اسٹیل ملز چلانے میں دلچسپی ہے نہ نجکاری کے خلاف ہیں وزیر صنعت و پیداوار سندھ

بعض تکنیکی معاملات کی وجہ سے کراچی میں مزید پاورڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو اجازت نہیں دی جا سکتی، وزیرصنعت وتجارت سندھ

جنوری2016 میں صوبے کا بجٹ مرتب کرتے وقت تمام برآمدی صنعتوں کے نمائندوں کو آن بورڈ لیا جائے گا، وزیرصنعت وتجارت سندھ ۔فوٹو: فائل

حکومت سندھ مالیاتی مسائل کے باعث پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور نہ ہی پیپلزپارٹی اسٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کے خلاف ہے تاہم وہ ان اداروں کے ورکروں کے مفادات کے خلاف فیصلوں کے حق میں نہیں، کراچی آپریشن کا آغاز پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری سے ہوا جس پر متعدد رہنماؤں کی ناراضی کے باوجود پیپلز پارٹی نے آپریشن پر شور نہیں مچایا۔

یہ بات وزیرصنعت وتجارت سندھ محمد علی ملکانی نے منگل کو پی ایچ ایم اے ہاؤس میں برآمدکنندگان سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ بعض تکنیکی معاملات کی وجہ سے کراچی میں مزید پاورڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ شہر میں الیکٹرک انفرااسٹرکچر صرف کے الیکٹرک کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوکرشاہی کے منفی ہتھکنڈوں کی وجہ سے اب تک ای او بی آئی کو صوبوں کے حوالے نہیں کیا جا سکا۔ صوبائی وزیرصنعت وتجارت نے اعتراف کیا کہ سندھ میں صنعتی شعبے کو توانائی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے لیکن حکومت سندھ صوبے میں صنعتکاری کے فروغ کے لیے صنعتی شعبے کے اشتراک سے کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوری2016 میں صوبے کا بجٹ مرتب کرتے وقت تمام برآمدی صنعتوں کے نمائندوں کو آن بورڈ لیا جائے گاتاکہ ٹیکسیشن سمیت دیگر امور کو قابل قبول بنایا جاسکے۔ پی ایچ ایم اے کے چیئرمین عبدالرشید فوڈر والا نے کہا کہ کراچی نے سنگین حالات اور مسائل کے باوجود وفاق کو 63 فیصد ریونیو دیا لیکن حکومتوں نے صنعتی شعبے کو درپیش مسائل حل کرنے کے بجائے صرف اور صرف اپنے ووٹ بینک بڑھانے کے کام میں زیادہ دلچسپی لی، کراچی کے ساتھ یتیموں جیسا سلوک کرتے ہوئے اس میگا سٹی کو جلایا گیا تاہم گزشتہ چند ماہ سے کراچی کے حالات میں بتدریج بہتری رونما ہورہی ہے۔


انہوں نے کہا کہ صوبائی ٹیکسوں کی بھرمار درحقیقت بیوروکریسی کی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے ہے جنہیں صرف 1صفحے پر لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل سیکیورٹی کی سالانہ آڈٹ پالیسی صرف اور صرف ہراسمنٹ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سوشل سیکیورٹی کے آڈٹ کی مدت کو 5 سال تک توسیع دے، صنعتی علاقوں میں72 گھنٹے پانی سپلائی معطل رہتی ہے جس کی وجہ سے ٹینکرمافیا کا راج قائم ہوگیا ہے، صنعتی علاقوں میں نکاسی آب، قدرتی گیس کی ترسیل میں رکاوٹ اور کے الیکٹرک سے متعلق مسائل بڑھتے جارہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ برآمدی کاروبار میں منافع 2 تا 3 فیصد رہ گیا ہے۔

پی ایچ ایم اے کے چیف کوآرڈینیٹر جاوید بلوانی نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ کراچی میں کے الیکٹرک کی اجارہ داری اور بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے 10 مزید پاورڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دے جبکہ صوبے میں صنعتکاری کے فروغ کے لیے ترغیبی پیکیج متعارف کرائے۔

انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے کاٹن یارن کی درآمد پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو عالمی قوانین سے متصادم قرار دیا اورکہا کہ دنیا میں کہیں بھی خام مال پر ڈیوٹی یا ٹیکسز عائد نہیں ہیں لیکن پاکستان میں اسکے برعکس فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اسپنرز سے کوئی تعلق نہیں ہے، ویلیوایڈڈ سیکٹر 850 فیصد ویلیوایڈیشن کررہا ہے جبکہ اسپننگ سیکٹر صرف56 فیصد کی ویلیو ایڈیشن کرتا ہے۔

انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ سرکلر ٹرین سروس کی بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔ سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے کہا کہ یورپی یونین پاکستانی ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل پروڈکٹس کا سب سے بڑا خریدار ہے لیکن پاکستان نے جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے کے بعد مشروط27 کنونشنز پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا۔
Load Next Story