شہرِ مہربان
انسانوں کی طرح شہر بھی اپنی ایک انفرادی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں
اسے میری طویل ترین مدت تک کی کالم نویسی کہیے یا قارئین کے دلوں کی نرمی اور محبت کہ مجھے ایسے ایسے قارئین عطا کیے گئے ہیں کہ ان کی تحریریں دیکھ کر میں انھیں نقل کرنے یعنی آپ تک پہنچانے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ چند ایک تحریریں میں نقل کر چکا ہوں اور اپنے اخبار کے متعلقہ ایڈیٹر صاحب کی اجازت سے بعض اوقات اس نقل پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ ایک اور تحریر حاضر ہے اگر اجازت ملی تو اس کا مصنف بھی بتا دوں گا۔ اب یہ تحریر ملاحظہ فرمائیے۔ جس کا عنوان ہے ''شہرِ مہربان''۔ آج کا کالم بھی اسی عنوان سے۔
انسانوں کی طرح شہر بھی اپنی ایک انفرادی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مخصوص مزاج، ثقافت، رکھ رکھاؤ، رہن سہن، انداز تکلم، اجنبیوں سے برتاؤ۔ بعض شہر بہت لیے دیے رہتے ہیں۔ اپنے آپ میں گم۔کسی پر کھلتے ہی نہیں۔کسی کو اپناتے ہی نہیں۔آپ ان کے پاس ان کے اندر برسوں رہ لیجیے، اجنبی ہی رہیں گے۔
گُھٹا گُھٹا سامزاج رکھنے والے بے درد شہر لیکن اور ایک شہر ہوتے ہیں بالکل ہی مختلف۔ جیسے اپنا لاہور۔ بہت ہی اپنا لاہور۔کھلے دل والا، مہربان شہر۔ اجنبیوں کو گلے لگانے والا۔ بانہیں وا کیے ہوئے۔ دل کے سب دروازے ہر دم کھولے ہوئے۔ اپنا لینے والا۔ اپنا بنا لینے والا۔ لاہور کو فن آتا ہے اپنے آپ میں سمو لینے کا۔ آپ ایک بار لاہور میں رہنے لگیں بس لاہور آپ میں رہنے لگتا ہے۔ یہ شہر کسی پرانے دوست کی طرح آپ کی سنتا ہے۔ سمجھتا ہے۔ آپ کے تمام دکھ درد اپنے اندر اتار لیتا ہے۔
آپ کو آپ کی تمام کمزوریوں سمیت قبول کرتا ہے۔ آپ کی تمام صلاحیتوں پر ایک مشفق باپ کی طرح اتراتا ہے، انھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ کسی کو دھتکارتا نہیں، کسی کو بھوکا نہیں سونے دیتا، کسی کو اکیلا رونے نہیں دیتا۔ آپ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ آپ لاہوری ہیں اور ایک روز معلوم ہوتا ہے کہ آپ تو لاہور کے عشق میں مبتلا ہیں اور... لاہور آپ کے۔ تعلیم یا فکر معاش میں آپ لاہور سے دور چلے بھی جائیں، لاہور آپ سے دور نہیں جاتا۔ بہتر زندگی کی تلاش میں جانے والے ایک دن اپنی اولاد کو بتاتے ہیں کہ لاہور سے بہتر زندگی اور کہاں۔
دوسرے خطوں سے لاہور آ کر بسنے والے اس شہر مہرباں کی مہربانی کا لطف اٹھاتے اٹھاتے یہیں کے ہو رہتے ہیں۔ آپ بھلے سے اس شہر کے پیدائشی نہ ہوں یہ شہر آپ کو اپنی آغوش میں ایک نیا جنم دے دیتا ہے اور آپ کہیں بھی ہوں آپ اپنی اس محبت بھری جنم بھومی کو نہیں بھولتے۔ اس شہر سے محبت کے لیے طبعی تعلق ضروری نہیں، بس سیدھا دل سے رشتہ جوڑتا ہے لاہور۔ سید علی ہجویری جیسے فقید المثال صوفی ہوں یا اقبالؔ، فیضؔ جیسے جید شعراء، اس شہر کی محبت کے ایسے اسیر ہوئے کہ یہاں کے نہ ہوتے ہوئے بھی بھی یہاں کے ہو رہے۔ لاہور کی مٹی میں ہی مدفون ہوئے اور لاہور کی مہمان نواز فضا اسی مٹی کی خوشبو سے مہکتی ہے۔
جمہوریت لاکھ مطمع نظر سہی، انتخابات کی ضرورت مسلّم ہونا برحق ہے مگر یہ جو سیاسی جماعتیں لاہور کو اپنے نام لگانے پر تل جاتی ہیں، یہ اس شہر کی مزاج شناس نہیں۔آپ پیسہ لگا کر لاہور پر قابض نہیں ہو سکتے۔ یہ درویشوں کو خوش آمدید کہنے والا خطہ ارضی ہے۔
یہ شہر کسی برادری کی جاگیر نہیں۔کسی سیاستدان کی ملکیت نہیں۔ اس کی شناخت کوئی چوہدری، میاں، بٹ، خان نہیں ہو سکتے ہاں اس کی شناخت منٹو، کرشن چندر، شاہ حسین، میاں میر، دیو آنند، کامنی کوشل اور جانے کتنے ہی بڑے بڑے نام ہیں۔ ہر محبت اور خدمت کرنے والا اس شہر سے متعلق ہے اور یہ شہر اپنے چاہنے والوں سے متعلق۔ پطرس بخاری نیو یارک میں بیٹھے لاہور کی یاد کی کسک محسوس کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ کیا ''راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں قلعے کی دیواروں سے سر پٹختا ہے''۔! تعلیم کے حصول کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی یونیورسٹیوں میں بیٹھے طالب علم گھر فون کر کے پوچھتے ہیں ''لاہور کا موسم کیسا ہے،،؟، تو ان کی آوازوں میں لاہور کی یاد کھنکتی ہے۔
اور وہ جن کی مجبوریوں نے انھیں بہت عرصے سے لوٹنے نہیں دیا ان کی آوازیں بھیگ جاتی ہیں لاہور کو یاد کرتے ہوئے۔ آپ لاہور سے جاتے ہیں، لاہور آپ سے نہیں جاتا۔ ایک انتخابی معرکہ، ایک حلقہ کی سیاسی مقابلہ بازی، لاہور کا تعارف کیسے ہو سکتی ہے؟
اور لاہور اپنانے یہ آئے، ووٹ دینے کا فیصلہ کر لے تو یہ نہیں دیکھا کرتا کہ آپ سرائیکی بولتے ہیں پوٹھوہاری یا اردو۔ اگر آپ اپنے صحافتی ذرایع سے معلوم کریں تو شعیب صدیقی جو لاہور سے کامیاب ہوئے، اردو بولنے والے ہیں۔ ''مہاجر'' آپ صرف راوی کے دوسرے کنارے یا لاہور کی سرحد تک ہوتے ہیں، بس لاہور میں داخل ہونے کی دیر ہے آپ لاہوری ہو گئے اور لاہور کی مہمان نوازی کی تازہ ترین مثال کسی صاحب دل بیوروکریٹ کی مہربانی ہے۔
یہ ادارہ گویا ایسا بھی بے روح اور بے دل نہیں ہوا۔ کسی مہربان نے سوچا ہے ''دکھ اور بھی زمانے میں ہیں باس کو خوش رکھنے کے سوا،، اور مال پر پرندوں کے لیے مستقل آشیانے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جدیدیت اور ترقی کا استعمار بہت سے درخت کھا گیا جو کوئل اور دوسرے پرندوں کا ٹھکانہ ہوا کرتے تھے۔ چلیے کچھ تو سوچا گیا لاہور کے خوبصورت رہائشیوں کے لیے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور مال شعراء، ادیبوں اور سیاحوں سے پر رونق رہتی تھی۔ چلیے وہ نہیں پرندے ہی سہی۔ شکریہ لاہور۔
انسانوں کی طرح شہر بھی اپنی ایک انفرادی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مخصوص مزاج، ثقافت، رکھ رکھاؤ، رہن سہن، انداز تکلم، اجنبیوں سے برتاؤ۔ بعض شہر بہت لیے دیے رہتے ہیں۔ اپنے آپ میں گم۔کسی پر کھلتے ہی نہیں۔کسی کو اپناتے ہی نہیں۔آپ ان کے پاس ان کے اندر برسوں رہ لیجیے، اجنبی ہی رہیں گے۔
گُھٹا گُھٹا سامزاج رکھنے والے بے درد شہر لیکن اور ایک شہر ہوتے ہیں بالکل ہی مختلف۔ جیسے اپنا لاہور۔ بہت ہی اپنا لاہور۔کھلے دل والا، مہربان شہر۔ اجنبیوں کو گلے لگانے والا۔ بانہیں وا کیے ہوئے۔ دل کے سب دروازے ہر دم کھولے ہوئے۔ اپنا لینے والا۔ اپنا بنا لینے والا۔ لاہور کو فن آتا ہے اپنے آپ میں سمو لینے کا۔ آپ ایک بار لاہور میں رہنے لگیں بس لاہور آپ میں رہنے لگتا ہے۔ یہ شہر کسی پرانے دوست کی طرح آپ کی سنتا ہے۔ سمجھتا ہے۔ آپ کے تمام دکھ درد اپنے اندر اتار لیتا ہے۔
آپ کو آپ کی تمام کمزوریوں سمیت قبول کرتا ہے۔ آپ کی تمام صلاحیتوں پر ایک مشفق باپ کی طرح اتراتا ہے، انھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ کسی کو دھتکارتا نہیں، کسی کو بھوکا نہیں سونے دیتا، کسی کو اکیلا رونے نہیں دیتا۔ آپ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ آپ لاہوری ہیں اور ایک روز معلوم ہوتا ہے کہ آپ تو لاہور کے عشق میں مبتلا ہیں اور... لاہور آپ کے۔ تعلیم یا فکر معاش میں آپ لاہور سے دور چلے بھی جائیں، لاہور آپ سے دور نہیں جاتا۔ بہتر زندگی کی تلاش میں جانے والے ایک دن اپنی اولاد کو بتاتے ہیں کہ لاہور سے بہتر زندگی اور کہاں۔
دوسرے خطوں سے لاہور آ کر بسنے والے اس شہر مہرباں کی مہربانی کا لطف اٹھاتے اٹھاتے یہیں کے ہو رہتے ہیں۔ آپ بھلے سے اس شہر کے پیدائشی نہ ہوں یہ شہر آپ کو اپنی آغوش میں ایک نیا جنم دے دیتا ہے اور آپ کہیں بھی ہوں آپ اپنی اس محبت بھری جنم بھومی کو نہیں بھولتے۔ اس شہر سے محبت کے لیے طبعی تعلق ضروری نہیں، بس سیدھا دل سے رشتہ جوڑتا ہے لاہور۔ سید علی ہجویری جیسے فقید المثال صوفی ہوں یا اقبالؔ، فیضؔ جیسے جید شعراء، اس شہر کی محبت کے ایسے اسیر ہوئے کہ یہاں کے نہ ہوتے ہوئے بھی بھی یہاں کے ہو رہے۔ لاہور کی مٹی میں ہی مدفون ہوئے اور لاہور کی مہمان نواز فضا اسی مٹی کی خوشبو سے مہکتی ہے۔
جمہوریت لاکھ مطمع نظر سہی، انتخابات کی ضرورت مسلّم ہونا برحق ہے مگر یہ جو سیاسی جماعتیں لاہور کو اپنے نام لگانے پر تل جاتی ہیں، یہ اس شہر کی مزاج شناس نہیں۔آپ پیسہ لگا کر لاہور پر قابض نہیں ہو سکتے۔ یہ درویشوں کو خوش آمدید کہنے والا خطہ ارضی ہے۔
یہ شہر کسی برادری کی جاگیر نہیں۔کسی سیاستدان کی ملکیت نہیں۔ اس کی شناخت کوئی چوہدری، میاں، بٹ، خان نہیں ہو سکتے ہاں اس کی شناخت منٹو، کرشن چندر، شاہ حسین، میاں میر، دیو آنند، کامنی کوشل اور جانے کتنے ہی بڑے بڑے نام ہیں۔ ہر محبت اور خدمت کرنے والا اس شہر سے متعلق ہے اور یہ شہر اپنے چاہنے والوں سے متعلق۔ پطرس بخاری نیو یارک میں بیٹھے لاہور کی یاد کی کسک محسوس کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ کیا ''راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں قلعے کی دیواروں سے سر پٹختا ہے''۔! تعلیم کے حصول کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی یونیورسٹیوں میں بیٹھے طالب علم گھر فون کر کے پوچھتے ہیں ''لاہور کا موسم کیسا ہے،،؟، تو ان کی آوازوں میں لاہور کی یاد کھنکتی ہے۔
اور وہ جن کی مجبوریوں نے انھیں بہت عرصے سے لوٹنے نہیں دیا ان کی آوازیں بھیگ جاتی ہیں لاہور کو یاد کرتے ہوئے۔ آپ لاہور سے جاتے ہیں، لاہور آپ سے نہیں جاتا۔ ایک انتخابی معرکہ، ایک حلقہ کی سیاسی مقابلہ بازی، لاہور کا تعارف کیسے ہو سکتی ہے؟
اور لاہور اپنانے یہ آئے، ووٹ دینے کا فیصلہ کر لے تو یہ نہیں دیکھا کرتا کہ آپ سرائیکی بولتے ہیں پوٹھوہاری یا اردو۔ اگر آپ اپنے صحافتی ذرایع سے معلوم کریں تو شعیب صدیقی جو لاہور سے کامیاب ہوئے، اردو بولنے والے ہیں۔ ''مہاجر'' آپ صرف راوی کے دوسرے کنارے یا لاہور کی سرحد تک ہوتے ہیں، بس لاہور میں داخل ہونے کی دیر ہے آپ لاہوری ہو گئے اور لاہور کی مہمان نوازی کی تازہ ترین مثال کسی صاحب دل بیوروکریٹ کی مہربانی ہے۔
یہ ادارہ گویا ایسا بھی بے روح اور بے دل نہیں ہوا۔ کسی مہربان نے سوچا ہے ''دکھ اور بھی زمانے میں ہیں باس کو خوش رکھنے کے سوا،، اور مال پر پرندوں کے لیے مستقل آشیانے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جدیدیت اور ترقی کا استعمار بہت سے درخت کھا گیا جو کوئل اور دوسرے پرندوں کا ٹھکانہ ہوا کرتے تھے۔ چلیے کچھ تو سوچا گیا لاہور کے خوبصورت رہائشیوں کے لیے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور مال شعراء، ادیبوں اور سیاحوں سے پر رونق رہتی تھی۔ چلیے وہ نہیں پرندے ہی سہی۔ شکریہ لاہور۔