اردو کا رثائی ادب اور جدید شعرا
اردو زبان کی بیشتر اصناف سخن عربی اور فارسی زبان سے اپنا سفر طے کرتی آئی ہیں
لاہور:
اردو زبان کی بیشتر اصناف سخن عربی اور فارسی زبان سے اپنا سفر طے کرتی آئی ہیں۔ لفظ مرثیہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے، شاعری کا بھی عجب حال ہے۔ یہ چشمہ کی طرح سنگلاخ پہاڑوں سے پھوٹتی ہوئی میدانوں کوگلزار بناتی بڑھتی ہے۔ یہی حال رثائی ادب کا بھی ہے۔ جن دنوں انیس اور دبیر کے معرکے سرزمین لکھنو میں برپا تھے۔
اس وقت اودھ پر واجد علی شاہ کی بادشاہت تھی۔ یہ بادشاہت خود بڑی ادب نواز تھی۔ ویسے بھی ان دنوں تک لکھنو میں انگریز مزاحمتی تحریک سے متاثر نہ ہوا تھا۔دونوں شعرا انیس ودبیرکی پیدائش لگ بھگ اس وقت ہوئی جب سترہویں صدی اپنا ورق لپیٹ چکی تھی۔ دونوں شعرا کو ایسا ماحول میسر آیا جہاں ان کے چاہنے والے ان کی شعری مجالس میں شریک ہوتے تھے۔یہاں بہ یک وقت دونوں شعرا پر قلم اٹھانے کا وقت نہیں کیونکہ یہ طوالت کا سبب بنے گا ۔
لہٰذا یہاں میر انیس پر ہی گفتگو ممکن ہے۔ میرانیس یوپی کے شہر فیض آباد محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔ یہ محلہ ایک گلاب کا جنگل تھا اور ساتھ کئی میل تک پانی،گویا آنکھ ایسی جگہ کھولی جہاں منظر چمنستان کے زیبا تھے۔ اس لیے ان کے کلام میں گلاب کے پھولوں کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے۔
میر انیس سے قبل بھی شعرا نے مراثی تحریرکیے مگر اس کو ایک ترتیب نہ دی۔ مثلاً صبح فجرکا ذکر، ذکر محمد و آل محمد، میدان جنگ، رجز، تلوارکی کاٹ، اسپ کی کارکردگی اور سامان گریہ و زاری، و لقمہ کربلا کا تذکرہ، خاندان رسالت کی شان و شوکت، گویا مرثیہ کو اس کا بدن یا جسم دے دیا۔
تقریباً 100 برس تک اردو مرثیہ گوئی اسی انداز میں جاری رہی۔ یہاں تک کہ جوش ملیح آبادی نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں ۔ میر انیس نے مرثیہ نگاری میں قدم رکھنے سے قبل خدا تعالیٰ کے حضور اپنے کلام کی ہر دل عزیزی کے لیے دعا بھی فرمائی۔ میر انیس کی یہ فہم اس قدر شفاف ہے کہ جب وہ مذہبی گفتگو فرماتے ہیں تو اس میں کسی قسم کی تفریق نظریات نظر نہیں آتیں، مثلاً درج ذیل بند ملاحظہ ہو:
یا رب چمنِ نظم کوگلزار ارم کر
اے ابرِکرم خشک زراعت پہ کرم کر
میر انیس نے اپنے مرثیہ میں روزمرہ کے واقعات اور حالات کو اپنے اشعار میں ایسا رقم کیا ہے جیساکہ ہم خود اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔میر انیس کا کلام فصاحت کا مرقع ہے اور اس کے علاوہ سہل ممتغ کی انتہا پر آپ فائز ہیں:
اسرار الٰہی کو بھلا کیا کوئی جانے
اللہ و محمد کے سوا کیا کوئی جانے
اب اس شعر کی وضاحت و تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ مشکل پسندی انیس کے کلام میں نہیں۔ کیونکہ جب یہ شعرا محفل میں جاتے تھے تو قدر دانوں کا کثیر مجمع ہوتا تھا۔ مجلس میں قدر داں داد و تحسین کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ جب میرصاحب اپنی جوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی دعا قبول ہوچکی تھی۔ ابتدا میں چمن نظم کے لیے انھوں نے خدائے بزرگ و برتر سے دعا کی تھی کہ اس کو گلزار ارم کردے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں:
نمکِ خوانِ تکلم ہے فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
صبح صادق کا ظہور دیکھیے:
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یاد الٰہی میں طیور
ابھی ذکر صبح کا بیان جاری ہے اورحضرت حسین عالی مقام خیمے سے باہر آتے ہیں:
ذرا مصرعہ ملاحظہ فرمائیے:
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
منظرکشی میں انیس کا دوسرا کوئی جواب پیدا نہ ہوا۔ غرض جتنے پہلو میر انیس نے اپنے سخن میں رقم کیے کسی اور شاعرکے بس کی بات نہ تھے۔ میر انیس نے اپنے ایک مرثیہ میں امام حسینؓ کی جنگ کا احوال جس انداز میں بیان کیا ہے بلامبالغہ شیکسپیئر اپنی کسی سونیٹ میں نہ بیان کرسکا، مگر ساکنان ہند نے وہ پذیرائی نہ کی جس کے وہ حقدار تھے۔
سید آلِ رضا نے سلام میں نام پیدا کیا۔ ایک اعتبار سے میر انیس سے تو سید آلِ رضا کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا مگر آلِ رضا صاحب نے ایک سلام ایسا تحریر کردیا جو مجالس کی جان بن گیا ۔نسیم امروہوی، صبا اکبر آبادی، امید فاضلی جانے پہچانے نام ہیں۔ اس کے علاوہ نوحہ خوانی کی زمین بھی مرثیہ سے قریب تر ہے گوکہ یہ سلام کا ایک پہلو ہے جس میں غم حسین کو شاعر اپنے احساس و نظریات کا سہارا لے کر مختصر وقت میں اظہار غم کرتا ہے۔ پاکستان میں جدید نوحہ خوانی کے بانی علی محمد رضوی عرف سچے میاں ہیں۔
جوش ملیح آبادی جب پنڈت جواہر لعل کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان ہجرت کر بیٹھے تو دہلی کے پالم ہوائی اڈے تک نہرو نے ان کا پیچھا کیا اور روکنا چاہا مگر جوش صاحب نہ مانے۔ کیونکہ شیوسینا جن سنگھ کا بول بالا ہونا شروع ہوگیا تھا اور ہندی کو اردو پر فوقیت دی جانے لگی تھی۔ مگر اردو تو وہاں کا پودا تھا اس تناور درخت کا مالی جوش ملیح آبادی کی کراچی آمد ہوئی آپ اکثر حسینیاں ایرانیاں کی مجالس عشرہ محرم کی ابتدا نوتصنیف مراثی سے کیا کرتے تھے۔ کراچی بھر کے اہل علم جمع ہوتے تھے انھی مجالس میں ان کا یہ شعر برزبانِ عام ہوا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
آمد صبح پرجوش صاحب نے انیس کے رنگ میں یہ چند مصرع کہے:
جب چہرئے افق سے اٹھی سرمئی نقاب
کانپے نجوم زرد ہوا روئے ماہتاب
کھنکے فلک کے جام کھلے سرخیوں کے باب
بہرصورت مرثیہ گوئی کے فن کو شعرا آگے بڑھاتے رہے۔ 1950 کی دہائی میں سید آلِ رضا کے مراثی کافی مشہور ہوئے ان کے بعض سلام تو لافانی بن گئے۔ رثائی ادب پاکستان میں عہد بہ عہد اپنی منزل طے کرتا رہا۔ ان شعرا میں نسیم امروہوی، امید فاضلی، صبا اکبر آبادی، پروفیسر بلال نقوی اور نوحہ خوانی کے میدان میں علی محمد رضوی سچے اور آجکل ریحان اعظمی کے نوحے مقبول ہیں۔ مگر انیس کے کلام کی عظمت کچھ اور ہی ہے۔ ان کے سلام کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انسانی زندگی کے فانی ہونے پر:
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
انیس نے اردو زبان کی لازوال خدمت کی۔ ابلاغ کا ایک دریا ہے جو جانے والے نے موجزن چھوڑا ہے، فرماتے ہیں:
پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل پہ سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی
اردو زبان کی بیشتر اصناف سخن عربی اور فارسی زبان سے اپنا سفر طے کرتی آئی ہیں۔ لفظ مرثیہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے، شاعری کا بھی عجب حال ہے۔ یہ چشمہ کی طرح سنگلاخ پہاڑوں سے پھوٹتی ہوئی میدانوں کوگلزار بناتی بڑھتی ہے۔ یہی حال رثائی ادب کا بھی ہے۔ جن دنوں انیس اور دبیر کے معرکے سرزمین لکھنو میں برپا تھے۔
اس وقت اودھ پر واجد علی شاہ کی بادشاہت تھی۔ یہ بادشاہت خود بڑی ادب نواز تھی۔ ویسے بھی ان دنوں تک لکھنو میں انگریز مزاحمتی تحریک سے متاثر نہ ہوا تھا۔دونوں شعرا انیس ودبیرکی پیدائش لگ بھگ اس وقت ہوئی جب سترہویں صدی اپنا ورق لپیٹ چکی تھی۔ دونوں شعرا کو ایسا ماحول میسر آیا جہاں ان کے چاہنے والے ان کی شعری مجالس میں شریک ہوتے تھے۔یہاں بہ یک وقت دونوں شعرا پر قلم اٹھانے کا وقت نہیں کیونکہ یہ طوالت کا سبب بنے گا ۔
لہٰذا یہاں میر انیس پر ہی گفتگو ممکن ہے۔ میرانیس یوپی کے شہر فیض آباد محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔ یہ محلہ ایک گلاب کا جنگل تھا اور ساتھ کئی میل تک پانی،گویا آنکھ ایسی جگہ کھولی جہاں منظر چمنستان کے زیبا تھے۔ اس لیے ان کے کلام میں گلاب کے پھولوں کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے۔
میر انیس سے قبل بھی شعرا نے مراثی تحریرکیے مگر اس کو ایک ترتیب نہ دی۔ مثلاً صبح فجرکا ذکر، ذکر محمد و آل محمد، میدان جنگ، رجز، تلوارکی کاٹ، اسپ کی کارکردگی اور سامان گریہ و زاری، و لقمہ کربلا کا تذکرہ، خاندان رسالت کی شان و شوکت، گویا مرثیہ کو اس کا بدن یا جسم دے دیا۔
تقریباً 100 برس تک اردو مرثیہ گوئی اسی انداز میں جاری رہی۔ یہاں تک کہ جوش ملیح آبادی نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں ۔ میر انیس نے مرثیہ نگاری میں قدم رکھنے سے قبل خدا تعالیٰ کے حضور اپنے کلام کی ہر دل عزیزی کے لیے دعا بھی فرمائی۔ میر انیس کی یہ فہم اس قدر شفاف ہے کہ جب وہ مذہبی گفتگو فرماتے ہیں تو اس میں کسی قسم کی تفریق نظریات نظر نہیں آتیں، مثلاً درج ذیل بند ملاحظہ ہو:
یا رب چمنِ نظم کوگلزار ارم کر
اے ابرِکرم خشک زراعت پہ کرم کر
میر انیس نے اپنے مرثیہ میں روزمرہ کے واقعات اور حالات کو اپنے اشعار میں ایسا رقم کیا ہے جیساکہ ہم خود اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔میر انیس کا کلام فصاحت کا مرقع ہے اور اس کے علاوہ سہل ممتغ کی انتہا پر آپ فائز ہیں:
اسرار الٰہی کو بھلا کیا کوئی جانے
اللہ و محمد کے سوا کیا کوئی جانے
اب اس شعر کی وضاحت و تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ مشکل پسندی انیس کے کلام میں نہیں۔ کیونکہ جب یہ شعرا محفل میں جاتے تھے تو قدر دانوں کا کثیر مجمع ہوتا تھا۔ مجلس میں قدر داں داد و تحسین کی صدائیں بلند کرتے تھے۔ جب میرصاحب اپنی جوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی دعا قبول ہوچکی تھی۔ ابتدا میں چمن نظم کے لیے انھوں نے خدائے بزرگ و برتر سے دعا کی تھی کہ اس کو گلزار ارم کردے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں:
نمکِ خوانِ تکلم ہے فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
صبح صادق کا ظہور دیکھیے:
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یاد الٰہی میں طیور
ابھی ذکر صبح کا بیان جاری ہے اورحضرت حسین عالی مقام خیمے سے باہر آتے ہیں:
ذرا مصرعہ ملاحظہ فرمائیے:
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
منظرکشی میں انیس کا دوسرا کوئی جواب پیدا نہ ہوا۔ غرض جتنے پہلو میر انیس نے اپنے سخن میں رقم کیے کسی اور شاعرکے بس کی بات نہ تھے۔ میر انیس نے اپنے ایک مرثیہ میں امام حسینؓ کی جنگ کا احوال جس انداز میں بیان کیا ہے بلامبالغہ شیکسپیئر اپنی کسی سونیٹ میں نہ بیان کرسکا، مگر ساکنان ہند نے وہ پذیرائی نہ کی جس کے وہ حقدار تھے۔
سید آلِ رضا نے سلام میں نام پیدا کیا۔ ایک اعتبار سے میر انیس سے تو سید آلِ رضا کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا مگر آلِ رضا صاحب نے ایک سلام ایسا تحریر کردیا جو مجالس کی جان بن گیا ۔نسیم امروہوی، صبا اکبر آبادی، امید فاضلی جانے پہچانے نام ہیں۔ اس کے علاوہ نوحہ خوانی کی زمین بھی مرثیہ سے قریب تر ہے گوکہ یہ سلام کا ایک پہلو ہے جس میں غم حسین کو شاعر اپنے احساس و نظریات کا سہارا لے کر مختصر وقت میں اظہار غم کرتا ہے۔ پاکستان میں جدید نوحہ خوانی کے بانی علی محمد رضوی عرف سچے میاں ہیں۔
جوش ملیح آبادی جب پنڈت جواہر لعل کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان ہجرت کر بیٹھے تو دہلی کے پالم ہوائی اڈے تک نہرو نے ان کا پیچھا کیا اور روکنا چاہا مگر جوش صاحب نہ مانے۔ کیونکہ شیوسینا جن سنگھ کا بول بالا ہونا شروع ہوگیا تھا اور ہندی کو اردو پر فوقیت دی جانے لگی تھی۔ مگر اردو تو وہاں کا پودا تھا اس تناور درخت کا مالی جوش ملیح آبادی کی کراچی آمد ہوئی آپ اکثر حسینیاں ایرانیاں کی مجالس عشرہ محرم کی ابتدا نوتصنیف مراثی سے کیا کرتے تھے۔ کراچی بھر کے اہل علم جمع ہوتے تھے انھی مجالس میں ان کا یہ شعر برزبانِ عام ہوا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
آمد صبح پرجوش صاحب نے انیس کے رنگ میں یہ چند مصرع کہے:
جب چہرئے افق سے اٹھی سرمئی نقاب
کانپے نجوم زرد ہوا روئے ماہتاب
کھنکے فلک کے جام کھلے سرخیوں کے باب
بہرصورت مرثیہ گوئی کے فن کو شعرا آگے بڑھاتے رہے۔ 1950 کی دہائی میں سید آلِ رضا کے مراثی کافی مشہور ہوئے ان کے بعض سلام تو لافانی بن گئے۔ رثائی ادب پاکستان میں عہد بہ عہد اپنی منزل طے کرتا رہا۔ ان شعرا میں نسیم امروہوی، امید فاضلی، صبا اکبر آبادی، پروفیسر بلال نقوی اور نوحہ خوانی کے میدان میں علی محمد رضوی سچے اور آجکل ریحان اعظمی کے نوحے مقبول ہیں۔ مگر انیس کے کلام کی عظمت کچھ اور ہی ہے۔ ان کے سلام کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انسانی زندگی کے فانی ہونے پر:
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
انیس نے اردو زبان کی لازوال خدمت کی۔ ابلاغ کا ایک دریا ہے جو جانے والے نے موجزن چھوڑا ہے، فرماتے ہیں:
پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل پہ سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی