بلوچستان کو کب انصاف ملے گا
پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ بلوچستان مادی وسائل سے مالا مال ہے
لاہور:
پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ بلوچستان مادی وسائل سے مالا مال ہے اور جس صوبے کو محض ایک ویران خط زمین سمجھا جاتا ہے وہ سیاحت کا ایک بڑا مرکز بھی بن سکتا ہے، اپنے سیاحتی مقامات کی وجہ سے بلوچی شاعروں نے کوئٹہ کو بہار کا شہرکہا ہے اور مشہور نغمے میں میلے کو بھی کوئٹہ لے جانے اور سیرکروانے کا ذکر ہے۔ بلوچستان کی ثقافت، اس کا تمدن، تہذیب، بلوچی اور پشتو زبانوں میں داستانوں میں بیان کیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے بلند وبالا پہاڑ، چٹیل میدان، سرسبز وادیاں، صحرا اور سب سے حسین اس کا مرکز کوئٹہ جو سطح سمندر سے پانچ ہزار دو سو تریپن فٹ بلند ایک دلکش مقام ہے، اسے پاکستان کی پھلوں کی ٹوکری بھی کہا جاتا ہے۔ کوہ چلتن،کوہ مردار اور تکاتو کے درمیان یہ دلکش علاقہ جو آمد ورفت کے تمام طریقوں سے جہاں جہاں سے بھی گزر ہو حسین علاقوں پر مشتمل ہے، قلعہ میری یہاں کی تاریخ کا گواہ ہے۔
ہنہ اوڑک نام کی جھیلیں مشہور ہیں، جیسے بلوچی تحریم کے فوصل یہاں ملے، پورے پاکستان میں نہیں ہیں، قیمتی پتھر، معدنیات اور خصوصاً شہاب ثاقب یہاں ملتے ہیں، جنگلی حیات بہت خوبصورت اور پرندے بھی یہاں ہیں، ہزار گنجی نیشنل پارک کے ذریعے ان کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس کا ریل کا راستہ دلچسپ ترین ہے اور اس کی سرنگیں لوگوں کو مسحور کردیتی ہیں۔ شہر میں گہما گہمی ہے۔ دیہات میں زندگی کا اور رخ ہے۔ اس صوبے کے چاروں موسم لا جواب ہوتے ہیں، یہاں سونے سے لے کر ایسی دھاتوں کی کانیں ہیں جو اب تک شاید دریافت نہیں کی جاسکیں۔ سب کچھ ہے اور بہت کچھ ہے جو یہاں بیان کرنا مشکل ہے اس کے لیے ایک کتاب لکھنی پڑے گی ۔
یہاں کے عوام کے ساتھ سرداروں کے علاوہ مرکزی حکومت کا کیا سلوک ہے یہ کوئی لکھنے کی بات نہیں، اظہر من الشمس ہے، یہاں کے سردار دو طریقوں سے عوام کو بے وقوف بناتے اور ان پر سرداری قائم رکھتے ہیں۔ کبھی وفاق سے بے حد قربت یا پھر وفاق کی مخالفت اور اس میں عوام سرداروں کے ساتھ چل پڑتے ہیں، دونوں صورتوں میں فائدہ سرداروں کو ہی ہوتا ہے اور عوام وہاں ہی ہیں جہاں وہ آغاز میں تھے۔ بونے والے کو ''کاٹ'' کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے اگر وفاق کو یہاں کے عوام سے ہمدردی ہو اور وہ انھیں سرداری چنگل سے نجات دلانا چاہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے مگر حقیقتاً سوائے پرویز مشرف کے کسی نے ایسا کرنے پر توجہ نہ دی اور نہ دی جارہی ہے اور سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔
سردار جلاوطنی، خودساختہ میں بھی عیش کررہے ہیں، ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے'' جیسے وزیراعلیٰ ، سرداروں کا ایک کھلا روپ ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر کارندے جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک ایک ٹی وی انٹرویو میں بتاچکے ہیں کہ کسی منصوبے کے لیے مرکز نے فنڈ جاری نہیں کیے ہیں۔ زمینیں لوگوں سے آباد ہوتی ہیں اور اگر لوگوں کو ہی ایک اچھی زندگی میسر نہیں تو ترقی کیا خاک ہوگی، میں تو کڑھتا ہی رہتا تھا چار سال وہاں رہ کر وہاں کے حالات پر مگر میرے وہاں کے ایک دوست کریم رونجھا نے مجھے بہت بار کہا کہ کچھ یہاں کے بارے میں لکھتے تو اب ان کے حکم کے مطابق وہ چیزیں تحریر کر رہاہوں جو اس علاقے کے عوام کو آزادی کے ساتھ ساتھ خوشحالی بھی لاسکتی ہیں اور جس پر مرکز کو کچھ نہیں کرنا پڑے۔
وہ صوبے کا حصہ صوبے کو دیانت داری سے دے دے اور آسانیاں فراہم کردے کہ یہ صوبہ دنیا بھر سے معاہدے کرکے اس علاقے کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکے۔ اور عوام کا معیار زندگی بلند ہو، روزگار کے مواقعے ملیں، پاکستان کا عظیم علاقہ بن جائے۔ یہاں بے روزگاری اور معاشی نا ہمواری کو ختم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ لیول پر انڈسٹریل زون بناکر خصوصی مراعات دی جائیں جو سابقہ صوبہ سرحد کو دی گئی تھیں اور شاید اب تک جاری ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ (1)کھیت سردار کے ہیں اورکھیت مزدور سردارکا ووٹر، لیکن مل بن جائیںگی تو تبدیلی ہوجائے گی اور وہ ووٹ دیتے وقت قبائلی زنجیروں سے آزاد ہوگا۔ (2) بسیمہ خضدار رتو ڈیرو کا کام دو عشروں سے جان بوجھ کر نا مکمل ہے، یعنی ایک طرف موٹر وے، میٹرو اور یہاں لوگ بارہ فٹ چوڑی سڑک کو عرصے سے ترس رہے ہیں۔ (3) گوادر میں SEA FOOD (4) تربت میں کھجور پروسنگ (5) خاران میں اون کی ملیں (6) چاغی نوشکی میں سنگ مرمر اور تانبہ صاف کرنے کی ریفائنری۔ لگنی چاہیے۔
(7)قلات میں ایگریکلچر پروسیسنگ زون بنایا جائے تو چیری، آلو بخارا، زرد آلو، ہرے اور سیاہ شہتوت کی پروسیسنگ، انگورکو پالش اور پیکنگ کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ (8) خضدار، سبی، نصیر آباد میں کاٹن، جننگ فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔ (9) وڈھ، نال، لورا لائی میں ماربل انڈسٹری قائم ہوسکتی ہے۔ (
10) بیلہ، جھل مگسی، ہرنائی اور گنداواہ میں ٹماٹو کیچ اپ، آلو چپس، ویجیٹیبل انڈسٹری لگ سکتی ہے۔ (11) اوستہ محمد میں رائس مل اور لیدر انڈسٹریز بھی کامیاب ہوگی کیوں کہ بلوچستان کے علاوہ افغانستان سے بھی چمڑا یہاں آتا ہے۔ (12) بلوچستان پیکیج کے تحت ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر، یا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی سطح پر انڈسٹریل زون قائم کیا جائے۔ (13) ایران، عراق کے مقدس مقامات اور شام کے مقدس مقامات تک بذریعہ بس زائرین کراچی،گوادر، چاہ بہار بس سروس شروع کی جائے، اس طرح 8 سے دس گھنٹے میں لوگ ایران پہنچ جائیں گے۔کوئٹہ سے تافتان تک کا جان جوکھوں کا راستہ بہت مشکل ہے اور خطرناک بھی۔
(14) کراچی، گوادر، چاہ بہار روڈ مکمل ہے ایران چاہتا ہے یہاں بارڈر تجارت شروع ہو مگر سمجھ میں آتا ہے کہ جان بوجھ کر اس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ (15) چائنا پاکستان اقتصادی راہداری پر وفاق حسن ابدال سے ڈی آئی خان روڈ میں دلچسپی رکھتا ہے مگر بسیمہ، خضدار، رتو ڈیرو روڈ جو 250 کلو میٹر ہے اس پر توجہ نہیں ہے۔ (16) لیویز ایک سرداری ہتھیار ہے، سرکاری خرچ پر سرداروں کو ایک فوج ظفر موج عطا کردی جاتی ہے جسے وہ عوام پر تشدد کرنے اور دہشت قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسے پولیس کا B حصہ کہا جاتا ہے۔ پرویز مشرف نے یہ A اور B کا فرق ختم کرکے لیویز کو پولیس فورس میں ضم کردیا تھا اور وہ سرکار کے ملازم اور احکامات کے پابند تھے جو ان کو تنخواہ دیتی ہے اب سردار کو SP دو پولیس کانسٹیبل دیتا تھا جو سردار کی سرداری پر حرف تھا اور سردار تلملارہے تھے، چراغ پا تھے کیوں کہ ان سے ان کا مفت کا لشکر پرویز مشرف نے چھین لیا تھا۔ عوام پر ان کا دبدبہ ختم ہوچکا تھا۔
پرویز مشرف کے جاتے ہی سب کچھ حسب سابق کردیا گیا۔ اب پھر پولیس کے اختیارات شہری علاقوں تک محدود ہیں۔ لیویز سرداروں کی ذاتی فوج ہے جس کو تنخواہ حکومت پاکستان دیتی ہے اس طرح حکومت کی رٹ سرداروں کے علاقے میں ایسی ختم ہوئی ہے کہ عوام چیخ رہے ہیں کہ لیویز کو ختم کرکے پولیس کا دائرہ اختیارات عام علاقوں تک کیا جائے۔
ان کو سکون اور امن اور سرداروں سے امان دلوایا جائے، مگرکون سنتا ہے، ہر جگہ یہ میرا وہ تیرا کا اصول ہے، بلوچستان اپنے اور ملک کے ترقی کے اہداف کو تو بہت تیزی سے پورا کرسکتا ہے مگر یہ ہونے نہیں دیا جائے گا، وفاق میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنی ڈفلی اپنا راگ کھیل رہے ہیں۔ ملک کے عوام عام طور پر اور بلوچستان سندھ کے عوام خاص طور پر چیخ رہے ہیں مگر نہ صوبہ نہ مرکز کوئی عوام پر توجہ نہیں دے رہا۔ آصف زرداری کی حکومت پانچ سال پورے کروائی تھی فرینڈلی اپوزیشن نے اب ان کی حکومت ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی فرینڈلی اپوزیشن۔ یہ لوگ اپنے کھیل کھیلتے رہیں گے اپنے مفادات کو مکمل کرتے رہیں گے۔ خوبصورت بلوچستان کو توجہ نہیں دیں گے۔
ساری کہانی ہم نے ان کے سامنے رکھ دی ہے کیا ہوسکتا ہے یہ بھی بتادیا ہے۔ اب صرف سروے اور رپورٹ کا مرحلہ ہونا چاہیے اگر مرکز صوبہ بلوچستان کی ترقی چاہتا ہے تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ مرکزی حکومت کب پنجاب سے نکل کر سندھ بلوچستان کے حالات پر توجہ دے گی اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے جو قابل عمل ہے اسے قابل عمل بنائے گی ۔ وفاق کو تمام صوبوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے اور سارے صوبائی منصوبوں کو بھی مکمل کرانا چاہیے۔
پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ بلوچستان مادی وسائل سے مالا مال ہے اور جس صوبے کو محض ایک ویران خط زمین سمجھا جاتا ہے وہ سیاحت کا ایک بڑا مرکز بھی بن سکتا ہے، اپنے سیاحتی مقامات کی وجہ سے بلوچی شاعروں نے کوئٹہ کو بہار کا شہرکہا ہے اور مشہور نغمے میں میلے کو بھی کوئٹہ لے جانے اور سیرکروانے کا ذکر ہے۔ بلوچستان کی ثقافت، اس کا تمدن، تہذیب، بلوچی اور پشتو زبانوں میں داستانوں میں بیان کیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے بلند وبالا پہاڑ، چٹیل میدان، سرسبز وادیاں، صحرا اور سب سے حسین اس کا مرکز کوئٹہ جو سطح سمندر سے پانچ ہزار دو سو تریپن فٹ بلند ایک دلکش مقام ہے، اسے پاکستان کی پھلوں کی ٹوکری بھی کہا جاتا ہے۔ کوہ چلتن،کوہ مردار اور تکاتو کے درمیان یہ دلکش علاقہ جو آمد ورفت کے تمام طریقوں سے جہاں جہاں سے بھی گزر ہو حسین علاقوں پر مشتمل ہے، قلعہ میری یہاں کی تاریخ کا گواہ ہے۔
ہنہ اوڑک نام کی جھیلیں مشہور ہیں، جیسے بلوچی تحریم کے فوصل یہاں ملے، پورے پاکستان میں نہیں ہیں، قیمتی پتھر، معدنیات اور خصوصاً شہاب ثاقب یہاں ملتے ہیں، جنگلی حیات بہت خوبصورت اور پرندے بھی یہاں ہیں، ہزار گنجی نیشنل پارک کے ذریعے ان کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس کا ریل کا راستہ دلچسپ ترین ہے اور اس کی سرنگیں لوگوں کو مسحور کردیتی ہیں۔ شہر میں گہما گہمی ہے۔ دیہات میں زندگی کا اور رخ ہے۔ اس صوبے کے چاروں موسم لا جواب ہوتے ہیں، یہاں سونے سے لے کر ایسی دھاتوں کی کانیں ہیں جو اب تک شاید دریافت نہیں کی جاسکیں۔ سب کچھ ہے اور بہت کچھ ہے جو یہاں بیان کرنا مشکل ہے اس کے لیے ایک کتاب لکھنی پڑے گی ۔
یہاں کے عوام کے ساتھ سرداروں کے علاوہ مرکزی حکومت کا کیا سلوک ہے یہ کوئی لکھنے کی بات نہیں، اظہر من الشمس ہے، یہاں کے سردار دو طریقوں سے عوام کو بے وقوف بناتے اور ان پر سرداری قائم رکھتے ہیں۔ کبھی وفاق سے بے حد قربت یا پھر وفاق کی مخالفت اور اس میں عوام سرداروں کے ساتھ چل پڑتے ہیں، دونوں صورتوں میں فائدہ سرداروں کو ہی ہوتا ہے اور عوام وہاں ہی ہیں جہاں وہ آغاز میں تھے۔ بونے والے کو ''کاٹ'' کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے اگر وفاق کو یہاں کے عوام سے ہمدردی ہو اور وہ انھیں سرداری چنگل سے نجات دلانا چاہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے مگر حقیقتاً سوائے پرویز مشرف کے کسی نے ایسا کرنے پر توجہ نہ دی اور نہ دی جارہی ہے اور سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔
سردار جلاوطنی، خودساختہ میں بھی عیش کررہے ہیں، ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے'' جیسے وزیراعلیٰ ، سرداروں کا ایک کھلا روپ ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر کارندے جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک ایک ٹی وی انٹرویو میں بتاچکے ہیں کہ کسی منصوبے کے لیے مرکز نے فنڈ جاری نہیں کیے ہیں۔ زمینیں لوگوں سے آباد ہوتی ہیں اور اگر لوگوں کو ہی ایک اچھی زندگی میسر نہیں تو ترقی کیا خاک ہوگی، میں تو کڑھتا ہی رہتا تھا چار سال وہاں رہ کر وہاں کے حالات پر مگر میرے وہاں کے ایک دوست کریم رونجھا نے مجھے بہت بار کہا کہ کچھ یہاں کے بارے میں لکھتے تو اب ان کے حکم کے مطابق وہ چیزیں تحریر کر رہاہوں جو اس علاقے کے عوام کو آزادی کے ساتھ ساتھ خوشحالی بھی لاسکتی ہیں اور جس پر مرکز کو کچھ نہیں کرنا پڑے۔
وہ صوبے کا حصہ صوبے کو دیانت داری سے دے دے اور آسانیاں فراہم کردے کہ یہ صوبہ دنیا بھر سے معاہدے کرکے اس علاقے کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکے۔ اور عوام کا معیار زندگی بلند ہو، روزگار کے مواقعے ملیں، پاکستان کا عظیم علاقہ بن جائے۔ یہاں بے روزگاری اور معاشی نا ہمواری کو ختم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ لیول پر انڈسٹریل زون بناکر خصوصی مراعات دی جائیں جو سابقہ صوبہ سرحد کو دی گئی تھیں اور شاید اب تک جاری ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ (1)کھیت سردار کے ہیں اورکھیت مزدور سردارکا ووٹر، لیکن مل بن جائیںگی تو تبدیلی ہوجائے گی اور وہ ووٹ دیتے وقت قبائلی زنجیروں سے آزاد ہوگا۔ (2) بسیمہ خضدار رتو ڈیرو کا کام دو عشروں سے جان بوجھ کر نا مکمل ہے، یعنی ایک طرف موٹر وے، میٹرو اور یہاں لوگ بارہ فٹ چوڑی سڑک کو عرصے سے ترس رہے ہیں۔ (3) گوادر میں SEA FOOD (4) تربت میں کھجور پروسنگ (5) خاران میں اون کی ملیں (6) چاغی نوشکی میں سنگ مرمر اور تانبہ صاف کرنے کی ریفائنری۔ لگنی چاہیے۔
(7)قلات میں ایگریکلچر پروسیسنگ زون بنایا جائے تو چیری، آلو بخارا، زرد آلو، ہرے اور سیاہ شہتوت کی پروسیسنگ، انگورکو پالش اور پیکنگ کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ (8) خضدار، سبی، نصیر آباد میں کاٹن، جننگ فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔ (9) وڈھ، نال، لورا لائی میں ماربل انڈسٹری قائم ہوسکتی ہے۔ (
10) بیلہ، جھل مگسی، ہرنائی اور گنداواہ میں ٹماٹو کیچ اپ، آلو چپس، ویجیٹیبل انڈسٹری لگ سکتی ہے۔ (11) اوستہ محمد میں رائس مل اور لیدر انڈسٹریز بھی کامیاب ہوگی کیوں کہ بلوچستان کے علاوہ افغانستان سے بھی چمڑا یہاں آتا ہے۔ (12) بلوچستان پیکیج کے تحت ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر، یا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی سطح پر انڈسٹریل زون قائم کیا جائے۔ (13) ایران، عراق کے مقدس مقامات اور شام کے مقدس مقامات تک بذریعہ بس زائرین کراچی،گوادر، چاہ بہار بس سروس شروع کی جائے، اس طرح 8 سے دس گھنٹے میں لوگ ایران پہنچ جائیں گے۔کوئٹہ سے تافتان تک کا جان جوکھوں کا راستہ بہت مشکل ہے اور خطرناک بھی۔
(14) کراچی، گوادر، چاہ بہار روڈ مکمل ہے ایران چاہتا ہے یہاں بارڈر تجارت شروع ہو مگر سمجھ میں آتا ہے کہ جان بوجھ کر اس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ (15) چائنا پاکستان اقتصادی راہداری پر وفاق حسن ابدال سے ڈی آئی خان روڈ میں دلچسپی رکھتا ہے مگر بسیمہ، خضدار، رتو ڈیرو روڈ جو 250 کلو میٹر ہے اس پر توجہ نہیں ہے۔ (16) لیویز ایک سرداری ہتھیار ہے، سرکاری خرچ پر سرداروں کو ایک فوج ظفر موج عطا کردی جاتی ہے جسے وہ عوام پر تشدد کرنے اور دہشت قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسے پولیس کا B حصہ کہا جاتا ہے۔ پرویز مشرف نے یہ A اور B کا فرق ختم کرکے لیویز کو پولیس فورس میں ضم کردیا تھا اور وہ سرکار کے ملازم اور احکامات کے پابند تھے جو ان کو تنخواہ دیتی ہے اب سردار کو SP دو پولیس کانسٹیبل دیتا تھا جو سردار کی سرداری پر حرف تھا اور سردار تلملارہے تھے، چراغ پا تھے کیوں کہ ان سے ان کا مفت کا لشکر پرویز مشرف نے چھین لیا تھا۔ عوام پر ان کا دبدبہ ختم ہوچکا تھا۔
پرویز مشرف کے جاتے ہی سب کچھ حسب سابق کردیا گیا۔ اب پھر پولیس کے اختیارات شہری علاقوں تک محدود ہیں۔ لیویز سرداروں کی ذاتی فوج ہے جس کو تنخواہ حکومت پاکستان دیتی ہے اس طرح حکومت کی رٹ سرداروں کے علاقے میں ایسی ختم ہوئی ہے کہ عوام چیخ رہے ہیں کہ لیویز کو ختم کرکے پولیس کا دائرہ اختیارات عام علاقوں تک کیا جائے۔
ان کو سکون اور امن اور سرداروں سے امان دلوایا جائے، مگرکون سنتا ہے، ہر جگہ یہ میرا وہ تیرا کا اصول ہے، بلوچستان اپنے اور ملک کے ترقی کے اہداف کو تو بہت تیزی سے پورا کرسکتا ہے مگر یہ ہونے نہیں دیا جائے گا، وفاق میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنی ڈفلی اپنا راگ کھیل رہے ہیں۔ ملک کے عوام عام طور پر اور بلوچستان سندھ کے عوام خاص طور پر چیخ رہے ہیں مگر نہ صوبہ نہ مرکز کوئی عوام پر توجہ نہیں دے رہا۔ آصف زرداری کی حکومت پانچ سال پورے کروائی تھی فرینڈلی اپوزیشن نے اب ان کی حکومت ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی فرینڈلی اپوزیشن۔ یہ لوگ اپنے کھیل کھیلتے رہیں گے اپنے مفادات کو مکمل کرتے رہیں گے۔ خوبصورت بلوچستان کو توجہ نہیں دیں گے۔
ساری کہانی ہم نے ان کے سامنے رکھ دی ہے کیا ہوسکتا ہے یہ بھی بتادیا ہے۔ اب صرف سروے اور رپورٹ کا مرحلہ ہونا چاہیے اگر مرکز صوبہ بلوچستان کی ترقی چاہتا ہے تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ مرکزی حکومت کب پنجاب سے نکل کر سندھ بلوچستان کے حالات پر توجہ دے گی اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے جو قابل عمل ہے اسے قابل عمل بنائے گی ۔ وفاق کو تمام صوبوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے اور سارے صوبائی منصوبوں کو بھی مکمل کرانا چاہیے۔