اور بنتے طرم خان ہیں
شاکیہ منی (بدھا) ایک نوجوان اور خوش باش شہزادہ تھا جس سے بیماری، بڑھاپا اور موت خفیہ رکھے گئے تھے۔
شاکیہ منی (بدھا) ایک نوجوان اور خوش باش شہزادہ تھا جس سے بیماری، بڑھاپا اور موت خفیہ رکھے گئے تھے۔ ایک دن وہ بغرض تفریح اپنے محل سے باہر نکلا تو اس نے ایک بھیانک اور معذور بوڑھا دیکھا جس کے سب دانت گر چکے تھے۔ شہزادہ جو اب تک بڑھاپے کی ہولناکیوں سے ناآشنا تھا، یہ منظر دیکھ کر دہل گیا اور اس نے بگھی چلانے والے سے پوچھا کہ یہ بدصورت، بے حال اور قابل رحم شخص کون ہے اور اس حالت کو کیونکر پہنچا ہے۔
جب شہزادے کو پتہ چلا کہ یہ حالت تو تمام نو ع انسان کی مشترکہ تقدیر ہے تو وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور بگھی والے کو واپس مڑنے کے لیے کہا کیونکہ وہ اس صورتحال پر غور و خوض کرنا چاہتا تھا۔ محل واپس پہنچ کر اس نے خود کو ایک تنہا کمرے میں بند کر لیا اور معاملے پر سوچ بچار کرتا رہا۔ شاید اسے قرار آ گیا کیونکہ وہ اسی طرح سے خوش باش ہو کر دوبارہ تفریح کے لیے نکلا۔ اس مرتبہ اس نے ایک بیمار شخص کو دیکھ لیا جس کی آنکھوں کی روشنی کم ہو رہی تھی اور کانپنے کے ساتھ ساتھ اس کی رنگت نیلی پڑتی جا رہی تھی۔
شہزادہ جو بیماری کی حقیقت سے اب تک بے خبر تھا، یہ جان کر دہشت زدہ ہو گیا کہ ہر انسان بیمار پڑ سکتا ہے اور وہ جو آج ایک تندرست و توانا جوان ہے، کل خود بھی اس کیفیت سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کی خوشی اور بشاشت دوبارہ جاتی رہی اور اس نے ایک مرتبہ پھر گھر واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، جہاں پہنچ کر وہ پھر سے عزلت گزین ہو گیا۔ تیسری مرتبہ پھر اس نے گھر سے نکلنے کی ہمت کی لیکن اس بار اس کا واسطہ کچھ روتے اور بین کرتے ہوئے لوگوں سے پڑ گیا۔
یہ کیا ہے؟ اس نے بے ساختہ پوچھا ''ایک مردہ انسان'' جواب ملا۔ ''مردہ کیا ہوتا ہے؟'' شہزادے نے پھر سے پوچھا۔ اسے بتایا گیا کہ مردہ وہی ہوتا ہے جسے وہ دیکھ رہا ہے۔ شہزادہ آگے بڑھا، مردے کا کفن سرکایا اور اس کا چہرہ دیکھ کر بولا، اب اس کا کیا ہو گا؟ جنازے کے شرکا نے اسے بتایا کہ اسے زمین کے اندر بہت گہرائی میں دبا دیا جائے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اب یہ دوبارہ کبھی زندہ نہیں ہو گا اور اگر اسے دفن نہ کیا گیا تو اس میں سڑاند اور کیڑے پیدا ہو جائیں گے۔
''کیا یہی سب انسانوں کی تقدیر ہے، کیا میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا، کیا میں بھی زمین میں گاڑ دیا جاؤں گا، کیا میرا جسم بھی اسی طرح بدبو پیدا کرے گا اور حشرات الارض کی خوراک بن جائے گا؟'' ہاں۔ یہ جواب سنتے ہی شہزادہ چیخ اٹھا، واپس چلو، فوراً واپس چلو۔ میں سیر پر نہیں جانا چاہتا، آیندہ میں کبھی سیر کے لیے نہیں نکلوں گا۔
آئیں دنیا کی چند عظیم شخصیات کے آخری احساسات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں، سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں مگر جب آخری وقت آیا تو اس نے کہا میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مجھ کو فتح کر لیا، افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہو سکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔
نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے، مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں، انسان کی زندگی اگر یہ ہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقیناً انسانی زندگی ایک بے معنی چیز ہے کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا مگر آخری عمر میں اس نے کہا، میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوشش کی پھر بھی میں غم غلط نہ کر سکا، میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گزاری ہے، زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکری کے ساتھ گزارا ہو۔ خلیفہ منصور عباسی کی موت کا جب وقت آیا تو اس نے کہا اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا، حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے مگر یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لے لیا۔
یہ آخری احساسات ان شخصیات کے ہیں جنھوں نے تاریخ بدل ڈالی، جو تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں، جنھوں نے اپنی ساری زندگی انتہائی عیش و عشرت کے ساتھ گزاری اور جو بڑی بڑی سلطنتوں کے اکلوتے مالک تھے اور دوسر ی طرف ہمار ی ایلیٹ کلاس جو ان کے مقابلے میں خاک کے برابر بھی نہیں ہیں، اگر ان کے ناز و ادائیں، نخرے، غرور اور اکڑ کو دیکھیں تو آپ کو اپنے آپ سے شر مندہ ہو جانا پڑ جاتا ہے۔
اصل میں وہ سب خوامخوا ہیں، ہیں کچھ بھی نہیں اور بنتے طرم خان ہیں اور طرم خان بھی وہ جن کا کوئی ثانی نہیں، سمجھے بیٹھے ہیں کہ زمین و آسمان کے سارے معاملات وہ ہی چلا رہے ہیں، زمین کی ساری آسائشیں سارے آرام، ساری عیش و عشرت بس صرف ان ہی کے لیے ہے، وہ پیدا ہی صرف مزے کرنے اور باقی سب کو سزا دینے کے لیے ہوئے ہیں، وہ زمین و آسمان میں ہر احتساب سے مبرا ہیں اور انھیں روپے، پیسے، ہیرے جواہرات، ملیں، محل، اور جاگیریں اپنے ساتھ اوپر لے جانے کا خصوصی اجازت نامہ مل چکا ہے۔ یاد رہے ہیرے جواہرات اور پیسے کی ہوس، اکڑ، غرور، مصنوعی شان و شوکت، ناز و ادا، نخرے یہ سب کے سب اصل میں ڈپریشن کی نشانیاں ہیں، یہ علامتیں آپ کو کبھی بھی نارمل انسان میں دکھائی نہیں دیں گی۔
ایسے تمام افراد اصل میں رحم، محبت، توجہ اور ہمدردی کے لائق ہیں، آپ بلاوجہ ان پر غصے ہوتے رہتے ہیں۔ بیمار آدمی پر کبھی غصہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی مدد کی جاتی ہے۔ کیا آپ ان کی آنکھوں میں جھانک کر نہیں دیکھتے ہو کہ وہ تمہیں اپنی مدد کے لیے پکار رہے ہیں، کیا تمہیں ان کی پکار سنائی نہیں دیتی، کیا تمہیں ان کی درخواست دکھائی نہیں دیتی ہے کہ خدارا ہماری مدد کرو، ہمیں اس عذاب سے نجات دلوا دو۔ یہ سب بھی اتنے ہی معصوم ہیں جتنے تم ہو، بس یہ سب اذیت میں مبتلا ہیں، سزاؤں میں گرفتا ر ہیں، انھیں رہائی کی ضرورت ہے، آزادی کی ضرورت ہے۔
ہمیں ان کی آنکھوں میں چھپی بے بسی، اذیت کو دیکھنے اور محسو س کرنے کی ضرورت ہے، انھیں دماغ کی نظر سے نہیں بلکہ دل کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ ہمارے ہی جسم کا حصہ ہیں، اگر جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے تو اسے کاٹ کر پھینک نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس کا علاج کیا جاتا ہے، اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اندھیروں میں بھٹکنا اور سیدھی راہ پر نہ آنا بھی ایک سزا ہے۔
کہتے ہیں اگر انسان مسلسل گناہ کرتا رہے تو سمجھ لیں کہ وہ اس کے پچھلے گناہوں کی سزا ہے۔ یاد رکھیں گناہ کرتے رہنا ایک سزا ہے جس طرح نیکیاں نسل در نسل چلتی ہیں، اسی طرح گناہ بھی نسل در نسل چلتے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ گناہ گار اندر سے اتنے ہی کمزور، ڈرپوک، بزدل، ڈرے اور سہمے ہوئے ہوتے ہیں، جتنا ہمارے سماج میں کوئی کمزور آدمی ہوتا ہے، برا انسان نہ ہونا اور نارمل انسان ہونا دونوں نیکی ہیں۔
ہاں یہ سچ ہے کہ ہم سب ان کی مدد کے لیے تیار ہیں، ہاں انھیں اس اذیت، اس تکلیف سے نکالنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اس سے پہلے انھیں ہم سے وعدہ کرنا ہو گا کہ آیندہ کبھی وہ کمزوروں کو نہ ستائیں گے، کبھی حقداروں کا حق نہ ماریں گے، کبھی کرپشن اور لوٹ مار نہیں کریں گے، کبھی ریا کاری و مکاری نہیں کریں گے، کبھی روپوں پیسوں کے ڈھیر جمع نہیں کریں گے، کبھی جھوٹی، دوغلی اور مصنوعی زندگی نہیں گزاریں گے، اگر وہ وعدہ کرتے ہیں ہو تو پھر ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ انھیں اس تکلیف اور اذیت سے نجات دلوانے میں ان کی مدد کریں گے۔
جب شہزادے کو پتہ چلا کہ یہ حالت تو تمام نو ع انسان کی مشترکہ تقدیر ہے تو وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور بگھی والے کو واپس مڑنے کے لیے کہا کیونکہ وہ اس صورتحال پر غور و خوض کرنا چاہتا تھا۔ محل واپس پہنچ کر اس نے خود کو ایک تنہا کمرے میں بند کر لیا اور معاملے پر سوچ بچار کرتا رہا۔ شاید اسے قرار آ گیا کیونکہ وہ اسی طرح سے خوش باش ہو کر دوبارہ تفریح کے لیے نکلا۔ اس مرتبہ اس نے ایک بیمار شخص کو دیکھ لیا جس کی آنکھوں کی روشنی کم ہو رہی تھی اور کانپنے کے ساتھ ساتھ اس کی رنگت نیلی پڑتی جا رہی تھی۔
شہزادہ جو بیماری کی حقیقت سے اب تک بے خبر تھا، یہ جان کر دہشت زدہ ہو گیا کہ ہر انسان بیمار پڑ سکتا ہے اور وہ جو آج ایک تندرست و توانا جوان ہے، کل خود بھی اس کیفیت سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کی خوشی اور بشاشت دوبارہ جاتی رہی اور اس نے ایک مرتبہ پھر گھر واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، جہاں پہنچ کر وہ پھر سے عزلت گزین ہو گیا۔ تیسری مرتبہ پھر اس نے گھر سے نکلنے کی ہمت کی لیکن اس بار اس کا واسطہ کچھ روتے اور بین کرتے ہوئے لوگوں سے پڑ گیا۔
یہ کیا ہے؟ اس نے بے ساختہ پوچھا ''ایک مردہ انسان'' جواب ملا۔ ''مردہ کیا ہوتا ہے؟'' شہزادے نے پھر سے پوچھا۔ اسے بتایا گیا کہ مردہ وہی ہوتا ہے جسے وہ دیکھ رہا ہے۔ شہزادہ آگے بڑھا، مردے کا کفن سرکایا اور اس کا چہرہ دیکھ کر بولا، اب اس کا کیا ہو گا؟ جنازے کے شرکا نے اسے بتایا کہ اسے زمین کے اندر بہت گہرائی میں دبا دیا جائے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اب یہ دوبارہ کبھی زندہ نہیں ہو گا اور اگر اسے دفن نہ کیا گیا تو اس میں سڑاند اور کیڑے پیدا ہو جائیں گے۔
''کیا یہی سب انسانوں کی تقدیر ہے، کیا میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا، کیا میں بھی زمین میں گاڑ دیا جاؤں گا، کیا میرا جسم بھی اسی طرح بدبو پیدا کرے گا اور حشرات الارض کی خوراک بن جائے گا؟'' ہاں۔ یہ جواب سنتے ہی شہزادہ چیخ اٹھا، واپس چلو، فوراً واپس چلو۔ میں سیر پر نہیں جانا چاہتا، آیندہ میں کبھی سیر کے لیے نہیں نکلوں گا۔
آئیں دنیا کی چند عظیم شخصیات کے آخری احساسات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں، سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں مگر جب آخری وقت آیا تو اس نے کہا میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر موت نے مجھ کو فتح کر لیا، افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہو سکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔
نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے، مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں، انسان کی زندگی اگر یہ ہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقیناً انسانی زندگی ایک بے معنی چیز ہے کیونکہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا مگر آخری عمر میں اس نے کہا، میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوشش کی پھر بھی میں غم غلط نہ کر سکا، میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گزاری ہے، زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکری کے ساتھ گزارا ہو۔ خلیفہ منصور عباسی کی موت کا جب وقت آیا تو اس نے کہا اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا، حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے مگر یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لے لیا۔
یہ آخری احساسات ان شخصیات کے ہیں جنھوں نے تاریخ بدل ڈالی، جو تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں، جنھوں نے اپنی ساری زندگی انتہائی عیش و عشرت کے ساتھ گزاری اور جو بڑی بڑی سلطنتوں کے اکلوتے مالک تھے اور دوسر ی طرف ہمار ی ایلیٹ کلاس جو ان کے مقابلے میں خاک کے برابر بھی نہیں ہیں، اگر ان کے ناز و ادائیں، نخرے، غرور اور اکڑ کو دیکھیں تو آپ کو اپنے آپ سے شر مندہ ہو جانا پڑ جاتا ہے۔
اصل میں وہ سب خوامخوا ہیں، ہیں کچھ بھی نہیں اور بنتے طرم خان ہیں اور طرم خان بھی وہ جن کا کوئی ثانی نہیں، سمجھے بیٹھے ہیں کہ زمین و آسمان کے سارے معاملات وہ ہی چلا رہے ہیں، زمین کی ساری آسائشیں سارے آرام، ساری عیش و عشرت بس صرف ان ہی کے لیے ہے، وہ پیدا ہی صرف مزے کرنے اور باقی سب کو سزا دینے کے لیے ہوئے ہیں، وہ زمین و آسمان میں ہر احتساب سے مبرا ہیں اور انھیں روپے، پیسے، ہیرے جواہرات، ملیں، محل، اور جاگیریں اپنے ساتھ اوپر لے جانے کا خصوصی اجازت نامہ مل چکا ہے۔ یاد رہے ہیرے جواہرات اور پیسے کی ہوس، اکڑ، غرور، مصنوعی شان و شوکت، ناز و ادا، نخرے یہ سب کے سب اصل میں ڈپریشن کی نشانیاں ہیں، یہ علامتیں آپ کو کبھی بھی نارمل انسان میں دکھائی نہیں دیں گی۔
ایسے تمام افراد اصل میں رحم، محبت، توجہ اور ہمدردی کے لائق ہیں، آپ بلاوجہ ان پر غصے ہوتے رہتے ہیں۔ بیمار آدمی پر کبھی غصہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی مدد کی جاتی ہے۔ کیا آپ ان کی آنکھوں میں جھانک کر نہیں دیکھتے ہو کہ وہ تمہیں اپنی مدد کے لیے پکار رہے ہیں، کیا تمہیں ان کی پکار سنائی نہیں دیتی، کیا تمہیں ان کی درخواست دکھائی نہیں دیتی ہے کہ خدارا ہماری مدد کرو، ہمیں اس عذاب سے نجات دلوا دو۔ یہ سب بھی اتنے ہی معصوم ہیں جتنے تم ہو، بس یہ سب اذیت میں مبتلا ہیں، سزاؤں میں گرفتا ر ہیں، انھیں رہائی کی ضرورت ہے، آزادی کی ضرورت ہے۔
ہمیں ان کی آنکھوں میں چھپی بے بسی، اذیت کو دیکھنے اور محسو س کرنے کی ضرورت ہے، انھیں دماغ کی نظر سے نہیں بلکہ دل کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ ہمارے ہی جسم کا حصہ ہیں، اگر جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے تو اسے کاٹ کر پھینک نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس کا علاج کیا جاتا ہے، اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اندھیروں میں بھٹکنا اور سیدھی راہ پر نہ آنا بھی ایک سزا ہے۔
کہتے ہیں اگر انسان مسلسل گناہ کرتا رہے تو سمجھ لیں کہ وہ اس کے پچھلے گناہوں کی سزا ہے۔ یاد رکھیں گناہ کرتے رہنا ایک سزا ہے جس طرح نیکیاں نسل در نسل چلتی ہیں، اسی طرح گناہ بھی نسل در نسل چلتے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ گناہ گار اندر سے اتنے ہی کمزور، ڈرپوک، بزدل، ڈرے اور سہمے ہوئے ہوتے ہیں، جتنا ہمارے سماج میں کوئی کمزور آدمی ہوتا ہے، برا انسان نہ ہونا اور نارمل انسان ہونا دونوں نیکی ہیں۔
ہاں یہ سچ ہے کہ ہم سب ان کی مدد کے لیے تیار ہیں، ہاں انھیں اس اذیت، اس تکلیف سے نکالنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اس سے پہلے انھیں ہم سے وعدہ کرنا ہو گا کہ آیندہ کبھی وہ کمزوروں کو نہ ستائیں گے، کبھی حقداروں کا حق نہ ماریں گے، کبھی کرپشن اور لوٹ مار نہیں کریں گے، کبھی ریا کاری و مکاری نہیں کریں گے، کبھی روپوں پیسوں کے ڈھیر جمع نہیں کریں گے، کبھی جھوٹی، دوغلی اور مصنوعی زندگی نہیں گزاریں گے، اگر وہ وعدہ کرتے ہیں ہو تو پھر ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ انھیں اس تکلیف اور اذیت سے نجات دلوانے میں ان کی مدد کریں گے۔