علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک
کبھی کبھی سیاسی ماحول میں ایک جملہ ہماری سماعتوں سے اکثر ٹکراتا ہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے
کبھی کبھی سیاسی ماحول میں ایک جملہ ہماری سماعتوں سے اکثر ٹکراتا ہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ اول تو یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ آمریت ،آمریت ہوتی ہے اور کوئی آمریت بہترین نہیں ہوتی اور جمہوریت بہترین ہوتی ہے جمہوریت بدترین نہیں ہوتی، میں تذکرہ کررہاہوں جمہوریت کا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا نہیں جس نظام میں چند سرمایہ دار یا جاگیردار باہم مشاورت سے اپنی اپنی سیاسی جماعتیں قائم کرلیں اور پھر باہم یہ بھی طے کرلیں کہ اب کہ تیری باری اور اس کے بعد میری باری۔
اس سلسلے میں ذکر اگر امریکا کا ہو تو امریکا میں دو پارٹی سیاسی نظام قائم ہے ایک سیاسی جماعت کا نام ہے ری پبلکن پارٹی جب کہ دوسری سیاسی قوت کا نام ہے ڈیموکریٹک پارٹی، دونوں سیاسی جماعتیں اگرچہ جمہوریت کی دعوے دار ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں اس امرکا پورا پورا خیال رکھتی ہیں کہ دانستہ یا نادانستہ ایسا نہ ہوکہ عوامی بھلائی کا کوئی کام ہوجائے، اسی باعث امریکی عوامی لاتعداد مسائل سے دو چار ہیں اور ان مسائل میں روز بروز اضافہ ہی دیکھا جارہاہے۔ یہ مسائل دوچار برس میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ امریکی عوام پر یہ مسائل اپنے ساتھ لے کر 21 ویں صدی میں داخل ہوئے تھے۔
امریکی عوام کا سب سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام دنیا کی مقروض ترین عوام ہے اور چند برس قبل تک ان قرضوں کا حجم تھا ایک سو تینتالیس کھرب ڈالر یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جب امریکا پر بیرونی قرضوں کا ذکر آتا ہے تو ایک طبقہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اگر امریکا پر اس قدر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے تو امریکا نے بیرونی دنیا کو بہت سے قرضے دے بھی تو رکھے ہیں۔ تو اس طبقے کی خدمت میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام کا کردار فقط قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہے اور جوقرضے امریکا نے وصول کرنے ہیں وہ قرضے امریکا کے سرمایہ کار اداروں کو ہی حاصل ہوں گے۔
یعنی امریکی یہ قرضے ادا کرنے کے تو پابند ہیں مگر امریکا جو مقروض ممالک سے وصول کرے گا وہ قرضے امریکی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں جائیں گے۔ جب کہ امریکی عوام کا دوسرا مسئلہ ہے روزگار کا، کوئی 3برس قبل تک بے روزگار امریکیوں کی تعداد تھی دوکروڑ پچاس لاکھ، بے روزگاری کس قدر مسائل کو جنم دیتی ہے کوئی بھی بے روزگار انسان یہ با آسانی بتادے گا جب کہ بے روزگاری جیسے مسائل ہی کا شاخسانہ ہے کہ لاکھوں امریکی فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
وہ امریکی بھی لاکھوں میں ہیں جو خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں اور ایسے امریکی بھی لاکھوں میں ہیں جن کے آمدنی کے ذریعے اس قدر محدود ہیں کہ بیماری کی کیفیت میں یا تو وہ کھانا کھاسکتے ہیں یا اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔ وہی علاج جس کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پال سیمو یلسن کا قول ہے کہ علاج بیماری سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
ذکر امریکیوں ہی کا ہورہاہے تو ان امریکیوں کا ذکر بھی ہوجائے جو معمولی معمولی جرائم کے الزامات میں کئی کئی ماہ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں، تعداد ان امریکیوں کی بھی لاکھوں میں ہے۔ یہ وہ ہی امریکا ہے جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود امریکی حکمرانوں کا اصرار ہے کہ امریکا ایک جمہوری ملک ہے جب کہ تمام تر امریکی عوام کے مسائل کے باوجود امریکی حکمران ہمہ وقت ایک سے ایک نئے دشمن کی تلاش کی جستجو میں ہوتے ہیں تاکہ امریکی سرمایہ کار اداروں کے تیارکردہ اسلحے کی کھپت کا سامان ہوسکے۔ یہ ہے امریکی نظام حکومت جسے جمہوری کہتے ہیں۔
اس قسم کی جمہوریت کا دعوے دار روس بھی ہے جہاں اشتراکی نظام کے خاتمے کے بعد فقط چند برسوں بعد چارکروڑ پچاس لاکھ محنت کش بے روزگاری کا یکایک شکار کردیے گئے تھے جب کہ اشتراکی نظام حکومت کے دور میں 30 کروڑ روسیوں میں نا تو کوئی روسی بے روزگار تھا اور نا ہی ناخواندہ تھا۔ جب کہ سرمایہ داری نظام میں قدم رکھتے ہی جن غیر اخلاقی سرگرمیوں نے روس میں جنم لیا ہے ان کا تذکرہ نا ہی کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ سرمایہ داری نظام حکومت ہی کا کمال ہے کہ چین و ہندوستان کے اخلاقی برائیوں کے حوالے سے حالات روس سے مختلف نہیں ہیں۔ جب کہ اس سلسلے میں انگلینڈ، جرمنی، فرانس وغیرہ کی مثال ابھی دی جاسکتی ہے۔
اب ذکر خیر اپنے وطن کا یہاں جمہوریت کا مطلب ہے کہ سیاست نام ہے تجارت کا یعنی کروڑوں روپے خرچ کرو اربوں روپے کماؤ اور دوسرے ممالک میں منتقل کرو اور دوسرے ممالک ہی سے اپنی سیاسی جماعت ہو، اگر وزیر ہو تو بیرون ملک سے اپنے وزارتی امور نمٹاؤ، رہ گئے کرپشن کے الزامات تو کرپشن کرنے والے اس قدر بھولے بادشاہ نہیں ہیں کہ اپنے پیچھے کرپشن کے ثبوت چھوڑیں یوں بھی اس ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر گائے کا بچہ بھی اس ملک میں چوری ہوجائے تو اس کا سراغ لگانے میں چھ ماہ درکار ہوتے ہیں۔
اسی جمہوریت کا ثمر ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ تین ہزار روپے کا مقروض ہے جب کہ 30 ماہ قبل یہ قرضہ 83 ہزار روپے فی کس تھا۔ جب کہ اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کہ 2018 تک قرضوں کا یہ بڑھتا ہوا حجم اشارہ دے رہا ہے کہ اس وقت ہر ایک پاکستانی شہری ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مقروض ہوگا، یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی عزت دار آدمی جب کسی سے قرضہ لیتا ہے تو وہ اس عمل کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو مگر ہمارے ہاں قرضہ لے کر یا قرضہ لینے کا معاہدہ کرکے میڈیا پر یہ فخریہ انداز میں بتایاجاتا ہے۔
IMFیا ورلڈ بینک سے اتنے ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے یہ رقم اتنے وقت میں مل جائے گی، کاش! یہ بھی بتا دیا کریں کہ اس رقم کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو عام آدمی کے ساتھ امتیازی برتاؤ ہی ہورہاہے جہاں کیفیت یہ ہو کہ عام آدمی کا بچہ عام سے اسکول میں داخلہ نہیں لے سکتا کیوں کہ وہ یہ تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی سماج میں ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جوکہ فقط ایک ایک طالب علم سے 24 ، 28 اور 33 ہزار روپے ماہانہ فیس کے نام پر وصول کررہے ہیں یہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت کس قدر بد ترین ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ یا آنے والے برسوں میں آپ کو بخوبی ہوجائے گا کیوں کہ ہر قسم کے ملکی وسائل بڑی سرعت کے ساتھ چند ہاتھوں میں سمیٹتے جا رہے ہیں۔
اس لیے اس حقیقت کا عام و متوسط طبقہ ادراک کرے کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ سرمایہ داری آمریت ہے، مقام شکر ہے کہ اب عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے اور اس قسم کی جمہوریت کے ساتھ عوام نے جو سلوک کیا ہے وہ سلوک اس قسم کے جمہوریت کے دعوے دار کے ساتھ ہونا ہی چاہیے۔ خیر سے ذکر ہے ضمنی انتخابات 11 اکتوبر 2015 کا انتخابی حلقہ NA-144 آزاد امیدوار محترم ریاض الحق جج صاحب بھاری مارجن سے انتخاب جیتے، جب کہ حکمران جماعت دوسرے PTI چوتھے، PPP پانچویں پوزیشن لے سکیں جب کہ لاہور کے حلقہ NA-122 میں جہاں دونوں بڑی جماعتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا حکمران جماعت تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود 24 سو ووٹوں سے جیت پائی جب کہPP-147 کی نشست حکمران جماعت سے PTI والے لے اڑے۔ کل کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے 819 ووٹ حاصل کیے اور نشان عبرت بن گئی۔
یہ باوجود اس عمل کے ہوا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے کارکن رہ گیروں کو زبردستی کھانے کھلارہے تھے اور مشروب پلارہے تھے لیکن اگر جمہوریت ہوتی تو اور ان لوگوں نے عوام کی حقیقی خدمت کی ہوتی تو آج حالات اس کے برعکس ہوتے، آخر میں اتنا عرض کروں گا اگر عوام کو اپنے مسائل حل کرنا ہے تو سرمایہ داری آمریت سے نجات پانا ہوگی کیوں کہ یہ سرمایہ داری آمریت تو عوام کو پینے کا صاف پانی تک دینے سے قاصر ہے، حقیقی جمہوریت کے لیے عوام کے حقیقی نمایندوں کو اقتدار میں لانا ہوگا جوکہ عوامی مسائل سے آگاہ بھی ہوں اور ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
اس سلسلے میں ذکر اگر امریکا کا ہو تو امریکا میں دو پارٹی سیاسی نظام قائم ہے ایک سیاسی جماعت کا نام ہے ری پبلکن پارٹی جب کہ دوسری سیاسی قوت کا نام ہے ڈیموکریٹک پارٹی، دونوں سیاسی جماعتیں اگرچہ جمہوریت کی دعوے دار ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں اس امرکا پورا پورا خیال رکھتی ہیں کہ دانستہ یا نادانستہ ایسا نہ ہوکہ عوامی بھلائی کا کوئی کام ہوجائے، اسی باعث امریکی عوامی لاتعداد مسائل سے دو چار ہیں اور ان مسائل میں روز بروز اضافہ ہی دیکھا جارہاہے۔ یہ مسائل دوچار برس میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ امریکی عوام پر یہ مسائل اپنے ساتھ لے کر 21 ویں صدی میں داخل ہوئے تھے۔
امریکی عوام کا سب سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام دنیا کی مقروض ترین عوام ہے اور چند برس قبل تک ان قرضوں کا حجم تھا ایک سو تینتالیس کھرب ڈالر یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جب امریکا پر بیرونی قرضوں کا ذکر آتا ہے تو ایک طبقہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اگر امریکا پر اس قدر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے تو امریکا نے بیرونی دنیا کو بہت سے قرضے دے بھی تو رکھے ہیں۔ تو اس طبقے کی خدمت میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام کا کردار فقط قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہے اور جوقرضے امریکا نے وصول کرنے ہیں وہ قرضے امریکا کے سرمایہ کار اداروں کو ہی حاصل ہوں گے۔
یعنی امریکی یہ قرضے ادا کرنے کے تو پابند ہیں مگر امریکا جو مقروض ممالک سے وصول کرے گا وہ قرضے امریکی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں جائیں گے۔ جب کہ امریکی عوام کا دوسرا مسئلہ ہے روزگار کا، کوئی 3برس قبل تک بے روزگار امریکیوں کی تعداد تھی دوکروڑ پچاس لاکھ، بے روزگاری کس قدر مسائل کو جنم دیتی ہے کوئی بھی بے روزگار انسان یہ با آسانی بتادے گا جب کہ بے روزگاری جیسے مسائل ہی کا شاخسانہ ہے کہ لاکھوں امریکی فٹ پاتھوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
وہ امریکی بھی لاکھوں میں ہیں جو خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں اور ایسے امریکی بھی لاکھوں میں ہیں جن کے آمدنی کے ذریعے اس قدر محدود ہیں کہ بیماری کی کیفیت میں یا تو وہ کھانا کھاسکتے ہیں یا اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔ وہی علاج جس کے بارے میں نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پال سیمو یلسن کا قول ہے کہ علاج بیماری سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
ذکر امریکیوں ہی کا ہورہاہے تو ان امریکیوں کا ذکر بھی ہوجائے جو معمولی معمولی جرائم کے الزامات میں کئی کئی ماہ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں، تعداد ان امریکیوں کی بھی لاکھوں میں ہے۔ یہ وہ ہی امریکا ہے جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود امریکی حکمرانوں کا اصرار ہے کہ امریکا ایک جمہوری ملک ہے جب کہ تمام تر امریکی عوام کے مسائل کے باوجود امریکی حکمران ہمہ وقت ایک سے ایک نئے دشمن کی تلاش کی جستجو میں ہوتے ہیں تاکہ امریکی سرمایہ کار اداروں کے تیارکردہ اسلحے کی کھپت کا سامان ہوسکے۔ یہ ہے امریکی نظام حکومت جسے جمہوری کہتے ہیں۔
اس قسم کی جمہوریت کا دعوے دار روس بھی ہے جہاں اشتراکی نظام کے خاتمے کے بعد فقط چند برسوں بعد چارکروڑ پچاس لاکھ محنت کش بے روزگاری کا یکایک شکار کردیے گئے تھے جب کہ اشتراکی نظام حکومت کے دور میں 30 کروڑ روسیوں میں نا تو کوئی روسی بے روزگار تھا اور نا ہی ناخواندہ تھا۔ جب کہ سرمایہ داری نظام میں قدم رکھتے ہی جن غیر اخلاقی سرگرمیوں نے روس میں جنم لیا ہے ان کا تذکرہ نا ہی کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ سرمایہ داری نظام حکومت ہی کا کمال ہے کہ چین و ہندوستان کے اخلاقی برائیوں کے حوالے سے حالات روس سے مختلف نہیں ہیں۔ جب کہ اس سلسلے میں انگلینڈ، جرمنی، فرانس وغیرہ کی مثال ابھی دی جاسکتی ہے۔
اب ذکر خیر اپنے وطن کا یہاں جمہوریت کا مطلب ہے کہ سیاست نام ہے تجارت کا یعنی کروڑوں روپے خرچ کرو اربوں روپے کماؤ اور دوسرے ممالک میں منتقل کرو اور دوسرے ممالک ہی سے اپنی سیاسی جماعت ہو، اگر وزیر ہو تو بیرون ملک سے اپنے وزارتی امور نمٹاؤ، رہ گئے کرپشن کے الزامات تو کرپشن کرنے والے اس قدر بھولے بادشاہ نہیں ہیں کہ اپنے پیچھے کرپشن کے ثبوت چھوڑیں یوں بھی اس ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر گائے کا بچہ بھی اس ملک میں چوری ہوجائے تو اس کا سراغ لگانے میں چھ ماہ درکار ہوتے ہیں۔
اسی جمہوریت کا ثمر ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ تین ہزار روپے کا مقروض ہے جب کہ 30 ماہ قبل یہ قرضہ 83 ہزار روپے فی کس تھا۔ جب کہ اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کہ 2018 تک قرضوں کا یہ بڑھتا ہوا حجم اشارہ دے رہا ہے کہ اس وقت ہر ایک پاکستانی شہری ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مقروض ہوگا، یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی عزت دار آدمی جب کسی سے قرضہ لیتا ہے تو وہ اس عمل کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو مگر ہمارے ہاں قرضہ لے کر یا قرضہ لینے کا معاہدہ کرکے میڈیا پر یہ فخریہ انداز میں بتایاجاتا ہے۔
IMFیا ورلڈ بینک سے اتنے ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے یہ رقم اتنے وقت میں مل جائے گی، کاش! یہ بھی بتا دیا کریں کہ اس رقم کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو عام آدمی کے ساتھ امتیازی برتاؤ ہی ہورہاہے جہاں کیفیت یہ ہو کہ عام آدمی کا بچہ عام سے اسکول میں داخلہ نہیں لے سکتا کیوں کہ وہ یہ تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی سماج میں ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جوکہ فقط ایک ایک طالب علم سے 24 ، 28 اور 33 ہزار روپے ماہانہ فیس کے نام پر وصول کررہے ہیں یہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت کس قدر بد ترین ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ یا آنے والے برسوں میں آپ کو بخوبی ہوجائے گا کیوں کہ ہر قسم کے ملکی وسائل بڑی سرعت کے ساتھ چند ہاتھوں میں سمیٹتے جا رہے ہیں۔
اس لیے اس حقیقت کا عام و متوسط طبقہ ادراک کرے کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ سرمایہ داری آمریت ہے، مقام شکر ہے کہ اب عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے اور اس قسم کی جمہوریت کے ساتھ عوام نے جو سلوک کیا ہے وہ سلوک اس قسم کے جمہوریت کے دعوے دار کے ساتھ ہونا ہی چاہیے۔ خیر سے ذکر ہے ضمنی انتخابات 11 اکتوبر 2015 کا انتخابی حلقہ NA-144 آزاد امیدوار محترم ریاض الحق جج صاحب بھاری مارجن سے انتخاب جیتے، جب کہ حکمران جماعت دوسرے PTI چوتھے، PPP پانچویں پوزیشن لے سکیں جب کہ لاہور کے حلقہ NA-122 میں جہاں دونوں بڑی جماعتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا حکمران جماعت تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود 24 سو ووٹوں سے جیت پائی جب کہPP-147 کی نشست حکمران جماعت سے PTI والے لے اڑے۔ کل کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے 819 ووٹ حاصل کیے اور نشان عبرت بن گئی۔
یہ باوجود اس عمل کے ہوا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے کارکن رہ گیروں کو زبردستی کھانے کھلارہے تھے اور مشروب پلارہے تھے لیکن اگر جمہوریت ہوتی تو اور ان لوگوں نے عوام کی حقیقی خدمت کی ہوتی تو آج حالات اس کے برعکس ہوتے، آخر میں اتنا عرض کروں گا اگر عوام کو اپنے مسائل حل کرنا ہے تو سرمایہ داری آمریت سے نجات پانا ہوگی کیوں کہ یہ سرمایہ داری آمریت تو عوام کو پینے کا صاف پانی تک دینے سے قاصر ہے، حقیقی جمہوریت کے لیے عوام کے حقیقی نمایندوں کو اقتدار میں لانا ہوگا جوکہ عوامی مسائل سے آگاہ بھی ہوں اور ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔