یادگارسفرجو بار بارکرنے کو جی چاہے
پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت جب راتوں رات مکے میں پچیس تیس لاکھ کا شہر آباد ہوجاتا ہے
جب اس بار ہمیں حج کی سعادت نصیب ہوئی اور لگ بھگ چالیس ایام ہمیں مکے اور مدینے کے مقدس شہروں میں قیام کا موقع حاصل ہوا تو ہمیں شدت سے یہ احساس ہوا کہ مذہب کے علاوہ بھی زندگی کے بعض دوسرے شعبے ایسے ہیں، جن میں ہم سعودی عرب سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
مثلاً پروپیگنڈے سے ہٹ کر ہمارا مختلف بازاروں، سڑکوں اورمحلوں میں جن سعودی شہریوں سے انٹرایکشن ہوا تو ہم نے نوٹ کیا کہ سعودی فیملیز کی اکثریت ایک برقع پوش اہلیہ اور ایک دو بچوں پر مشتمل ہوتی ہے اس طرح وہ مذہب کو درمیان میں لائے بغیر خاموشی سے محض کامن سینس کی بنیاد پر فیملی پلاننگ پر عمل کررہے ہیں، ادھر جن کے بارے میں پروپیگنڈہ ہے ہوسکتا ہے ان کی تعداد مشکل سے ایک دو فیصد ہو۔
پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت جب راتوں رات مکے میں پچیس تیس لاکھ کا شہر آباد ہوجاتا ہے کیا مجال کوئی ٹریفک سگنل توڑ دے یا کسی اور قانون کی خلاف ورزی کردے کیا مجال ایک لمحے کے لیے بھی بجلی چلی جائے یا پانی کی فراہمی میں خلل آجائے۔
یہاں ہم سب پہلے مختصراً اپنے حج کے تجربات بیان کرنا چاہیں گے تاکہ حکومت پاکستان کی طرف سے عازمین حج کے لیے کیے گئے انتظامات کو جو مجموعی طور پر اس مرتبہ بھی پہلے سے بہتر اور مثالی تھے مزید بہتر بنایا جاسکے۔ مکتب 114 کے ایک رکن کے طور پر 30 اگست کو ہم جب مدینہ منورہ پہنچے تو ہمیں ڈبل بیڈ روم میں سات سات کے گروپس میں ٹھہرایا گیا جہاں 14 افراد کے لیے ایک کچن اور ایک ٹوائلٹ تھا۔ قدرتی طور پر لفٹ پر خاصا دباؤ رہتا تھا اور کبھی چودھویں منزل سے زینے کے ذریعے اترنا پڑتا تھا مگر اس تھوڑی سی مشکل کا بہت بڑا انعام مسجد نبوی کی قربت تھی اور ہم پانچ منٹ میں حضورؐ کے روضے پر حاضری کے لیے پہنچ سکتے تھے۔
اس کے بعد ہمیں مکہ مکرمہ میں عزیزیہ کے علاقے میں ایک بڑے اچھے ہوٹل ''دار تبارک'' میں ٹھہرایا گیا جہاں بلاشبہ طعام و قیام کے علاوہ حرم پاک جانے کے لیے چوبیس گھنٹے ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولتیں فراہم کی گئیں۔
اس دوران وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف بنفس نفیس پاکستانی عازمین حج کے تاثرات جاننے کے لیے منی کے کیمپوں میں آئے اور یہ جان کر خوش ہوئے کہ تقریبا تمام عازمین حج حکومت پاکستان کی طرف سے کیے گئے انتظامات سے مطمئن ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منیٰ کے کیمپ میں بھی فراہم کی جانے والی طعام وقیام کی سہولتیں اطمینان بخش تھیں، تاہم عرفات کا تجربہ ہمارے لیے کچھ اتنا زیادہ خوشگوار نہیں رہا، وہاں ہمیں رات کو ہی پہنچادیا گیا، ایک ایسے کیمپ میں جہاں بجلی نہیں تھی۔
اس لیے پنکھوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہاں سخت گرمی میں ہم نے ایک رات اور ایک دن گزارا ۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ عرفات میں روز حشر جیسی کیفیت ہوتی ہے اور جتنی زیادہ تکلیفیں برداشت کی جائیں اتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے۔
پھر عرفات سے مزدلفہ جاتے ہوئے ہمیں کچھ اتنی بھری ہوئی بسیں ملیں کہ مرد تو مرد ہماری لیڈیز نے بھی کھڑے ہوکر سفر کیا۔ مزدلفہ میں ہمارے گروپ کے لوگوں نے تمام دوسرے گروپوں کی طرح فرش پر ڈیرہ جمایا۔ اگلے دن صبح چھ بجے مزدلفہ سے جمرات روانہ ہوئے اور لگ بھگ آدھا گھنٹہ پہلے ہی اس جگہ سے گزرے جہاں پر المناک حادثہ پیش آیا اور ایک ہزار سے زائد حجاج شہید ہوئے۔
جہاں تک حادثے کا تعلق ہے ہماری ذاتی رائے میں سعودی حکومت حاجیوں کے لیے جو کچھ انتظامات کرتی ہے وہ بہترین ہوتے ہیں ۔ ہر سال وہاں راتوں رات بیس سے تیس لاکھ کا شہر آباد ہوتا ہے دنیا کے کونے کونے سے مختلف رنگ و نسل، طبیعتوں کے حامل افراد جمع ہوتے ہیں جن میں زبردست جوش و خروش ہوتا ہے ،حج کے ارکان مخصوص دنوں اور اوقات میں ادا کرنے ہوتے ہیں اور تمام لوگوں پر خاصا دباؤ ہوتا ہے۔
ہمارے بعض معاصر عزیز نے دنیا کے دوسرے اجتماعات کا حوالہ دیا ہے تو وہاں لوگ جمع ضرور ہوتے ہیں مگر ایک ہی دن میں لاکھوں افراد کو ایک ساتھ کنکریاں مارنی نہیں ہوتیں اور نہ ہی شاید موسم اور ماحول اس طرح کا ہوتا ہوگا آیندہ ایسے حادثات کے تدارک کے لیے جیساکہ بعض دوسرے افراد نے تجویز کیا ہے سعودی حکام کو مزدلفہ اور منیٰ سے جمرات آنے والے راستوں کو کشادہ کرنا ہوگا ایک سے زیادہ راستے بنانے ہوں گے۔
سعودی حکومت سے میری درخواست ہوگی کہ وہ انتظامیہ میں خاص طور پر سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے اپنے علاوہ اگر ممکن ہو تو ایسے افراد کی خدمات بھی حاصل کریں جو عربی کے علاوہ دوسری زبانیں بھی بولتے ہوں اور زیادہ موثر انداز میں ہجوم کوکنٹرول کرسکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی میزبان حج کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے عازمین حج کی خدمت کو اپنے لیے ایک قومی فریضہ اور عبادت سمجھتے ہیں اور جا بجا راستے میں جوسز اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بہ افراط تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ بات بھی قرین قیاس نہیں کہ وہ جان بوجھ کر اپنی میزبانی انتظامات اور مسلمانوں کے اتحاد کے اتنے عظیم الشان مظاہرے کو سبوتاژ کرنا چاہیں گے۔
حاجیوں کا یہ عظیم الشان اجتماع ہم تک یہ پیغام بھی پہنچاتا ہے کہ اسلام ایک انتہائی لبرل اور اتحاد کا داعی مذہب ہے جہاں حضرات اور خواتین شانہ بہ شانہ اپنے اپنے محرموں کے ساتھ طواف کرتے اور دیگر ارکان ادا کرتے نظر آتے ہیں اور جہاں چاروں مسالک کے ماننے والے پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ایک ہی سعودی امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں، جن کا مسلک اکثر نماز پڑھنے والوں سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مرتبہ ایک اور خوشگوار نظارہ جا بجا ہری جیکٹ پہنے پاکستانی رضاکاروں نے فراہم کیا جو ہر جگہ ہاتھوں میں نقشہ لیے نہ صرف پاکستانی بلکہ دوسرے ملکوں کے حاجیوں کی بھی رہنمائی کر رہے تھے۔
9 اکتوبر کی رات کو وطن واپسی کے سفر کے لیے جب ہمیں رات کو ہی جدہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں پہنچادیا گیا تو ایک ناخوشگوار تجربہ ہمارا منتظر تھا وہاں اپنی پروازوں کا انتظار کرنے والے عازمین حج کی تعداد زیادہ تھی اور اسٹیل کی رہی سہی بنچیں کم تھیں۔ ہماری طرح کئی فیملیز کو رات فرش پر چادریں بچھا کر اور سونے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے گزارنی پڑی۔ کیونکہ ہماری فلائٹ اگلے روزگیارہ بجے دن کی تھی۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسی مشقت تھی جس کا بظاہرکوئی ثواب نہیں تھا۔
پھرکراچی میں یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ ہمارے مکتب کے افراد خصوصاً خواتین جن میں پٹھان بھی تھے، پنجابی بھی، اردو اسپیکنگ بھی تھے اور میمن، سندھی اور بلوچ بھی۔ اور جنھوں نے مدینے میں بالکل اجنبیوں کی طرح اپنا حج کا سفر شروع کیا تھا اب رات دن کی رفاقتوں کے بعد ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہوئے گلے مل کر تقریباً رو رہے تھے۔
مثلاً پروپیگنڈے سے ہٹ کر ہمارا مختلف بازاروں، سڑکوں اورمحلوں میں جن سعودی شہریوں سے انٹرایکشن ہوا تو ہم نے نوٹ کیا کہ سعودی فیملیز کی اکثریت ایک برقع پوش اہلیہ اور ایک دو بچوں پر مشتمل ہوتی ہے اس طرح وہ مذہب کو درمیان میں لائے بغیر خاموشی سے محض کامن سینس کی بنیاد پر فیملی پلاننگ پر عمل کررہے ہیں، ادھر جن کے بارے میں پروپیگنڈہ ہے ہوسکتا ہے ان کی تعداد مشکل سے ایک دو فیصد ہو۔
پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت جب راتوں رات مکے میں پچیس تیس لاکھ کا شہر آباد ہوجاتا ہے کیا مجال کوئی ٹریفک سگنل توڑ دے یا کسی اور قانون کی خلاف ورزی کردے کیا مجال ایک لمحے کے لیے بھی بجلی چلی جائے یا پانی کی فراہمی میں خلل آجائے۔
یہاں ہم سب پہلے مختصراً اپنے حج کے تجربات بیان کرنا چاہیں گے تاکہ حکومت پاکستان کی طرف سے عازمین حج کے لیے کیے گئے انتظامات کو جو مجموعی طور پر اس مرتبہ بھی پہلے سے بہتر اور مثالی تھے مزید بہتر بنایا جاسکے۔ مکتب 114 کے ایک رکن کے طور پر 30 اگست کو ہم جب مدینہ منورہ پہنچے تو ہمیں ڈبل بیڈ روم میں سات سات کے گروپس میں ٹھہرایا گیا جہاں 14 افراد کے لیے ایک کچن اور ایک ٹوائلٹ تھا۔ قدرتی طور پر لفٹ پر خاصا دباؤ رہتا تھا اور کبھی چودھویں منزل سے زینے کے ذریعے اترنا پڑتا تھا مگر اس تھوڑی سی مشکل کا بہت بڑا انعام مسجد نبوی کی قربت تھی اور ہم پانچ منٹ میں حضورؐ کے روضے پر حاضری کے لیے پہنچ سکتے تھے۔
اس کے بعد ہمیں مکہ مکرمہ میں عزیزیہ کے علاقے میں ایک بڑے اچھے ہوٹل ''دار تبارک'' میں ٹھہرایا گیا جہاں بلاشبہ طعام و قیام کے علاوہ حرم پاک جانے کے لیے چوبیس گھنٹے ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولتیں فراہم کی گئیں۔
اس دوران وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف بنفس نفیس پاکستانی عازمین حج کے تاثرات جاننے کے لیے منی کے کیمپوں میں آئے اور یہ جان کر خوش ہوئے کہ تقریبا تمام عازمین حج حکومت پاکستان کی طرف سے کیے گئے انتظامات سے مطمئن ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منیٰ کے کیمپ میں بھی فراہم کی جانے والی طعام وقیام کی سہولتیں اطمینان بخش تھیں، تاہم عرفات کا تجربہ ہمارے لیے کچھ اتنا زیادہ خوشگوار نہیں رہا، وہاں ہمیں رات کو ہی پہنچادیا گیا، ایک ایسے کیمپ میں جہاں بجلی نہیں تھی۔
اس لیے پنکھوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہاں سخت گرمی میں ہم نے ایک رات اور ایک دن گزارا ۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ عرفات میں روز حشر جیسی کیفیت ہوتی ہے اور جتنی زیادہ تکلیفیں برداشت کی جائیں اتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے۔
پھر عرفات سے مزدلفہ جاتے ہوئے ہمیں کچھ اتنی بھری ہوئی بسیں ملیں کہ مرد تو مرد ہماری لیڈیز نے بھی کھڑے ہوکر سفر کیا۔ مزدلفہ میں ہمارے گروپ کے لوگوں نے تمام دوسرے گروپوں کی طرح فرش پر ڈیرہ جمایا۔ اگلے دن صبح چھ بجے مزدلفہ سے جمرات روانہ ہوئے اور لگ بھگ آدھا گھنٹہ پہلے ہی اس جگہ سے گزرے جہاں پر المناک حادثہ پیش آیا اور ایک ہزار سے زائد حجاج شہید ہوئے۔
جہاں تک حادثے کا تعلق ہے ہماری ذاتی رائے میں سعودی حکومت حاجیوں کے لیے جو کچھ انتظامات کرتی ہے وہ بہترین ہوتے ہیں ۔ ہر سال وہاں راتوں رات بیس سے تیس لاکھ کا شہر آباد ہوتا ہے دنیا کے کونے کونے سے مختلف رنگ و نسل، طبیعتوں کے حامل افراد جمع ہوتے ہیں جن میں زبردست جوش و خروش ہوتا ہے ،حج کے ارکان مخصوص دنوں اور اوقات میں ادا کرنے ہوتے ہیں اور تمام لوگوں پر خاصا دباؤ ہوتا ہے۔
ہمارے بعض معاصر عزیز نے دنیا کے دوسرے اجتماعات کا حوالہ دیا ہے تو وہاں لوگ جمع ضرور ہوتے ہیں مگر ایک ہی دن میں لاکھوں افراد کو ایک ساتھ کنکریاں مارنی نہیں ہوتیں اور نہ ہی شاید موسم اور ماحول اس طرح کا ہوتا ہوگا آیندہ ایسے حادثات کے تدارک کے لیے جیساکہ بعض دوسرے افراد نے تجویز کیا ہے سعودی حکام کو مزدلفہ اور منیٰ سے جمرات آنے والے راستوں کو کشادہ کرنا ہوگا ایک سے زیادہ راستے بنانے ہوں گے۔
سعودی حکومت سے میری درخواست ہوگی کہ وہ انتظامیہ میں خاص طور پر سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے اپنے علاوہ اگر ممکن ہو تو ایسے افراد کی خدمات بھی حاصل کریں جو عربی کے علاوہ دوسری زبانیں بھی بولتے ہوں اور زیادہ موثر انداز میں ہجوم کوکنٹرول کرسکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی میزبان حج کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے عازمین حج کی خدمت کو اپنے لیے ایک قومی فریضہ اور عبادت سمجھتے ہیں اور جا بجا راستے میں جوسز اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بہ افراط تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ بات بھی قرین قیاس نہیں کہ وہ جان بوجھ کر اپنی میزبانی انتظامات اور مسلمانوں کے اتحاد کے اتنے عظیم الشان مظاہرے کو سبوتاژ کرنا چاہیں گے۔
حاجیوں کا یہ عظیم الشان اجتماع ہم تک یہ پیغام بھی پہنچاتا ہے کہ اسلام ایک انتہائی لبرل اور اتحاد کا داعی مذہب ہے جہاں حضرات اور خواتین شانہ بہ شانہ اپنے اپنے محرموں کے ساتھ طواف کرتے اور دیگر ارکان ادا کرتے نظر آتے ہیں اور جہاں چاروں مسالک کے ماننے والے پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ایک ہی سعودی امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں، جن کا مسلک اکثر نماز پڑھنے والوں سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مرتبہ ایک اور خوشگوار نظارہ جا بجا ہری جیکٹ پہنے پاکستانی رضاکاروں نے فراہم کیا جو ہر جگہ ہاتھوں میں نقشہ لیے نہ صرف پاکستانی بلکہ دوسرے ملکوں کے حاجیوں کی بھی رہنمائی کر رہے تھے۔
9 اکتوبر کی رات کو وطن واپسی کے سفر کے لیے جب ہمیں رات کو ہی جدہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں پہنچادیا گیا تو ایک ناخوشگوار تجربہ ہمارا منتظر تھا وہاں اپنی پروازوں کا انتظار کرنے والے عازمین حج کی تعداد زیادہ تھی اور اسٹیل کی رہی سہی بنچیں کم تھیں۔ ہماری طرح کئی فیملیز کو رات فرش پر چادریں بچھا کر اور سونے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے گزارنی پڑی۔ کیونکہ ہماری فلائٹ اگلے روزگیارہ بجے دن کی تھی۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسی مشقت تھی جس کا بظاہرکوئی ثواب نہیں تھا۔
پھرکراچی میں یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ ہمارے مکتب کے افراد خصوصاً خواتین جن میں پٹھان بھی تھے، پنجابی بھی، اردو اسپیکنگ بھی تھے اور میمن، سندھی اور بلوچ بھی۔ اور جنھوں نے مدینے میں بالکل اجنبیوں کی طرح اپنا حج کا سفر شروع کیا تھا اب رات دن کی رفاقتوں کے بعد ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہوئے گلے مل کر تقریباً رو رہے تھے۔