قسطوں میں موت

کسی معاشرے کے اندر پائی جانے والی تخلیقی قوت ہی اسے قیادت کی اہلیت سے سرفراز کرتی ہے

gmohyddin@express.com.pk

ایک چینی لوک کہانی ہے کہ ایک جنگلی گھوڑی کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ جیسا کہ جنگل کا دستور ہوتا ہے جانور اپنے بچوں کو خود انحصاری سکھاتے ہیں۔

جینے کا ایسا ڈھنگ سکھاتے ہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر زندہ رہ سکیں۔ تو ایک روز اسی غرض سے گھوڑی نے اپنے بچے سے کہا کہ ندی کے پار جاؤ، وہاں پر گھوڑوں کی ایک بستی ہے۔ وہ اناج کا ایک تھیلا تمہاری کمر پر رکھ دیں گے تو وہ لے کر واپس لوٹ آنا ... بچہ شوق سے اُچھلتا کودتا ندی کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب ندی کنارے پہنچا تو پانی دیکھ کر ٹھٹھکا۔ قریب ہی ایک جنگلی بھینسا کھڑا تھا، اس سے پوچھنے لگا ''چچا بھینسے! پانی گہرا تو نہیں ... وہ بولا ''بیٹا پانی تو بس ٹخنوں تک گہرا ہے ... گزر جائو' یہ کہتے ہوئے بھینسا وہاں سے چلا گیا ... اس سے پہلے کہ ننھا گھوڑا پانی میں پاؤں دھرتا' اس کی نظر درخت پر پُھدکتی ہوئی گلہری پر پڑی' بجائے اس کے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتا۔

گلہری سے پوچھنے لگا' خالہ ''پانی زیادہ گہرا تو نہیں''؟ وہ بولی ''بیوقوف بچے' گھر بھاگ جاؤ' ندی میں اترے تو ڈوب جائو گے'' چھوٹا گھوڑا پلٹا اور گھر واپس آگیا۔ اس نے سارا قصہ ماں کو کہہ سنایا۔ گھوڑی نے بیٹے کو پیار کیا اور بولی۔ ''دیکھو بیٹا' بھینسا بہت بڑا ہے' اس لیے ندی اس کے لیے بالکل گہری نہیں' گلہری بہت چھوٹی ہے اس لیے ندی اس کے لیے بہت گہری ہے۔ تم نہ بہت چھوٹے ہو اور نہ بہت بڑے' لہٰذا پانی تمہارے پیٹ تک آئے گا۔'' خیر کہانی خوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس نوع کی کہانیاں دس، بارہ برس تک کے چینی بچوں کے لیے ہیں۔ چھوٹے گھوڑے کی کہانی اندھی تقلید کی مہلک روش سے بچنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ کسی معاشرے کے اندر پائی جانے والی تخلیقی قوت ہی اسے قیادت کی اہلیت سے سرفراز کرتی ہے اور تقلید تخلیقی صلاحیت کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے۔

آج اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ تخلیقی قوت کے اظہار کے حوالے سے ہمارا معاشرہ مکمل بنجر پن کا شکار ہے۔ اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ ہمارے ہاں شاعری ہو رہی ہے' نثر نگاری ہو رہی ہے' کہیں نہ کہیں مصوری بھی ہو رہی ہو گی' گیت تخلیق کیے جا رہے ہیں اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں کچھ نہ کچھ کام ہوتا ہو گا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے تمام شعبوں میں تخلیقی اظہار' نیا پن اور نُدرت مفقود ہے۔ ہر شعبے میں تقلید پر انحصار کی روش کے خلاف شعوری جدوجہد نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارے معاشرے پر فالج کی سی کیفیت طاری ہو چکی ہے اور اب ہماری معلومات کی معراج یہ ہے کہ باخبر لوگ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ کوئی اہم سائنسی تحقیق کس ملک کی کس درس گاہ میں ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ کتنے برسوں میں کس صورت میں سامنے آنے کی توقع ہے۔ یعنی کسی بھی تبدیلی کی جدوجہد میں، کسی فکری مسئلے کے حل میں اور ٹیکنالوجی میں روبہ عمل آنے والی تبدیلیوں میں ہمارا حصہ محض ان کے وقوع پذیر ہو جانے کے انتظار کرنے تک محدود ہے۔یہ کیفیت ایسی ہے جیسے معاشرہ آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہا ہو۔

چند روز پہلے لاہور میں ہونے والے ایک فیشن شو کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے پاکستانی ڈریس ڈئزائنرز نے اپنی ماڈلز کو تلک' سندھور اور منگل سوتر سے مزین کرکے ریمپ پر اتارا' تقلید کا یہ عالم ہے کہ ہندو مذہب سے وابستہ اشیاء بھی فیشن کا حصہ بن گئی ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ بھارت سے چارو نامی ایک ڈائزانر نے پاکستان کا لحاظ کرتے ہوئے ان چیزوں کو اپنے ماڈلز سے دور رکھا۔

کرنل محمد خان اپنی کتاب بجنگ آمد میں کہتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ چھڑی تو افسروں کی کمی پوری کرنے کے لیے انگریزوں نے اپنی دانست میں جن سارجنٹوں کو زیادہ باصلاحیت جانا 'کیپٹن کا رینک دے کر اپنی نو آبادیاتی افواج میں تعینات کر دیا۔ سارجنٹ سے راتوں رات کیپٹن بننے والا ایسا ہی ایک افسر محمد خان کی رجمنٹ میں بھی تعینات ہوا۔ اس کیپٹن کا ذکر کرتے ہوئے محمد خان لکھتے ہیں کہ جب بھی یہ صاحب کپتانی کرنے کی کوشش کرتے تھے ان سے سارجنٹی ہو جایا کرتی تھی۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے بعض نجی ٹی وی چینلز نے ایک بڑا تخلیقی کام یہ کیا ہے کہ خبروں میں بھی بھارتی گیت شامل کر لیے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس سے معاشرتی سطح پر، جہاں پر لوگ اپنی سوچ' اپنی رائے اور رویہ متعین کرنے کے لیے میڈیا کی جانب دیکھتے ہیں' خبروں جیسی سنجیدہ سرگرمی میں بھارتی گیت سنوا کر لوگوں کو کیا تاثر دینا مقصود ہے ۔ شاید یہ کہ کسی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے' یہ محض کھیل تماشا ہے۔ ہمارا تخلیقی معیار اب اس سطح پر ہے کہ کسی خبر کی اثر پذیری بڑھانے کے لیے ہمیں تیسرے درجے کے بھارتی فلمی گیتوں کا سہارا درکار ہوتا ہے۔

مثبت تخلیقی عمل کی ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی اقوام کی اُٹھان میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی معاشرے کا اصل جوہر ہوتا ہے۔ اس سے وجود میں آنے والی اختراعات' ایجادات' تصورات اور فکر تو اپنی جگہ اہم ہے ہی' اس سے اقوام میں مجموعی طور پر جو اعتماد پیدا ہوتا ہے، اس کا کوئی بدل نہیں۔ ہماری روش یہ رہی کہ مسجد اور مدرسہ ایک خاص طبقہ کے حوالے کر دو کہ وہ اقتدار میں شراکت دار نہ بنے، ملک میں اپنی حیثیت اور اختیار کے لحاظ سے تعلیم کی کئی اقسام موجود ہیں اور جو سب سے اُوپر ہیں ان کی تعلیم باہر ہے، یعنی ایسے کسی بندوبست کی گنجائش ہی نہیں کہ قوم کو ایک لڑی میں پرویا جا سکے اور ایک مقصد کے حصول کے لیے تیار کیا جا سکے۔

آخر میں چند سطریں اُس نظم کے بارے میں جو اس کالم کی وجہ بنی۔ ادب میں نوبل انعام یافتہ چلی کے شاعر' سفارتکار اور سیاستدان پابلو نرودا کی ایک نظم کا انگریزی ترجمہ ایک ساتھی نے دکھایا تو جی چاہا کہ کیوں نہ اسے اردو میں منظوم صورت دے دی جائے۔ آپ بھی دیکھیں کہ لاطینی امریکا کے ایک پسماندہ ملک کا شاعر لوگوں کو کیا سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔

قسطوں میں موت
اپنی عادت کا غلام' ایک ہی رستے کا راہی
اپنے معمولات کی زنجیر میں جکڑا ہوا
نہ کبھی خطرات کو للکارتا ہے
نہ کبھی نوخیزرنگوں کی قبائیں اوڑھتا ہے
وہ جودل کی دل میں رکھتا ہے' کبھی کہتا نہیں
تجربے سے، کھوجنے کے لطف سے بیزار ہے
قطرہ قطرہ پی رہا ہے موت کو
وہ کہ جس کا جذبۂ دل سرد ہے
روشنی سے جس کو نفرت 'تیرگی سے پیار ہے
وہ کہ جو جذبات کے سیل رواں کو ٹوکتا ہے' روکتا ہے
اور تری آنکھیں انھی جذبات کی لو سے چمکتی ہیں
انھی جذبات میں بہہ کر
تمہاری اونگھ' اک مسکان کے رنگوں کو ڈھلتی ہے
یہی مسکان تب ہونٹوں پہ کھلتی ہے

کہ جب دل اپنی لغزش اور اس احساس سے بگٹٹ دھڑکتا ہے
(مگر اس سیل کو جو روکتا ہے' ٹوکتا ہے)
قطرہ قطرہ پی رہا ہے موت کو
جو الٹتا اور پلٹتا ہی نہیں ترتیب کو
وہ جو اپنے کام سے آسودگی پاتا نہیں
جو یقیں کو چھوڑ کر
بے یقینی سے کبھی نظریں ملاتا ہی نہیں
تاکہ کوئی خواب بن لے
وہ کہ جس نے زندگی بھر میں کبھی...
دل کا کہا مانا نہیں
قطرہ قطرہ پی رہا ہے موت کو
وہ جو سیلانی نہیں
ربط جس کو علم کی روشن کتابوں سے نہیں
وہ کہ جس کو لے سے' سر سے، تال سے رغبت نہیں
وہ کہ جس کی اپنی نظروں میں کوئی وقعت نہیں
قطرہ قطرہ پی رہا ہے موت کو
وہ کہ جو توقیر اپنی رفتہ رفتہ
خاک میں پامال کر دے
جو مدد کے ہاتھ کو اپنے تلک آنے نہ دے
اور پھر اپنی تہی دامنی کا شکوہ کرے
اپنی بدبختی کا یوں نوحہ کہے...
''کیسی بارش ہے کہ جو تھمتی نہیں''
قطرہ قطرہ پی رہا ہے موت کو
وہ کہ جو آغاز سے پہلے ہی ہمت ہار دے
جس میں جرات ہی نہیں کہ پوچھ لے' جو کہ نامعلوم ہے
اور جو معلوم ہے، اس کو بتانے سے ڈرے
قطرہ قطرہ پی رہا ہے موت کو
آؤ سب کوشش کریں
اس طرح قسطوں میں مرنے سے بچیں
خود کو یہ باور کرائیں
زندگی جینے کو یارو! سانس لینا ہی فقط کافی نہیں
غور سے دیکھو تو یہ اک مضطرب تسکین کا احساس ہے
جو ہمیں خوشیوں کی روشن رفعتوں کے لطف سے سرشار کرتا ہے
Load Next Story