منٹو اور دروازہ
سعادت حسن منٹوکے متعلق کچھ بھی لکھنابہت دشوار کام ہے۔
ISLAMABAD:
سعادت حسن منٹوکے متعلق کچھ بھی لکھنابہت دشوار کام ہے۔انتہائی مشکل۔کئی مقامات پرقلم دم توڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیاہی بوجھل ہوجاتی ہے۔اس نایاب لکھاری کی طاقت ِپروازاورذہنی اڑان کااندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔قطعی طور پر ناممکن۔
برصغیرکی تقسیم اوراس کے بعدوجودمیں آنے والے دونوں "آزادممالک"میں ایک صفت یکساں ہے۔وہ ہے "منافقت"۔ دونوں ممالک میں رہنے والوں میں بہت سی عادات ملتی جلتی ہیں۔دوعملی کا، شکاربرصغیرکے اربوں لوگ تھے اورہمیشہ رہینگے۔میں پاکستان میں رہتاہوں۔بلاخوف تردیدکہہ سکتاہوں کہ یہاں ہرشعبہ میں شاندار مصلحت کاراج ہے۔
کیا سماجی، کیا دینی، کیا سیاسی اورکیاخانگی شعبہ۔البتہ مانے گاکوئی بھی نہیں اور کیوں تسلیم کریں۔ ہم تمام لوگ جھوٹ کے دریامیں رہنے والی وہ مچھلیاں ہیں،جوصاف پانی میں سانس لینے کاسوچ بھی نہیں سکتیں۔امرتسرمیں منٹوجیساشخص کیسے پنپ گیا۔حیرت نہیں بلکہ حالات دیکھ کرقدرت کی کوئی غلطی معلوم ہوتی ہے۔شائدغلطی کالفظ سخت ہو،مگرٹھیک ہے، غلطی کالفظ مناسب ہے۔
چندعشروں کے دورانیہ میں منٹوکے متعلق کئی لکھاریوں نے بہت جتن کرکے اس عجیب سے شخص کے متعلق لکھنے کی کوشش کی۔اصل بات یہ ہے،کہ کوئی اس کی گرد تک کونہیں چھو پایا۔ہم اتنے منافق بلکہ ڈرپوک لوگ ہیں کہ سچ توکیا، سچ کے نزدیک تر بھی کچھ رقمِ قلم نہیں کر سکتے۔ منٹو پر کون لکھے گااورکیوں لکھے گا۔یہ غلطی کوئی کیوں کر کریگا، شائد میرے سمیت۔
منٹوکاکتبہ،اس نے خوددرج کیا تھا۔ لکھتا ہے" یہاں سعادت حسن منٹودفن ہے۔اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے بارے میں اسرارورموزدفن ہے۔وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہاہے کہ وہ بڑاافسانہ نگارہے یاخدا۔(کلیات منٹو، صفحہ نمبر465)
منٹو اس طرح کاکیسے بن گیا۔وہ جھوٹ کودیکھ دیکھ کرسچ کی چوکھٹ پرکیسے سجدہ ریزہوا۔اسکاجواب صرف وہ خوددے سکتا تھا۔ میرے پاس تواپنے ہی آسان سے سوال کاکوئی جواب نہیں۔شائداسکاجواب خودمنٹوکے پاس بھی نہ ہو۔مگر پوچھنا ضروری ہے۔یاشائدبالکل غیرضروری۔
منٹو،الفاظ،حقیقت،سادگی کاوہ محلول تھا،جس نے اپنے آپکو"مشروبِ مغرب"میں غرق کیا ہوا تھا۔ وہ اس قدر بلانوش کیونکرتھا،اسکاجواب بھی شائدوہی دے سکتا ہو۔لیکن ایک ایسے منافق معاشرہ میںجہاں ہرشریف آدمی کے دن اور رات میں ہزاروں نوری سالوں کافرق ہے،وہاں انسان کے اندرونی جذبات کوسب کے سامنے کسی پردہ کے بغیررکھنا،عام آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔صوفی یادرویش کاہی ہوسکتا ہے۔ پر منٹونہ صوفی تھااورنہ ہی درویش۔صرف منٹو تھا۔ جھوٹ کے دیس میں سچ کی چابک۔ اس سے سارے ناراض تھے۔اس لیے کہ وہ خود اپنے آپ سے ناراض تھا۔
معاشرے سے ناراض تھا۔ لوگوں کے رویوں سے نالاں تھا۔ اپنوں کے تیروں اور غیروں کی ستم ظریفی کاشکارایک سادہ ساانسان تھا۔ جو انسانی جذبوں کواسی طرح عریاں کردیتاتھا،جس طرح اصلی حالت میں موجودہوتے ہیں۔اسے مسلسل قتل کرنے والے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کے پاس قلم تھا۔ایک ایسا ہتھیار جس سے تمام ابن الوقت لوگ گھبراتے تھے۔
اس سے چڑتے تھے اور نفرت کرتے تھے۔مگروقت کی عدالت نے اس سے قطعاً نفرت نہیں کی۔اسے عظمت کی مسند پر فائزکیاہے۔نفرت کرنے والوں کااصل مقام یہ ہے کہ صرف اس بنیاد پر پہچانے جاتے ہیں کہ وہ منٹو کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگاتے تھے۔ مگر منٹونہ غلط تھااورنہ ہی صحیح۔ صرف اور صرف منٹو تھا۔ اپنے قافلے کا واحد مسافر۔ایک ایساقافلہ جوایک آدمی پرمشتمل تھا۔اس کے جاتے ہی،نہ قافلہ رہااورنہ ہی متاعِ قافلہ۔
وہ لکھتاہے"جب میں نے لکھناشروع کیاتھا تو گھر والے سب بیزارتھے۔باہرکے لوگوں کومیرے ساتھ دلچسپی پیداہوگئی تھی۔چنانچہ وہ(گھروالے) کہاکرتے تھے بھئی! کوئی نوکری تلاش کرو۔کب تک بیکارپڑے افسانے لکھتے رہو گے۔آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری،بیکاری کادوسرانام تھا۔ آج اسے ادبِ جدیدکہاجاتاہے جسکامطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کرلی ہے"۔
منٹوکبھی بھی خوشحال نہیں تھا۔متوسط درجہ کے خاندان میں پیداہونے سے لے کرمرتے دم تک جینئس (Genius) ہونے کے باوجوداپنے رزق میں کشادگی پیدانہ کرسکا۔ شائد اسے عسرت میں لمحہ لمحہ سسکناموافق آگیاتھا۔ادھار،مسلسل ادھار اور لامتناہی ادھار۔ مشروب کی ایک بوتل کے لیے اپنے لازوال افسانے بیچنے والاسادہ سامحنت کش!وہ کرتابھی تو کیا کرتا۔لوگ اسے فحش نگارکہتے تھے۔اس کے نام سے گھبراتے تھے مگراکیلے میں اسے پڑھ کراس کے قائل ہوجاتے تھے۔
منٹو لکھتاہے" مجھ میں جوبرائیاں ہیں،وہ اس عہدکی برائیاں ہیں۔میری تحریرمیں کوئی ایسانقص نہیں جسکومیرے نام سے منسوب کیاجائے۔دراصل موجودہ نظام کانقص ہے۔میں تہذیب وتمدن اورسوسائٹی کی چولی کیااتاروں گا،جوہے ہی ننگی۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔اس لیے کہ یہ میراکام نہیں۔ درزیوں کاکام ہے۔لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔لیکن میں تختہِ سیاہ پرکالی چاک سے نہیں لکھتا۔ سفید چاک استعمال کرتاہوں کہ تختِ سیاہ کی سیاہی اورنمایاں ہوجائے"۔
دل میں اپنے آپ سے چھپ کر غور کیجیے۔ وعدہ کیجیے،کہ آپ اپنے خیالات کومصلحت کی صلیب پرنہیں ٹانگیں گے۔کیامنٹو سوفیصددرست نہیں کہہ رہا۔ لیکن منٹوکواب آپ کے سچے یاجھوٹے جواب کی قطعاً محتاجی نہیں ہے۔جوکچھ کہناچاہتاتھا،کہہ کرچلا گیا۔
آخری سفرپر۔ آج بھی اپنے اردگرد دیکھتا ہوں، تو ایسے لگتا ہے کہ منٹونے سب کچھ ہمارے ملک کے موجودہ دورکے متعلق لکھاتھا۔شائدوہ مدہوشی کی عینک لگا کر، مستقبل تک پہنچنے کافن سیکھ چکاتھا۔ہم لوگ اس کے زندہ رہنے والے دورسے بھی زیادہ منافقت کاشکار ہیں۔ شائد،اگروہ2015ء میں سانس لے رہاہوتا، تو اس گھٹن اور جھوٹ کودیکھ کرخودکشی کرلیتا۔شائدبادہ نوشی سے گریز کر جاتا اورخودبخود،اپنی سانس بند کر لیتا۔
"باتیں ہماری یادرہیں"میں منٹوتحریر کرتا ہے" میں عرض کررہاتھاکہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہتاہے۔آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے،اس کے خلاف مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہراگلنابالکل بیکارہے۔وہ لوگ جوادب جدید کا، ترقی پسندادب کا،فحش ادب کا،یاجوکچھ بھی یہ ہے، خاتمہ کردیناچاہتے ہیں۔
توصحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کردیاجائے جواس ادب کے محرک ہیں"۔مجھے سمجھائیے،اس میں کونسی بات غلط ہے۔ کیا یہ دلیل درست نہیں کہ ادیب اپنے زمانے یاعصرکے حالات کے مطابق ڈھلتاہے۔وہ چاہے بھی،تواپنے وقت کے مسائل اورحقائق کی زنجیرکونہیں توڑ سکتا۔ ادیب کیا،کسی بھی بشرکااپنے آپکو معروضی حالات سے علیحدہ کرناممکن نہیں۔
منٹولکھتاہے"میرے پڑوس میں ایک عورت ہر روز خاوندسے مارکھاتی ہے اورپھراس کے جوتے صاف کرتی ہے۔ تو میرے دل میں اس کے لیے ذرہ برابربھی ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑکراورخودکشی کی دھمکی دیکرسینمادیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوندکودوگھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تومجھے دونوں سے ایک عجیب وغریب قسم کی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے"۔
بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ منٹونے بیش بہالکھا ہے۔ سیکڑوں افسانے شائدہزاروں افسانے، خاکے اور جانے کیا کیاکچھ۔میرے لیے خودمقام حیرت تھاکہ اس کا کام ایک دو جلدوں میں نہیں بلکہ سات یا آٹھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ ہر جلدچارسے پانچ سو صفحات پرمحیط ہے۔ حیرت ہے کہ اس شخص نے اتنی تھوڑی سی عمرپانے کے باوجود،اتنازیادہ کیسے لکھ لیا۔یہ اپنی جگہ بذات خود،ایک سوال بھی ہے اورجواب بھی۔
میرے جیسے اکثرلوگ اس کے چندافسانے پڑھنے کے بعداس کے ناقدیا معترف ہوجاتے ہیں۔تین چار ہزارصفحات پڑھنے کاوقت کس کے پاس ہے۔لیکن شائدکچھ سر پھرے، اب بھی ان ہزاروں صفحوں کو بغور پڑھتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ مکمل پڑھنے کے بعد، پھرنہ وہ سعادت حسن منٹوکے ناقد رہتے ہیں نامقلد، بلکہ خاموش سے ہوجاتے ہیں۔
پاکستان آنے کے بعد،اس ادیب کے ساتھ جوسلوک کیاگیا،وہ بذات خودہمارے معاشرے کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔مقدمات،عدالتیں،کم ظرفی اورمفلسی کی چوکھٹ کادر اس کے لیے پوری زندگی کھلارہا۔مگرسعادت حسن منٹوبھی ہوشیارآدمی تھا۔ اس جادونگری میں صرف اس لیے داخل ہوا،کیونکہ اسے یقین تھاکہ یہ دروازہ اسے وقت کی عدالت میں لے جاکھڑاکردیگا،جہاں وہ تمام ادنیٰ الزامات سے بری ہوجائے گا!
سعادت حسن منٹوکے متعلق کچھ بھی لکھنابہت دشوار کام ہے۔انتہائی مشکل۔کئی مقامات پرقلم دم توڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیاہی بوجھل ہوجاتی ہے۔اس نایاب لکھاری کی طاقت ِپروازاورذہنی اڑان کااندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔قطعی طور پر ناممکن۔
برصغیرکی تقسیم اوراس کے بعدوجودمیں آنے والے دونوں "آزادممالک"میں ایک صفت یکساں ہے۔وہ ہے "منافقت"۔ دونوں ممالک میں رہنے والوں میں بہت سی عادات ملتی جلتی ہیں۔دوعملی کا، شکاربرصغیرکے اربوں لوگ تھے اورہمیشہ رہینگے۔میں پاکستان میں رہتاہوں۔بلاخوف تردیدکہہ سکتاہوں کہ یہاں ہرشعبہ میں شاندار مصلحت کاراج ہے۔
کیا سماجی، کیا دینی، کیا سیاسی اورکیاخانگی شعبہ۔البتہ مانے گاکوئی بھی نہیں اور کیوں تسلیم کریں۔ ہم تمام لوگ جھوٹ کے دریامیں رہنے والی وہ مچھلیاں ہیں،جوصاف پانی میں سانس لینے کاسوچ بھی نہیں سکتیں۔امرتسرمیں منٹوجیساشخص کیسے پنپ گیا۔حیرت نہیں بلکہ حالات دیکھ کرقدرت کی کوئی غلطی معلوم ہوتی ہے۔شائدغلطی کالفظ سخت ہو،مگرٹھیک ہے، غلطی کالفظ مناسب ہے۔
چندعشروں کے دورانیہ میں منٹوکے متعلق کئی لکھاریوں نے بہت جتن کرکے اس عجیب سے شخص کے متعلق لکھنے کی کوشش کی۔اصل بات یہ ہے،کہ کوئی اس کی گرد تک کونہیں چھو پایا۔ہم اتنے منافق بلکہ ڈرپوک لوگ ہیں کہ سچ توکیا، سچ کے نزدیک تر بھی کچھ رقمِ قلم نہیں کر سکتے۔ منٹو پر کون لکھے گااورکیوں لکھے گا۔یہ غلطی کوئی کیوں کر کریگا، شائد میرے سمیت۔
منٹوکاکتبہ،اس نے خوددرج کیا تھا۔ لکھتا ہے" یہاں سعادت حسن منٹودفن ہے۔اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے بارے میں اسرارورموزدفن ہے۔وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہاہے کہ وہ بڑاافسانہ نگارہے یاخدا۔(کلیات منٹو، صفحہ نمبر465)
منٹو اس طرح کاکیسے بن گیا۔وہ جھوٹ کودیکھ دیکھ کرسچ کی چوکھٹ پرکیسے سجدہ ریزہوا۔اسکاجواب صرف وہ خوددے سکتا تھا۔ میرے پاس تواپنے ہی آسان سے سوال کاکوئی جواب نہیں۔شائداسکاجواب خودمنٹوکے پاس بھی نہ ہو۔مگر پوچھنا ضروری ہے۔یاشائدبالکل غیرضروری۔
منٹو،الفاظ،حقیقت،سادگی کاوہ محلول تھا،جس نے اپنے آپکو"مشروبِ مغرب"میں غرق کیا ہوا تھا۔ وہ اس قدر بلانوش کیونکرتھا،اسکاجواب بھی شائدوہی دے سکتا ہو۔لیکن ایک ایسے منافق معاشرہ میںجہاں ہرشریف آدمی کے دن اور رات میں ہزاروں نوری سالوں کافرق ہے،وہاں انسان کے اندرونی جذبات کوسب کے سامنے کسی پردہ کے بغیررکھنا،عام آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔صوفی یادرویش کاہی ہوسکتا ہے۔ پر منٹونہ صوفی تھااورنہ ہی درویش۔صرف منٹو تھا۔ جھوٹ کے دیس میں سچ کی چابک۔ اس سے سارے ناراض تھے۔اس لیے کہ وہ خود اپنے آپ سے ناراض تھا۔
معاشرے سے ناراض تھا۔ لوگوں کے رویوں سے نالاں تھا۔ اپنوں کے تیروں اور غیروں کی ستم ظریفی کاشکارایک سادہ ساانسان تھا۔ جو انسانی جذبوں کواسی طرح عریاں کردیتاتھا،جس طرح اصلی حالت میں موجودہوتے ہیں۔اسے مسلسل قتل کرنے والے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کے پاس قلم تھا۔ایک ایسا ہتھیار جس سے تمام ابن الوقت لوگ گھبراتے تھے۔
اس سے چڑتے تھے اور نفرت کرتے تھے۔مگروقت کی عدالت نے اس سے قطعاً نفرت نہیں کی۔اسے عظمت کی مسند پر فائزکیاہے۔نفرت کرنے والوں کااصل مقام یہ ہے کہ صرف اس بنیاد پر پہچانے جاتے ہیں کہ وہ منٹو کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگاتے تھے۔ مگر منٹونہ غلط تھااورنہ ہی صحیح۔ صرف اور صرف منٹو تھا۔ اپنے قافلے کا واحد مسافر۔ایک ایساقافلہ جوایک آدمی پرمشتمل تھا۔اس کے جاتے ہی،نہ قافلہ رہااورنہ ہی متاعِ قافلہ۔
وہ لکھتاہے"جب میں نے لکھناشروع کیاتھا تو گھر والے سب بیزارتھے۔باہرکے لوگوں کومیرے ساتھ دلچسپی پیداہوگئی تھی۔چنانچہ وہ(گھروالے) کہاکرتے تھے بھئی! کوئی نوکری تلاش کرو۔کب تک بیکارپڑے افسانے لکھتے رہو گے۔آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری،بیکاری کادوسرانام تھا۔ آج اسے ادبِ جدیدکہاجاتاہے جسکامطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کرلی ہے"۔
منٹوکبھی بھی خوشحال نہیں تھا۔متوسط درجہ کے خاندان میں پیداہونے سے لے کرمرتے دم تک جینئس (Genius) ہونے کے باوجوداپنے رزق میں کشادگی پیدانہ کرسکا۔ شائد اسے عسرت میں لمحہ لمحہ سسکناموافق آگیاتھا۔ادھار،مسلسل ادھار اور لامتناہی ادھار۔ مشروب کی ایک بوتل کے لیے اپنے لازوال افسانے بیچنے والاسادہ سامحنت کش!وہ کرتابھی تو کیا کرتا۔لوگ اسے فحش نگارکہتے تھے۔اس کے نام سے گھبراتے تھے مگراکیلے میں اسے پڑھ کراس کے قائل ہوجاتے تھے۔
منٹو لکھتاہے" مجھ میں جوبرائیاں ہیں،وہ اس عہدکی برائیاں ہیں۔میری تحریرمیں کوئی ایسانقص نہیں جسکومیرے نام سے منسوب کیاجائے۔دراصل موجودہ نظام کانقص ہے۔میں تہذیب وتمدن اورسوسائٹی کی چولی کیااتاروں گا،جوہے ہی ننگی۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔اس لیے کہ یہ میراکام نہیں۔ درزیوں کاکام ہے۔لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔لیکن میں تختہِ سیاہ پرکالی چاک سے نہیں لکھتا۔ سفید چاک استعمال کرتاہوں کہ تختِ سیاہ کی سیاہی اورنمایاں ہوجائے"۔
دل میں اپنے آپ سے چھپ کر غور کیجیے۔ وعدہ کیجیے،کہ آپ اپنے خیالات کومصلحت کی صلیب پرنہیں ٹانگیں گے۔کیامنٹو سوفیصددرست نہیں کہہ رہا۔ لیکن منٹوکواب آپ کے سچے یاجھوٹے جواب کی قطعاً محتاجی نہیں ہے۔جوکچھ کہناچاہتاتھا،کہہ کرچلا گیا۔
آخری سفرپر۔ آج بھی اپنے اردگرد دیکھتا ہوں، تو ایسے لگتا ہے کہ منٹونے سب کچھ ہمارے ملک کے موجودہ دورکے متعلق لکھاتھا۔شائدوہ مدہوشی کی عینک لگا کر، مستقبل تک پہنچنے کافن سیکھ چکاتھا۔ہم لوگ اس کے زندہ رہنے والے دورسے بھی زیادہ منافقت کاشکار ہیں۔ شائد،اگروہ2015ء میں سانس لے رہاہوتا، تو اس گھٹن اور جھوٹ کودیکھ کرخودکشی کرلیتا۔شائدبادہ نوشی سے گریز کر جاتا اورخودبخود،اپنی سانس بند کر لیتا۔
"باتیں ہماری یادرہیں"میں منٹوتحریر کرتا ہے" میں عرض کررہاتھاکہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہتاہے۔آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے،اس کے خلاف مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہراگلنابالکل بیکارہے۔وہ لوگ جوادب جدید کا، ترقی پسندادب کا،فحش ادب کا،یاجوکچھ بھی یہ ہے، خاتمہ کردیناچاہتے ہیں۔
توصحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کردیاجائے جواس ادب کے محرک ہیں"۔مجھے سمجھائیے،اس میں کونسی بات غلط ہے۔ کیا یہ دلیل درست نہیں کہ ادیب اپنے زمانے یاعصرکے حالات کے مطابق ڈھلتاہے۔وہ چاہے بھی،تواپنے وقت کے مسائل اورحقائق کی زنجیرکونہیں توڑ سکتا۔ ادیب کیا،کسی بھی بشرکااپنے آپکو معروضی حالات سے علیحدہ کرناممکن نہیں۔
منٹولکھتاہے"میرے پڑوس میں ایک عورت ہر روز خاوندسے مارکھاتی ہے اورپھراس کے جوتے صاف کرتی ہے۔ تو میرے دل میں اس کے لیے ذرہ برابربھی ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑکراورخودکشی کی دھمکی دیکرسینمادیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوندکودوگھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تومجھے دونوں سے ایک عجیب وغریب قسم کی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے"۔
بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ منٹونے بیش بہالکھا ہے۔ سیکڑوں افسانے شائدہزاروں افسانے، خاکے اور جانے کیا کیاکچھ۔میرے لیے خودمقام حیرت تھاکہ اس کا کام ایک دو جلدوں میں نہیں بلکہ سات یا آٹھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ ہر جلدچارسے پانچ سو صفحات پرمحیط ہے۔ حیرت ہے کہ اس شخص نے اتنی تھوڑی سی عمرپانے کے باوجود،اتنازیادہ کیسے لکھ لیا۔یہ اپنی جگہ بذات خود،ایک سوال بھی ہے اورجواب بھی۔
میرے جیسے اکثرلوگ اس کے چندافسانے پڑھنے کے بعداس کے ناقدیا معترف ہوجاتے ہیں۔تین چار ہزارصفحات پڑھنے کاوقت کس کے پاس ہے۔لیکن شائدکچھ سر پھرے، اب بھی ان ہزاروں صفحوں کو بغور پڑھتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ مکمل پڑھنے کے بعد، پھرنہ وہ سعادت حسن منٹوکے ناقد رہتے ہیں نامقلد، بلکہ خاموش سے ہوجاتے ہیں۔
پاکستان آنے کے بعد،اس ادیب کے ساتھ جوسلوک کیاگیا،وہ بذات خودہمارے معاشرے کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔مقدمات،عدالتیں،کم ظرفی اورمفلسی کی چوکھٹ کادر اس کے لیے پوری زندگی کھلارہا۔مگرسعادت حسن منٹوبھی ہوشیارآدمی تھا۔ اس جادونگری میں صرف اس لیے داخل ہوا،کیونکہ اسے یقین تھاکہ یہ دروازہ اسے وقت کی عدالت میں لے جاکھڑاکردیگا،جہاں وہ تمام ادنیٰ الزامات سے بری ہوجائے گا!