قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
واقعہ کربلا کو رونما ہوئے 1376 برس کا عرصہ ہوچکا مگر آج بھی اس واقعے کا ہر کردار سینۂ تاریخ پر ثبت ہے
واقعہ کربلا کو رونما ہوئے 1376 برس کا عرصہ ہوچکا مگر آج بھی اس واقعے کا ہر کردار سینۂ تاریخ پر ثبت ہے، سید الشہدا امام حسینؓ نے میدان کربلا میں جو بے مثال قربانیاں پیش کیں وہ خود کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ نانا کے دین کو تاِ قیامت باقی رکھنے کے لیے دیں۔
اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود آج بھی اس واقعے کا تذکرہ نہ صرف باقی ہے بلکہ اس کے ایک ایک کردار پر اس تواتر سے لکھا اور بولا گیا ہے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی واقعہ کربلا کے ہر پہلو اور ہر کردار سے بخوبی واقف ہیں، اگرچہ خلافت ِ الٰہیہ کو جب ملوکیت میں تبدیل کردیا گیا اور خلفائے مسلمین نے دنیاوی بادشاہت کا انداز اختیارکرلیا تو واقعہ کربلا کی اہمیت اور واقعیت کو کم کرنے اور چھپانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی گئی۔ مگر امامِ عالی مقام کی جنگی حکمت عملی نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
میدان کربلا میں شہید ہونے والے اقربا اور انصار حسینی کے علاوہ خانواۂ رسالتؐ کی مخدراتِ کی عصمت وطہارت کے کردار پر بھی لکھنے والوں نے لکھنے اور بولنے والوں نے بولنے کا حق ادا کردیا۔ کیونکہ جنگ کربلا لڑی حسین عالی مقام نے اور اس جنگ میں یزید کو شکست سے دوچارکیا حسینؓ کی شیردل بہن، ثانیٔ زہرا زینب کبریٰ نے۔ شہدا کی شہادت اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر حسینؓ اپنے ساتھ ان خواتین کو نہ لاتے تو آج کربلا کی شہادت عظمیٰ قصۂ پارینہ بن چکی ہوتی۔
یزیدی کوشش بھی یہی تھی کہ نواسہ رسولؐ کو ایسے بے آب و گیاہ اور ویران صحرا میں گھیر کر شہید کرے کہ کوئی اس واقعے کی گواہی دینے والا بھی نہ ملے۔ مگر نواسۂ رسول الثقلینؐ نے اپنی شہادت جو دراصل دین خدا کی بقا کی گواہی تھی کی حفاظت کا مکمل انتظام کرلیا تھا۔
یہ تو قانون قدرت ہے کہ حق قائم رہنے کے لیے اور باطل مٹنے کے لیے ہے پھر بھلا یزید جیسا عاقبت نااندیش حق کو کس طرح چھپا سکتا تھا۔ ایک گناہ چھپانے کے لیے انسان مزید کئی گناہ کرتا ہے۔ اگر یزید امام عالی مقام سے سوال بیعت نہ کرتا تو شاید یہ واقعہ بھی رونما نہ ہوتا مگر سوال بیعت کے ساتھ ہی اس نے مدینہ کے گورنر کو یہ بھی ہدایت جاری کی کہ اگر حسین بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر قلم کرکے مجھے بھیج دو۔
اس صورتحال سے واقف ہو کر امام حسینؓ نے حرمت مدینہ قائم رکھنے کے لیے وہاں سے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا راتوں رات قافلہ حسینی تیار ہوا جس میں خواتین بچے اور جوان سب شامل تھے حتیٰ کہ چند روز کے علی اصغر بھی۔ حضرت امام حسینؓ کے بھائی محمد حنیفہ نے کاروان حسینی کے شرکا کی فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے امام حسینؓ سے پوچھا کہ ''جب آپ کو یزید سے معرکہ درپیش ہے تو پھر آپ پردہ دار خواتین اور شیرخوار بچوں کو ساتھ کیوں لے کر جا رہے ہیں؟'' امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا کہ ''جو معرکہ مجھے درپیش ہے اس کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے کہ ان سب کا ساتھ جانا ضروری ہے۔'' امام حسینؓ کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپؓ یزید کے ارادوں سے پوری طرح واقف تھے۔
یزید نے کوشش کرکے امام حسینؓ کو نہ صرف مدینہ بلکہ مکہ معظمہ بھی عین ایام حج کے دوران چھوڑنے پر مجبورکردیا۔ کیونکہ امام حسینؓ ان دونوں مقدس شہروں کی حرمت پر حرف نہیں آنے دینا چاہتے تھے۔ مکہ معظمہ سے آپ نے کوفہ کا رخ کیا مگر راستے ہی میں اہل کوفہ کی بے وفائی اور اپنے ابن عم مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سن کر آپ نے اپنا راستہ بدل دیا۔ اسی دوران حر کے لشکر نے آپ کوگھیر لیا اور صحرائے کربلا میں لے آیا۔ امام حسینؓ نے اپنی شہادت گاہ کو پہچان کر اپنے خیمے نصب کردیے۔ امام حسینؓ نے سب سے پہلے اس علاقے میں آباد بنی اسد کے قبیلے کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان سے زمین کربلا خریدنے کی خواہش ظاہرکی تو ان لوگوں نے امام حسینؓ سے عرض کی یہ صحرا ہے آب و گیاہ یہاں دور دور بستیوں کا نشان نہیں آپؓ اس کو خرید کرکیا کریں گے؟
اس سے اچھے علاقے میں آپؓ کے لیے بندوبست کردیتے ہیں۔ مگر امام حسینؓ نے فرمایا کہ یہی مقام ہماری آخری آرام گاہ ہے لہٰذا کچھ ردو کد کے بعد زمین کا سودا ہوا۔ امام حسینؓ نے بنی اسدکے افراد سے کہا کہ کچھ ہی دن بعد ہمیں اس سرزمین پر شہید کردیا جائے گا، ہمارے لاشے بے گوروکفن چھوڑ کر دشمن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔
لہٰذا تم ان کے چلے جانے کے بعد ہماری لاشوں کو دفن کردینا اور کوشش کرنا کہ ہماری قبروں کے نشان مٹنے نہ پائیں۔ جب عرصے بعد ہمارے زوار ہماری قبروں کو تلاش کرتے ہوئے آئیں تو تم نہ صرف ان کو قبریں بتانا بلکہ انھیں کم ازکم تین دن مہمان رکھنا۔ امام حسینؓ نے ایک روایت کے مطابق زمین کربلا ساٹھ درہم میں خریدی اور پھر ان ہی کو ہبہ کردی تاکہ وہ تدفین اور زیارت قبورکے لیے آنے والوں کی ضیافت کا اہتمام کرسکیں۔
زمین کربلا کی خریداری یہ ثابت کرتی ہے کہ امام حسینؓ کسی کی غاصب زمین پر دفن ہونا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری اہمیت یہ تھی کہ آنے والے زمانے میں لوگ یہ جان جائیں کہ یزید نے نہ صرف حسینؓ کو شہیدکیا بلکہ وہ جارح بھی تھا اس نے حسینؓ کی اپنی سرزمین پر چڑھائی کی تھی۔
یہ امام حسینؓ کی وہ حکمت عملی تھی کہ یزید کسی طور فاتح قرار نہ دیا جاسکے۔ روز عاشور امام نے معہ انصار و اقربا جام شہادت نوش فرما کر دین رسول مقبولؐ کو حیات تازہ عطا کردی۔ یزید اب بھی خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اس نے حسینؓ کو شہید کرکے بڑی فتح حاصل کرلی۔ مگر علیؓ کی شیر دل بیٹی زینب کبریٰ نے بھائی بیٹوں بھتیجوں اور دیگر اعزا و اقربا کی شہادت کے بعد تاراجی خیام کے علاوہ مقنعہ و چادر کی قربانی دے کر پابند سلاسل بازاروں اور درباروں میں تشہیر ہو کر بھی یزید کے دربار میں دلیرانہ خطبہ دے کر ثابت کردیا کہ یزید! تُو نے اس جنگ میں بدترین شکست کا سامنا کیا ہے کیونکہ تیرا مطالبہ تھا کہ یا تو حسینؓ تیری بیعت کریں یا حفاظت دین مصطفیؐ سے تائب ہوجائیں مگر نہ تو تُو حسینؓ سے بیعت لے سکا نہ دین رسولؐ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ اے یزید! تُو سمجھتا ہے کہ تُو نے ہم رسن بستہ بازاروں میں تشہیر کرکے ہمیں (معاذ اللہ) ذلیل کردیا۔ یزید! یہ رسوائی ہمارا نہیں تیرا مقدر ہے۔
ہماری عزت و فضیلت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے دین خدا کو بچانے کے لیے برداشت کیا۔ حضرت زینب عالیہ کے اس خطبے نے دربارکے ماحول میں ارتعاش پیدا کردیا اور قریب تھا کہ قتل حسینؓ کے مرتکب احساس ندامت میں کوئی قدم اٹھاتے کہ یزید نے موذن کو حکم اذان دیا۔ خطبہ زینب کو روکنے کا یہی طریقہ تھا حضرت زینب عالیہ احترام اذان پر خاموش ہوگئیں مگر جب موذن نے کہا ''اشھدان محمد الرسول اللہ'' تو جناب ثانی زہرا نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا ''اے یزید! محمدؐ میرے جد ہیں یا تیرے؟ ''
اس کے بعد آپ نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ''تُو جس کلمے کو مٹانا چاہتا تھا وہ تُو نہ مٹا سکا بلکہ خود تیرے دربار میں اس کلمے کا بلند ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے جد محمدؐ ان کا دین اور وارث حسینؓ تیرے لشکر کی تلواروں سے شہید ہوکر بھی قیامت تک زندہ ہیں اور رہیں گے البتہ وہ وقت دور نہیں جب تیرا یہ تخت و تاج تو کیا کوئی تیرا نام لینا بھی پسند نہ کرے گا۔ یزید! میرے نانا روز حشر تجھ سے ضرور پوچھیں گے کہ میرے حسینؓ کی کیا خطا تھی؟
یزید نے تمام اسیروں کو زنداں میں مقید کرنے کا حکم جاری کردیا ایک طویل عرصہ اہل بیت رسولؐ قید میں رہے جہاں گرمی و سردی کی شدت اور غذا کی کمی کے باعث کئی بچوں نے موت کو گلے لگالیا اور امام حسینؓ کی لاڈلی و کمسن بیٹی سکینہ نے فراق پدر میں جان دے دی تو یزید نے ایک دن خواب میں رسالت مآبؐ کو دیکھا کہ اے یزید! تیرے جذبہ انتقام کی اب تک تسکین نہیں ہوئی۔ اگر جلد ہی میرے کنبے کو رہا نہ کیا تو تُو غضب خدا سے نہ بچ سکے گا۔
غرض یزید نے خانوادہ رسولؐ کی رہائی کا حکم دیا تو زینب عالیہ نے یزید سے ایک مکان خالی کرنے اور تمام تبرکات رسالتؐ واپس کرنے کا کہا تو یزید نے لوٹا ہوا مال اور سر شہدا واپس کردیے۔ جب سر سید الشہدا امام حسینؓ زینب عالیہ نے حاصل کرلیا تو یزید کی شکست پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ اتنا ظلم کرکے بھی نہ وہ بیعت حسینؓ حاصل کرسکا نہ سرِ حسینؓ۔ کیونکہ حسینؓ کی بہن اپنے بھائی کا سر واپس لینے میں کامیاب ہوگئی۔ حسینؓ نے شہادت کا جام نوش کرلیا مگر فاسق و فاجر کی بیعت نہ کی۔ زینب اور دیگر مخدراتِ خانوادہ رسالتؐ نے دراصل وہ کردار ادا کیا جو حسینؓ کے مقصد شہادت کو قیامت تک ابدیت سے ہمکنار کرگیا بقول افتخار عارف:
سوال بیعت شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؓ کا ہے
اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود آج بھی اس واقعے کا تذکرہ نہ صرف باقی ہے بلکہ اس کے ایک ایک کردار پر اس تواتر سے لکھا اور بولا گیا ہے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی واقعہ کربلا کے ہر پہلو اور ہر کردار سے بخوبی واقف ہیں، اگرچہ خلافت ِ الٰہیہ کو جب ملوکیت میں تبدیل کردیا گیا اور خلفائے مسلمین نے دنیاوی بادشاہت کا انداز اختیارکرلیا تو واقعہ کربلا کی اہمیت اور واقعیت کو کم کرنے اور چھپانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی گئی۔ مگر امامِ عالی مقام کی جنگی حکمت عملی نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
میدان کربلا میں شہید ہونے والے اقربا اور انصار حسینی کے علاوہ خانواۂ رسالتؐ کی مخدراتِ کی عصمت وطہارت کے کردار پر بھی لکھنے والوں نے لکھنے اور بولنے والوں نے بولنے کا حق ادا کردیا۔ کیونکہ جنگ کربلا لڑی حسین عالی مقام نے اور اس جنگ میں یزید کو شکست سے دوچارکیا حسینؓ کی شیردل بہن، ثانیٔ زہرا زینب کبریٰ نے۔ شہدا کی شہادت اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر حسینؓ اپنے ساتھ ان خواتین کو نہ لاتے تو آج کربلا کی شہادت عظمیٰ قصۂ پارینہ بن چکی ہوتی۔
یزیدی کوشش بھی یہی تھی کہ نواسہ رسولؐ کو ایسے بے آب و گیاہ اور ویران صحرا میں گھیر کر شہید کرے کہ کوئی اس واقعے کی گواہی دینے والا بھی نہ ملے۔ مگر نواسۂ رسول الثقلینؐ نے اپنی شہادت جو دراصل دین خدا کی بقا کی گواہی تھی کی حفاظت کا مکمل انتظام کرلیا تھا۔
یہ تو قانون قدرت ہے کہ حق قائم رہنے کے لیے اور باطل مٹنے کے لیے ہے پھر بھلا یزید جیسا عاقبت نااندیش حق کو کس طرح چھپا سکتا تھا۔ ایک گناہ چھپانے کے لیے انسان مزید کئی گناہ کرتا ہے۔ اگر یزید امام عالی مقام سے سوال بیعت نہ کرتا تو شاید یہ واقعہ بھی رونما نہ ہوتا مگر سوال بیعت کے ساتھ ہی اس نے مدینہ کے گورنر کو یہ بھی ہدایت جاری کی کہ اگر حسین بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر قلم کرکے مجھے بھیج دو۔
اس صورتحال سے واقف ہو کر امام حسینؓ نے حرمت مدینہ قائم رکھنے کے لیے وہاں سے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا راتوں رات قافلہ حسینی تیار ہوا جس میں خواتین بچے اور جوان سب شامل تھے حتیٰ کہ چند روز کے علی اصغر بھی۔ حضرت امام حسینؓ کے بھائی محمد حنیفہ نے کاروان حسینی کے شرکا کی فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے امام حسینؓ سے پوچھا کہ ''جب آپ کو یزید سے معرکہ درپیش ہے تو پھر آپ پردہ دار خواتین اور شیرخوار بچوں کو ساتھ کیوں لے کر جا رہے ہیں؟'' امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا کہ ''جو معرکہ مجھے درپیش ہے اس کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے کہ ان سب کا ساتھ جانا ضروری ہے۔'' امام حسینؓ کے یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپؓ یزید کے ارادوں سے پوری طرح واقف تھے۔
یزید نے کوشش کرکے امام حسینؓ کو نہ صرف مدینہ بلکہ مکہ معظمہ بھی عین ایام حج کے دوران چھوڑنے پر مجبورکردیا۔ کیونکہ امام حسینؓ ان دونوں مقدس شہروں کی حرمت پر حرف نہیں آنے دینا چاہتے تھے۔ مکہ معظمہ سے آپ نے کوفہ کا رخ کیا مگر راستے ہی میں اہل کوفہ کی بے وفائی اور اپنے ابن عم مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سن کر آپ نے اپنا راستہ بدل دیا۔ اسی دوران حر کے لشکر نے آپ کوگھیر لیا اور صحرائے کربلا میں لے آیا۔ امام حسینؓ نے اپنی شہادت گاہ کو پہچان کر اپنے خیمے نصب کردیے۔ امام حسینؓ نے سب سے پہلے اس علاقے میں آباد بنی اسد کے قبیلے کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان سے زمین کربلا خریدنے کی خواہش ظاہرکی تو ان لوگوں نے امام حسینؓ سے عرض کی یہ صحرا ہے آب و گیاہ یہاں دور دور بستیوں کا نشان نہیں آپؓ اس کو خرید کرکیا کریں گے؟
اس سے اچھے علاقے میں آپؓ کے لیے بندوبست کردیتے ہیں۔ مگر امام حسینؓ نے فرمایا کہ یہی مقام ہماری آخری آرام گاہ ہے لہٰذا کچھ ردو کد کے بعد زمین کا سودا ہوا۔ امام حسینؓ نے بنی اسدکے افراد سے کہا کہ کچھ ہی دن بعد ہمیں اس سرزمین پر شہید کردیا جائے گا، ہمارے لاشے بے گوروکفن چھوڑ کر دشمن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔
لہٰذا تم ان کے چلے جانے کے بعد ہماری لاشوں کو دفن کردینا اور کوشش کرنا کہ ہماری قبروں کے نشان مٹنے نہ پائیں۔ جب عرصے بعد ہمارے زوار ہماری قبروں کو تلاش کرتے ہوئے آئیں تو تم نہ صرف ان کو قبریں بتانا بلکہ انھیں کم ازکم تین دن مہمان رکھنا۔ امام حسینؓ نے ایک روایت کے مطابق زمین کربلا ساٹھ درہم میں خریدی اور پھر ان ہی کو ہبہ کردی تاکہ وہ تدفین اور زیارت قبورکے لیے آنے والوں کی ضیافت کا اہتمام کرسکیں۔
زمین کربلا کی خریداری یہ ثابت کرتی ہے کہ امام حسینؓ کسی کی غاصب زمین پر دفن ہونا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری اہمیت یہ تھی کہ آنے والے زمانے میں لوگ یہ جان جائیں کہ یزید نے نہ صرف حسینؓ کو شہیدکیا بلکہ وہ جارح بھی تھا اس نے حسینؓ کی اپنی سرزمین پر چڑھائی کی تھی۔
یہ امام حسینؓ کی وہ حکمت عملی تھی کہ یزید کسی طور فاتح قرار نہ دیا جاسکے۔ روز عاشور امام نے معہ انصار و اقربا جام شہادت نوش فرما کر دین رسول مقبولؐ کو حیات تازہ عطا کردی۔ یزید اب بھی خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اس نے حسینؓ کو شہید کرکے بڑی فتح حاصل کرلی۔ مگر علیؓ کی شیر دل بیٹی زینب کبریٰ نے بھائی بیٹوں بھتیجوں اور دیگر اعزا و اقربا کی شہادت کے بعد تاراجی خیام کے علاوہ مقنعہ و چادر کی قربانی دے کر پابند سلاسل بازاروں اور درباروں میں تشہیر ہو کر بھی یزید کے دربار میں دلیرانہ خطبہ دے کر ثابت کردیا کہ یزید! تُو نے اس جنگ میں بدترین شکست کا سامنا کیا ہے کیونکہ تیرا مطالبہ تھا کہ یا تو حسینؓ تیری بیعت کریں یا حفاظت دین مصطفیؐ سے تائب ہوجائیں مگر نہ تو تُو حسینؓ سے بیعت لے سکا نہ دین رسولؐ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ اے یزید! تُو سمجھتا ہے کہ تُو نے ہم رسن بستہ بازاروں میں تشہیر کرکے ہمیں (معاذ اللہ) ذلیل کردیا۔ یزید! یہ رسوائی ہمارا نہیں تیرا مقدر ہے۔
ہماری عزت و فضیلت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے دین خدا کو بچانے کے لیے برداشت کیا۔ حضرت زینب عالیہ کے اس خطبے نے دربارکے ماحول میں ارتعاش پیدا کردیا اور قریب تھا کہ قتل حسینؓ کے مرتکب احساس ندامت میں کوئی قدم اٹھاتے کہ یزید نے موذن کو حکم اذان دیا۔ خطبہ زینب کو روکنے کا یہی طریقہ تھا حضرت زینب عالیہ احترام اذان پر خاموش ہوگئیں مگر جب موذن نے کہا ''اشھدان محمد الرسول اللہ'' تو جناب ثانی زہرا نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا ''اے یزید! محمدؐ میرے جد ہیں یا تیرے؟ ''
اس کے بعد آپ نے خطبہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ''تُو جس کلمے کو مٹانا چاہتا تھا وہ تُو نہ مٹا سکا بلکہ خود تیرے دربار میں اس کلمے کا بلند ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے جد محمدؐ ان کا دین اور وارث حسینؓ تیرے لشکر کی تلواروں سے شہید ہوکر بھی قیامت تک زندہ ہیں اور رہیں گے البتہ وہ وقت دور نہیں جب تیرا یہ تخت و تاج تو کیا کوئی تیرا نام لینا بھی پسند نہ کرے گا۔ یزید! میرے نانا روز حشر تجھ سے ضرور پوچھیں گے کہ میرے حسینؓ کی کیا خطا تھی؟
یزید نے تمام اسیروں کو زنداں میں مقید کرنے کا حکم جاری کردیا ایک طویل عرصہ اہل بیت رسولؐ قید میں رہے جہاں گرمی و سردی کی شدت اور غذا کی کمی کے باعث کئی بچوں نے موت کو گلے لگالیا اور امام حسینؓ کی لاڈلی و کمسن بیٹی سکینہ نے فراق پدر میں جان دے دی تو یزید نے ایک دن خواب میں رسالت مآبؐ کو دیکھا کہ اے یزید! تیرے جذبہ انتقام کی اب تک تسکین نہیں ہوئی۔ اگر جلد ہی میرے کنبے کو رہا نہ کیا تو تُو غضب خدا سے نہ بچ سکے گا۔
غرض یزید نے خانوادہ رسولؐ کی رہائی کا حکم دیا تو زینب عالیہ نے یزید سے ایک مکان خالی کرنے اور تمام تبرکات رسالتؐ واپس کرنے کا کہا تو یزید نے لوٹا ہوا مال اور سر شہدا واپس کردیے۔ جب سر سید الشہدا امام حسینؓ زینب عالیہ نے حاصل کرلیا تو یزید کی شکست پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ اتنا ظلم کرکے بھی نہ وہ بیعت حسینؓ حاصل کرسکا نہ سرِ حسینؓ۔ کیونکہ حسینؓ کی بہن اپنے بھائی کا سر واپس لینے میں کامیاب ہوگئی۔ حسینؓ نے شہادت کا جام نوش کرلیا مگر فاسق و فاجر کی بیعت نہ کی۔ زینب اور دیگر مخدراتِ خانوادہ رسالتؐ نے دراصل وہ کردار ادا کیا جو حسینؓ کے مقصد شہادت کو قیامت تک ابدیت سے ہمکنار کرگیا بقول افتخار عارف:
سوال بیعت شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؓ کا ہے