کاوش کا نظریہ زندہ ہے

کاوش رضوی 90 برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئے۔

zb0322-2284142@gmail.com

کاوش رضوی 90 برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئے۔ وہ سی آر اسلم، دادا میرداد، دادا امیر حیدر،کامریڈ حیدر بخش جتوئی، سوبھوگیان چندانی، سید جمال الدین بخاری، کاکا خوشحال خان، کاکا صنوبر خان، سائیں عزیز اللہ، عزیز سلام بخاری، شرف علی، فیض احمد فیض، میجر اسحاق، افضل بنگش اور امام علی نازش کی صف کے کمیونسٹ رہنما تھے۔ کاوش رضوی کا تعلق امروہہ سے تھا۔ جس طرح ایران کے شہر''شیراز'' کو ایتھنزآف ایشیا کہا جاتا ہے، اسی طرح امروہہ کو ایتھنز آف برصغیرکہنا غیر مناسب نہ ہوگا۔ کاوش صاحب بچپن سے طلبا تحریک میں بے حد سرگرم عمل تھے۔ بعدازاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں سرگرم رہے۔ ان کے سبھاش چندر بوس سے بھی مراسم تھے۔ برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی میں براہ راست شریک رہے۔ 1950 میں جب حسرت موہانی پاکستان آئے تو اس جلسے کے انتظامات ڈینسو ہال لائبریری کراچی میں موصوف نے کیے۔

واضح رہے کہ حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا یوپی کی صوبائی کمیٹی کے رکن تھے۔ جب ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی تشکیل پائی تو اس کی مجلس استقبالیہ کی صدارت کی۔ کامریڈ کاوش بحیثیت کمیونسٹ نیشنل پارٹی اور پھر نیشنل عوامی پارٹی میں سرگرم رہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کراچی پہ میری کئی بار ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ وہ لمبے بال،کھدرکی سدری اور شلوار میں ملبوس اکثر وہاں اس لیے مل جاتے کہ اخبارات میں پریس ریلیزدینے آتے تھے۔ کاوش کا سیاست کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی گہرا تعلق تھا۔ وہ غالب اور جوش سے لے کر فیض اور جالب تک کے مداح تھے۔ جوش، فیض، احمد فراز اور جالب تو ان کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ تقریباً ہر مشاعرے میں شرکت کرتے تھے۔ ان کی نظمیں روزنامہ ایکسپریس کراچی اور متعدد رسالوں میں چھپتی تھیں۔ انھوں نے سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان یکجہتی کی خاطر ''سندھی اردو سنگت'' نام پر ایک تنظیم تشکیل دی جس میں بلاامتیاز سارے ترقی پسندوں، انقلابیوں، کمیونسٹوں، انارکسٹوں اور سوشلسٹوں کو مدعو کیا کرتے تھے۔ ان کے متعدد پروگراموں میں، میں خود بھی شرکت کرتا رہا۔

1978 میں کاوش پر ناظم آباد کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے لیکن ذہنی طور پر کبھی بھی معذور نہیں ہوئے۔ ان کی گرجتی ہوئی آواز ایسی لگتی تھی کہ کوئی 20 سالہ نوجوان مخاطب ہے۔ وہ معذور ہونے کے باوجود اپنے ساتھیوں کی مدد سے گاڑی میں بہت سے پروگراموں میں پہنچ جاتے تھے اور اکثر پروگراموں میں ان سے صدارت کروائی جاتی تھی۔ مجھے قابل ذکر پروگرام یاد آتا ہے۔ ندیم سبطین کے شاعری مجموعے کی رونمائی آرٹس کونسل میں ہوئی جس کی صدارت کاوش رضوی نے کی اور مہمان خصوصی فخرالدین جی ابراہیم تھے۔ اس رونمائی سے تاج حیدرکے علاوہ راقم نے بھی خطاب کیا تھا۔ پریس کلب اور پی ایم اے ہاؤس میں منعقد ہونے والے پروگرام یاد آتے ہیں جہاں کاوش صاحب نے خطاب کیا تھا۔ کاوش کی قدوقامت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور ڈھاکا سے کراچی میں ماڑی پور ایئرپورٹ پر اترے تو ان کے قریبی ساتھی سائیں عزیز اللہ سے کہا کہ ''بتاؤ! تم کیا چاہتے ہو؟'' سائیں عزیز اللہ نے جواب میں کہا کہ ہمارے چار ساتھی جیل میں مقید ہیں ان کی رہائی کے احکام جاری کریں۔ وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے فوری طور پر جہاز کی سیڑھی پر ہی چار افراد کاوش رضوی، امام علی نازش، ہادی نقوی اور انورکاظمی کی رہائی کے حکم نامے جاری کیے۔ یہ تھی کاوش رضوی کی حیثیت۔


انھوں نے کبھی بھی کسی جماعت یا فرد کے ساتھ شاہ دولہ کے چوہے کے طور پر کام نہیں کیا۔ برملا کمیونسٹ نظریے کا اظہار اپنے حساب سے کرتے تھے۔ وہ مجھ سے 'سرخ پرچم، طبقاتی جدوجہد اور دیگر بائیں بازو کے رسالے ایک نہیں بلکہ کم ازکم 10 کاپیاں لیا کرتے تھے اور پیسے پہلے ہی ادا کر دیتے تھے۔ بعد میں انھیں اپنے حلقہ احباب میں بیچتے تھے۔ یہ تھی ان کی نظریے سے لگاؤ، محبت، خلوص اور محنت کش عوام سے وابستگی۔ کاوش کی یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ جس شہر امروہہ، ہندوستان میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جوانی گزاری آج اسی ہندوستان کے 15 کروڑ مزدوروں نے اپنے مطالبات خصوصاً نجکاری کے خلاف تاریخی ہڑتال کی اور رضوی اس جہاں سے جاتے ہوئے انڈیا کی اس عظیم ہڑتال کی خبر سن کر جہاں فانی سے رخصت ہوئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کاوش کا سوشلزم کا نظریہ ختم نہیں ہوا بلکہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ہندوستان کے ایک تہائی علاقوں پرکمیونسٹ باغی قابض ہیں۔ برطانیہ کی حزب اختلاف کی پارٹی کا لیڈر ایک سوشلسٹ رکن منتخب ہوتا ہے۔

حکمران طبقات خواہ نواز لیگ کا ہو یا پی ٹی آئی یا پی پی پی کا آپس میں ہی ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ فوجی اقتدار آئے یا سول، کرپشن، لوٹ مار اور عوام پر مظالم یکساں ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال اس وقت بھی ہے۔ نان ایشوز پر تقاریر ہوتی ہیں، نان ایشوز پر ٹی وی چینلز پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ کبھی بھی کسانوں، مزدور رہنما، پائلٹوں کے نمایندے یا لیڈی ہیلتھ ورکرز، نابیناؤں کے نمایندے اور جونیئر ڈاکٹرزکو ٹی وی چینلز پر نہیں بلایا جاتا۔ اگر ان کی یکجہتی اور احتجاج سے مجبور ہوکر مطالبات مان بھی لیے جاتے ہیں تو ٹی وی کی اسکرین پر مذاکرات نہیں دکھائے جاتے۔ ہاں مگر وردی بے وردی والی نوکر شاہی ہمہ وقت نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتیں حزب اقتدار کی ہوں یا حزب اختلاف کی۔ آٹا، چینی، تیل، دودھ، بجلی، چاول یا دالوں کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف نہ بولتے ہیں اور نہ ہڑتال کرتے ہیں، مگر انتخابی دھاندلی پر احتجاج اور ہڑتال ضرور ہوتی ہے۔

اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کسی قسم کی تبدیلی کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ جب جرمنی کی ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں 60 لاکھ اور چین کی 130 کروڑ کی آبادی میں 27 کروڑ بے روزگار ہوں تو پاکستان، ہندوستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور تھائی لینڈ کا کیا حشر ہوگا۔ اس لیے کہ اس نظام میں پیداوار صرف منافعے کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے۔ ان مسائل کا حل صرف عالمی سوشلسٹ انقلاب اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں ہی ممکن ہے، جہاں جنگ، اسلحہ، ملکیت کا خاتمہ کر کے سب کو جینے کا حق ملے گا۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے اور خوشحالی اور محبتوں کے پھولوں سے دنیا معطر ہوگی۔
Load Next Story