TRAFIC یا TERRIFIC
حادثے کی صورت میں کہیں میں ہی دفعہ302 تعزیرات پاکستان کے تحت نہ دھر لیا جاؤں۔
SAN FRANCISCO:
ایک یورپی ملک سے آیا ہوا میرا مہمان میری موٹر کار میں بیٹھا ہوا ہر سامنے سے آتی ہوئی اور اوور ٹیک کرتی ہوئی کار کے قریب سے گزرنے پر سیٹ پر یوں پہلو بدل رہا تھا جیسے خود کو ایکسی ڈنٹ سے بچا رہا۔ہو ایک بار تو اس نے قریب سے غوطہ کھا کر گزرتے موٹر سائیکل سے خود کو سیٹ سے اچھل کر بچایا تو میں قہقہہ ضبط نہ کر سکا اور اس سے کہا ''دیکھی ہماری ٹریفک''۔ اس نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا ''It is TERRIFIC ''۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جو شخص آج کل اسکولوں میں چھٹی کے اوقات میں ایک ہفتہ تک گلبرگ مین بلیوارڈ کے گرد و نواح میں سے کار کو ڈینٹ لگوائے بغیر منزل مقصود تک پہنچ جائے تو وہ کسی سرکس کے موت کے کنویں میں بحفاظت اور مہارت کے ساتھ موٹر سائیکل اور موٹر کار چلا سکتا ہے۔ ایک صاحب نے تو مجھ سے میاں امجد فرزند کا فون نمبر بھی مانگا ہے تا کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے موت کے کنویں میں پارٹ ٹائم کام کر کے اضافی آمدنی پانے کے علاوہ لوگوں سے اپنی مہارت کا لوہا منوا سکے۔ میں البتہ سوچ رہا ہوں کہ اشٹام لکھوا کر اسے میاں صاحب کا پتہ دوں تا کہ حادثے کی صورت میں کہیں میں ہی دفعہ302 تعزیرات پاکستان کے تحت نہ دھر لیا جاؤں۔
چند روز میرے ساتھ شہر میں گھومنے کے بعد میرے مہمان نے پوچھا یہ اتنی زیادہ تعداد میں لوگ ہر وقت سڑکوں پر کیا کرتے پھرتے ہیں، کیا یہ کسی دفتر فیکٹری مارکیٹ یا اسکول میں مصروف نہیں ہوتے۔ میں نے اسے بتایا کہ اگرچہ اتنی بڑی مین پاور رکھنا ہمارے لیے اللہ کی رحمت ہے لیکن ان میں اکثریت کی جہالت و غربت پھر دہشت پسندی کی طرف رغبت اور لاقانونیت کی عادت ہمارے ملک و معاشرے کے لیے لعنت کا درجہ پا گئی ہے جس پر کنٹرول ہماری اکثر حکومتوں کے ورک ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتا اور اکبر الہ آبادی کا شعر اس پر صادق آتا ہے کہ
عاشقی قید شریعت میں جب آ جاتی ہے
جلوہ کثرت اولاد دکھا جاتی ہے
اب سڑکوں چوراہوں پر گریجویٹ وارڈن ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اچھی تبدیلی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ڈگری کا مظاہرہ زیادہ اور ٹریفک کنٹرول کم کرتے ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ خصوصاً موٹر بائیک سوار نہ ڈرائیونگ لائسنس رکھتے ہیں نہ ڈرائیونگ کی تربیت ادہر موٹر کار اور ویگن و رکشہ ڈرائیور بھی دو فٹ کا خلا دیکھ کر اپنی گاڑی گھما کر اپنی LANE کی پرواہ کیے بغیر رستہ لینے کے لیے آتش نمرود میں بے خطر کودنے والوں کے انداز میں جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں جب کہ ٹریفک وارڈن بے بسی کی تصویر بنے ایسے گھمسان کے رن سے منہ ہی پھیر لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان بے چاروں کی تو وردی کا رنگ ہی ان کی اتھاریٹی کو مٹی میں ملا دیتا ہے۔ ٹریفک وارڈنز کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ چاک و چوبند ہو کر اپنی ڈیوٹی کرتے نظر آئیں نہ کہ چار چار چھ چھ کے گروپوں میں کھڑے آپس میں خوش گپیاں کرتے یا موبائل ٹیلیفونوں پر ہنستے باتیں کرتے دکھائی دیں جب کہ ٹریفک اپنا رستہ خود بنا کر بے ہنگم چلنا شروع کر دے۔ ٹریفک کنٹرول کا پرانا انڈر گریجویٹ سسٹم بدر جہا بہتر تھا جب ٹریفک پولیس سے اٹھکیلیاں کرنے والے بائیک سوار بھی ڈرتے اور فی الفور راہ راست پر آ جاتے تھے۔
یورپ امریکا برطانیہ جانے والے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ وہاں جا کر آباد ہونے پر تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی ٹریفک رولز کی اتنی ہی پاسداری کرتے ہیں جتنی وہاں کے مقامی لوگ بلکہ ان سے بھی زیادہ لیکن وہ جب بھی عزیزوں سے ملنے یا رخصت پر پاکستان آتے ہیں تو ٹریفک سے متعلق ہر سبق بھول کر بے تحاشہ ہارن بجانے بغیر انڈیکیٹر لین بدلنے' اسپیڈ پر کنٹرول نہ رکھنے' سرخ سگنل پر نہ رکنے جیسا ہر ضابطہ مقامی ڈرائیوروں جیسا اپنانے میں دیر نہیں لگاتے یعنی وہ جیسا دیس ویسا بھیس کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتے ہیں۔ اس رویے کا جواب صرف یہی ہے کہ قانون اور ضوابط پر عمل درآمد میں سختی برتی جائے۔ سڑکوں بازاروں میں سب سے خطرناک ڈرائیونگ ویگن' موٹر رکشہ اور موٹر بائیک چلانے والے کرتے ہیں جن کی وجہ سے حادثات ہوتے لوگ زخمی ہوتے کاروں کے بیرونی آئینے ٹوٹتے اور سکریچز پڑتے ہیں اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ انھیں بائیں طرف کی لین پر پابند کر دیا جائے تا کہ ان کی اچانک ZIGZAG ڈرائیونگ کنٹرول کی جا سکے۔
سڑکوں پر دھواں چھوڑتی' چنگاڑتی' ٹوٹی ہوئی ہیڈ لائٹس والی اور چھکڑا گاڑیاں بھی مسافروں کو اتارتی بٹھاتی ملیں گی لیکن وہ موٹر وہیکل ایگزامینر (MVE) کے ساتھ پارٹنر شپ میں چل رہی ہوتی ہیں لیکن بغیر لائسنس و تربیت ڈرائیوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کے لیے جو ڈرائیونگ ٹیسٹ ہوتا ہے وہ ناکافی ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ سڑک پر آٹو موبائل لانے والوں کے لیے ایک روزہ تربیتی کلاس کا ہر ضلعی سطح پر اہتمام کرے یا ایسی ٹریننگ و تربیت کا اجرا کے لیے پرائیویٹ تجربہ کار ادارے کے ذمے یہ کام لگا دے اور اس اسکول کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا جائے۔ ابھی چند روز قبل مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ایک انجینئر اور ایک ایڈووکیٹ جو کینیڈا اور آسٹریلیا مائیگریٹ کر چکے ہیں اور پاکستان میں عرصہ تیس سال تک موٹر کار چلا چکے تھے وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے ٹیسٹوں میں فیل ہو گئے یہ دونوں حضرات چند ماہ قبل پاکستان آئے ہوئے تھے اور کاریں بھگائے پھرتے تھے۔ دیکھتے ہیں واپس پہنچ کر وہ کب ڈرائیونگ ٹیسٹ میں پاس ہوتے ہیں۔
ایک یورپی ملک سے آیا ہوا میرا مہمان میری موٹر کار میں بیٹھا ہوا ہر سامنے سے آتی ہوئی اور اوور ٹیک کرتی ہوئی کار کے قریب سے گزرنے پر سیٹ پر یوں پہلو بدل رہا تھا جیسے خود کو ایکسی ڈنٹ سے بچا رہا۔ہو ایک بار تو اس نے قریب سے غوطہ کھا کر گزرتے موٹر سائیکل سے خود کو سیٹ سے اچھل کر بچایا تو میں قہقہہ ضبط نہ کر سکا اور اس سے کہا ''دیکھی ہماری ٹریفک''۔ اس نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا ''It is TERRIFIC ''۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جو شخص آج کل اسکولوں میں چھٹی کے اوقات میں ایک ہفتہ تک گلبرگ مین بلیوارڈ کے گرد و نواح میں سے کار کو ڈینٹ لگوائے بغیر منزل مقصود تک پہنچ جائے تو وہ کسی سرکس کے موت کے کنویں میں بحفاظت اور مہارت کے ساتھ موٹر سائیکل اور موٹر کار چلا سکتا ہے۔ ایک صاحب نے تو مجھ سے میاں امجد فرزند کا فون نمبر بھی مانگا ہے تا کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے موت کے کنویں میں پارٹ ٹائم کام کر کے اضافی آمدنی پانے کے علاوہ لوگوں سے اپنی مہارت کا لوہا منوا سکے۔ میں البتہ سوچ رہا ہوں کہ اشٹام لکھوا کر اسے میاں صاحب کا پتہ دوں تا کہ حادثے کی صورت میں کہیں میں ہی دفعہ302 تعزیرات پاکستان کے تحت نہ دھر لیا جاؤں۔
چند روز میرے ساتھ شہر میں گھومنے کے بعد میرے مہمان نے پوچھا یہ اتنی زیادہ تعداد میں لوگ ہر وقت سڑکوں پر کیا کرتے پھرتے ہیں، کیا یہ کسی دفتر فیکٹری مارکیٹ یا اسکول میں مصروف نہیں ہوتے۔ میں نے اسے بتایا کہ اگرچہ اتنی بڑی مین پاور رکھنا ہمارے لیے اللہ کی رحمت ہے لیکن ان میں اکثریت کی جہالت و غربت پھر دہشت پسندی کی طرف رغبت اور لاقانونیت کی عادت ہمارے ملک و معاشرے کے لیے لعنت کا درجہ پا گئی ہے جس پر کنٹرول ہماری اکثر حکومتوں کے ورک ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتا اور اکبر الہ آبادی کا شعر اس پر صادق آتا ہے کہ
عاشقی قید شریعت میں جب آ جاتی ہے
جلوہ کثرت اولاد دکھا جاتی ہے
اب سڑکوں چوراہوں پر گریجویٹ وارڈن ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اچھی تبدیلی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ڈگری کا مظاہرہ زیادہ اور ٹریفک کنٹرول کم کرتے ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ خصوصاً موٹر بائیک سوار نہ ڈرائیونگ لائسنس رکھتے ہیں نہ ڈرائیونگ کی تربیت ادہر موٹر کار اور ویگن و رکشہ ڈرائیور بھی دو فٹ کا خلا دیکھ کر اپنی گاڑی گھما کر اپنی LANE کی پرواہ کیے بغیر رستہ لینے کے لیے آتش نمرود میں بے خطر کودنے والوں کے انداز میں جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں جب کہ ٹریفک وارڈن بے بسی کی تصویر بنے ایسے گھمسان کے رن سے منہ ہی پھیر لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان بے چاروں کی تو وردی کا رنگ ہی ان کی اتھاریٹی کو مٹی میں ملا دیتا ہے۔ ٹریفک وارڈنز کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ چاک و چوبند ہو کر اپنی ڈیوٹی کرتے نظر آئیں نہ کہ چار چار چھ چھ کے گروپوں میں کھڑے آپس میں خوش گپیاں کرتے یا موبائل ٹیلیفونوں پر ہنستے باتیں کرتے دکھائی دیں جب کہ ٹریفک اپنا رستہ خود بنا کر بے ہنگم چلنا شروع کر دے۔ ٹریفک کنٹرول کا پرانا انڈر گریجویٹ سسٹم بدر جہا بہتر تھا جب ٹریفک پولیس سے اٹھکیلیاں کرنے والے بائیک سوار بھی ڈرتے اور فی الفور راہ راست پر آ جاتے تھے۔
یورپ امریکا برطانیہ جانے والے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ وہاں جا کر آباد ہونے پر تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی ٹریفک رولز کی اتنی ہی پاسداری کرتے ہیں جتنی وہاں کے مقامی لوگ بلکہ ان سے بھی زیادہ لیکن وہ جب بھی عزیزوں سے ملنے یا رخصت پر پاکستان آتے ہیں تو ٹریفک سے متعلق ہر سبق بھول کر بے تحاشہ ہارن بجانے بغیر انڈیکیٹر لین بدلنے' اسپیڈ پر کنٹرول نہ رکھنے' سرخ سگنل پر نہ رکنے جیسا ہر ضابطہ مقامی ڈرائیوروں جیسا اپنانے میں دیر نہیں لگاتے یعنی وہ جیسا دیس ویسا بھیس کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتے ہیں۔ اس رویے کا جواب صرف یہی ہے کہ قانون اور ضوابط پر عمل درآمد میں سختی برتی جائے۔ سڑکوں بازاروں میں سب سے خطرناک ڈرائیونگ ویگن' موٹر رکشہ اور موٹر بائیک چلانے والے کرتے ہیں جن کی وجہ سے حادثات ہوتے لوگ زخمی ہوتے کاروں کے بیرونی آئینے ٹوٹتے اور سکریچز پڑتے ہیں اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ انھیں بائیں طرف کی لین پر پابند کر دیا جائے تا کہ ان کی اچانک ZIGZAG ڈرائیونگ کنٹرول کی جا سکے۔
سڑکوں پر دھواں چھوڑتی' چنگاڑتی' ٹوٹی ہوئی ہیڈ لائٹس والی اور چھکڑا گاڑیاں بھی مسافروں کو اتارتی بٹھاتی ملیں گی لیکن وہ موٹر وہیکل ایگزامینر (MVE) کے ساتھ پارٹنر شپ میں چل رہی ہوتی ہیں لیکن بغیر لائسنس و تربیت ڈرائیوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کے لیے جو ڈرائیونگ ٹیسٹ ہوتا ہے وہ ناکافی ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ سڑک پر آٹو موبائل لانے والوں کے لیے ایک روزہ تربیتی کلاس کا ہر ضلعی سطح پر اہتمام کرے یا ایسی ٹریننگ و تربیت کا اجرا کے لیے پرائیویٹ تجربہ کار ادارے کے ذمے یہ کام لگا دے اور اس اسکول کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا جائے۔ ابھی چند روز قبل مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ایک انجینئر اور ایک ایڈووکیٹ جو کینیڈا اور آسٹریلیا مائیگریٹ کر چکے ہیں اور پاکستان میں عرصہ تیس سال تک موٹر کار چلا چکے تھے وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے ٹیسٹوں میں فیل ہو گئے یہ دونوں حضرات چند ماہ قبل پاکستان آئے ہوئے تھے اور کاریں بھگائے پھرتے تھے۔ دیکھتے ہیں واپس پہنچ کر وہ کب ڈرائیونگ ٹیسٹ میں پاس ہوتے ہیں۔