جو بن کھلے مرجھا گئے
راقم کا بیٹا محمد فاخر بی ای فائنل کا طالب علم تھا
راقم کا بیٹا محمد فاخر بی ای فائنل کا طالب علم تھا۔ عید سے دو دن قبل اپنے ایک دوست کے ہمراہ یونیورسٹی سے واپس آ رہا تھا، ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اندرون سڑک پر سفر کر رہا تھا جہاں ٹریفک بہت کم تھا کہ ایک غیر لائسنس اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیور نے اچانک تیز رفتاری سے اوور ٹیک کرتے ہوئے اپنی ہائی روف اس کی موٹر سائیکل سے ٹکرا دی۔
جس سے بظاہر تو اس کی ٹانگ ٹوٹی لیکن جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اس کا دماغ اور پھیپھڑے بھی متاثر ہوئے، حادثے کے 10 گھنٹے بعد اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور دو ہفتے وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد وہ راہی ملک عدم ہو گیا۔ ذہین، کم گو، فرمابردار اور سعادت مند فاخر صرف اپنے لواحقین کو ہی نہیں بلکہ پڑوسیوں، دوستوں اور یونیورسٹی اساتذہ کو بھی اشک بار کر گیا، جس کے تعزیتی پیغام میں وائس چانسلر نے کہا کہ فاخر ذہین، نرم خو اور آؤٹ اسٹینڈنگ طالب علم تھا۔
"He was proud to be a rising star and hero of the University by way of his educational studies of conduct."
فاخر کا حادثہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، اس قسم کے حادثات عام ہیں جن میں ملک و قوم کے مستقبل کے معمار خاک کی خوراک بنا دیے جاتے ہیں۔
کسی ملک کی ٹریفک دیکھ کر اس کے عوام کے مزاج اور مہذبیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اس لحاظ سے ہمارا شمار غیر مہذب اور قانون شکن قوم میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے ارباب اقتدار و اختیار غریب عوام کے پیسے پر دنیا کی ہر نعمت، آسائشات و تعیشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جن کا دنیا کے دوسرے ممالک میں تصور بھی محال ہے۔ لیکن عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، جو پہلے حاصل تھیں وہ بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
صحت، تعلیم، انصاف اور ٹرانسپورٹ کا نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ ہر خاص و عام کو روزمرہ پیش آنے والا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ نظام کا ہے جس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے خصوصاً کراچی میں تو ٹریفک کا نظام عوام کے لیے جان لیوا بن چکا ہے، جہاں ٹریفک کا کوئی اصول ہے نہ ضابطہ نہ ہی کوئی اخلاقیات دکھائی دیتی ہے۔ ٹریفک پولیس ٹریفک کا اژدھام اور ڈرائیوروں کا رویہ دیکھ کر ہمت ہار بیٹھی ہے۔ اس کی بڑی تعداد وی آئی پی پروٹوکول اور سیاسی، سماجی اور مذہبی اجتماعات کی ذمے داریوں میں مصروف نظر آتی ہے۔
سندھ میں وزارت ٹرانسپورٹ قائم ہے جو ٹرانسپورٹرز کے زیر تسلط نظر آتی ہے، محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی نااہلی و مجرمانہ غفلت نے ٹریفک نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لیے صرف 4 ہزار خستہ حال بسیں اور منی بسیں ہیں، ایک لاکھ کے قریب چنگ چی رکشا ہیں جنھیں غیر تربیت یافتہ، کم عمر اور نشئی افراد چلاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صرف کراچی شہر میں چنگ چی رکشاؤں سے روزانہ 50 لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔ لاہور میں لاکھ سے زائد جب کہ پنجاب میں چنگ چی رکشاؤں کی تعداد 25 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، جہاں وزارت ٹرانسپورٹ کا بھی وجود نہیں ہے۔ 90 فیصد حادثات بھی موٹر سائیکلوں اور چنگ چی رکشاؤں سے ہوتے ہیں جن میں 60 فیصد اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے تو چنگ چی رکشاؤں کے خلاف ایکشن لے کر ان کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دیگر صوبوں میں ایسی کوئی عدالتی قدغن بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اصول و قانون ڈرائیوروں اور متعلقہ محکموں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
کراچی میں NED یونیورسٹی نے پیشہ ورانہ آلات اور ماہرین کے ساتھ دو سالہ تحقیق Research on Traffic Congestion میں انکشاف کیا تھا کہ شہر میں ٹریفک جام سے ہر کلو میٹر پر اوسطاً 5 لاکھ 10 ہزار کا نقصان ہوتا ہے جس کا سالانہ تخمینہ 200 ارب روپے ہے جو آیندہ 5 سال میں 400 ارب سالانہ تک پہنچ جائے گا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ ٹریفک جام سے سانس، دل اور جلد کے امراض اور اموات واقع ہو رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں سالانہ 3 ہزار سے زائد بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں، اتنی ہی تعداد ہلاکتوں کی ہوتی ہے جب کہ زخمی و معذور ہو جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
خود ڈی آئی جی ٹریفک نے حکومت کو خطوط ارسال کیے ہیں کہ اگر حکومتی سطح پر ہنگامی نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو آیندہ دو تین برسوں میں فٹ پاتھوں پر کاریں چلیں گی اور شہر میں امن و امان کے شدید ترین مسائل درپیش ہوں گے۔ ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق کراچی میں ماہانہ 20 ہزار گاڑیوں کا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ آیندہ 15 سال میں کراچی دنیا کا بڑا شہر ہو گا۔
اس صورتحال کے تناظر میں مستقبل کا تصور ہی دل دہلانے والا ہے مگر ارباب اقتدار اور اختیار کی اس جانب کوئی توجہ نظر نہیں آتی، ان کے لیے تو ایکسپریس وے، بائی پاسز، سگنل فری کوریڈور اور پروٹوکول جیسی سہولیات موجود ہیں۔ البتہ عوام پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے رکشاؤں اور ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر حالت میں سفر کرنے پر مجبور ہیں، جنھیں اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کئی کئی رکشا تبدیل کرنے اور ان کے کرایوں پر بڑی رقم خرچ کرنے کے علاوہ وقت بھی ضایع کرنا پڑتا ہے۔
ٹریفک جام کے دوران کھلی لوٹ مار کے واقعات بھی عام ہیں جس کی وجہ سے موٹرسائیکل سواری کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جس میں وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہے جن کی وجہ سے حادثات کی شرح میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ اپنے کئی کئی بچوں، بیوی اور سامان کے ساتھ موٹرسائیکل کا سفر کرنے پر مجبور ہیں جن کو دیکھ کر دکھ اور خوف کا احساس ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی موٹرسائیکلوں، رکشاؤں اور سوزوکیوں میں بڑا بڑا سامان لاد کر سفر کرنے کے رجحان نے دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرات سے دوچار اور ٹریفک کو متاثر کیا ہوا ہے۔ موٹرسائیکل سوار خودکش بمبار اور دیگر ٹریفک ڈرونز کی طرح سفر کرتے ہیں جن کی وجہ سے حادثات کے علاوہ شہریوں میں ذہنی خوف، جذباتی ہیجان اور نفسیاتی دباؤ اور دیگر عوارض بڑھ رہے ہیں۔
خونی ٹینکر، ڈمپر اور ٹرالرز وغیرہ شروع دن سے ہی شہریوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں، ہیوی ٹرانسپورٹ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں بڑی تعداد ڈرگ مافیا، پولیس، کالادھن اور سیاسی وابستگی رکھنے والے جرائم پیشہ عناصر کی ہے جنھوں نے ڈرائیوروں کو کھلی چھٹی بلکہ ہدایات دی ہوئی ہیں کہ ٹریفک قوانین اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور کسی حادثے کی صورت میں وہ جائے حادثہ سے فرار ہونے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں، چاہے اس کے لیے مزید جانیں اور املاک تباہ کرنا پڑیں، اسی وجہ سے سیکڑوں ہلاکتیں نامعلوم گاڑیوں سے ہوتی ہیں، اگر ڈرائیور گرفتار ہو جائیں تو فوری ضمانتیں ہو جاتی ہیں، پولیس، سرکاری وکلا، عدالتی عمل کی آؤ بھگت و خاطر مدارات کی جاتی ہیں۔
لوگ مقدمات نہیں کرتے، کرتے ہیں تو گواہ نہیں ملتے، یا انھیں خوفزدہ کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ عدالتوں کے چکر کاٹ کر تنگ آ جاتے ہیں، استغاثہ کی خامیوں کا فائدہ بھی مجرم ڈرائیوروں کو پہنچتا ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان اور ان کی انجمنیں ڈرائیوروں کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کرتی ہیں، جن کے پینل پر وکیل، گواہ، بدمعاش، پولیس اہلکار اور بہت کچھ ایک ٹیلی فون کال کے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔
اکثر لواحقین حادثے کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں کہ مرنے والے کی اتنی ہی زندگی تھی، اس کی زندگی تو واپس نہیں لائی جا سکتی لہٰذا سزا دلوا کر، قصاص ودیت لے کر کیا کریں گے، وہ پیش کش کی صورت میں بھی مرنے والے کے خون کا معاوضہ لینا گوارا نہیں کرتے، حالانکہ قصاص و دیت اللہ کے نافذ کردہ قوانین ہیں۔
آج کل کے ملکی حالات میں عبرت عام، اصلاح اور دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی وقتی ضرورت ہے کہ قصاص و دیت اور سزا کے معاملے میں کسی توقف سے کام نہ لیا جائے۔ پولیو کے چند کیسز سامنے آنے پر تو حکومت ملک کے چپے چپے اور دور دراز علاقوں تک جنگی بنیادوں پر سرگرم عمل ہو جاتی ہے۔
جس میں پولیس والوں، ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کی ہلاکتوں کے باوجود یہ عمل جاری رکھا جاتا ہے۔ لیکن ٹریفک حادثات میں لاکھوں زندگیاں تلف اور اپاہج ہو جانے پر حکومت کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی جن کی بڑی وجہ ڈرائیوروں کی غفلت و غیر تربیت یافتہ ہونا، ٹریفک نظام کی خرابی اور حکومتی بے حسی ہے۔ ان حالات میں دانشوروں، صحافیوں اور علما کرام پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لوگوں میں اپنی ذمے داریوں کا احساس بیدار کریں، ان میں قانونی و شرعی آگہی پیدا کریں اس کے دنیاوی اور اخروی نقصانات سے آگاہ کریں۔
جس سے بظاہر تو اس کی ٹانگ ٹوٹی لیکن جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اس کا دماغ اور پھیپھڑے بھی متاثر ہوئے، حادثے کے 10 گھنٹے بعد اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور دو ہفتے وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد وہ راہی ملک عدم ہو گیا۔ ذہین، کم گو، فرمابردار اور سعادت مند فاخر صرف اپنے لواحقین کو ہی نہیں بلکہ پڑوسیوں، دوستوں اور یونیورسٹی اساتذہ کو بھی اشک بار کر گیا، جس کے تعزیتی پیغام میں وائس چانسلر نے کہا کہ فاخر ذہین، نرم خو اور آؤٹ اسٹینڈنگ طالب علم تھا۔
"He was proud to be a rising star and hero of the University by way of his educational studies of conduct."
فاخر کا حادثہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، اس قسم کے حادثات عام ہیں جن میں ملک و قوم کے مستقبل کے معمار خاک کی خوراک بنا دیے جاتے ہیں۔
کسی ملک کی ٹریفک دیکھ کر اس کے عوام کے مزاج اور مہذبیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اس لحاظ سے ہمارا شمار غیر مہذب اور قانون شکن قوم میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے ارباب اقتدار و اختیار غریب عوام کے پیسے پر دنیا کی ہر نعمت، آسائشات و تعیشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جن کا دنیا کے دوسرے ممالک میں تصور بھی محال ہے۔ لیکن عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، جو پہلے حاصل تھیں وہ بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
صحت، تعلیم، انصاف اور ٹرانسپورٹ کا نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ ہر خاص و عام کو روزمرہ پیش آنے والا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ نظام کا ہے جس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے خصوصاً کراچی میں تو ٹریفک کا نظام عوام کے لیے جان لیوا بن چکا ہے، جہاں ٹریفک کا کوئی اصول ہے نہ ضابطہ نہ ہی کوئی اخلاقیات دکھائی دیتی ہے۔ ٹریفک پولیس ٹریفک کا اژدھام اور ڈرائیوروں کا رویہ دیکھ کر ہمت ہار بیٹھی ہے۔ اس کی بڑی تعداد وی آئی پی پروٹوکول اور سیاسی، سماجی اور مذہبی اجتماعات کی ذمے داریوں میں مصروف نظر آتی ہے۔
سندھ میں وزارت ٹرانسپورٹ قائم ہے جو ٹرانسپورٹرز کے زیر تسلط نظر آتی ہے، محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی نااہلی و مجرمانہ غفلت نے ٹریفک نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لیے صرف 4 ہزار خستہ حال بسیں اور منی بسیں ہیں، ایک لاکھ کے قریب چنگ چی رکشا ہیں جنھیں غیر تربیت یافتہ، کم عمر اور نشئی افراد چلاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صرف کراچی شہر میں چنگ چی رکشاؤں سے روزانہ 50 لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔ لاہور میں لاکھ سے زائد جب کہ پنجاب میں چنگ چی رکشاؤں کی تعداد 25 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، جہاں وزارت ٹرانسپورٹ کا بھی وجود نہیں ہے۔ 90 فیصد حادثات بھی موٹر سائیکلوں اور چنگ چی رکشاؤں سے ہوتے ہیں جن میں 60 فیصد اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے تو چنگ چی رکشاؤں کے خلاف ایکشن لے کر ان کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دیگر صوبوں میں ایسی کوئی عدالتی قدغن بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اصول و قانون ڈرائیوروں اور متعلقہ محکموں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
کراچی میں NED یونیورسٹی نے پیشہ ورانہ آلات اور ماہرین کے ساتھ دو سالہ تحقیق Research on Traffic Congestion میں انکشاف کیا تھا کہ شہر میں ٹریفک جام سے ہر کلو میٹر پر اوسطاً 5 لاکھ 10 ہزار کا نقصان ہوتا ہے جس کا سالانہ تخمینہ 200 ارب روپے ہے جو آیندہ 5 سال میں 400 ارب سالانہ تک پہنچ جائے گا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ ٹریفک جام سے سانس، دل اور جلد کے امراض اور اموات واقع ہو رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں سالانہ 3 ہزار سے زائد بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں، اتنی ہی تعداد ہلاکتوں کی ہوتی ہے جب کہ زخمی و معذور ہو جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
خود ڈی آئی جی ٹریفک نے حکومت کو خطوط ارسال کیے ہیں کہ اگر حکومتی سطح پر ہنگامی نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو آیندہ دو تین برسوں میں فٹ پاتھوں پر کاریں چلیں گی اور شہر میں امن و امان کے شدید ترین مسائل درپیش ہوں گے۔ ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق کراچی میں ماہانہ 20 ہزار گاڑیوں کا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ آیندہ 15 سال میں کراچی دنیا کا بڑا شہر ہو گا۔
اس صورتحال کے تناظر میں مستقبل کا تصور ہی دل دہلانے والا ہے مگر ارباب اقتدار اور اختیار کی اس جانب کوئی توجہ نظر نہیں آتی، ان کے لیے تو ایکسپریس وے، بائی پاسز، سگنل فری کوریڈور اور پروٹوکول جیسی سہولیات موجود ہیں۔ البتہ عوام پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے رکشاؤں اور ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر حالت میں سفر کرنے پر مجبور ہیں، جنھیں اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کئی کئی رکشا تبدیل کرنے اور ان کے کرایوں پر بڑی رقم خرچ کرنے کے علاوہ وقت بھی ضایع کرنا پڑتا ہے۔
ٹریفک جام کے دوران کھلی لوٹ مار کے واقعات بھی عام ہیں جس کی وجہ سے موٹرسائیکل سواری کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جس میں وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہے جن کی وجہ سے حادثات کی شرح میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ اپنے کئی کئی بچوں، بیوی اور سامان کے ساتھ موٹرسائیکل کا سفر کرنے پر مجبور ہیں جن کو دیکھ کر دکھ اور خوف کا احساس ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی موٹرسائیکلوں، رکشاؤں اور سوزوکیوں میں بڑا بڑا سامان لاد کر سفر کرنے کے رجحان نے دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرات سے دوچار اور ٹریفک کو متاثر کیا ہوا ہے۔ موٹرسائیکل سوار خودکش بمبار اور دیگر ٹریفک ڈرونز کی طرح سفر کرتے ہیں جن کی وجہ سے حادثات کے علاوہ شہریوں میں ذہنی خوف، جذباتی ہیجان اور نفسیاتی دباؤ اور دیگر عوارض بڑھ رہے ہیں۔
خونی ٹینکر، ڈمپر اور ٹرالرز وغیرہ شروع دن سے ہی شہریوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں، ہیوی ٹرانسپورٹ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں بڑی تعداد ڈرگ مافیا، پولیس، کالادھن اور سیاسی وابستگی رکھنے والے جرائم پیشہ عناصر کی ہے جنھوں نے ڈرائیوروں کو کھلی چھٹی بلکہ ہدایات دی ہوئی ہیں کہ ٹریفک قوانین اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور کسی حادثے کی صورت میں وہ جائے حادثہ سے فرار ہونے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں، چاہے اس کے لیے مزید جانیں اور املاک تباہ کرنا پڑیں، اسی وجہ سے سیکڑوں ہلاکتیں نامعلوم گاڑیوں سے ہوتی ہیں، اگر ڈرائیور گرفتار ہو جائیں تو فوری ضمانتیں ہو جاتی ہیں، پولیس، سرکاری وکلا، عدالتی عمل کی آؤ بھگت و خاطر مدارات کی جاتی ہیں۔
لوگ مقدمات نہیں کرتے، کرتے ہیں تو گواہ نہیں ملتے، یا انھیں خوفزدہ کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ عدالتوں کے چکر کاٹ کر تنگ آ جاتے ہیں، استغاثہ کی خامیوں کا فائدہ بھی مجرم ڈرائیوروں کو پہنچتا ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان اور ان کی انجمنیں ڈرائیوروں کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کرتی ہیں، جن کے پینل پر وکیل، گواہ، بدمعاش، پولیس اہلکار اور بہت کچھ ایک ٹیلی فون کال کے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔
اکثر لواحقین حادثے کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں کہ مرنے والے کی اتنی ہی زندگی تھی، اس کی زندگی تو واپس نہیں لائی جا سکتی لہٰذا سزا دلوا کر، قصاص ودیت لے کر کیا کریں گے، وہ پیش کش کی صورت میں بھی مرنے والے کے خون کا معاوضہ لینا گوارا نہیں کرتے، حالانکہ قصاص و دیت اللہ کے نافذ کردہ قوانین ہیں۔
آج کل کے ملکی حالات میں عبرت عام، اصلاح اور دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی وقتی ضرورت ہے کہ قصاص و دیت اور سزا کے معاملے میں کسی توقف سے کام نہ لیا جائے۔ پولیو کے چند کیسز سامنے آنے پر تو حکومت ملک کے چپے چپے اور دور دراز علاقوں تک جنگی بنیادوں پر سرگرم عمل ہو جاتی ہے۔
جس میں پولیس والوں، ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کی ہلاکتوں کے باوجود یہ عمل جاری رکھا جاتا ہے۔ لیکن ٹریفک حادثات میں لاکھوں زندگیاں تلف اور اپاہج ہو جانے پر حکومت کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی جن کی بڑی وجہ ڈرائیوروں کی غفلت و غیر تربیت یافتہ ہونا، ٹریفک نظام کی خرابی اور حکومتی بے حسی ہے۔ ان حالات میں دانشوروں، صحافیوں اور علما کرام پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لوگوں میں اپنی ذمے داریوں کا احساس بیدار کریں، ان میں قانونی و شرعی آگہی پیدا کریں اس کے دنیاوی اور اخروی نقصانات سے آگاہ کریں۔