موسمیاتی تبدیلیاں غفلت کی گنجائش نہیں
26 اکتوبر کو زلزلہ آنے کے بعد تین دنوں کے اندر 40 آفٹر شاکس آچکے ، ابھی فیوچر شاکس کا راستہ روکنا چاہیے۔
زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں آفٹر شاکس آنے کا سلسلہ جاری ہے ، 26 اکتوبر کو زلزلہ آنے کے بعد تین دنوں کے اندر 40 آفٹر شاکس آچکے ، ابھی فیوچر شاکس کا راستہ روکنا چاہیے۔
دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں متاثرین سخت سردی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں جنہیں بڑی تعداد میں خیموں ، گرم کمبل، خوراک اور پانی کی ضرورت ہے،ادھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک اجلاس میں پاکستان کے بڑے رقبے میں شدید زلزلے کے باعث تباہی کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی میں واقع 301 خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو منہدم کیے جانے کے حوالے سے کمشنر کراچی کی ہدایات کے مطابق لائحہ عمل طے کرلیا گیا ہے، یہ عمارتیں اپنے خستہ وتباہ حال بنیادی ڈھانچے کے سبب زلزلے کے معمولی جھٹکوں کوبھی برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں اورحادثے کی صورت میں بڑے المیے کاسبب بن سکتی ہیں ۔یونیسیف نے خبردارکیا ہے کہ سخت موسم میں بچوں کے زیادہ متاثرہونیکا خدشہ ہے۔
مخدوش و خطرناک عمارتیں کراچی سمیت ملک کے ان علاقوں میں بھی ہیں جو زلزلے کی پٹی پر ہیں، ماہرین ارضیات سمندری طوفان اور سونامی کے خطرہ سے پہلے ہی کراچی ، بدین ، سکھر و ٹھٹھہ کو انتباہ دے چکے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو زلزلہ کے فرنٹ لائن پر ہیں،اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں اور زلزلہ کا براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر عالمی ماہرین گلیشیئرز کے پھوٹنے اور دیگر غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں سے خبردار کر رہے ہیں جو مستقبل کے لیے اعصاب شکن چیلنج بن سکتے ہیں، اس لیے منظم منصوبہ بندی ، انفراسٹرکچر اور سائنسی پیش بندیوں پر مبنی مستحکم میکنزم لایئے، تحقیق طلب موسمیاتی مزاج سے آشنائی وقت کا تقاضا ہے، فطرت مضطرب ہے، فطرت سے مفاداتی جنگ جاری ہے جب کہ افسر شاہانہ تساہل کا خمیازہ ہماری آیندہ نسلوں کو بھگتنا پڑیگا ۔
آج رونما ہونے والی تبدیلیاں ، سیلاب ، گلیشئرز کی ٹوٹ پھوٹ، شدید برف باری جس کے ہولناک مناظر آنکھوں نے ناران میں دیکھے ایک دہشت انگیز کل کا پتا دیتے ہیں۔ اسی طرح زلزلوں کی شدت مزید ہولناک ہوسکتی ہے، شمالی علاقہ جات میں تعمیراتی قوانین کو زلزلہ پروف بنانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
قدرتی آفات کی زبان اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو اسے لرزہ خیز و غیرمتوقع موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اسباب و علل کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے۔ وقت ایسے کئی موسمیاتی تبدیلیوں اور تہلکہ خیز تباہ کاریوں کی پرورش کرتا ہے اس لیے حد سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔شنید ہے کہ امریکن جیالوجیکل سروے والوں نے زلزلہ اور اس کی شدت سے پہلے خبردار کیا تھا مگر اب زلزلوں کی گڑگڑاہٹ سے پہلے بیدار ہونے کا لمحہ ہے۔غفلت کی گنجائش نہیں۔
دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں متاثرین سخت سردی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں جنہیں بڑی تعداد میں خیموں ، گرم کمبل، خوراک اور پانی کی ضرورت ہے،ادھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک اجلاس میں پاکستان کے بڑے رقبے میں شدید زلزلے کے باعث تباہی کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی میں واقع 301 خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو منہدم کیے جانے کے حوالے سے کمشنر کراچی کی ہدایات کے مطابق لائحہ عمل طے کرلیا گیا ہے، یہ عمارتیں اپنے خستہ وتباہ حال بنیادی ڈھانچے کے سبب زلزلے کے معمولی جھٹکوں کوبھی برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں اورحادثے کی صورت میں بڑے المیے کاسبب بن سکتی ہیں ۔یونیسیف نے خبردارکیا ہے کہ سخت موسم میں بچوں کے زیادہ متاثرہونیکا خدشہ ہے۔
مخدوش و خطرناک عمارتیں کراچی سمیت ملک کے ان علاقوں میں بھی ہیں جو زلزلے کی پٹی پر ہیں، ماہرین ارضیات سمندری طوفان اور سونامی کے خطرہ سے پہلے ہی کراچی ، بدین ، سکھر و ٹھٹھہ کو انتباہ دے چکے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو زلزلہ کے فرنٹ لائن پر ہیں،اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں اور زلزلہ کا براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر عالمی ماہرین گلیشیئرز کے پھوٹنے اور دیگر غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں سے خبردار کر رہے ہیں جو مستقبل کے لیے اعصاب شکن چیلنج بن سکتے ہیں، اس لیے منظم منصوبہ بندی ، انفراسٹرکچر اور سائنسی پیش بندیوں پر مبنی مستحکم میکنزم لایئے، تحقیق طلب موسمیاتی مزاج سے آشنائی وقت کا تقاضا ہے، فطرت مضطرب ہے، فطرت سے مفاداتی جنگ جاری ہے جب کہ افسر شاہانہ تساہل کا خمیازہ ہماری آیندہ نسلوں کو بھگتنا پڑیگا ۔
آج رونما ہونے والی تبدیلیاں ، سیلاب ، گلیشئرز کی ٹوٹ پھوٹ، شدید برف باری جس کے ہولناک مناظر آنکھوں نے ناران میں دیکھے ایک دہشت انگیز کل کا پتا دیتے ہیں۔ اسی طرح زلزلوں کی شدت مزید ہولناک ہوسکتی ہے، شمالی علاقہ جات میں تعمیراتی قوانین کو زلزلہ پروف بنانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
قدرتی آفات کی زبان اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو اسے لرزہ خیز و غیرمتوقع موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اسباب و علل کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے۔ وقت ایسے کئی موسمیاتی تبدیلیوں اور تہلکہ خیز تباہ کاریوں کی پرورش کرتا ہے اس لیے حد سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔شنید ہے کہ امریکن جیالوجیکل سروے والوں نے زلزلہ اور اس کی شدت سے پہلے خبردار کیا تھا مگر اب زلزلوں کی گڑگڑاہٹ سے پہلے بیدار ہونے کا لمحہ ہے۔غفلت کی گنجائش نہیں۔