بڑی بہنا۔۔۔ ایک خوب صورت رشتہ

اپنے سگے اور خونی رشتوں سے دوری کی ایک وجہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ہیں۔

اپنے سگے اور خونی رشتوں سے دوری کی ایک وجہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ہیں۔ فوٹو: فائل

زندگی میں رشتے ناتے بہت اَن مول اور قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت بھی کسی بیش قیمت سرمائے کی مانند کی جاتی ہے، جس طرح ہم قیمتی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں۔

اگر خونی رشتوں کی بات کی جائے، تو ان کی اہمیت و افادیت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص بہت خوش نصیب ہوتا ہے، جسے اپنے میسر ہوتے ہیں، کیوں کہ خونی اور سگے رشتے قدرت کا انتہائی خوب صورت اور لازوال عطیہ ہوتے ہیں، جن کی قدر ہم پر لازم ہوتی ہے۔ ایسے ہی رشتوں میں ایک رشتہ ''بڑی بہن'' کا ہوتا ہے۔

دنیا میں ماں باپ کے بعد جو سب سے قریبی گہرا اپنائیت و خلوص سے لبریز منفرد بے مثال خونی رشتہ ہے، وہ ہے بڑی بہن کا رشتہ ہی ہے۔ بڑی بہن کا درجہ ماں جیسا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شفقت و محبت کے حوالے سے مثل ماں ہوتی ہے، جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک ماں کی طرح بہت پیار و محبت سے پروان چڑھاتی ہے، جو ان کی نیند، ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتی ہے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتی ہے۔ ان کے بیمار ہونے کی صورت میں ماں کے ساتھ خود بھی راتوں کو جاگتی ہے۔ ان کا خیال رکھتی ہے۔ ان پر جان نچھاور کرتی ہے اور ان کے اچھے مستقبل اور اچھی زندگی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتی ہے۔

چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے بڑی بہن حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ آپا، آپی، بجو، بڑی باجی، چاہے انہیں کسی بھی نام سے پکارا جائے، وہ ہماری زندگیوں میں ہماری ماں کا سا کردار ادا کرتی ہیں۔ خدانخواستہ کسی کی ماں کا سایہ اٹھ جائے، تو ایسے میں بڑی بہن ہی مکمل طور پر ماں کی جگہ سنبھال لیتی ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تمام تر ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں، جہاں بڑی بہنوں نے اپنے والدین کے گزر جانے یا پھر ان کے اچھے مستقبل کی خاطر گھر سے باہر دھکے کھائے، سخت مشقتیں کیں، تاکہ ان کا مستقبل روشن رہے اور ان کے خواب زندہ رہیں۔


وہ اپنی تعلیم و آرزوؤں کو ایک جانب لپیٹ کر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پروان چڑھانے میں جُت گئیں، یہاں تک کہ ان کی شادی کی بھی عمریں بھی گزر گئیں، مگر انہیں کبھی اس بات کا پچھتاوا نہیں ہوا اور وہ ہمیشہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی محبت میں سرشار رہیں، مگر بہت کاری ضرب اس وقت ان کے دل پر پڑتی ہے جب یہی چھوٹے بہن بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر سب کچھ تیاگ دینے والی بڑی بہن کو بھول کر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ تک یاد نہیں رہا کہ ان کی زندگیاں سنوارنے اور گھر بسانے کی خاطر دن و رات محنت کرنے والی بہن خود اپنا ہی گھر بسانا بھول گئی۔ اس طرح کی کہانیاں یقیناً آپ کی نگاہوں سے بھی گزری ہوں گی، جہاں بڑی بہن کی قربانیوں اور محبتوں کو یونہی بھلا دیا گیا ہوگا۔

بہن بھائیوں کے لیے بڑی بہن کسی مضبوط ستون کی طرح ہوتی ہے، اکثر جب ہم پریشان ہوتے ہیں، تو بڑی بہن کا وجود ہمارے لیے باعث اطمینان ہوتا ہے۔ اپنی پریشانیاں، تفکرات ہم بلا جھجھک اپنی بڑی بہنوں سے کہہ دیتے ہیں، جس کا وہ کوئی اچھا حل بھی دیتی ہیں یا پھر ہمارے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتی ہیں۔ یوں ہماری بڑی بہن، بہن کے ساتھ ساتھ ہماری پرشفیق ماں اور ایک ہم درد سہیلی کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔

آج کل کے دور میں، جہاں ہم اپنے سگے اور خونی رشتوں کے درمیان بدگمانی، بے پروائی اور توڑ پھوڑ کی صورت حال دیکھ رہے ہیں۔ وہاں بھائی بھائی اور بہن بہن کے رشتوں میں بھی چپقلش اور دوریاں آگئی ہیں۔ مادہ پرستی اور دولت کی چاہت نے بھی اَن انمول اور بے لوث رشتوں سے ہمیں دور کر دیا ہے۔ یہ تک دیکھا گیا ہے کہ بہن بھائی بھی ایک دوسرے کی مالی حیثیت کی بنیاد پر بھی ملنے سے کتراتے ہیں۔

اپنے سگے اور خونی رشتوں سے دوری کی ایک وجہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں بھی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق بہن بھائیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دیتا ہے، جس کی بدولت بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بدگمانی ہو جاتی ہے اور بہن بھائی ایک دوسرے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو اپنے ماموں اور خالہ کی شکایات وہ اپنے ماں سے کرنے لگتے ہیں، جب کہ مائیں بہ جائے اپنے بچوں کو اس عمل سے باز رکھنے کہ، الٹا اپنی بہن یا بھائی سے ناراض یا بد گمان ہونے لگتی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل ایک دن آپ کو آپ کے پیارے رشتوں سے دور لے جاتا ہے، لہٰذا اس ضمن میں ہمیں اپنا رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

بچپن میں جس طرح ہماری بڑی بہن نے ہمیں محبت و شفقت دی۔ ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا۔ ہماری خاطر بے پایاں قربانیاں دیں۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم ان کی عزت اپنی ماں کی طرح کریں۔ ان کے احسانوں کو یاد رکھیں اور ان کا خیال رکھیں۔ انہیں وہی مقام و مرتبہ دیں، جس کی وہ مستحق ہیں۔ بعض جگہ یہ بھی نظر آیا ہے کہ بڑی بہن اپنے بڑے ہونے کا غلط فائدہ اٹھاتی ہیں، جو درست نہیں۔ اسی طرح وہ بڑی بہنوں کے رشتے کو مجروح کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بڑے پن کا بے جا فایدہ نہ اٹھائیں، بلکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی محبت اور خلوص کی قدر کرتے ہوئے اپنے ''بڑے پن'' کا ثبوت دیں۔ اسی طرح اگر چھوٹے بہن بھائیوں سے غلطیاں سرزد ہو جائیں، تو ایک ماں کی طرح انہیں معاف کر کے اپنے سینے سے لگا لیں۔ یاد رکھیے، اگر ہم نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی، تو پھر ہماری قدر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور ہم تہی دست رہ جائیں گے۔
Load Next Story