بھارتی جارحیت

پاکستان کے وجود اور استحکام کے دشمن روز اول سے ہی اس کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے نت نئی کوششیں کررہے

nasim.anjum27@gmail.com

OSLO:
پاکستان کے وجود اور استحکام کے دشمن روز اول سے ہی اس کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے نت نئی کوششیں کررہے ہیں لیکن حکم خداوندی سے ان کی ہر سازش بے نقاب ہوجاتی ہے اور پاکستان کا وجود ہر خطرے سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ حالات آج سے نہیں ہیں بلکہ شروع ہی سے ہیں، انگریزوں اور ہندوؤں کا جھکاؤ آپس میں ہی زیادہ رہا اور دونوں قوموں نے مل کر پاکستان کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کی بھرپورکوشش کی ہے اوراس کی کاوشیں تعمیر پاکستان سے قبل کی ہیں۔ جب ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے تھے لیکن دل ایک نہیں تھے، اس کی وجہ نظریات کی تفریق تھی جب کہ بے شمار مسلمان ایسے بھی تھے جو ہندوؤں کے رنگ میں ڈھلنے کے باوجود مذہب، تہذیب وثقافت کے حوالے سے اپنے آپ کوجدا سمجھتے تھے اور دو قومی نظریہ اپنے حقائق کی بنا پر وجود میں آیا۔

1947 کو دہلی کے انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز میں لالہ پرشوتم داس ٹنڈن کی تقریر ہندوستان کی پہلی آزادی کے موقعے پر شایع ہوئی تھی یہ معروف کانگریسی لیڈر اور یو پی اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ انھوں نے اپنے نظریات کا اظہار اس طرح کیا تھا کہ ''ہندوستان میں جداگانہ کلچر اور زبان کی آواز کہیں سے نہیں آنی چاہیے اور اگر کوئی ایسا کرے تو ہندوستان میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں اگر یہ لوگ اپنے نظریات کو تبدیل نہیں کرسکتے تو انھیں ہندوستان چھوڑدینا چاہیے اور اگر اس کے برعکس مسلمان ادھر ہی رہنا چاہتے ہیں تو انھیں ہندی کو بطور زبان اور دیوناگری رسم الخط اختیارکرنا ہوگا، ان لوگوں کو اپنی تہذیب و تمدن کے لیے عرب یا پاکستان کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ بھارت کے کلچر کو اپنالینا چاہیے'' لالہ پرشوتم داس ٹنڈن کی طرح دوسرے لیڈر بھی اسی قسم کی ہرزہ سرائی کرنے لگے۔

ان کا مقصد مسلمانوں کو ورغلانا اور اپنے مقصد سے باز رکھنا تھا۔ لیکن ان کی کوششیں جب ناکام ہوگئیں اور انھیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ پاکستان کو معرض وجود میں آنے سے کسی قیمت میں بھی نہیں روک سکیںگے اور مسلمان اپنے آزاد ملک کے لیے جان و مال کی قربانی دینے سے ہرگز گریز نہیں کریںگے چوں کہ ان پر اپنا مقصد پانے کی دھن سوار ہے لہٰذا ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے انھوں نے پینترا بدلا اور انگریزوں سے مل گئے تاکہ پاکستان کی تعمیر نو کو کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ ایک کانگریسی لیڈر نے وائسرائے ہندوستان لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہ مشورہ بھی دیا کہ مسلمانوں کا علیحدہ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ مان لیا جائے لیکن بنگال اور پنجاب کے صوبوں کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ پاکستان ایک علیحدہ اور آزاد ملک کی حیثیت سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہ تجویز بے حد پسند آئی، اس لیے کہ وہ خود پاکستان کے منصوبے اور اس کی آزادی کے مخالف تھے، لہٰذا انھوں نے ہرکام پاکستان کے مفاد کے خلاف ہی کیا ان کے اس طرز عمل سے قائد اعظم اور ان کے مشن سے ذاتی رنجش کا بھی اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن اور سرسیرل ریڈ کلف کی بد دیانتی اور ہندوؤں سے ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان اور مسلمانوں کو شدید نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑا۔


کلکتہ ضلع گورداسپور جیسے کئی علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی،کلکتہ شہر سمیت ہندوستان کے حوالے کردیاگیا،اثاثوں کی تقسیم میں بھی غیر منصفانہ رویے کی بنا پر شدید رنجش پیدا ہوگئی اور بھارت نے پاکستان کو اس کے فوجی سازوسامان سے بھی محروم رکھا۔ ناانصافیاں یہاں تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ نقد اثاثوں کی تقسیم بھی ہوس پرستی اور اسلامی ملک کو ہر طرح سے کمزورکرنے کی مرہون منت تھی۔ اس قدر رکاوٹیں ڈالنے اور ہر طرح سے مسلمانوں کا استحصال کرنے کے باوجود پاکستان ایک مضبوط اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ یہ کامیابی قائد اعظم محمد علی جناح کی حکمت عملی، بلند ہمتی اور اﷲ کی بھرپور مدد کے تحت نصیب ہوئی، ہندوستان نے مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھا، لیکن وہ سکون وعافیت کی دولت سے آج تک محروم ہے۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود آج پھر وہی حالات ہیں۔ مذہبی منافرت، لسانی تعصب اور ہندو سرکارکی ذاتی دشمنی نے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی ہے۔

بھارت مسلمانوں کی جان و مال کا دشمن ہے کبھی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ کرکے توکبھی مسلمانوں پر جھوٹے الزامات اور کبھی تفریحاً وہ مسلمانوں کی جانوں سے کھیلتا ہے، ہر ملک میں مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو زندگی گزارنے، اپنے عقائد کے تحت عبادت کرنے کی مکمل آزادی دی جاتی ہے، خوراک پاکستان اس کی بہتری مثال ہے یہاں ہندو، پارسی سکھ، عیسائی مذاہب کے لوگ اپنی مذہبی آزادی کا استعمال بے خوف وخطر کرتے ہیں، حکومت یا علمائے کرام کی طرف سے کبھی مخالفت نہیں کی گئی چونکہ دین اسلام میں اس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اورہندوستان اس کے برعکس ہے، بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔

ماضی میں بھی ایسی ہی صورت حال رہی ہے گائے ہندوؤں کے مذہب میں مقدس اور ماں کا درجہ رکھتی ہے وہ اپنی گاؤ ماتا کی جس قدر پرستش کریں ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے وہ چاہیں تو گائے کو رسوئی میں باندھ لیں یا ڈرائنگ روم میں، اس کی غلاظت اپنے کھانوں میں ڈالیں یا خالص غذا کے طور پر ناشتے میں استعمال کریں ان کے اس انداز تفاخر پر ہم حیران و پریشان ہوسکتے ہیں، ان کی عقل پر ماتم کرسکتے ہیں، لیکن ہمیں انھیں ایسا کرنے سے باز رکھنے کے لیے کسی قسم کا زبانی یا عملی طور پر براسلوک کرنے کی تو دور کی بات ہے، سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے مذہب اسلام نے دوسروں کو تنگ کرنے، ان کی بے مقصد جان لینے کی ہمیں چھوٹ ہرگز نہیں دی ہے۔

بھارتیوں کا مذہب یہی ہے، زمانہ کہاں سے کہاں تک ترقی کرگیا لیکن یہ آج تک چھوت اور اونچ نیچ ذات کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کا سپر اسٹار امیتابھ بچن جب اپنے بیٹے ابھیشک بچن کی شادی اداکارہ ایشوریا سے کرتا ہے تو پہلے اس کی شادی درخت اور بندر سے کی جاتی ہے کہ وہ لڑکی اس کے بیٹے کے لیے منحوس تو ثابت نہیں ہوگی اور وہاں کے روشن خیال اداکار بھی بدنام ترین جماعت شیوسینا کا ساتھ دیتے ہیں اور نریندر مودی کو لانے کے لیے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ دنیا گھومنے اور پڑھنے لکھنے کے باوجود آج تک یہ جہالت کی اندھیری راہوں میں بھٹک رہے ہیں اور اپنے ہی ہم مذہب لوگوں پر ظلم کررہے ہیں، تازہ ترین واقعے کے مطابق ہریانہ میں نچلی ذات کے ہندو گھرانے (دلت خاندان) کے گھر کو آگ لگادی اور دو بچوں کو پٹرول چھڑک کر زندہ جلادیا، پچھلے دنوں اسی ظالمانہ تفریق نے دلت خاندانوں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی راہ ہموار کی، کہ اسلام میں ذات پات کا کوئی مسئلہ نہیں ہر شخص مکمل آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکتا ہے، اپنی نجی زندگی میں کسی دوسرے کے احکامات ماننے کا پابند نہیں۔

بھارت کی انتہا پسندی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، نفرت، تعصب اور جارحانہ رویہ دن بدن پنپ رہا ہے، انتہا پسند ہندوؤں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر میں ہنگامہ آرائی کی، پاکستان مخالف نعرے لگائے، نتیجے میں پاک بھارت کرکٹ حکام کی ملاقات منسوخ ہوگئی، ان حالات سے دوسرے ملکوں نے بھی سبق سیکھا اور امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ نے کبڈی ورلڈ کپ میں شرکت سے انکار کردیا۔ مودی سرکار نے اپنے تعصب ودشمنی کو بڑھاوا دینے کے لیے سکھوں کی دشمنی بھی مول لے لی ہے، شیوسینا کے دہشت گردوں نے سکھوں کی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کی تھی، اس ہی وجہ سے بھارتی پنجاب میں سکھوں کا احتجاج جاری ہے، ان حالات میں بھارت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
Load Next Story