محرم الحرام کا پہلا عشرہ اور دہشت گردی کی وارداتیں
یوم عاشور کے موقع پر ماتمی جلوسوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے
SEOUL:
سندھ کے شہر جیکب آباد کے علاقے لاشاری محلہ میں جمعہ کو نویں محرم الحرام کے ماتمی جلوس میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں 8 بچوں سمیت 22 افراد شہید اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے، پولیس کے مطابق زخمیوں میں بھی زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔میڈیا نے عینی شاہدین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ماتمی جلوس کے دوران ایک نوجوان اچانک آگھسا اور اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ادھر صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے جیکب آباد دھماکے کی شدید مذمت اور جاں بحق ہونے والے بے گناہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قومی عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے ، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مقاصد کے حصول تک کارروائی جاری رکھیں گے۔گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے دھماکے کی شدید مذمت اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
یوم عاشور کے موقع پر ماتمی جلوسوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاکہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں کیونکہ ملک میں موجود دہشت گردی کی لہر کے تناظر میں اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ دہشت گرد ماتمی جلوسوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے لیکن دہشت گردوں نے پہلے بلوچستان کے شہر بولان اور پھر جیکب آباد میں کارروائی کر دی اور محرم کے پہلے عشرے کو پرسکون گزرنے نہیں دیا۔ جیکب آباد اوربولان کے سانحے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے پسماندہ علاقے کا انتخاب کیاکیونکہ کراچی' لاہور' اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں سیکیورٹی کے انتظامات خاصے سخت تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جمعہ کو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے محرم کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں جیکب آباد' شکار پور' سکھر اور خیر پور میں 104 حساس مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی جس کے پیش نظر جنوبی سندھ میں بارہ سو سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔اتنے انتظامات کے باوجود دہشت گردجیکب آباد کو ہدف بنانے میں کامیاب ہوئے۔بہر حال یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صورت حال تسلی بخش رہی اور دہشت گرد اپنے منصوبوں میں ناکام رہے۔سندھ اور بلوچستان میں بھی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اسے بہتر ہی قرار دیا جائے گا کیونکہ سوائے جیکب آباد اور بولان کے ان دونوں صوبوں کے باقی شہر پرسکون رہے۔
دہشت گردی کی ان واداتوں سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک ابھی تک فعال ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بولان اور جیکب آباد میں اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔دہشت گردی کے عفریت نے ملک بھر میں امن و امان کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق دہشت گردوں کا ایک گروہ اپنے نظریات سے میل نہ کھانے والے دوسرے گروہوں اور افراد کو نشانہ بنا رہا ہے دوسری جانب ایک گروہ وہ ہے جو غیر ملکی ایجنسیوں کے ایما پر ملک بھر میں افراتفری پھیلا رہا ہے۔ دانشور حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آپ کے نظریات سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے منطق اور دلیل سے قائل کیا جائے نہ کہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جائیں، ہر ایک کو اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کسی پر اپنے نظریات بندوق کی نوک پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ غیر ملکی ایجنسیاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں۔
آج عراق، شام اور یمن کی صورت حال سب کے سامنے ہے یہاں پیدا ہونے والے انتشار اور افراتفری کے پس منظر میں فرقہ وارانہ نفرت کا بھی ہاتھ ہے۔ کچھ دشمن قوتیں پاکستان میں بھی ایسے ہی حالات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مذہبی رہنما ہی وہ قوت ہیں جو لوگوں کے درمیان فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے اور شہریوں کے درمیان رواداری کے عنصر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ہر مذہبی رہنما امت مسلمہ کے اتحاد کی دعا کرتا ہے لیکن یہ اتحاد اسی وقت پیدا ہو گا جب ہم دوسروں کے نظریات کو خوش دلی سے تسلیم کرلیں گے۔ تمام مسالک کے علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہیے جہاں سے وہ تمام لوگوں کو مذہبی رواداری اور امن کا درس دیں، مذہبی اتحاد ہی وہ طاقت ہے جس سے ملک دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکیورٹی اداروں کو مزید متحرک ہونا چاہیے۔چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ سول ایجنسیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ متحرک کریں تاکہ دہشت گردوں کو کارروائی کرنے سے قبل ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔
سندھ کے شہر جیکب آباد کے علاقے لاشاری محلہ میں جمعہ کو نویں محرم الحرام کے ماتمی جلوس میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں 8 بچوں سمیت 22 افراد شہید اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے، پولیس کے مطابق زخمیوں میں بھی زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔میڈیا نے عینی شاہدین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ماتمی جلوس کے دوران ایک نوجوان اچانک آگھسا اور اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ادھر صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے جیکب آباد دھماکے کی شدید مذمت اور جاں بحق ہونے والے بے گناہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قومی عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے ، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مقاصد کے حصول تک کارروائی جاری رکھیں گے۔گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے دھماکے کی شدید مذمت اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
یوم عاشور کے موقع پر ماتمی جلوسوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاکہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں کیونکہ ملک میں موجود دہشت گردی کی لہر کے تناظر میں اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ دہشت گرد ماتمی جلوسوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے لیکن دہشت گردوں نے پہلے بلوچستان کے شہر بولان اور پھر جیکب آباد میں کارروائی کر دی اور محرم کے پہلے عشرے کو پرسکون گزرنے نہیں دیا۔ جیکب آباد اوربولان کے سانحے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے پسماندہ علاقے کا انتخاب کیاکیونکہ کراچی' لاہور' اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں سیکیورٹی کے انتظامات خاصے سخت تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جمعہ کو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے محرم کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں جیکب آباد' شکار پور' سکھر اور خیر پور میں 104 حساس مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی جس کے پیش نظر جنوبی سندھ میں بارہ سو سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔اتنے انتظامات کے باوجود دہشت گردجیکب آباد کو ہدف بنانے میں کامیاب ہوئے۔بہر حال یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صورت حال تسلی بخش رہی اور دہشت گرد اپنے منصوبوں میں ناکام رہے۔سندھ اور بلوچستان میں بھی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اسے بہتر ہی قرار دیا جائے گا کیونکہ سوائے جیکب آباد اور بولان کے ان دونوں صوبوں کے باقی شہر پرسکون رہے۔
دہشت گردی کی ان واداتوں سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک ابھی تک فعال ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بولان اور جیکب آباد میں اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔دہشت گردی کے عفریت نے ملک بھر میں امن و امان کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق دہشت گردوں کا ایک گروہ اپنے نظریات سے میل نہ کھانے والے دوسرے گروہوں اور افراد کو نشانہ بنا رہا ہے دوسری جانب ایک گروہ وہ ہے جو غیر ملکی ایجنسیوں کے ایما پر ملک بھر میں افراتفری پھیلا رہا ہے۔ دانشور حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آپ کے نظریات سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے منطق اور دلیل سے قائل کیا جائے نہ کہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جائیں، ہر ایک کو اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کسی پر اپنے نظریات بندوق کی نوک پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ غیر ملکی ایجنسیاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں۔
آج عراق، شام اور یمن کی صورت حال سب کے سامنے ہے یہاں پیدا ہونے والے انتشار اور افراتفری کے پس منظر میں فرقہ وارانہ نفرت کا بھی ہاتھ ہے۔ کچھ دشمن قوتیں پاکستان میں بھی ایسے ہی حالات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مذہبی رہنما ہی وہ قوت ہیں جو لوگوں کے درمیان فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے اور شہریوں کے درمیان رواداری کے عنصر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ہر مذہبی رہنما امت مسلمہ کے اتحاد کی دعا کرتا ہے لیکن یہ اتحاد اسی وقت پیدا ہو گا جب ہم دوسروں کے نظریات کو خوش دلی سے تسلیم کرلیں گے۔ تمام مسالک کے علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہیے جہاں سے وہ تمام لوگوں کو مذہبی رواداری اور امن کا درس دیں، مذہبی اتحاد ہی وہ طاقت ہے جس سے ملک دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکیورٹی اداروں کو مزید متحرک ہونا چاہیے۔چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ سول ایجنسیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ متحرک کریں تاکہ دہشت گردوں کو کارروائی کرنے سے قبل ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔