔

ائر مارشل اصغر خان نے عدلیہ کو امتحان میں نہیں ڈالا اس کو ایک بہت بڑی نیکی کمانے کا موقع دیا ہے، ایک ایسی نیکی جو اس عدلیہ کے جج صاحبان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی اور اس قوم کو بھی بچا لے گی جس نے جو رشوت لی کسی ثبوت یا ثبوت کے بغیر اس کے نام کے ساتھ لکھی جائے گی۔ تعجب ہے کہ انفرادی اور اجتماعی یعنی جماعتی طور پر بھی ایسے لوگ بہت کم نکلے جنہوں نے اس نعمت سے انکار کر دیا ہو۔ بعض تو ایسے نام ہیں جو اکیلے پوری قومی سیاست خرید سکتے ہیں، وہی جوش صاحب والی تنک مزاجی اور کھرے پن کی بات ہے کہ


کوئی مشتری ہو تو آواز دے دے
میں کمبخت جنس ہنر بیچتا ہوں

جوش صاحب نے تو شاید ہم صحافیوں اور شاعروں کے لیے یہ کہا تھا لیکن سیاست کا ہنر رکھنے والے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کچھ پہلے بعض فوجی جرنیلوں اور ایک بینکار نے جو صدا لگائی تھی، وہ اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس وقت کے راولپنڈی کے ایک بڑے ہوٹل میں ن لیگ کی ایک پریس کانفرنس میں کچھ دستاویزات تقسیم کی گئیں اور ایک آدھ لیڈر کی ٹیلی فون پر گفتگو بھی سنائی گئی۔ یہ لیڈر کہہ رہا تھا کہ دیکھو رقم میں نے بھی گنی ہے جو کم تھی، پھر میرے بیٹے نے بھی گنتی کی، یہ کم نکلی، اس لیے اسے پورا کیا جائے۔ یہ لیڈر بخیروعافیت سیاست میں ہیں بلکہ ایک پارٹی کے سربراہ، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی دنیا دار کے لیے یہ کافی نہیں کہ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت موجود ہے۔

اس لیے مزید کی ضرورت نہیں، ہل من مزید کی صدا ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ فارسی کے ایک شاعر نے کہا تھا کہ دنیا دار کی آنکھ کو یا تو قناعت پر کر سکتی ہے یا قبر کی مٹی یعنی کوئی جرنیل اسے پر نہیں کر سکتا۔ ایک جرنیل نے کہا ہے کہ میں کیا کرتا، اوپر سے حکم ہوتا اور میں اس کے مطابق رقم آگے دے دیتا۔ ائر مارشل اصغر خان کو بھی اوپر سے ایک حکم ہوا تھا، جب یہ برٹش ائر فورس کے ان نوجوان افسروں میں سے تھے جس کے سامنے مستقبل پڑا تھا۔ ان کو حکم ہوا کہ فلاں جگہ سے پیر صاحب پگاڑا کی قیادت میں حروںکا ایک قافلہ گزر رہا ہے، اس پر بمباری کرو۔

ہوا باز نے ذرا نیچے آ کر دیکھا کہ یہ تو نہتے لوگ ہیں اور ریگستان میں معمول کا سفر کر رہے ہیں، ان پر کس جرم میں حملہ کیا جائے چنانچہ انھوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔ واپس آئے تو پیشی ہوئی جس میں انھوں نے اپنا موقف بیان کیا اور ان کو معاف کر دیا گیا۔ یہ انگریز کا زمانہ تھا جس میں قانون قاعدہ بھی چلتا تھا۔ بعد میں اس پیر پگاڑا کو انگریزوں نے پھانسی دے دی۔ قبر کا آج تک پتہ نہیں۔ ہمارا کوئی جرنیل بھی یہ جانتے ہوئے کہ اسے غلط حکم دیا جا رہا ہے اگر ایسے غلط حکم کو ماننے سے انکار کر دے تو یہ مارشل لاء وغیرہ سب غارت ہو جائیں لیکن ہم نے انگریزوں سے فوجی میس کے آداب تو سیکھ لیے اور لیفٹ رائٹ بھی مگر فرائض کی ادائیگی نہ سیکھی۔

انگریز کہا کرتے تھے کہ ہم نے ہندوستانیوں کو ہیٹ اور بوٹ کے تحفے دیے لیکن ان کے لیے جو تحفہ مفید تھا یعنی ہیٹ جو انھیں گرم موسم سے بچاتا تھا وہ تو انھوں نے ترک کر دیا مگر بوٹ قبول کر لیا جسے وہ نہ مندر میں پہن سکتے ہیں نہ مسجد میں نہ فرش پر بوٹوں سمیت بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھانے کے وقت۔ ہم نے بھی انگریز سے وہی سیکھا جس کی ضرورت نہ تھی بلکہ نقصان دہ تھا اور اپنے اسلامی قائدین سے انصاف نہیں سیکھا صرف نا انصافی اور زیادتی سیکھی ہے۔

بات چلی تھی اصغر خان سے انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فرض ادا کر دیا۔ ایک سپاہی کبھی اپنے ہتھیار سجا کر رخصت ہو گا۔
Load Next Story